بیرونی جارحیت اورنظریہ ِپاکستان ، ایک تاریخی آئینہ

تاریخی طور پر تو جنگ آزادی1857ء ؁ کے دس سال بعد ہی 1867ء میں سید احمد خان نے اردو ، ہندی جھگڑے کے باعث ہندو ،مسلم علیحدہ علیحدہ اور کامل قوموں کا نظریہ پیش کردیا تھا ۔یہ نظریہ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لئے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا اور پاکستان کی تخلیق کیلئے اس نظریہ کو اخذ کرکے 1947ء میں پاکستان کو ہندوستان سے الگ مملکت میں ڈھالا گیا ۔مکتبہ علی گڑھ کے قائدین نے اس دو قومی نظرئیے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے 1906ء میں نہ صرف شملہ وفد کو منظم کیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ نمائندہ سیاسی جماعت بھی قائم کردی علامہ اقبال نے بھی1930ء الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت میں دو قومی نظرئیے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا۔1936ء سے 1938ء تک سراقبال نے جتنے مکتوب جناح کو بھیجے ہیں اس میں بھی دو قومی نظرئیے کا عکس صاف نظر آتا ہے۔

محمد علی جناح خود دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے حامی تھے انھوں نے نہ صرف آل انڈیا نیشنل کانگریس کی تاحیات صدر بننے کی پیش کش کو مسترد کیا بلکہ علما ء دیو بند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی اور اسی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا۔قائد اعظم کے نظریات وہی ہیں جو اسلام کے ہیں ۔ اسلام تمام مذاہب کا احترام ، عبادات کی مکمل آزادی ،تفرقوں سے نفرت اور امن و سلامتی کا درس دیتا ہے اور 11اگست کی تقریر بھی اسی نظرئیے کے متن کے تحت تھی ۔قائد اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان بننے کے بعد فلاں فرقے یا مسلک کی حکمرانی پر مبنی آئین بنایا جائے گا اور اگر کوئی نہیں مانے گا تو اس پر جبر سے نافذ کیا جائے گا۔قصور صرف اُن مورخوں کا ہے جنھوں نے دو قومی نظرئیے کو متشدد بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا۔شدت پسند طبقہ جیسے ہم باہمی نفاق کے باوجود ایک سمجھتے ہیں وہ بھی دو قومی نظرئیے کے تحت اپنے اپنے مسلک کی اجارہ داری اس طرح چاہتا ہے کہ اس کے مسلک والے مسلم ، باقی دوسرے غیر مسلم ہیں۔پاکستان میں جو لہر شدت پسندی کی ابھری ہے وہ بھی چند مہینوں کی پیدوار نہیں ہے بلکہ غلط ملکی خارجہ پالیسوں نے آج قائد اعظم کے گھر میں آگ لگا دی ہے۔

"خدائے عظیم و برتر کی قسم ، جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہ پھینک دیں ، ہم ہار نہ مانیں گے ، پاکستان کی حفاظت کیلئے میں تنہا لڑوں گا ، اسوقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھوں میں سکت ہے اور جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے مجھے آپ سے کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ پاکستان کی حفاظت کیلئے جنگ لڑنے پڑے تو کسی صورت ہتھیار نہ ڈالیں ، پہاڑوں میں ، جنگلوں میں اور دریاؤں میں جنگ جاری رکھیں ۔"(ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی کتاب ، قائد اعظم کے آخری ایام)۔قائد اعظم جانتے تھے کہ بیرونی جارحیت کیا ہوتی ہے اور اس کیلئے کس عزم کی ضرورت ہے ۔انگریز مسلمانوں کے خلاف کیا کرنا چاہتا تھا اس کے متعلق قائد اعظم نے اکتوبر 1938؁ءسندھ مسلم لیگ کی سالانہ کانفرنس میں کہا تھا کہ "برطانیہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھیڑیوں کے حوالے کرنا چاہتا ہے ، اس میں شبہ نہیں کہ برطانیہ سے وہی بازی لے جا سکتا ہے جس میں قوت ہو ۔

"اب انھیں کیا معلوم تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب پاکستان کی سرزمیں ایسے بھیڑیوں کے ہاتھوں پامال ہوگی جہاں ڈالروں کے عوض سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کردیا گیا ، جہاں امریکہ کی خوشنودی کیلئے اقتدار اسی قوتوں کو دے دیا گیا جن کے نزدیک پاکستانی جان کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے رسہ کشی 64سال سے غریب عوام کی بد حالی کا موجب بن رہی ہے۔

متحدہ ہندوستان کے مشہور نیشنلسٹ اخبار "مدینہ"(بجنور) کی ۱۷ ِاپریل ۱۹۶۳ ٗ؁ کی اشاعت میں مولانا اسرا راحمد آزاد دیو بندی کا ایک مقالہ شائع ہواتھا جس میں انہوں نے لکھا تھا "یہ الزام بے بنیاد ہے کہ علما ء ہند اَس ملک میں اسلامی حکومت کیلئے کوشاں رہے ہیں ۔دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والے علما ء نے کم از کم اس صدی کے آغاز سے ہندوستان میں جمہوری اور سیکولر حکومت کو اپنا واضح نصب العین قرار دے لیا تھا "۔

دارالعلوم دیو بند کے شیخ الحدیث اور جمعیت العلما ء ہند کے صدر (مولانا) حسین احمد (مرحوم) کا ارشاد تھا "ایسی جمہوری حکومت جس میں ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی سب شامل ہوں ، حاصل کرنے کیلئے سب کو متحدہ کوشش کرنی چاہیے ایسی مشترکہ آزادی اسلام کے عین مطابق ہے اور اسلام میں اس آزادی کی اجازت ہے ۔(رُمزم ،مورخہ ۷ ِ جولائی ۱۹۳۸ ء) ۔"مولانا مدنی کا پمفلٹ ، متحدہ قومیت اور اسلام کے صفحہ نمبر ۶۱ میں فرماتے ہیں"کانگریس میں ہمیشہ ایسی تجاویز آتی رہتی ہیں اور پاس ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے مذہب ِ اسلام کے تحفظ ار وقار کو ٹھیس نہ پہنچے ۔"

غیر مسلم پاکستانیوں کے حوالے سے ۱۹۶۴ ؁ء میں محمد منیر (ریٹائرڈ) چیف جسٹس آف پاکستان نے روزنامہ"پاکستان ٹائمز" کے ایک مقالے میں لکھا جس کا عنوان تھا Day to Remember جیسے ۱۹۷۹ ؁ء اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں دوہرایا گیا کہ"تشکیل پاکستان کے وقت کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہوگی۔"

پاکستان بننے کے بعد بحیثیت گورنر جنرل ، فروری ۱۹۴۸ ؁ء میں اہل امریکہ کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں واضح طور پر کہا کہ "پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیا ہوگی ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار جمہوری انداز کا ہوگا ۔اسلام کے یہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی پر منطبق ہوسکتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوسکتے تھے۔اسلام نے ہمیں وحدت ِانسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل و دیانت کی تعلیم دی ہے ۔ آئین پاکستان کے مرتب کرنے کے سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کا ہم پورا پورا احساس رکھتے ہیں، کچھ بھی ہو، یہ امر مسلمہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت میں بھی تھیا کریسی رائج نہیں ہوگی جس میں حکومت مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں دے جاتی ہے کہ وہ (بزعم خویش )خدائی مشن کو پوارا کریں۔( تقاریر بحیثیت گورنر جنرل صفحہ ۶۵)"

محمد علی جناح نے واضح طور پر بتا دیا کہ وہ تھیا کریسی نظام کو رائج نہیں ہونے دیں گے ۔ا س سے پہلے ۵ ِ فروری ۱۹۳۸ ؁ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی یونین سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان طالب علموں سے کہا تھا "اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلم لیگ نے تمہیں اس ناپسندیدہ عنصر کی جکڑ بندیوں سے آزاد کردیا ہے جیسے مولوی یامولانا کہتے ہیں (تقاریر ِ قائد اعظم حصہ اول صفحہ ۴۸)۔"یہ ناپسندیدہ عنصر کی جکڑ بندیاں فرقہ واریت تھی جو تھیاکریسی کی بنیاد ہے۔ ۱۱ ِ اپریل ۱۹۴۶ ؁ کو دہلی میں مسلم لیجسلیٹر کنونشن کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح نے وضاحت کی "اِسے اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہم کس مقصد کیلئے یہ جنگ کر رہے ہیں ۔ ہمارا نصب العین تھیا کریسی نہیں ۔ ہم تھیا کریٹک سٹیٹ نہیں بنانا چاہتے ۔(تقاریر جناح ، شائع کردہ شیخ محمد اشرف ، جلد دوم صفحہ ۳۸۶)"

محمد علی جناح سے اپریل ۱۹۴۳ ؁ء میں صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ایک پیغام کیلئے درخواست کی ۔ آپ نے جواب میں فرمایا ـ"تم نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہیں کوئی پیغام دوں ، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے جو ہماری راہنمائی اور بصیرت افروزی کیلئے کافی ہے ، وہ پیغام ہے خدا کی کتاب عظیم ، قرآن کریم ۔"(تقاریر ، جلد اول صفحہ ۵۱۶)

۱۳ ِ نومبر ۱۹۳۹ ؁ء قوم کے نام عید کا پیغام نشر فرمایا ۔(اس زمانے میں ملک میں ہنگامہ اور فساد ہورہے تھے ) آپ نے قوم سے کہا ـ"جب ہمارے پاس قرآن کریم ایسی مشعل ِ ہدایت موجود ہے تو پھر اس کی روشنی میں ان اختلافات کو کیوں نہیں مٹا سکتے ؟ (تقاریر جناح ، شائع کردہ شیخ محمد اشرف ، جلداول صفحہ۱۰۸)"وہ بندھن ، وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر ، خدا کی عظیم کتاب ، قرآن مجید ہے ، مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی ۔۔۔ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ﷺ،فلہذا ایک قوم ۔(تقاریر ، جلد دوم صفحہ ۵۰)۔

لندن ٹائمز جیسے اخبار نے لکھا ۔"انہوں نے اپنی ذات کو ایک بہترین نمونہ پیش کرکے اپنے اس دعوی کو ثابت کردیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے ۔ ان میں وہ ذہنی لچک نہیں تھی جو انگریز کے نزدیک ہندوستانیوں کا خاصہ ہے۔ان کے خیالات ہیرے کی طرح قیمتی مگر سخت ، واضح اور بین ہوتے تھے ۔ ان کے دلائل میں ہندو لیڈروں جیسی حیلہ سازی نہ تھی بلکہ وہ جس نقطہ نظر کو ہدف بناتے تھے اس پر براہ راست نشانہ باندھ کر وار کرتے تھے وہ ایک ناقابل تسخیر حریف تھے ․" قائد اعطم نے پاکستان بڑی مشقت اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا پاکستان کو لگنے والے زخم کسی پرائے کے دَین نہیں بلکہ اپنے ہی لوگوں کی کارستانیاں ہیں ۔اگرہمیں پاکستان کو قائدا عظم کے خوابوں و افکار کے مطابق بنانا ہے تو ہمیں عملی طور پر اپنی ذات کو انُ کے افکارکے مطابق ڈھالنا ہوگا۔قائد اعظم کا پاکستان صرف ان کے نظریات کی روشنی میں ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 665869 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.