الٹی ہو گئیں سب تدبیریں

وزیراعظم نواز شریف نے غصے کے عالم میں وزارت پانی و بجلی کو ہدایت کی ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا موجود دورانیہ قابل قبول نہیں ہے……انہوں نے سختی کے ساتھ متعلقہ حکام کو احکامات دئیے ہیں کہ فوری طور پر بند ہونے والے تینوں بجلی گھروں کو فعال کیا جائے ،کھاد کی صنعت کو فراہم کی جانے والی گیس پاور سیکٹر کو دی جائے اور سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی سپلائی روکنے کے بھی احکامات جاری کیے گے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے وزارت پانی و بجلی کو ہدایت کی ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ شہروں میں چھ اور دیہاتوں میں سات گھنٹے سے زائد قابل قبول نہیں ہے۔لہذا لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ چھ سے ساتھ گھنٹے ہونا چاہیے۔

اس اعلی سطحی اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے پانی و بجلی مصدق ملک عابد شیر علی خواجہ محمد آسف اور وزارت پانی و بجلی کے سکریٹری بھی شریک ہوئے۔

مجھے حیرانی لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ بڑھنے پر نہیں ہوئی بلکہ وزیر اعظم نواز شریف کا لندن سے جاری ہونے والا بیان پڑھ کر ہوئی ہے۔جس میں وزیر اعظم نے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے پر فوری طور پر کنٹرول روم قائم کرنے کے احکامات دئیے تھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا کنٹرول روم اس وقت ہی قائم کیا جانا چاہیے؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ بھئی صاحب ! اس پیارے پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے اور یہاں کی بیوروکریسی کا رواج اور طریقہ کار بھی یہی ہے کہ جب پانی سر سے اونچا ہو جائے تو بچاو کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ کیا وزارت پانی و بجلی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ مئی جون جولائی میں کس قیامت کی گرمی پڑتی ہے؟ کیا خادم اعلی صاحب اور انکے دیگر صحبت میں رہنے والوں کو یاد نہیں ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کن مہینوں میں مینار پاکستان پر ’’ تمبو سرکس ‘‘ لگاتے رہے ہیں؟ کیا حکومت میں موجود لوگ پاکستان میں نہیں رہتے ؟ کیا انہیں پاکستان کے موسموں کا علم نہیں ؟ مجھے امید نہیں تھی کہ عوام کے سکھ چین کی خاطر تمبو سرکس کے رنگ ماسٹر اتنے بھولے ہوں گے کہ انہیں کچھ یاد ہی نہیں رہے گاعوام کو اسلام آباد ملتے ہیں بھول جائیں گے؟

ابھی پچھلے دور کی بات ہے وہیں دور جس کو ہم سب ’’بے غیرتی کادور‘‘ کہتے نہ تھکتے تھے……وہیں دور جس میں ہم سب حکمران کو گوالمنڈی ،بھاٹی چوک اور پھر ملک کے دیگر شہروں کی شاہراہوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرکے بے چارے عوام کے جذبات سے کھیلتے تھے…… اس دور میں یوسف رضا گیلانی نامی وزیر اعظم نے وزارت پانی و بجلی کی سکریٹری ایک خاتون کو لگا دیا تھا……صنف نازک سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے پیپکو سمیت تمام پاور ڈسٹری بیوٹر کمیپنیوں کے بڑے بڑے مرد پہلوانوں کی پتلونیں اترا دی تھیں…… جنہوں نے اپنی کرپشن اور رعب و دبدبے سے عوام کا جینا حرام کر رکھا تھا…… اس صنف نازک خاتون نے ان کے پسینے چھڑوادئیے تھے۔ اس بہادر اور دلیر خاتون کا نام سنتے ہی واپڈا،لیسکو،فیسکو، پیسکو،حیسکو ،کیسکو،گیپکو،میپکو اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افسران کی نیندیں حرام ہو جاتی تھیں۔اس خاتون کا نام تو نرگس سیٹھی ہے مگر میں اسے ’’ آیرن لیڈی ‘‘ کہتا ہوں……

یہ خاتون بلکہ آیرن لیڈی کنٹرول روم میں خود بیٹھ کر پورے ملک کے گرڈ اسٹیشنز کو کنٹرول کرتی تھی۔اور پورے ملک کے ذمہ داران چیف اینگزیکٹو آفیسرز ،ایس ای صاحبان ،ایکسین اور ایس ڈی اوز کو آن لائن رکھتی تھی،ان سے جواب طلبی کرتی تھی، بد عنوان افسران اس سے نجات کی دعائیں مانگتے میں نے خود دیکھا ہے۔ افسران وقت پر دفتر پہنچنے کو ترجیح دینے لگے تھے۔ لیکن پھر کرپشن مافیہ کی جیت ہوئی اور آیرن لیڈی سے وزارت پانی و بجلی واپس لے لی گئی…… وزارت پانی و بجلی ہی نہیں اس آیرن لیڈی کو جس بھی محکمہ میں تعینات کیا گیا ہے ۔اس نے کرما ماری بیورو کریسی سے حیرت انگز نتائج لیے ہیں۔ جب اازاد عدلیہ نے یوسف رضا گیلانی کا ناک میں دم کر رکھا تھا تو اس وقت بھی یوسف رضا گیلانی کے کام یہی ’’آیرن لیڈی‘‘ آئی تھی اور مفادات کے حصول میں پیش پیش ’’ مرد حضرات‘‘ نے یوسف رضا گیلانی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا-

مجھے یقین کامل ہے کہ اگر نواز حکومت ’’انا‘‘ کے بت کو پاش پاش کردے اور نرگس سیٹھی المعروف آیرن لیڈی کو وزارت پانی و بجلی کا چارج اسے سونپ دیں تو لوڈ شیڈنگ کے بے قابو جن کو بوتل میں بند کرنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن حکمران ایسا کریں گے نہیں کیونکہ آیرن لیڈی پیپلز پارٹی کے دور میں اہم عہدوں پر تعینات رہ چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کے ساتھ کام کرنا انکا سب سے بڑا جرم ہے۔

مجھے حیرانگی ہوتی ہے ،جب لوگ مسلم لیگ نواز کے راہنماوں سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے دعووں کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔تو جواب دیا جاتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جی…… ایسا ہی کچھ مسلم لیگ نواز کے راہنما زعیم حسین قادری نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں جواب دیا……اس سے سوال ہوا کہ’’ وزیر اعلی شہباز شریف تو چھ ماہ مین لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے نہ صرف دعوے کرتے تھے بلکہ وہ کہتے تھے کہ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو انکا نام بدل دینا‘‘ زعیم حسین قادری نے اپنے خوبصورت ہونے کی طرح بہت خوبصورت جواب دیا کہ ’’ ہمیں انداز ہی نہیں تھا کہ حالات اس قدر بگڑے ہوئے ہیں۔اور اگر ہمیں اسکا اندازہ ہوتا تو میاں شہباز شریف کبھی بھی ایسے دعوے نہ کرتے‘‘

جب حکمران حالات سے بے خبر ہونے کے باوجود عوام کے جذبات سے کھیلیں تا کہ وہ انتخابات مین جیت سکیں تو کسی اور سے کیا گلہ کیا جائے؟ وسیم انور اور زوار انور کی والدہ انگھوٹھا چھاپ ہے۔مطلب کوری ان پڑھ ہے۔ گذشتہ رات لوڈ شیڈنگ کے عذاب کے ہاتھوں تنگ آ کر کہنے لگی ۔ زوار اور وسیم کی اماں جان نے تو پنجابی میں بات کہی تھی لیکن میں اسے قومی زبان میں لکھا رہا ہوں’ ’ زرداری تو بدمعاش تھا اور اب تو نیکوں اور شریفوں کی حکومت ہے ۔اب لوڈ شیڈنگ کوں ختم نہیں ہو رہی؟ایسا موھول اور جزبات آپکو ہر گلی محلے اور گاوں گاوں دیکھنے اور سننے کو عام مل جائیں گے اگر کوئی عوام کے دکھ درد کو جاننا چاہے تومجھے میاں شہباز شریف اور انکے ساتھیوں کی حالت زار پر رحم آتا ہے۔ کیونکہ یہ انہی کا حوصلہ ہے جو لوگوں کی طرح طرح کی باتیں اور طعنے سن رہے ہیں۔ میری موجود اور آنے والے حکمرانوں کی خدمت میں اتنی درخواست ہے ۔کہ وہ اپنے ارد گرد ایسے مشیر وں کا حلقہ نہ بنائیں جن کے مشوروں سے بعد میں آپکو ندامت اور شرمندگی اٹھانی پڑے……اور اپنے مشیر ایسے افراد کو بنائیں جو انہیں اصل حقائق سے لاعلم نہ رکھیں……ورنہ میاں شہباز شریف کی حالت زار آپکے سامنے ہے۔مقام عبرت ہے اگر کوئی لینا چاہے -
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144225 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.