توانائی بحران اور بجلی کے پیداواری منصوبے

ملک میں گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ بجلی کا بحران بھی مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ توانائی کے بحران کی بدولت مختلف شہروں اور دیہات میں 12 سے 18 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں کمی کے بعد صنعتوں کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ 6 سے بڑھاکر 10 گھنٹے کر دی گئی ہے، جبکہ اپٹما کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں مزید اضافہ ظالمانہ اقدام ہے، جس کے خلاف ہڑتال کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی کیا جائے گا۔ لوڈشیڈنگ میں اضافے کے باعث ملک کے مختلف شہروں میں روز بروز مظاہروں میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔ ترجمان این ٹی ڈی سی کے مطابق شارٹ فال بڑھ کر 3 ہزار 500 میگاواٹ ہوگیا ہے، تربیلا سے پانی کا اخراج 47 ہزار کیوسک سے گھٹا کر 30 ہزار کیوسک اور منگلا سے 45 ہزار کیوسک سے کم کر کے 30 ہزار کیوسک کر دیا گیا ہے۔ جبکہ ملک میں لوڈشیڈنگ کی بڑھتی ہوئی اسی صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم نواز شریف نے وزارت پانی و بجلی کے حکام کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اعداد و شمار نہیں، نتیجہ چاہیے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا قابل عمل پلان دیا جائے۔ ملک کو درپیش سنگین مسائل میں توانائی بحران یقیناً سر فہرست ہے، یہ بحران ملکی معیشت کو سالانہ 46 ارب روپے کا نقصان پہنچارہا ہے، موجودہ حکومت اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے تو مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری جیسے اہم مسائل سے نجات ممکن ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا دار و مدار اس کی مضبوط معیشت پر ہوتا ہے، مگر پاکستانی صنعتیں گزشتہ کئی سالوں سے توانائی بحران کی شکار ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو توانائی بحران کے باعث سالانہ 46 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، گزشتہ 5 سال میں ملک کو 230 ارب کا نقصان ہوچکا ہے۔ بجلی کی پیدوار میں کمی اور لوڈشیڈنگ سے صنعتوں کا پیدواری عمل شدید متاثر رہا، جس کا اثر براہ راست برآمدات پر پڑا۔ موجودہ حکومت نے کچھ عرصے میں 5 سو ارب کا سرکلر ڈیٹ تو ختم کیا، مگر ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے ابھی مزید شارٹ اور لانگ ٹرم پروجیکٹس کی اشد ضروت ہے، جبکہ تونائی بحران پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی طلب 15000 میگاواٹ ہے، جب کہ پیداوار اس سے کہیں کم ہے۔ موسم گرما میں بعض اوقات یہ بحران 6 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جاتاہے، صنعتیں اور گھریلو صارفین کو 20، 20 گھنٹوں تک کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے نمٹنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہونے کے علاوہ معیشت کے لیے بڑا خطرہ بھی ہے۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لیے موجودہ حکومت سنجیدہ نظر آرہی ہے اور نئے انرجی پلانٹس لگانے کے لیے ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کو آسان مواقع فراہم کر رہی ہے، جس سے آنے والے چند سالوں میں مثبت نتائج سامنے آنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا تو صنعتیں بھی بلا تعطل چلیں گی، جس سے ملک میں موجود لاکھوں بیروزگاروں کو روزگار بھی ملے گا۔

توانائی بحران سے نمٹنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے منگل کے روز وزیر اعظم نوازشریف نے پورٹ قاسم کراچی میں 1320 میگاواٹ بجلی کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ مذکورہ منصوبہ چین اور قطر کے المرکاب گروپ کے تعاون سے شروع کیا گیا۔ المرقاب گروپ کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کرنے میں چین کے ماہر کاروباری گروپ سائینوہائیڈرو ریسورسز لمیٹڈ کی تکنیکی معاونت حاصل ہے۔ المرقاب گروپ نے اس سے قبل امریکا، یورپ، ایشیا اور مشرق وسطی میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ ان کی کاروباری دلچسپی کے شعبوں میں ہوٹلنگ، بینکنگ، رئیل اسٹیٹ مخصوص صنعتیں ہیں، مگر پہلی بارالمرقاب گروپ نے پاکستان میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے توانائی بحران پر قابو پانے اور توانائی منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے پر چین اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف کا کہنا تھا کہ کوئلے کے ذریعے پہلے مرحلے میں 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور دوسرے مرحلے میں بھی 660 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ مکمل ہو گا۔ اس طرح اس منصوبے سے 1320 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی اور یہ منصوبہ ایک ارب بیس کروڑ روپے کی لاگت سے 2017ءمیں مکمل ہوگا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام بجلی کے بحران پر صبر سے کام لیں، ملک بھر میں 10 سال کے دوران 21ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے بروقت مکمل ہونے سے توانائی بحران پر قابو پانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ ہماری پوری کوشش ہے ملک میں وافر اور سستی بجلی پیدا کی جائے۔ موجودہ حکومت 21 ہزار میگاواٹ کے منصوبوں پر تیزی سے کام کررہی ہے۔ گڈانی میں 10 منصوبے شروع کیے جائیں گے، جبکہ پنجاب میں 4 منصوبے لگائے جائیں گے۔ جامشورو میں 1320، پنجاب سے 2600 جبکہ خیبرپختونخوا سے 4500 میگاواٹ بجلی حاصل کریں گے۔ بہاولپور میں سولر پاور پارک قائم کیا جائے گا، جس کا افتتاح آیندہ ماہ ہوگا۔ تھر میں بھی 6 ہزار میگاواٹ کے 10 منصوبوں پر کام ہوگا۔ رحیم یار خان، مظفر گڑھ، ساہیوال اور جھنگ میں بھی توانائی کے 4 منصوبے مکمل کیے جائیں گے اور آئندہ 5 سال میں زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی بنیاد رکھی جائے گی۔ بھاشاڈیم سے 4ہزار5سو میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی، نیلم جہلم کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔ 10 سال بعد 21ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کر کے ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ان تمام منصوبوں میں پاک چین دوستی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

دوسری جانب ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ملک میں لگنے والے کول پاور پلانٹس سے توانائی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کثیر مقدار میں گرین ہاؤس گیسز سمیت فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ٹاکسک فضلے اور راکھ کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔ عالمی سطح پر مذکورہ پلانٹس ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے سب سے خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ 660 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے کوئلے سے چلنے والے ایک پلانٹ کو اپنے کولنگ سسٹم کے لیے سالانہ تین ارب گیلن پانی کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے سمندری ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے علاوہ عالمی سطح پر کوئلے سے چلنے والے مذکورہ پاور پلانٹس پر انحصار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قسم کے منصوبوںسے خارج ہونے والا تیزابی اور ٹاکسک فضلہ، جس میں سلفر ڈائی آکسائڈ، نائٹروجن آکسائڈ، آرسینک، بورون، جست، سیلینیم، پارہ، کرونیم وغیرہ شامل ہوتی ہیں، فضا میں شدید آلودگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ سلفر کے صرف ایک فیصد اخراج کا مطلب ہے، صرف چند شہروں کی فضاؤں میں 3 لاکھ 12 ہزار 2 سو6 ٹنز سلفر کا اضافہ، جس سے یقیناً صحت اور رہائش کی جگہوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کوئلے اور تیل کے متبادل ذرائع سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ پاکستان میں توانائی کی طلب کا 45 فی صد گیس، 35 فی صد درآمدی تیل، 12فی صد آبی ذخائر، 6 فی صد کوئلے اور 2 فی صد ایٹمی پاور سے پورا کیا جاتا ہے۔ جبکہ آج دنیا بھر میں متبادل ذرائع سے بجلی کے حصول پر توجہ دی جارہی ہے۔ تیل اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر برقی توانائی کے حصول کا سب سے پرانا اور روایتی ذریعہ ہیں۔ تیل کی درآمد پر آنے والی بھاری لاگت اور کوئلے کے بجلی گھروں سے پھیلنے والی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ تیل اور کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر عالمی ماحولیاتی ادارے بھی تنقید کرتے چلے آرہے ہیں، کیوں کہ ان سے خارج ہونے والی گیس بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ گلوبل وارمنگ میں اضافہ کرتی ہے۔ گلوبل وارمنگ سے مراد دنیا کے درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ ہے، جس کی وجہ سے عالمی آب و ہوا میں تغیر رونما ہورہے ہیں۔ ان تغیرات کے باعث کہیں تو شدید بارشیں ہوتی ہیں اور کہیں قحط جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ دیگر قدرتی وسائل کی طرح یہاں متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ پاکستان میں متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ہوا سے 340000 میگا واٹ، شمسی توانائی سے900000 میگا واٹ، بڑے ہائیڈل پروجیکٹس سے 50000 میگا واٹ، چھوٹے ہائیڈل پروجیکٹس سے3100 میگاواٹ، کچرے سے500میگا واٹ اور جیو تھرمل ذرائع سے 1350 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ واضح رہے کہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے، جس سے بجلی چوری میں بھی اضافہ ہورہا ہے، جو یقینا ملک اور عوام کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ اب حکومت کے لیے جہاں ایک طرف توانائی کے بحران سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے، وہیں دوسری جانب بجلی چوروں سے نمٹنے اور بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کر کے عوام کی پہنچ تک لانا بھی چیلنج ہے، جس سے حکومت کو ہی نمٹنا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632880 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.