یومِ مزدور،عالمی یومِ صحافت اور سکیورٹی ادارے۔۔۔

شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت میں تحریرکرتے ہیں کہ ملک یونان کے کسی قصبہ کے قریب ایک قافلہ محو سفر تھا قافلے میں بہت سے لوگ اور ڈھیر سارا قیمتی سامان بھی تھا ایک مقام پر کچھ ظالم ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور سارا سامان لوٹ لیا قافلے والوں نے بڑے واسطے ڈالے خدا اور رسولؐ کی قسمیں دیں مگر ڈاکوؤں نے نہ سنا اور لوٹ مار سے باز نہ آئے اسی قافلے میں علم، حکمت اور دانائی کے بادشاہ حکیم لقمانؒ بھی موجود تھے جب ڈاکوؤں پر کوئی بس نہ چلا تو لوگ حکیم لقمانؒ سے کہنے لگے کہ آپ کچھ تدبیر کریں کہ یہ لوگ باز آجائیں اس پر حکیم لقمانؒ نے جواب دیا کہ میں انہیں کسی بھی قسم کی کوئی نصیحت نہیں کرونگا کیونکہ نصیحت اور وضاحت وہاں کی جاتی ہے جہاں اسے کوئی سننے والا اور ماننے والا موجود ہو۔

قارئین! مئی کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور پہلے تین دنوں میں ہی دو بڑے بڑے عالمی دن منائے گئے ہیں یکم مئی کو شکاگو کی گلیوں میں اپنے خون کے ذریعے داستانِ جہد لکھنے والے مزدوروں کاعالمی دن منایا گیا اور تین مئی کو عالمی یومِ صحافت منایا گیا زیبِ داستاں کے لیے ان دونوں عالمی ایام کے موقع پر بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی علمی گفتگو کی ہے مختلف ایوان ہائے صحافت ، مزدور تنظیموں اور اہل سیاست نے پیٹ اور دل پکڑ کر مظلوم صحافیوں اور مظلوم مزدوروں کے حق میں ’’بڑی بڑی مرثیہ خوانی‘‘ بھی کی ہے لیکن صحافیوں اور مزدوروں کے روز وشب نہ تو ماضی میں کبھی بدلے تھے نہ آج کوئی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے ہاں ان بڑے بڑے مظاہروں کا ایک فائدہ ضرورہوتا ہے کہ مزدوروں کی لیڈر شپ اور صحافیوں کی لیڈر شپ کے شب وروز ضرور بدل جاتے ہیں مزدور کا گھر اور اس کا نصیب اسی طرح تاریک رہتا ہے جس طرح اس نے اپنی عملی جدوجہد شروع کی ہوتی ہے اور اسی طرح ایک مزدور ہی کی طرح قلمی جہاد کرنے والے سچے صحافی کے دامن میں بھی بھیک کی طرح چند کھوٹے سکے ڈال دیے جاتے ہیں لیکن وہ لعل وجواہر اور وہ بنیادی حقوق جو کسی بھی انسان کے لیے ضروری ہوتے ہیں اسے کبھی بھی عطا نہیں کیے جاتے۔ بقول فیض احمدفیضؔ
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

رہی بات اس لیڈر شپ کی جو ان دونوں طبقات کے حقوق کا نام لیتے لیتے اپنے مفادات کی خاطر ایک سودا کرتے ہوئے اپنا ایمان بیچ دیتی ہے اس کے بارے میں بقول شاعر یہی کہیں گے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

خیر آتش نوائی کی مختلف سزائیں انصار نامہ کے مصنف جنیدانصاری نے پہلے بھی بھگتی ہیں اور آئندہ بھی قوی امکان ہے کہ یار لوگ ہمارے جنوں کو مختلف عنوانات دے کر سنگ باری کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے نہ ہم سچ بولنے سے باز آسکتے ہیں اور نہ پتھر پھینکنے والے پتھر برسانے سے باز آئیں گے بقول جگر مراد آبادی
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا کہ زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ہم تو گھر سے ہی چلے تھے باندھ کے سرپہ کفن
زندگی مہمان اپنی موت کی محفل میں ہے

قارئین! عالمی یوم مزدور جسے یوم مئی کہا جاتا ہے گزر گیا اور پوری دنیا کی طرح پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی مختلف مزدور یونینز اور تنظیموں نے مظاہرے کیے اور مزدور کے حقوق کے لیے آواز بلند کی یہاں ہم چچا غالب کی زبان میں ایک انسان کے دل سے اٹھنے والی مظلوم آواز ضرور بیان کرینگے کہ
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گھبرانہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ وساغر نہیں ہوں میں
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوب کے واسطے
آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے!
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں

قارئین! مزدور کے حالات نہ تو پہلے بدلے تھے اور موجودہ زہریلے ماحول کے اندر نہ ہی مستقبل قریب میں بدلنے کے کوئی امکانات ہیں لیکن یہاں میں اپنے پڑھنے والے دوستوں کی توجہ اس طرف ضرورمبذول کروانا چاہوں گا کہ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان اور آزاد کشمیر دنیا کے وہ منفرد ترین خطے ہیں جہاں کی کل آبادی کا 65 فیصد طبقہ پندرہ سال سے لے کر چالیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ تناسب دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں پایا جاتا یہاں ہم دو انتہائی اہم ہستیوں کا تذکرہ ضرورکرتے چلیں جنہوں نے اس ملک کی بنیادوں کو اپنا خون دیکر اس ملک کو تعمیر کرنے کافریضہ انجام دیا ہے پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے والے سابق چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاء الرحمن اور اربوں روپے کی قرض حسنہ سکیم شروع کرنے والے ’’اخوت‘‘ نامی تنظیم کے بانی سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایف ایم 93 میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے پروگرامز ’’لائیو ٹاک ود جنیدانصاری ‘‘ اور ’’فورم 93 ود جنید انصاری‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے یہ انکشافات کیے تھے کہ پاکستانی نوجوان طبقہ بے انتہاء صلاحیتوں کا مالک ہے اور پاکستانی افرادی قوت کی ذہنی صلاحیت کااعتراف پوری دنیا کرتی ہے ڈاکٹر امجدثاقب نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پچاس ہزار روپے سے لیکر پانچ لاکھ روپے تک کے قرضِ حسنہ دینے کے منصوبے کا آغاز کیا تاکہ وہ نوجوان اور محنت کش جنہیں سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت نہیں مل سکتی وہ اﷲ کا نام لے کر اپنے کاروبار کا آغاز کریں اور اپنے روزگار کیساتھ دو، چار، چھ، آٹھ ،دس مزید بے روزگار لوگوں کو نوکری بھی فراہم کریں تو اس کے انقلابی نتائج دیکھنے میں آئے دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی قلیل مدت میں یہ قرضِ حسنہ سکیم کامیاب ہو گئی اور اس کا مالیاتی حجم پہلے مرحلے میں تین ارب روپے سے تجاوز کر گیا یہ سکیم راولپنڈی اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں تیزی سے مقبول ہوتی گئی اور حیران کن طور پر وہ پاکستانی قوم جسے ہر کوئی بددیانت قرار دیتا ہے اس قرضِ حسنہ سکیم میں دنیا کی تمام اقوام سے زیادہ دیانتدار ثابت ہوئی اور قرض حسنہ کی واپسی ایک سو فیصد سے بھی بڑھ گئی ہمارے سوال اور استفسار پر ڈاکٹرامجد ثاقب نے ہنستے ہوئے بتایا کہ لوگوں نے قرضِ حسنہ نہ صرف وقت پر واپس کر دیا بلکہ اصرار کیا کہ وہ ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر اس قرض حسنہ سکیم کی امداد بھی کرینگے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ’’اخوت‘‘ کی قرضِ حسنہ سکیم پنجاب کے مختلف علاقوں کے علاوہ آزاد کشمیر اور صوبہ سندھ میں بھی شروع کی جا رہی ہے اور بہت جلد اس کا دائرہ کار بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات تک بھی پھیلا دیا جائیگا۔

قارئین! ڈاکٹر عطاء الرحمن کی پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کے متعلق کی گئی بات ایک سند کا درجہ رکھتی ہے اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت کی قرض حسنہ سکیم ثابت کر رہی ہے کہ مزدوروں اور بے روزگار نوجوانوں کو کچھ مختلف سوچنا چاہیے بے شک عالمی یوم مزدور پر مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے لیکن اﷲ اور رسولؐ کے فرمان سے یہ بات ثابت ہے کہ اﷲ نے رزق کا زیادہ حصہ تجارت میں رکھا ہے اور ہر وقت حالات اور سرمایہ دار کو گالیاں دینے کی بجائے بہتر ہے کہ کوئی مثبت کام کر لیا جائے اور چاہے ایک ٹھیلے اور ریڑھی سے ہی کیوں نہ سہی اپنے کاروبار کا آغاز باعث برکت ثابت ہوسکتا ہے اس سلسلہ میں ہم آزاد کشمیر ہی کی تین ہستیوں کے نام مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھے دیتے ہیں اس وقت آزادکشمیر اور برطانیہ میں کشمیرکراؤن بیکرز اور نفیس گروپ آف کمپنیز بانی کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میرپور حاجی محمدسلیم کا نام تمام کشمیریوں کے لیے لائق احترام ہے حاجی محمدسلیم نے اپنی زندگی کا پہلا کاروبار چھ ابلے ہوئے انڈوں کیساتھ راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر چودہ سال کی عمر میں کیا تھا اور آج ان پر اﷲ کا خصوصی فضل وکرم ہے اور ان کی مختلف کمپنیوں میں اس وقت برطانیہ اور آزاد کشمیر میں سینکڑوں نوجوان ملازمت کر رہے ہیں دوسری مثال برطانیہ میں کسی بھی ایشین کی ریسٹورنٹس کی سب سے بڑی چین ’’آگرہ گروپ آف ریسٹورنٹس‘‘کے مالک حاجی محمد صابر مغل ممبر برٹش ایمپائر، ڈائریکٹر الشفاء آئی ہسپتال راولپنڈی و چیئرمین مغل فاؤنڈیشن کی ہے حاجی محمد صابر مغل نے اپنی زندگی کا آغاز ایک روپیہ روزانہ مزدوری سے کیا اور برطانیہ پہنچ کر مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد انتہائی قلیل سرمایے سے تازہ سبزیاں فراہم کرنے والے’’ ڈھابے ‘‘سے کاروبار کا آغاز کیا۔ آج رئیل سٹیٹ اور ریسٹورنٹس کے کاروبار میں آگرہ گروپ سینکڑوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے تیسری مثال آزاد کشمیر میں پہلی سب سے بلند بلڈنگ جسے ’’سکائی سکریپر‘‘کہا جاتا ہے کے مالک چوہدری ظہور کی ہے چوہدری ظہور نے بھی برطانیہ میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ سینکڑوں جائیدادیں، فلیٹس اور مکانوں کے مالک بن گئے اور میرپور میں انہوں نے اربوں روپے خرچ کر کے ’’عباس ٹاور میرپور اپارٹمنٹس ‘‘ بنا دیاجو آج بھی انسانی عزم اور حوصلے کی ایک زندہ داستان سنا رہا ہے ان سب مثالوں کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم سمجھنے کی کوشش کریں کہ صرف حالات کو گالیاں دینے سے حالات نہیں بدلتے بلکہ اﷲ سے مدد مانگ کر ہاتھ پیرہلانے سے تبدیلی آتی ہے۔

قارئین! اب کچھ بات ہم صحافت پہ کر لیں عالمی یوم صحافت کے موقع پر پاکستان اور آزاد کشمیر میں ملے جلے انداز میں مختلف تقاریب منعقد ہوئیں ایک بڑے میڈیا گروپ کے بڑے اینکر پرسن حامد میر پر چند روز قبل کراچی میں انتہائی پراسرار انداز میں گولیاں برسائی گئیں قاتلانہ حملے کے فوراً بعد اس میڈیا گروپ نے تمام کاتمام الزام حامد میر کے بھائی عامر میر کی وساطت سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے اوپر لگا دیا آٹھ دس گھنٹے سکیورٹی فورس کے سربراہ کی تصویریں ٹی وی چینل پر چلا چلا کر نوحہ خوانی کی گئی اور جب وزارت دفاع اور وزارت اطلاعات نے پوچھ گچھ شروع کی تو گاڑی ریورس میں ڈال کر معذرت اور توبہ توبہ کی صدائیں بلند کی گئیں اور دیکھنے میں یہ آیا کہ پورا پاکستانی میڈیا اور صحافتی برادری دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو گئی جبکہ سیاسی قیادت کا رسپانس انتہائی محتاط اور ملا جلا رہا غالباًاسی صورتحال کے بارے میں کسی ستم ظریف نے ’’سو پیاز اور سو جوتے ‘‘ کھانے کی اصطلاح متعارف کروائی تھی اس صورتحال میں عالمی یوم صحافت پر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے کس گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہو سکتے ہیں ہم نے پہلے بھی یہ بات تحریر کی تھی کہ آزادی صحافت انتہائی ضروری ہے لیکن اس سے بھی ضروری اس بات کا تعین کرنا ہے کہ آزادی صحافت کی باؤنڈری لائن کون سی ہے اور کہا ں جا کر ایک جرنلسٹ اور صحافت کی آزادی کو بریک مار دینی چاہیے برطانیہ امریکہ یورپ اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا آزاد ضرور ہے لیکن اگر وہاں پر کوئی بھی اخبار یا ٹی وی چینل کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے یا کسی بھی انسان پر کوئی جھوٹا الزام لگا دے تو پھر اس اخبار اور میڈیا گروپ کے ساتھ ان ممالک کی عدالتیں اور نظام انصاف کیا سلوک کرتی ہیں اس حوالے سے انٹرنیٹ پر جا کر ضرور دیکھ لیں اگر کوئی اخبار یا ٹی وی چینل ان ممالک کے اجتماعی مفادات یا کسی شخص کے متعلق کوئی غلط بات بغیر ثبوت کے نشر کر دے تو کئی مثالیں موجود ہیں کہ نہ صرف ان اداروں کو ہرجانے کی مد میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑیں، معافی بھی مانگنی پڑی اور کئی مقامات پر تو حالات اس حد تک خراب ہوئے کہ وہ ٹی وی چینل یا اخبار بند کر دیا گیا اس حوالے سے ڈاکٹر معید پیرزادہ سینئر اینکر پرسن اور پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکرٹری مظہر عباس سے بھی ہم نے کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی پر تفصیلی گفتگو کی جو آپ ملاحظہ فر سکتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ افواج پاکستان، آئی ایس آئی اور تمام سکیورٹی فورسز پاکستان کا فخر اور غرور ہیں اور ہماری عزت ہیں اور ہمیں اپنی عزت کی حفاظت کرنی چاہیے رہی بات غلطیوں اور کوتاہیوں کی تو وہ ہر ادارے میں ہو سکتی ہیں لیکن اس کی اصلاح کا طریقہ کار کچھ اور ہے اپنی قمیض اٹھا کر اپنے آپ کو ننگا کر ہم عالمی برادری کے سامنے ایک بھونڈا تماشا تو پیش کر سکتے ہیں لیکن اس سے نہ تو قومی وقار بلند ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہم اسے آزادی صحافت کہہ سکتے ہیں۔

قارئین! کالم کے آخری حصے میں اب ہم عالمی مسائل کو چھوڑ کر میرپور کے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کیطرف آپ کو لے جانا چاہتے ہیں میرپور میں جنرل ایوب خان کے دور میں منگلاڈیم بنا جنرل مشرف کے دور میں اس ڈیم کی ریزنگ کی گئی اور دونوں مواقع پر لاکھوں انسان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے منگلا ڈیم معاہدہ اور منگلا ڈیم ریزنگ معاہدہ آج بھی سوالیہ نظروں سے واپڈا او ر وفاقی حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اہل میرپور بجلی پانی اور زندگی کی تمام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ہم نے اس حوالے سے اور عالمی یوم صحافت کے تناظر میں کشمیر پریس کلب میرپور کے سابق صدر محمدامین بٹ، سابق پریس سیکرٹری وزیراعظم ظفر مغل اور سینئرصحافی ندیم صدیقی کا ایک خصوصی انٹرویو کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنیدانصاری اینڈ راجہ حبیب اﷲ خان‘‘ میں کیا۔ گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر کشمیر پریس کلب میرپور محمد امین بٹ، سینئر صحافی ندیم صدیقی اور سابق پریس سیکرٹری وزیراعظم آزاد کشمیر و سینئر صحافی ظفر مغل نے کہا کہ میرپور کے شہری ہر دور میں مسائل کا شکار رہے ہیں اور یہ زیادتی کی بات ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ منگلا ڈیم میرپور میں ہونے کے باوجود اہل میرپور کو نہ تو مناسب بجلی فراہم کی جا رہی ہے اور نہ ہی پینے کے لیے پانی فراہم کیا جا رہا ہے میرپور کی تمام شہری تنظیموں کو اس حوالے سے آواز بلند کرنا ہو گی کشمیر پریس کلب میرپور کا ماضی میں شہری مسائل کے حل کے حوالے سے انتہائی فعل کردار رہا ہے اور سابق صدر پریس کلب رمضان چغتائی کے دور میں میرپور کے عوام نے منگلا پاور ہاؤس کی طرف تاریخی لانگ مارچ کیا تھا جس کے بعد ایک معاہدہ کیا گیا تھا کہ میرپور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائیگی اس معاہدے کو پامال کر دیا گیا گزشتہ سال بھی کشمیر پریس کلب نے تحریک کرتے ہوئے ایک تاریخی مظاہرہ کیا تھا اور لانگ مارچ کے بعد واپڈا اور محکمہ برقیات نے وعدہ کیا تھا کہ میرپور میں صرف چار گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جائے گی بعد ازاں یہ وعدہ بھی توڑ دیا گیا اور شرمناک انداز میں کہا گیاکہ جس آفیسر نے یہ معاہدہ کیا تھا اس کے اختیار میں یہ چیزیں شامل نہیں تھیں گزشتہ شب انجمن تاجراں کے صدر چوہدری نعیم نے جرات اور غیر ت کا ثبوت دیتے ہوئے مظاہروں کا آغاز کر دیا ہے صحافی برادری شہری مسائل کے حل کے لیے کھل کر اپنا کردار ادا کرے گی اس وقت میرپور پریس کلب میں بہت سے معاملات اصلاح طلب ہیں ہمیں قلم کی حرمت کو مدنظر رکھ کر کام کرنا چاہیے تاکہ کوئی بھی شہری صحافیوں سے کم از کم نفرت نہ کرے بلکہ جائز مسائل کے حل کے لیے انہیں اپنا ساتھی تصور کرے عالمی یوم صحافت کے موقع پر ہمیں انتہائی دکھی دل کیساتھ یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت ایک صحافی ایک مزدور جتنی تنخواہ حاصل کرنے سے قاصر ہے اور مختلف طبقات مل جل کر ورکنگ جرنلسٹس کا استحصال کر رہے ہیں پڑھی لکھی صحافت کو فروغ دینے کے لیے پڑھے لکھے لوگوں کا جرنلزم کی فیلڈ میں آنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت صحافیوں کے لیے دنیا کا خطر ناک ترین ملک بن چکا ہے سینئر اینکر پرسن حامد میر پر ہونیوالا حالیہ وحشیانہ قاتلانہ حملہ ظاہرکر رہا ہے کہ جذبات کا درجہ حرارت ہمارے ملک میں کس انتہا کو چھو رہا ہے گزشتہ کئی سالوں کے دوران ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ درجنوں صحافی جہاں شہید کر دیئے گئے وہیں پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں صحافیوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہمارے ملک میں آزادی اظہار پر مختلف سلوگنز کے ذریعے پابندی عائد کی جاتی ہے اور ہم اس وقت ارتقاء کے اسی دور سے گزر رہے ہیں جس سے دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک گزرے میرپور اور آزاد کشمیر کے شہری اپنے حقوق کے حصول کے لیے میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں اور میڈیا کا یہ فرض بنتا ہے کہ حق کا ساتھ دے اور اس سلسلہ میں جتنی مشکلات بھی راستے میں آئیں انہیں صبر کیساتھ برداشت کیا جائے اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اس موقع پر سینئر صحافی ظفر مغل نے کہا کہ آزاد کشمیر میں وہی میڈیا پالیسیز چلتی ہیں جو وفاقی سطح پر سامنے آتی ہیں یہ افسوسناک امر ہے کہ صحافیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لیے نہ تو ریاست نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور نہ ہی مختلف صحافتی تنظیمیں باوجود شدید احتجاج کے منزل کے حصول میں کامیاب ہو پائی ہیں اسلام آباد کے سینئر اینکر پرسن ندیم صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ورکنگ جرنلسٹ کون ہے اور نان ورکنگ جرنلسٹ کون ہے اور اس کے لیے ایک صحافی کا باشعور اور تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اسلام آباد اور میرپور کی صحافت میں زمین آسمان کا فرق ہے پاکستان کے تمام بڑے سٹیشنز پر اس وقت پڑھے لکھے نوجوان میڈیا کارکن سامنے آچکے ہیں اور میرپور میں بھی جلد ہی ہم ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنے والے ہیں جو یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء وطالبات کو ایک شائستہ اور مہذب ماحول فراہم کر کے میڈیا کی فیلڈ میں آگے آنے کا موقع دے گا سابق صدر کشمیر پریس کلب میرپور محمد امین بٹ نے کہا کہ ہم نے ماضی میں بھی جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے دور میں کشمیر پریس کلب میرپور سے سینکڑوں مظاہرے کرتے ہوئے حق کی آواز بلند کی اور اﷲ کے فضل وکرم سے آئندہ بھی ہم حق کے راستے پر قائم رہیں گے۔

قارئین! عالمی مسائل اپنی جگہ اور میرپور اور آزاد کشمیر کے مقامی مسئلے اپنی جگہ ہم دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں اور میرے آپ جیسے تمام لوگ غلطیوں اور خطاؤں کا مجموعہ ہیں اور ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر اپنے اپنے قاضی یعنی اپنے دل میں جھانک کر یہ دیکھتے رہیں اور قاضی سے پوچھتے رہیں کہ ہماری کون کون سی غلطی قابل اصلاح ہے ہم نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ اس وقت میڈیا شدید ترین ہیجان کا شکار ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا ’’نظریاتی اختلافات‘‘قائم رکھتے ہوئے وسیع تر مفاد میں چند نکات پر اتحاد کا مظاہرہ ضرور کرے۔ 1947 سے لے کر 2014 تک بلاشبہ فوجی ڈکٹیٹرز جنہوں نے فوجی طاقت کا سہارا لے کر سیاست کی بساط لپیٹی ہم انہیں قومی ہیروز نہیں کہہ سکتے لیکن انفرادی غلطیوں کو بنیاد بنا کر فوج اور سکیورٹی ایجنسیز کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اپنی عزت کو داؤ پر لگانے والی بات ہے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم مسٹر چرچل تقریر کررہے تھے اور اراکین پارلیمنٹ خاموشی سے سن رہے تھے چرچل کہہ رہے تھے
’’ہم برطانیہ کی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں ، ہم فرانس کی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں، ہم پولینڈ کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔۔۔‘‘
اچانک اپوزیشن کے ایک رکن اسمبلی نے فقرہ کسا
’’ہم جہنم کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں ‘‘
چرچل نے اعتماد سے جواب دیا
’’ہر شخص کو اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑنے کا حق حاصل ہے‘‘

قارئین! ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ کھچڑی زدہ ان حالات میں کون کس کے لیے لڑ رہاہے مزدور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہا ہے، یونین لیڈر اپنے مفادات کیلئے لڑ رہا ہے، کارکن صحافی اپنی جائز ضروریات کے لیے لڑ رہاہے، میڈیا گروپس اور ٹی وی چینلز اپنی ریٹنگ کے لیے لڑ رہے ہیں اور افواج پاکستان اور سکیورٹی فورسز دس ہزار شہیدوں کا نذرانہ دے کر نہ جانے کس کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ اﷲ اکبر کا نعرہ لگا کر خود کش حملہ کرنے والے بمبار امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں اور عام مسلمان زبان حال سے یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں
جانے کب مار دے کوئی بھی کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان بناپھرتا ہے

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336813 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More