ایک فضول سی بحث میں کام کی بات

ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ فضول مباحث سے اجتناب کروں کیونکہ اس طرح کے مو ضوعات جو محض شور شرابا ہوں وقت کے زیاں کا باعث ہیں ۔ ہر اس موضوع اور بحث سے بھی بچنے کی حتیٰ المقدر کوشش کرتا ہوں کہ جو نام کمانے یا مالی مفادات کے حصول کیلئے پیدا کیا گیا ہو۔ واقعہ کی حقیقت سے انکار نہیں لیکن بعد از وقوعہ اپنی پسند کا رنگ دینے کیلئے جس طرح رُخ موڑ ا جاتا ہے ان عیاریوں اور مطالب کو تسلیم ہی نہیں کر سکتا کیونکہ میری سر شت جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ ہی مانتی ہے ۔ اس سے انحراف نا ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ میرے نزدیک ضمیر کی آواز اہمیت رکھتی ہے ۔ ناکہ مخصوص طبقے کی خوشامد۔
حامد میر ( جیسے میں نے اپنے ایک کالم ’’ مخبوط الحواس اور جز وقتی رپورٹرز کا فتویٰ اور میرا جواب ‘‘ جو متعدد جرائد و رسائل میں شائع ہوا میں عظیم صحافی قرار دیا ۔ اس ضمن میں میری رائے تبدیل بھی ہو سکتی ہے جس کیلئے وقت کی تبدیلی یا تنقید اور بے رحم لاٹھی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔) پرقا تلانہ حملہ ہوا ۔ گنتی کے لحاظ سے یہ دوسرا حملہ ہے ۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ صحافی بر ادری خوب واقف ہے ۔ خاص و عام بھی ان حملوں کی تفصیل سے واقف ہیں ۔ مضمرات حملہ پر بھی تبصرہ ضروری نہیں ہے۔ لیکن رواں تحریر میں اس قسم کے معاملات کا زیر بحث آنا دور ازقیاس بھی نہیں ہے ۔ اس حملے کے بعد آئی ایس آئی اور حامد میر اور اس گروپ جس سے حامد میروابستہ تھا کے درمیان ایک طرح کی جنگ چھڑ گئی جو الزامات ( اور الزمات میں چھپے ہو سکتا ہے دلائل پر مبنی ہو) کی شکل میں جلوہ گر ہے ۔حامد میر کا یہ کہنا کہ اس پر حملے کے ذمہ دار ان خفیہ ادارے ہیں یعنی آئی ایس آئی میں آئی ایس آئی ہے۔ یہ ذمہ داری لینے کیلئے آئی ایس آئی تیار ہی نہیں اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ الزامات یا الزام کو مسترد کرنا چہرے سے کالک دھونے کے مترادف ہے ۔ یہ رو سیاہی اس وقت دور ہوگی جب الزمات کو دلائل سے رد کیا جائے ۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ایک طاقتور ادارہ ہونے کی حیثیت سے خود کو مقدس تصور کیا اور قرار دیا جائے ۔ بلوچ علیحدگی پسند بھی پاکستان کے طاقتور ترین اداروں اور طبقوں کو اپنے حقوق کا قاتل کہہ رہے ہیں ۔ لا پتہ افراد کے ورثا ء بھی انہی اداروں کو ذمہ دار ٹھہر ا رہے ہیں ۔یہ الزامات کہاں تک درست یا غلط ہیں ۔ یہ فیصلہ فریقین ثبوتوں کی روشنی ہی میں کر سکتے ہیں ۔ حقیقت میں طاقتور ہونا تقدس اور استثنیٰ کی علامت نہیں بلکہ یہ ایک طرح کا قبضہ ہے ۔ اختیارات و اقتدار پر ۔۔۔۔! یہ سچائی نا قابل تردید ہے ۔

حامد میر پر حملہ کیا ہوا کہ کہرام ہی مچ گیا۔ آئی ایس آئی پر کیا الزام لگا کہ تو ہین کا نام دیا جانے لگا اس حملے کو۔۔۔۔فریقین خود کو لگام دیں ۔ حامد میر بھی سچ کا پیمبر نہیں ہے ۔ اور آئی ایس آئی بھی گناہوں سے مبریٰ اور اصولی و قانونی گرفت سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ حامد میر بھی ایک تنخواہ خورہ صحافی ہے۔ اس طرح آئی ایس آئی بھی بشری تقاضوں کے حامل ملازمین کا ایک گروہ ہے ۔ جو بظاہر نظریاتی سرحد کے تحفظ کیلئے سر گرم ہے۔ ایک امیر کبیر صحافی کیلئے یہ شور جو ادیب نہیں ہے ۔ اصل صحافت ادیب ہی کر سکتے ہیں ۔ لیکن حامد میر تو ادیب نہیں ہے ۔ ایک غیر نظریاتی شخص ہے ۔ صاحب بصیرت قلم کاروں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تو خاموشی چھائی رہتی ہے ۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے حق میں آئی ایس آئی بات کیوں نہیں کرتی۔۔۔۔؟
ایک غریب مفلس کی نظر میں آئی ایس آئی برابر کی گنہگا ر ہے ۔

Mansha Fareedi
About the Author: Mansha Fareedi Read More Articles by Mansha Fareedi: 66 Articles with 47037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.