حامد میر حملہ ․․․ کون کہاں کھڑا ہے ؟؟

حامد میر پر ہونیوالے حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔بلا شبہ یہ آزادی صحافت پر حملہ اور ایک آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن اُسکے بعد پیدا ہونیوالی صورتِحال اس سے کہیں زیادہ افسوسناک اور خطرناک ہے۔جہاں ایک طرف ملک کے صفِ اول کے صحافی پر افسوسناک وار کیا گیا وہیں دوسری طرف ملک کے دفاعی اداروں پر ہونیوالی ہرزہ سرائی بھی پچیدہ صورتحال اختیار کر گئی اور ملک ایک عجیب کیفیت اور حالات سے دوچار ہو گیا۔

حامد میر اور انکی فیملی کی جانب سے لگائے گئے الزامات درست ہیں یا غلط یہ تو وقت ہی بتائے گا اور حامدمیر جب خود صحت یاب ہونگے اور سامنے آئینگے تب ہی وہ تمام شواہد اور ثبوت فراہم کریں گے جو انکے بیان کو تقویت دیں۔لیکن ایک بات اور بھی یقینی ہے کہ حامد میر کو دھمکیوں کا سامنا ضرور تھا اورانکے پاس کوئی ٹھوس وجہ ضرور ہوگی جسکی بناء پر انہوں نے پہلے سے ہی اپنے قریبی رفقاء اور کچھ صحافتی تنظیموں کو ممکنہ خطرے سے آگاہ کر رکھا تھاورنہ اتنا بڑا اور معتبر صحافی کسی طور اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر سکتااور نہ ہی حامد میر سے اسکی امید کی جا سکتی ہے اور کچھ سوالات ایسے ہیں جو اسوقت عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں مثلاً کس کو خبر تھی مکمل کہ حامد میر اس وقت کراچی آرہے ہیں اور آفس سے کس نمبر کی گاڑی انہیں لینے کے لئیے آرہی ہے ، پھر ائیر پوٹ سے حامد میر کے نکلنے کی بھی پوری خبر دی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ حامد میر پچھلی سیٹ پہ کس طرف بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے اپنی پوزیشن تبدیل کی۔پھر سب سے اہم بات کہ پورا دن جائے حادثہ پہ لگا ہوا کیمرہ کام کرتا رہا اور شام کو اس وقت کے قریب اسکا لنک ڈاؤن کیسے ہو گیا ؟ پھر اتنی ڈھٹائی کے ساتھ بغیر کسی خوف کے حامد میر کی گاڑی کا پیچھا کیا گیا اور گولیاں چلائی گئیں تو ان سب سوالات کے جوابات کا جلد از جلد سامنے آنا ضروری ہے تا کہ شک اور بے چینی کے بادل چھٹ جا ئیں۔

حامد میر صاحب تو ہسپتال پہنچ گئے اور کچھ دیر کے لئیے دنیا و ما فیھا سے بے خبر ہو گئے لیکن اُس وقت اِس قوم،سندھ اور وفاقی حکومت ،پولیس اور انٹیلی جنس اداروں ،میڈیا اور خاص طور پر میر صاحب کے اپنے میڈیا گروپ کا امتحان شروع ہو گیالیکن افسوس کہ یہ قوم بھی،میڈیا گروپس بھی،دونوں حکومتیں بھی اور دفاعی و انٹیلی جنس ادارے مکمل طور پہ ناکام رہے۔جیو نیوز کے لئیے یہ بہت بڑی اور افسوسناک خبر تھی کیونکہ حامد میر انکا چہرہ انکی پہچان ہے تو انہوں نے عامر میر کے بیان کو بہت زیادہ کوریج دی۔اب یہاں تھوڑے کھلے دماغ سے دیکھیں تو وہ الزام جیو کا نہیں تھا بلکہ وہ فیملی کی سٹیٹمنٹ تھی ،پھر تصویر کا کہا گیا کہ خبر کے ساتھ ساتھ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویر چلائی گئی تو سادہ سی بات ہے الیکٹرانک میڈیا ہے ٹیلی وژن ہے تو تصویر تو چلتی ہے،چاہے بات صدر کی ہو،وزیراعظم کی ہویا کسی کی بھی تو خبر کے ساتھ ساتھ تصویر یا فوٹیج ضرور چلائی جاتی ہے۔غلطی جیو نیوز سے اتنی ضرور ہوئی کہ ۸گھنٹے تک ایک خبر کو مسلسل چلایا گیااور بار بار دہرایا گیا،جیو کا اُسوقت کا کردار انتہائی جذباتی تھا ،ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا کیونکہ آئی ایس آئی کے ساتھ ہماری ملکی سا لمیت ،دفاع اور وقار جڑا ہے، کچھ ہی دیر میں جیو نیوز نے اپنی اُس خبر کو روک دیا اور ایک قدم پیچھے ہو گئے۔ یہ اسوقت انتہائی ضروری تھا۔ساتھ ہی ساتھ آئی ایس پی آر کی سٹیٹمنٹ کو بھی جنرل عاصم سلیم باجوہ کی تصویر کے ساتھ کوریج دی گئی اور نیوز بریک کی گئی۔افسوس یہ ہے کہ پاکستانی دیگر میڈیا ہاؤسز نے اس خبر اور وقوعہ کو مکمل غلط رخ دیا اور تیل تیلی والا کام شروع کر دیا،اپنی ذاتی جلن اوردشمنی میں آ کر سب حدیں پار کر دیں اور حکومت اور آئی ایس آئی کو عجیب امتحان میں ڈال دیااور چینل کی بندش کا فضول سا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔حالانکہ اس وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ تمام میڈیا گروپس متحد ہو کر حامد میر پر ہونیوالے حملہ کی پر زور مذمت کرتے اور حملہ آوروں کی گرفتاری کے لئیے حکومتی ایوان ہلا کے رکھ دیتے کیونکہ صحافی اس سے پہلے بھی ایسے حملوں کا سامنا کر چکے تھے اور ولی بابر اور سلیم شہزاد کیس سب کے سامنے تھا۔آج جو بھی صورتِحال بن چکی ہے اِس سب کی ذمہ داری دیگر میڈیا ہاؤسز پر عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیااور عوام اور فوج کے جذبات بھڑکائے۔

اگر ہم مان لیں کہ جیو نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا تو کیا جو کچھ جیو نیوز کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ درست ہے۔کینٹ ایریاز میں جیو اور جنگ کو بند کر کے ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم میں اتنی سی برداشت بھی نہیں کہ کسی کے شک اور الزام کو سہہ سکیں اور اس کو دور کرنیکے بجائے اُسکی آواز کو ہی بند کرنے چلے ہیں۔جیو جنگ گروپ کو بند کرنے کے لئیے ہم نے درخواست تو دیدی مگر ہم نے اُس گروپ سے جڑے سینکڑوں خاندانوں کی زندگیوں کا کیا سوچا؟پیمرا میں دی گئی درخواست کے مطابِق جیو اور جنگ گروپ کی تاریخ ملک دشمنی اور غداری سے بھری پڑی ہے،کیا کوئی ثبوت فراہم کیا گیا؟نہیں۔۔۔

ڈیفنس کے علاقوں میں زبردستی بندش اور پیمرا کا شو کاز نوٹس میں جیو کا مؤقف لئیے بغیر یہ کہنا کہ کیوں نہ جیو کو بند کر دیا جائے،کس طرف اشارہ کر رہے ہیں؟کیا ایسی صورتحال میں عوام صاف شفاف تحقیقات کی امید رکھ سکتے ہیں؟

اور اگر واقعی جیو اور جنگ ملک دشمنی اور غداری میں ملوث ہیں تو آئی ایس آئی اور وزارتِ دفاع نے عوام کو اسکے متعلق کیوں آگاہ نہیں کیا؟کیوں سپریم کورٹ یا میڈیا کے سامنے ہی اسکے مکمل اور مستند ثبوت فراہم نہیں کئیے گئے؟کیا کسی سرکاری ادارے نے جنگ یا جیو کے اشتہارات روکے یا بائیکاٹ کیا؟اور اگر حامد میر یا جیو کا کوئی اور اینکر یا صحافی غدار ہے تو اسکو ہمیشہ کے لئیے صحافت سے روک کیوں نہیں دیا گیا ؟دھمکیاں دینے کا مطلب تو صرف اتنا ہوتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کسی سے لکھوانا اور بلوانا چاہتے ہیں۔

اور اگر جیو اور جنگ تاریخ سے ہی غدار ہیں اور ملک دشمنی میں ملوث ہیں تو جیو کا این او سی کینسل کیوں نہیں کیا گیا؟جیو اور جنگ کہ جنکے 50% سے بھی زیادہ قارئین اور ناظرین ہیں اور انکے چاہنے والے ہیں تو پھرعوام کے اس حلقے کو غداروں کے رحم و کرم پہ کیوں چھوڑ دیا گیا ؟آپ اور آپ سے منسلک ہر ایک شخص تو ملک کا وفادار اور اسکے نظریات کا مُحا فظ ہے نا تو پھر باقی عوام سے ایسی دُشمنی کیوں؟ آپ نے ڈیفنس کے ایریاز کو تو غداروں(بقول آپکے) سے بچا لیا اور وہاں جنگ جیو بند کر دیا تو کیا باقی عوام اِس ملک کا حِصہ نہیں؟اور ایک بات اور بھی وہ یہ کہ کیا آپ نے ڈیفنس ایریاز کی عوام سے اُنکے ــجاننے کا حق چھین نہیں لیا؟ جب آپ پیمرا میں درخواست بھی دے چُکے اور وہ جیو کو شو کاز نوٹس بھی بھجوا چکا ہے تو پھر اُس کے کسی بھی فیصلے کا انتظار کئیے بغیر ایسے اقدامات ،کیا قانونی اور اخلاقی حیثیت رکھتے ہیں ؟جیو نے جو کیا وہ جذباتی اور کسی طور بھی درست نہ تھا لیکن وہ غلطی صرف ۸ گھنٹے کی تھی لیکن کیا رد عمل میں آپ ان سے آگے تو نہیں جا رہے ؟

جب جیو ایک قدم پیچھے ہٹ چکا ہے تو آپکو بھی چاہیئے کہ کمیشن کے اور پیمرا کے فیصلے کا انتظار کریں اور آپ سے امید تو اس سے بھی کہیں زیادہ کی ہے کہ آپ فراخدلی کا مظاہرہ کریں اور تحقیقات میں مدد دیکر اپنے آپ پر لگنے والے الزامات اور عوام کے خدشات دور کر دیں اور اپنے وقار اور تکریم و توقیرکو بڑھائیں۔

اگر دفاعی اداروں کو یا کسی کو بھی یہ لگتا ہے کہ جیو نے انکے وقار کو دھچکا پہنچایا ہے تو جو کچھ رد عمل میں کیا جا رہا ہے اُس سے بھی کسی ادارے کا وقار بڑھ نہیں رہابلکہ دھونس دھمکی جیسے الزامات کو تقویت مل رہی ہے۔خُدارا تمام ادارے ہوش کے ناخن لیں اور جلد از جلد اس تمام صورتحال پہ قابو پانے کی کوشش کریں اور وہ تمام میڈیا گروپس جو اِس صورتحال کا فائدہ اُٹھا کے اپنی ریٹنگ کے چکروں میں پڑ کے عوام اور دفاعی اداروں میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر رہے ہیں ایسے لوگوں کا قلع قمع ہو نا چاہیے۔اور جہاز والے اینکر جیسے صحافیوں اور پر اسرار کرداروں کو عوام سے دور رکھا جائے یہی اس ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

 

Saleem Tufani
About the Author: Saleem Tufani Read More Articles by Saleem Tufani: 6 Articles with 4634 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.