بولو جی تم کیا کیا خریدو گے

خلیجی ممالک کو سات لاکھ ایکڑ پاکستانی اراضی لیز پر زرعی فارمز قائم کرنے کے لئے دینے کی اطلاعات نے پوری قوم کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیرِ سرمایہ کاری وقار احمد خان نے اے پی پی کو بتایا کہ ’ہم پاکستان بھر سے دس لاکھ ایکڑ زمین ایسے سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو اسے خریدنا چاہیں یا پھر طویل مدت کے لیے پٹے پر لینے کے خواہشمند ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ ادھر امریکہ ہے کہ پاکستان میں سفارت کاری کے نام پر یا دوسرے پروجیکٹ کی آڑ میں دھڑ دھڑ زمین خریدنے میں مصروف ہے۔ چاہے زمین اسلام آباد کی ہو یا پشاور یا کراچی ڈیفنس کی امریکہ کو یہ ہر قیمت پر چاہئے۔ گیری لوگر بل کی شرائط میں کیا کیا پنہاں ہے۔ اسے آپ ایک نظر میں نہیں سمجھ سکتے۔ اس معاہدے میں اگر مگر کی شرائط اتنی پیچیدہ ہیں۔ کہ آپ ان کی گرہیں نہیں کھول سکتے۔ لاہور کی عدالت میں اس سلسلے میں جو درخوا ست دائر ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ملکی اراضی لیز پر دینے کا اقدام ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کرنے کے مترادف ہے اور اراضی لیز پر دینے کا معاہدہ دراصل عام کاشت کاروں کے لیے موت کا پروانہ ہوگا کیونکہ اس اقدام سے کسانوں کو زرخیز اراضی سے محروم کر دیا جائے گا۔ کسان بورڈ نے یہ مقدمہ قائم کیا ہے اور اس کے وکیل کا کہنا ہے کہ حکومت یہ اراضی غیر ملکیوں کو دینے کے بجائے چھوٹے کسان کو دے جس سے نہ صرف کسان خوشحال ہوگا بلکہ ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ سعودی حکومت اور پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے درمیان پاکستان میں زرعی زمین پٹے پر دینے کے لیے جو روابط ہوئے ہیں ان کی بنیاد سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بننے والا ایک قانون ہے جس کے تحت حکومت کسی بھی ملک، غیر ملکی فرد یا کمپنی کو ملک کے چاروں صوبوں میں لامحدود زرعی زمین آسان شرائط اور پرکشش مراعات پر زرعی استعمال کے لیے فروخت کرنے یا پٹے پردینے کی مجاز ہے۔ حکومت پاکستان کو یہ اختیار سنہ دو ہزار دو میں بننے والے کارپوریٹ فارمنگ ایکٹ کے ذریعے حاصل ہے جس کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک پالیسی بھی تیار کی گئی تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے جاری کردہ اس قانون کے تحت وزارت خوراک و زراعت نے سرمایہ کاری بورڈ کے ذریعے ملک کے چاروں صوبوں میں اکانوے لاکھ ہیکٹر قابل کاشت زمین کی نشاندہی کی گئی تھی۔ جو تاحال زیر کاشت نہیں لائی جا سکی ہے۔ اس میں سے اڑتالیس لاکھ ہیکٹرز بلوچستان کے قلات، کوئٹہ، نصیر آباد اور مکران ڈویژن میں واقع ہے۔ پنجاب میں یہ زمین ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہور میں، صوبہ سندھ میں حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ میں ہے جبکہ صوبہ سرحد کے جن اضلاع میں اس نوعیت کی سرکاری زمین کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ اور کوہاٹ شامل ہیں۔ قابل کاشت اراضی فروخت کرنے سے ملک میں خوراک کا بحران مستقبل میں مزید بڑھنے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔

ان علاقوں میں موجود زمین کو زرعی مقاصد کے لیے ملکی و غیر ملکی کارپوریٹ اداروں اور ممالک کو فروخت کرنے یا نناوے برس کے پٹے پر دینے کے لیے مراعاتی پیکج بھی موجود ہے۔ اس پیکج کی خاص بات یہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت فروخت کردہ زمین پر کاشتکاری یا فارمنگ کو صنعت کا درجہ حاصل ہو گا جس کے باعث نہ صرف اس سلسلے میں درآمد ہونے والی مشینری ڈیوٹی فری ہوگی بلکہ مختلف مدوں میں یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ٹیکس کی چھوٹ بھی دی جائے گی۔ زرعی فارمنگ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو مقامی پارٹنر ساتھ ملانے کی پابندی بھی نہیں ہو گی اور اس زمین کی پیداوار اور یہاں بننے والے مویشیوں کے فارمز کی مصنوعات وہ براہِ راست ملک سے باہر بھیجنے کے مجاز ہوں گے۔ اس زمین سے حاصل ہونے والے منافع کو بھی ملک سے باہر لیجانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ مشرف تو چلے گئے۔ ان کی ڈیل اور ڈھیل اس ملک کے عوام کے لئے گلے کا پھندا بنی ہوئی ہے۔ امریکہ ہو یا دوسرے غیرملکی سرمایہ دار سب لالچی نظروں سے پاکستان کو دیکھ رہے ہیں۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں کیا ہوگا۔ اس کا اندازہ اس عبرتناک حقیقی واقعے سے کر لیئجے۔ کل یہ دن ہمیں بھی دیکھنا ہوں گے۔ جاپان کے ایک زمیندارسوئیجی چیبانا جو ان زمینداروں میں سے ایک ہیں ان کی آبائی زمین ۰۵برس سے امریکی فوجی اڈوں کے تصرف یا قبضے میں رہی۔ اتنے عرصے یہ اپنی زمین پر قدم رکھنے سے بھی محروم رہے۔ ۶۹۹۱ میں جب جاپان امریکی فوجی معاہدے کی تجدید سے قبل چند دن کے لئے عبوری طور پر یہ معاہدہ اس وقت کے صدر کلنٹن کی آمد اور اس پر دستخط ہونے تک معلق رہا۔ جاپانی عدالت نے ایک دشور گزار مقدمے کے دوران سوئچی پیبانا کو یہ حق دیا کہ وہ ایک دن کے لئے اپنی زمین پر قدم رکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ شکستہ دل کسان نے اس دن اپنے احباب، دوستوں، رشتہ داروں کو اکٹھا کیا اور جاپان کا ایک روایتی ساز شامی سین بجا کر اپنی زمین سے عقیدت اور محبت کا اظہار کیا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387705 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More