تخریب سے تعمیر تک کا سفر ممکن ہے

جب میں گھر سے نکلا تھا تو میرے پاؤں میں پھٹے ہوئے جوتے اور جسم پر بوسیدہ لباس تھا۔ عمر بھی صرف تیرہ سال تھی۔ اپنے بل بوتے پر دن رات محنت کر کے اﷲ کے کرم سے آج دنیا کی تقریبًا ہر خوشی حاصل کر لی۔

یہ الفاظ ایک ایسے شخص کے ہیں جس نے بہت مشکل حالات کا مقابلہ کر کے خود کو منوایا۔ ہر طوفان کے آگے سیسہ پلائی کی دیوار کی مانند کھڑا رہا، اپنی ذات کی تعمیر کی۔ اپنی اولاد کو اچھی تربیت کے ساتھ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر انسان ہمت و حوصلے سے کام لے ، محنت کو اپنا شعار بنائے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ زندگی کے ہر مشکل مرحلے کو سر کر سکتا ہے۔

آج اگر ہمارے نوجوانوں کو ذرا سی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جائے، راستے میں ذرا سی مشکل آئے تو وہ ہمت ہار کر ایک طرف ہو کہ بیٹھ جاتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ناکامی ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ ہم اگر پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے تو آخری سیڑھی پر کیسے پہنچے گے۔ منزل پر پہنچنے کے لیے قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوتا ہے، اگر ہم چھلانگ لگانے کی کوشش کریں گے تو گر جائیں گے۔

وہ یہ غور نہیں کرتے کہ تخریب سے ہی تعمیر کا سفر ممکن ہوتا ہے۔ تعمیر سے تعمیر تک کا آسان سفر تو ہر کوئی کرسکتا ہے مگر تخریب سے تعمیر کا سفر جو کرتا ہے وہ خاص ہوتا ہے، انمول ہوتا ہے جبکہ موجودہ حالات میں ایسے لوگ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ تو کیوں نہ آپ پہل کر کہ اس ناپیدی کو روکنے کا کریڈٹ حاصل کرلیں۔

آج ہم ہر بات میں اپنی انا کو مسئلہ بنا لیتے ہیں کسی کو اگر آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر احساس کمتری پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم یہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اگر دوسرے شخص نے ایک کام میں کامیابی حاصل کی ہے اور ہم ناکام ہو گئے ہیں تو اس کے بدلے میں اﷲ نے ہمیں اور بہت ساری صلاحتیوں سے نوازا ہے ہمیں ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کچھ اچھا کرنا چائیے۔

احساسِ کمتری بندے کو کئی پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ذہن نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں جو وہ کرنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں کر پاتا۔ جبکہ دوسری جانب جسے کامیابی ملتی ہے وہ اس پر اترانا شروع کر دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اسکا حل بھی ہمیں بتا دیا ہے کہ "جو چلا گیا اس پر پچھتاؤ نہیں اور جو آ گیا اس پر اتراؤ نہیں ـ" اگر یہ چھوٹا سا اصول زندگی میں اپنا لیا جائے تو ہم بہت ساری پریشانیوں کو اپنے اعصاب سے اُتارنے میں کامیاب ہو جائیں۔

بعض اوقات اگر ہمیں اپنی صلاحیتوں سے اگر کچھ کم کرنے کا موقع ملے تو ہم ایسا کوئی بھی کام کرنے سے نالاں ہی رہتے ہیں کہ یہ ہمارے معیار کا نہیں لیکن کسی بھی گڑھے کو پار کرنے کے لیے ایک دو قدم پیچھے ہٹ کر چھلانگ لگانی پڑتی ہے۔ اگر ہم اپنی جگہ پر ہی کھڑے ہو کہ آگے بڑھیں گے تو گڑھے میں گر جائیں گے۔ اس لیے کبھی کبھار اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اپنے معیار سے کم کو بھی ترجیح دینی چائیے کیوں کہ گڑھے کوتو پیچھے ہٹ کر ہی پار کرنا ہوتا ہے ناں! اگر ہم گڑھا پار نہیں کریں گے توسفر کیسے طے کریں گے اور جب سفر طے نہیں کریں گے منزل تک کیسے پہنچیں گے؟ اپنی منزل پرپہنچنے کے لیے ہمیں سفر تو کرنا ہی ہوتا ہے ناں! ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے ہمیں آسانی کے لیے مشکلات کاسامنا تو کرنا ہی ہو گا۔ شاید آپ نے سنا ہو۔
ایسے ہی کوئی نامی نہیں ہوا
عقیق سو بار کٹا تب نگیں ہوا

اور یہ بھی سنا ہو گاکہ ’’سوناآگ میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے‘‘۔ جب تک آپ زمانے کی تمازت سے نہیں گزرو گے، تکلیفیں برداشت نہیں کرو گے تو کیسے نگیں بنو گے؟ یہاں پر ایک اور بات کا بھی تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ اپنی زندگی کاایک کوئی خاص مقصد بنا لیں پھر اسے حاصل کرنے کے لیے محنت کریں۔ بے مقصد زندگی جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی زندگی گزاریں کہ جس سے دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔ انسان کو جو خوشی دوسروں کی مدد، ان کو خوشی دے کے، ان کی پریشانیاں دور کر کے ملتی ہے وہ صرف اپنے لیے سب کچھ حاصل کر کے بھی نہیں ملتی۔

جب انسان کے سامنے مقصد ہوتا ہے تو پھر اس تک پہنچنے کے لیے اسے حاصل کرنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ انسان کی زندگی کا کوئی ایک مقصد نہیں ہوتا مگر آپ نے اس مقصد کو جو آپ کے لیے اہم ہے جس سے آپکی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچ سکتاہے اسکو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ یہ کبھی بھی مت سوچیں کہ آپ کچھ کر نہیں سکتے جب انسان یہ سوچتا ہے تو وہ بھی وہ نہیں کر سکتا جو کرنا اس کے لیے سب سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اپنے آپ پر اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کر کے آگے بڑھیں اور یہ سوچیں کے اﷲ کی مدد سے انشاء ﷲ میں سب کر لوں گا تو آپ کے لیے کوئی بھی کام نا ممکن نہیں۔
علامہ اقبال نے ایسے نوجوانوں کے لیے کیا خوب کہا تھا کہ
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے
ڈالتے ہیں جو ستاروں پہ کمند

اس لئے ابھی سے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں اور مایوسی کی چادر کو اتار کر تخریب سے تعمیر تک کا یہ سفر کرنے کے لئے کمر بند ہوجائیں۔ ممکن ہے اب کی بار جو آپ کرنے جارہے ہوں وہ ہوجائے اور اگر نہیں بھی ہوا تو شاید اگلی بارہوجائے۔ اس لئے ہمت ہارنے سے کبھی بھی منزلیں نہیں ملتیں۔ منزلیں تو بلند جذبوں اور پر عزم عزائم کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ آپ نے جو مقصد حیات چن رکھا ہے وہ مشکل تو ہو سکتا ہے مگر ناممکن نہیں اس لئے تھوڑی سی ہمت سے آپ جسے ناممکن سمجھ رہے ہیں وہ ممکن ہوجائے گا۔ بس ایک قدم شرط ہے۔

Safoora Nisar
About the Author: Safoora Nisar Read More Articles by Safoora Nisar: 11 Articles with 12040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.