محسن فراموشی

واقعی ہم عجیب لوگ ہیں، جن لوگوں نے ہمیں آسمان سے زمین پر پٹخا، قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیا وہ ہمارے ہیرو جبکہ جس نے قوم کو جرأت اظہار دی اور دنیا جہاں کے ’’مگرمچھوں‘‘ کی مخالفت مول لے کر آئین وقانون کی نگہبانی کی، اسے آج پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے سازشی، مکار، کرپٹ اور نہ جانے کیا کچھ کہا جارہا ہے۔ دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں، یا تو ہم اچھے اور برے کی تمیز ہی کھوچکے ہیں، ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ کون ہمارا دوست اور کون دشمن ہے، ہم کٹھ پتلیوں کی طرح مداریوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں، جسے وہ برا کہیں ہم بھی اسے برا کہنے لگتے ہیں اور جسے سیاسی فنکار دودھ کا دھلا کہیں ہم بھی ان کی ہاں میں سر ہلا دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم کسی کے اشاروں پر نہیں ناچتے بلکہ اچھے اور برے کا خود فیصلہ کرتے ہیں تو پھر یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم پرلے درجے کے بے مروت اور احسان فراموش ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں اپنے محسنوں پر بھی پتھر اچھالتے ذرا شرم محسوس نہیں ہوتی۔ خلیل جبران نے ایسی قوم پر اظہار حیرت کیا تھا جو ہر آنے والے کے لیے پھولوں کے ہار اور جانے والوں کے لیے پتھر لیے کھڑی ہو۔

برا لگے تو معافی چاہتا ہوں مگر سچ یہ ہے کہ تاریخ ہماری احسان فراموشی کی شرمناک داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ آج ہم جن بزرگوں کو لمبے چوڑے القابات سے یاد کرتے ہیں، ان میں سے بیشتر اپنے عہد میں غدار، ملحد اور زندیق کہلائے، ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جسے ان کے ہم وطنوں نے پتھر نہ مارے ہوں۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے تھے جو اپنے گھربار چھوڑکر دیارغیر میں جابسنے پر مجبور ہوئے اور اسی غریب الوطنی میں ان کے جنازے اٹھے۔ ہماری ملکی تاریخ میں بھی اس طرح کی داستانوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم نے اپنے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو ان کی زندگی میں ملک وقوم کا غدار ٹھہرایا، انہیں انگریز، امریکا، آئی ایس آئی، سی آئی اے، را، موساد اور خاد کا ایجنٹ بناڈالا، کئی ایک کو یہودی اور ہندو نواز قرار دیتے ہوئے بھی ہماری آنکھوں میں حیا نہیں آئی، ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے بزرگوں کی دستاروں پر ہاتھ ڈالے اور جب وہ قوم کے دیے گئے زخم لے کر سفرآخرت پر نکلے تو ہم ان کے جنازوں سے لپٹ گئے، ان کے مزار بناڈالے، ان کی یاد میں ایام منانے میں جت گئے۔ واقعی ہم عجیب لوگ ہیں!!

گڑے مردے اکھاڑنے کا کیا فائدہ، صرف دو شخصیات کا بطور مثال ذکر کرنا چاہتا ہوں، جس سے ہمارے قومی مزاج کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے محسن پاکستان ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ اس شخص نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی، اگر آج بھارت اور پاکستان کے درمیان ’’امن‘‘ ہے تو یہ اسی شخص کی وجہ سے ہے، اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو بھارت کو سرحد پار کرنے سے روکنا بہت مشکل ہوتا۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ قوم نے اپنے اس محسن کو اپنی آنکھوں پر بٹھایا، اپنے دل اس کے حوالے کردیے مگر تماشا دیکھیں، جونہی پرویزمشرف نے قوم کے اس ہیرو کو زیرو بنانے کی کوشش کی، کرائے کے ٹٹو بھی میدان میں کود پڑے، محض ایک آمر کو خوش کرنے کے لیے ان قلم فروشوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو غدار ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کرائے کے ٹٹوؤں کا یہی کام ہوتا ہے، سو انہوں نے پوری شیطانی قوت سے اپنے محسن کے چہرے پر خاک ملنے کی کوشش کی مگر اصل ظلم تو قوم نے کیا جو نہ صرف یہ کہ خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ اپنے محسن کے خلاف مہم کا حصہ بھی بن گئی۔ قوم کے اسی رویے کی وجہ سے کل کا محسن پاکستان آج اپنے ہی ملک میں اجنبی ہے۔

دوسرا مظلوم افتخارچودھری ہے۔ پاکستان میں عدلیہ ہمیشہ حکمرانوں بالخصوص آمروں کی آلہ کار بنی رہی۔ جس حکمران کا دل چاہتا عدلیہ سے اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیتا تھا، وہ پہلا شخص جس نے عدلیہ کو صحیح معنوں میں عدلیہ بنایا وہ افتخار چودھری تھا۔ اگر اس شخص کے سارے کارنامے بھلادیے جائیں تو صرف یہی ایک کارنامہ اسے قومی ہیرو بنانے کے لیے کافی ہے۔ ماضی میں کوئی کسی ’’مقدس گائے‘‘ کو عدالت میں طلب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر افتخارچودھری نے یہ بھی کردکھایا۔ غریبوں پر مقدمات تو ہمیشہ سے چلتے رہے ہیں، یہ افتخارچودھری تھے جنہوں نے بااثر افراد کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔

کرپشن کے لحاظ سے پیپلزپارٹی کے ریکارڈ سے آپ اچھی طرح واقف ہیں۔ زرداری صاحب کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کے دوران ملک کو لٹنے سے کس نے بچایا؟ یہ افتخارچودھری ہی تھے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ملک کو لٹنے سے بچایا بلکہ طاقتور ملزمان کے منہ میں ہاتھ ڈال کر اربوں روپے نکلوائے۔ پولیس، بیوروکریسی اور دیگر بے مہار اداروں کی ٹانگیں اگر کسی کے سامنے کانپتی تھیں تو وہ افتخارچودھری تھے۔ انہوں نے عدلیہ کو عملاًعوام کی دادرسی کا ادارہ بنادیا تھا، ان کے دور میں انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق جتنے فیصلے ہوئے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور شاید مستقبل میں بھی نہ ہو۔ اس سب کچھ کے باوجود انہیں کیا ملا؟ گالیاں اور الزامات…… کیا یہی ان کی خدمات کا صلہ ہے؟

افتخارچودھری ریٹائرڈ کیا ہوئے بدزبانوں کی زبانوں پر پڑے تالے کھل گئے، دلوں میں چھپا بغض ان کی زبانوں سے انگارے اگلنے لگا، چونکہ افتخارچودھری نے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا تھا، اس لیے ہر وہ شخص جس کے مفادات پر ضرب پڑی تھی وہ ان پر زبان دراز کررہا ہے۔

ایک میڈیا اینکر پرسن کو دیکھیں، جس نے اپنی زبان پر برائے فروخت کا اشتہار لگارکھا ہے، ہر دو چار دن کے بعد افتخارچودھری کے خلاف ڈگڈگی بجا رہا ہوتا ہے۔ یہ شخص جو زبان استعمال کرتا ہے اگر اسے اس کالم میں لکھ دوں تو ہمارے مدیر ان الفاظ کو غیراخلاقی قرار دے کر حذف کردیں گے۔ واقعی وہ نقل کرنے کے قابل نہیں مگر اس اینکر کو کالم گلوچ سے کوئی نہیں روکتا۔ ایک اور شخص جسے تازہ تازہ پیپلزپارٹی سے دھکے دے کر نکالا گیا ہے، محض اس وجہ سے افتخارچودھری کے خلاف ہے کہ اس نے ملک اسحاق اور اہلسنت والجماعت کے دیگر لوگوں کو پھانسی کیوں نہیں دی۔ افتخارچودھری کو گالیاں دلوانے کے لیے اس شخص کو خاص طور پر ٹی وی چینلوں پر بلاکر کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اوروں کو چھوڑیے یہ عمران خان کو کیا ہوا؟ کہتے ہیں سابق چیف جسٹس بھی دھاندلی کے منصوبے کا حصہ تھے۔ افتخارچودھری اور دھاندلی؟ خان صاحب کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کرے گا۔ اگر آپ نے افتخارچودھری کو کوسنا ہی ہے تو کوئی ایسا الزام تلاش کیجیے جس پر کوئی آنہ، دو آنہ یقین کرسکے۔

پھر وہی بات کہ واقعی ہم عجیب لوگ ہیں، افتخارچودھری بھی ایک انسان ہے، اس میں ایک دو نہیں درجنوں خامیاں ہوں گی مگر وہ ہمارا ہیرو ہے۔ زندہ قومیں اپنے ہیرو کی خامیوں کی بجائے اچھائیوں کا تذکرہ کرتی ہیں، لیکن شاید ہم نے تہیہ کررکیا ہے کہ اپنے کسی بھی محسن کو ذلیل کیے بغیر نہیں چھوڑنا۔

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102380 views i am a working journalist ,.. View More