بڑے ابا

میں یہ تو نہیں کہتا‘ کہ میرے دادا بہت بڑے پیر فقیر یا درویش تھے‘ ہاں اتنا ضرور کہوں گا‘ کہ ان کے بہت اچھا انسان ہونے میں‘ شک نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہم درد اور پیار کرنے والے انسان تھے۔ میں نے تو‘ انہیں بڑھاپے کے عالم میں دیکھا تھا۔ ان کی جوانی کے‘ بہت سے ساتھی‘ چلے گیے تھے۔ اگر کوئی باقی رہ گیا تھا‘ تو گھر پر کم ہی آتا تھا۔ میرا‘ گھر کے دوسرے لوگوں سے زیادہ‘ دادا جی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ یہ نہیں‘ کہ وہ کسی کو اپنے قریب آنے نہیں دیتے تھے‘ اصل واقعہ یہ تھا‘ کہ میری ماں کسی کو‘ ان کے قریب نہ آنے دیتی تھی۔ ان کے خیال میں‘ دادا پرانی اور گھسی پٹی باتیں سنا کر‘ بچوں کی عادتیں خراب کرتے تھے۔ دوسرا وہ کھانستے رہتے تھے۔ ماں اس خدشے سے‘ کہ کہیں کسی بچے کو‘ کوئی بیماری لاحق نہ ہو جائے‘ ہم بچوں کو‘ ان سے دور رکھتی تھیں۔ بس ایک میں تھا‘ جو کسی ناکسی طریقے اور بہانے سے‘ ان کے قریب رہتا۔

دادا جی کو‘ ہم سب بڑے ابا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہم میں سے کوئی‘ جب ان کے پاس جاتا‘ بڑے خوش ہوتے۔ تھوڑی دیر بھی نہ ہو پاتی‘ کہ امی بلا لیتیں۔ بڑے ابا سے‘ میری قربت کی‘ کئی وجوہ تھیں‘ لیکن دو بطور خاص تھیں۔ ایک یہ کہ‘ میں حساب میں بالکل نکما تھا اور وہ میری‘ اس سلسلے میں‘ بھرپور مدد کرتے۔ انہیں حساب اچھا خاصا آتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی‘ کہ جب بھی‘ مجھے اپنے پاس دیکھتے‘ بڑا خوش ہوتے۔ اپنے حصہ سے بچا کر‘ کھانے پینے کی چیزیں دے دیتے۔

ایک دن‘ امی‘ ابا کے سامنے ہی‘ ان کے منع کرنے کے باوجود‘ بڑے ابا کو کوسنے دے رہی تھیں۔ میں نے‘ امی کو ذرا سخت لہجے میں‘ منع کرنے کی کوشش کی۔ بڑے ابا نے‘ خوش ہونے کی بجائے‘ مجھے ڈانٹا‘ کہ بڑے کے سامنے نہیں بولنا چاہیے۔ یہ بات‘ امی پر بھی فٹ آتی تھی‘ لیکن انہوں نے امی کو کچھ نہ کہا۔ شاید‘ ان کے سمجھانے کا‘ یہ ایک انداز تھا۔ امی‘ اس پر اور تیز ہو گئیں کہ وہ بچوں کو‘ ڈانتے رہتے ہیں۔ انہوں نے‘ یہاں تک کہہ دیا‘ کہ بڈھے نے تو بچوں کا سانس پی رکھا ہے۔

حساب کی اصطلاحات کے نام‘ بڑے عجیب اور احمقانہ سے ہوتے ہیں۔ عملی زندگی میں‘ ان کا نام سننے کو نہ ملتا تھا۔ خصوصا یہ بٹے‘ میری سمجھ میں نہیں آسکے۔ دو بٹا چار‘ چھے بٹا گیارہ۔ جب دو چار پر‘ اور چھے گیارہ پر تقسیم نہیں ہوتا‘ تو اس قسم کے سوال‘ کتاب میں ڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مجھے ریاضی بنانے والوں کی عقل پر افسوس ہوتا۔ وہ تو وہ‘ ماسٹر بھی‘ اس حماقت خیز عمل کا حصہ بن گیے تھے۔ایک دن‘ میں نے معاملہ‘ بڑے ابا کے سامنے رکھا‘ انہوں نے بڑے پیار اور مثالوں سے‘ معاملے کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ میری سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔ ہاں البتہ‘ ایک مثال بڑی ہی ٹیڑی تھی۔ کہنے لگے‘ بٹا‘ بٹنا سے ہے۔ جب بھی کوئی شے‘ بٹنے کے عمل میں داخل ہوتی ہے‘ اس کی ابتدائی قیمت اور قدر میں‘ کمی واقع ہوتی چلی جاتی۔ مثلا آپ کے پاس سو رپے تھے‘ آپ نے پچاس روپے‘ اپنے چھوٹے بھائی کو دے دیے‘ آپ کے پاس پچاس بچ گیے۔ پچاس میں پچیس‘ آپ کی چھوٹی بہن نے لے لیے‘ اس طرح آپ کے پاس سو میں پچیس باقی رہے‘ اسی کو‘ بٹنا کہتے ہیں۔ بٹوارا بھی‘ بٹنا سے ہے۔ ایک بٹا دو کا معاملہ‘ میری سمجھ میں آ گیا تھا۔

انہوں نے کہا‘ مادی سوچیں اور مادی زندگی‘ شے سے زیادہ حیثیت اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے‘ میں ایک تھا‘ شادی کے بعد ایک نہ رہا‘ یا یوں سمجھ لو‘ کہ ایک کی قدر سو ہے۔ شادی کے بعد‘ بٹ کر پچاس رہ گیا۔ تمہاری دادی بھی بٹی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے‘ کہ اس کے پچاس‘ میرے نہ ہوئے‘ میرے پچاس‘ اس کے نہ ہوئے۔ تمہارے ابا پیدا ہوئے‘ بقیہ پچاس تقسیم ہو کر‘ پچیس رہ گیے۔ اس کے بعد‘ تمہاری بڑی پھوپھو پیدا ہوئیں‘ تو پچیس بٹ کر‘ ساڑھے بارہ رہ گیے۔ پھر تمہارے چچا کی پیدائش پر‘ ساڑھے بارہ‘ چھے اشاریہ پچیس گیے۔ تمہاری چھوٹی پھوپھو کی پیدائش پر‘ چھے اشاریہ پچیس بٹ کر‘ تین اشارہ ساڑھے بارہ رہ گیے۔ اس کے بعد تمہارے سب سے چھوٹے چچا‘ پیدا ہوئے تو تین اشارہ ساڑھے بارہ بٹ کر‘ ڈیڑھ اشارہ سوا چھے باقی رہ گیے۔ اس کے بعد پوتے‘ پوتیاں‘ ہوئیاں‘ نواسے‘ نواسیاں پیدا ہوئیں‘ تو یہ ڈیڑھ اشارہ سوا چھے بھی تقسیم ہو گیے۔ اس طرح تمہارا بڑا ابا‘ سو سے صفر ہو گیا۔ صفر کو‘ کون اہمیت اور عزت دیتا ہے۔
تمہاری دادی اماں‘ صفر ہونے کا صدمہ‘ برداشت نہ کر سکی اور اس نے‘ دنیا کو خیرآباد کہہ دیا۔ اس پر یہ حقیقت واضح نہ تھی‘ کہ ہندسہ صفر کے بغیر‘ محدودیت سے باہر نہیں نکل پاتا۔ ہندسہ جب صفر کو ساتھی بناتا ہے‘ تو اس کی قیمت‘ ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں ہو جاتی ہے۔ صفر کچھ بھی نہ ہو کر‘ بہت کچھ کے درجے پر فائز ہو جاتی ہے۔ مجھے معلوم تھا‘ کہ میں جب ہندسے سے مل جاؤں گا‘ کچھ نہیں کا‘ حصار ٹوٹ جائے گا۔ آج تم نے‘ صفر سے الحاق کیا ہے‘ اس سے‘ جہاں تم دس ہوئے‘ وہاں میری قیمت نو ہو گئی ہے۔ یہ احساس‘ مجھے زندہ رکھے گا۔ پھر انہوں نے‘ مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان کی آنکھوں میں‘ آنسو تھے۔ میں آنسووں کی زبان نہ سمجھ سکا۔ یہ آنسو‘ طفل تسلی کے تھے یا میری قربت نے‘ نفسیاتی سطع پر‘ انہیں توانائی عطا کی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا‘ ہاں‘ ان کے سینے کی گرمی نے‘ مجھے ایک سے‘ دس کر دیا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176438 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.