گناہ گار


اس کا دادا جان فیسلے‘ مشرقی چرچ میں پاسٹر تھا۔ علم اور پرہیزگاری میں‘ شہرت رکھتا تھا۔ نرمی دلی اور محبت اس کی شخصیت کے نمایاں وصف تھے۔ علاقے میں دیگر مذاہب کے آنے والے علما سے‘ اس کی ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ایک بار‘ وہ تبلیغی مشن پر‘ دور دراز مشرقی علاقوں میں بھی گیا تھا۔ اتھارٹیز‘ ناصرف اس کے علم وفضل کی معترف تھیں‘ بلکہ اس کے شخصی خصائل کو بھی‘ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔

جان فیسلے‘ جب فوت ہوا‘ تو اس کی ذاتی لائبریری سے‘ بڑی شان دار اور نایاب کتب دستاب ہوئیں۔ یہ کتب‘ چرچ کے کتب خانہ میں‘ منتقل کر دی گئیں۔ چرچ کے کتب خانہ کو‘ کتب عطیہ کرنے کی ہدایت‘ جان فیسلے ہی کر گیے تھے۔ یقینا‘ انہوں نے بڑی عقل مندی سے کام لیا تھا‘ ورنہ یہ علمی سرمایہ ردی چڑھتا۔ ان کا لڑکا‘ پڑھا لکھا تو تھا‘ لیکن اسے تھیالوجی سے‘ کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس کے لیے یہ کتب‘ کسی کام کی نہ تھیں‘ ہاں کتب نے‘ اچھی خاصی جگہ گھیر رکھی تھی۔ جان فیسلے ایک کتاب‘ اسے باطور خاص دے گیے تھے اور اسے‘ حفاظت میں رکھنے کی ہدایت کر گیے تھے۔ انہوں نے یہ بھی تاکید کی‘ کہ جب سائینہ بڑی ہو گی‘ تو یہ کتاب‘ اسے اس ہدایت کے ساتھ دے دی جائے‘ کہ وہ اس کتاب کو اپنی نسل کو خصوصی ہدایت کے ساتھ منتقل کرتی رہے گی۔

سلوچے نے‘ اس کتاب کو پڑھنے کی سرتوڑ کوشش کی‘ لیکن وہ اس کتاب کا ایک جملہ بھی‘ نہ پڑھ سکا۔ کتاب کا خط مقامی تھا۔ وہ اس خط میں کئی کتب پڑھ چکا تھا۔ وہ کیا‘ اس علاقے کا ہر فرد اس خط سے آگہی رکھتا تھا۔ سلوچے کتاب کو خط کے حوالہ سے پڑھ سکتا تھا‘ لیکن اس میں لکھا کیا گیا تھا‘ اس کی سمجھ سے قطعی بالاتر تھا۔ خط علاقے کا تھا‘ لیکن اس کی زبان علاقے کی زبان نہ تھی۔ اسے پڑھنے کی‘ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی کوشش کی۔ حرام ہے‘ جو کسی کے پلے کچھ پڑا ہو۔ پھر اس نے‘ دو ایک پروفیسر حضرات کو بھی زحمت دی۔ وہ بھی اس کتاب کو پڑھنے سے معذور رہے۔ تھک ہار کر‘ اس نے اسے مقدس امانت سمجھ کر‘ اپنے باکس میں محفوظ کر دیا۔

اس نے سائینہ کو‘ علاقے کی اچھی درس گاہوں میں‘ تعلیم دلوائی۔ اسے دور مشرق کے‘ ایک کثیر اللسان علاقے میں‘ پڑھنے کا موقع بھی میسر آ گیا۔ وہ بڑی خوش تھی‘ کہ اس کے دادا کو بھی‘ وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان کا وہاں قیام‘ اگرچہ چند ماہ کا تھا‘ لیکن وہ باتیں اس طرح کرتے تھے‘ جیسے وہ اس علاقہ کے رہے ہوں۔ وہ اس وقت بہت ہی چھوٹی تھی‘ لیکن بھولے ہوئے خواب کی طرح‘ اسے کچھ کچھ یاد تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا‘ پچاسی سے تجاوز کر چکے تھے۔ وہ سائینہ سے‘ بڑا پیار کرتے تھے‘ لیکن وہ اسے بڑا ہوتا نہ دیکھ سکے تھے۔ سائینہ کی بھی یہ بدقسمتی تھی‘ کہ وہ دیر تک ان کی محبت اور شفقت نہ دیکھ سکی تھی۔ موت کب رو رعایت سے‘ کام لیتی ہے‘ چپکے سے‘ آتی ہے‘ اور جیتے جاگتے انسان کو جانے کہاں لے کر چلی جاتی ہے۔

اب وقت آ گیا تھا‘ کہ سلوچے‘ سائینہ کو‘ اس کے دادا کی امانت دے دے۔ سائینہ اس کی صحیح حق دار بھی تھی۔ وہ ناصرف بلا کی ذہین تھی‘ بلکہ اپنے دادا کی طرح ہم درد‘ پیار کرنے والی اور تھیالوجی سے بھی‘ بڑی گہری دل چسپی رکھتی تھی۔ کتاب اس کے حوالے کرتے وقت سلوچے نے خوشی محسوس کی۔ اسے یوں لگا‘ جیسے بہت بڑا بوجھ‘ اس کے سر سے سرک گیا ہو۔ اسے یہ بھی خوشی ہوئی‘ کہ اس کی بیٹی اپنے دادا کے قدموں پر تھی۔

سائینہ‘ اپنے عظیم دادا کی کتاب پا کر بڑی خوش ہوئی۔ اس کے دادا نے‘ یقینا‘ اسے نایاب اور قیمتی تحفے سے نوزا تھا۔ دو دن گزر جانے کے باوجود‘ اس کی تھکن ابھی دور نہ ہوئی تھی۔ لیکن وہ‘ اپنے دادا کی کتاب پا کر‘ سب کچھ بھول گئی۔ وہ اپنے کمرے میں آ کر‘ بڑے سکون سے‘ کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی‘ کہ رسم الخط مقامی تھا‘ لیکن اس میں ہندوی زبان میں‘ مضمون پیش کیا گیا تھا۔ خوشی کی بات تو یہ تھی‘ کہ مقامی زبان کا رسم الخط‘ استعمال میں آیا تھا۔ اگر ہندوی رسم الخط ‘ استعمال کیا ہوتا‘ تو شاید وہ ایک لفظ بھی نہ پڑھ پاتی۔ وہ ہندوی سمجھ سکتی تھی‘ لکھنا‘ پڑھنا اور بولنا اس کے بس کا روگ نہ تھا۔ وہ پورے دو سال اس ولایت میں رہ آئی تھی‘ لیکن وہ صرف سمجھنے کی حد تک رہ پائی تھی۔ وہ حیران رہ گئی‘ اس کے دادا صرف چند ماہ‘ اس ولایت میں رہے تھے۔ انہوں نے سلوکین رسم الخط میں بڑی روانی سے بہت کچھ لکھ دیا تھا۔

دادا جی نے‘ دنیا کے معروف مذاہب کے‘ بہت سے‘ الہامی کلموں کو‘ کتاب کی زینت بنایا تھا۔ ایک ایک شبد‘ آب زر سے لکھے جانے کے قابل تھا۔ سائینہ بڑی روانی‘ دل چسپی اور گہری عقیدت کے ساتھ پڑھتی گئی۔ اسے لطف آ رہا تھا۔ لگتا تھا‘ کہ آج ہی‘ ایک نشت میں‘ ساری کتاب پڑھ جائے گی۔ اسے تھکن‘ اور نیند کا‘ رائی بھر‘ احساس نہ تھا۔ پھر۔۔۔۔۔ ہاں پھر۔۔۔۔۔۔ ایک جگہ پر آ کر رک گئی۔ اس سے آگے‘ بڑھ نہ سکی۔

عجب الہامی کلمات تھے۔ لکھا تھا‘ خدا تمام رازقوں سے‘ بڑھ کر‘ اور بہتر رزق عطا کرنے والا ہے۔ انہوں نے دلائل بھی دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ عالم ارواح میں‘ وہاں کے مطابق خداوند ہی رزق دیتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں‘ اس ماحول کے مطابق‘ رزق عطا کرتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی‘ رزق کا بندوبست کر دیتا ہے۔ دونوں پستانوں کا دودھ ‘ ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں ہوتا۔ یہ ہی نہیں‘ ضرورت کے مطابق‘ اس میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ مرنے کے بعد بھی‘ اس ہئیت کے مطابق‘ خداوند رزق فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ‘ اس سے بڑھ کر‘ کوئی رازق نہیں۔

انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو مزاحم آ سکے۔ انہوں نے لکھا‘ تمہاری دادی کو‘ جب بھی کوئی مہمان آتا‘ رونا پڑ جاتا۔ اسے رزق میں کمی کا خدشہ‘ لاحق ہو جاتا۔ میں نے کئی بار سمجھایا‘ لیکن یہ بات‘ اس کی سمجھ میں نہ آسکی۔ ہماری بحث بھی ہو جاتی۔ ایک بار‘ ایک بھوکا میرے پاس آ گیا۔ اس نے اپنی بھوک کا تذکرہ کیا۔ میں نے تمہاری دادی کو‘ اسے کچھ دینے کو کہا۔ وہ اس پر بیھر گئی۔ مجھے اس کی اس حرکت پر افسوس‘ نہیں صدمہ ہوا۔ میں نےاپنا کھانا اٹھا کر‘ اس بھوکے کو دے دیا۔ تمہاری دادی کی اس حرکت نے‘ مجھے اس سے‘ ذہنی طور پر بہت دور کر دیا۔

مارکیکس‘ بہت اچھی عورت تھی۔ گریبوں اور ناداروں کی‘ بڑی ہم درد تھی۔ مجھے غیرعورتوں سے‘ کبھی دل چسپی نہیں رہی‘ لکن اس کی دیالو اور کرپالو خصلت نے‘ دلی طور پر‘ اس کے قریب کردیا۔ وہ بھی میرے قریب ہوتی گئی اور پھر ہم ایک دوسرے کے‘ جسموں کے شناسا ہو گیے۔ اس کا خاوند مکمل مرد نہ تھا۔ اس کے ہاں ہونے والے بچے‘ میرے بچے ہیں۔ میں جانتا تھا؛ اور جانتا ہوں کہ یہ گناہ تھا۔ میں اعتراف کر رہا ہوں۔

میں نے چرچ میں جا کر بھی‘ اعتراف کیا ہے۔ میرے اعتراف کا کوئی گواہ نہ تھا۔ اب تم میرے اعتراف کی گواہ ہو۔ میرے لیے خداوند سے دعا کرنا‘ کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ مجوزہ کفارہ‘ میں نے ادا کر دیا ہے‘ اس کی تم فکر نہ کرنا۔

سائینہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی‘ کہ اس کا دادا گناہ گار ہے۔ وہ دیر تک‘ سوچتی رہی‘ کہ کاش اس کے دادا سے‘ یہ گناہ سرزد نہ ہوتا۔ اچانک خوشی کی ایک لہر؛ اس کی رگ وپے میں ابھری۔ پورے علاقے میں‘ ان کا دادا کی طرف سے‘ کوئی رشتہ دار نہ تھا۔

وہ اس خوشی میں‘ سوچوں کے تانے بانے بننے لگی۔ اسے بہت سے کزن میسر آگیے تھے۔ وہ دیر تک ان سے ملنے کے‘ منصوبے بنانے لگی۔ دکھ سکھ پائیدار نہیں ہوتا‘ وہ یہ سوچ کر‘ دکھی ہوگئی‘ کہ یہ سب عام کرنے کا نہیں ہے۔ خداوند پردہ پوشی کرتا ہے‘ وہ پردہ اٹھا کر‘ گناہ گار کیوں ہوتی۔ اس سے فائدہ کی بجائے‘ نقصان ہوتا۔ یہ دو مرحومین کو‘ ذلت کی کھائی میں اتارنے کے مترادف تھا۔ دوسری طرف‘ اسے اس بات نے بھی‘ پریشان کر دیا‘ کہ اس کے دادا نے‘ کتاب کی منتقلی کی ہدایت کرکے‘ خود کو کیوں ننگا کرنا چاہا ہے۔ کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ کہ آدمی جو دکھائی دیتا ہے‘ وہ نہیں ہوتا‘ اس کے باطن میں‘ گناہ گار کہیں ناکہیں ضرور چھپا ہوا ہوتا ہے-

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176821 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.