مسئلہ کیا ہے؟

کالم لکھتے ہوئے میں کالم کا عنوان تحریر کرتا ہوں ۔اس کے بعد اسی لائن میں اپنا نام لکھتا ہوں۔ کالم اپنے عنوان ہی کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں۔عنوان جتنا دلکش ہوگا اتنا ہی قاری اس کی طرف متوجہ ہو گا۔لیکن کچھ عرصہ سے اخبارات میں صفحہ کمپوز کرنے والے میرے بھائی کالم کے عنوان کے ساتھ میرے نام کے ایک حصے"ملک"کو جوڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ایک اخبار میں کالم کا عنوان تھا"ماں کا مزار"اسے ماں کا مزار ملک لکھ دیا گیا۔ایک اور کالم کا عنوان تھا مرشدی اور بیسٹ فرینڈ اس میں بھی ملک کا اضافہ کر دیا گیا۔اس طرح کی غلطیاں قاری کو مغالطے میں ڈالتی ہیں اور کالم نگار کے بارے میں اس کا یہ یقین پختہ ہوتا رہتا ہے کہ یہ لکھنے والا سنجیدگی سے نہیں لکھتا بلکہ بعض اوقات یہ مہربانیاں کالم نویس کو بھی آتش زیرپا کر دیتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ یہ آتشَ زیرپائی کمپوزر کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔الٹا کالم نویس کا فشار خون بلند ہوتا رہتا ہے۔

آج کل حکومت اور فوج کے درمیان بھی معاملات کچھ اسی طرح کے چل رہے ہیں۔بڑے بڑے لکھاری ہمیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خرابی کی جڑ مشرف معاملہ ہے جبکہ میری رائے میں یہ صرف مشرف معاملہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔کہتے ہیں خواتین جب بچے پیدا کرنے کی عمر گزار کے اگلی سٹیج میں داخل ہوتی ہیں تو ان کے مزاج میں قدرتی طور پہ ایک چڑچڑا پن در آتا ہے۔یہ ہر خاتون کے ساتھ بیتتی ہے کہ قانونِ قدرت ہے۔ وہ خواتین جن کے گھر کا ماحول بہتر ہوتا ہے قدرے بہتر طور پہ یہ پر آشوب وقت گزارتی ہیں جبکہ ٹینشن کے ماحول میں زندگی بسر کرنے والی خواتین کے لئے یہ وقت قیامت سے کم نہیں ہوتا۔وطن عزیز میں ٹینشن کی کمی نہیں۔ہر وقت کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے۔دوسری طرف فوج بھی ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جب وہ اپنی ماضی کی روایات کے بر عکس اپنے آپ کو ملک کے سیاسی معاملات سے الگ کر رہی ہے۔فوجی کلچر عشروں میں فروغ پاتا ہے اور اس کی تبدیلی میں بھی عشرے ہی درکار ہوتے ہیں۔ایوب خان کے دور میں فوجی میسوں میں بار ہوا کرتے تھے کہ یہ فوج انگریز کی تربیت یافتہ تھی۔ جنرل ضیاء نے نمازیں شروع کروائیں اور بار بند کروائے تو بھائی لوگ بغیر وضو کے نماز بھی پڑھتے پائے گئے اور شراب خانہ خراب بھی اس دور میں مکمل طور پہ ختم نہ ہو سکی۔مشرف صاحب کے دور میں جب فوجی اکثریت کے ساتھ مذہب کی طرف راغب ہو گئے اور ان کی سوچ بدل گئی تو آقائے ولی نعمت کو اس کے مضمرات سے خوف آنے لگا۔مشرف صاحب نے دوبارہ سے Enlightened moderation کے راستے پہ ڈال دیا۔ابھی فوج اسEnlightened moderationکے موج میلے کی طرف پوری طرح راغب بھی نہ ہوئی تھی کہ جنرل کیانی نے اس سیلاب کے آگے بند باندھ دیا اور فوج کو ایک بالکل نئی سمت دے دی۔جنرل راحیل گو کہ زیادہ لبرل ہیں لیکن انہوں نے نے بھی اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی اور فوج ابھی تک جنرل کیانی ہی کے بتائے ہوئے راستے پہ گامزن ہے ۔

ضروری تھا کہ حکومت اور عوام مل کے فوج کو اس مشکل مرحلے سے نکلنے میں مدد دیتے کہ نون لیگ کی حکومت کے وزیروں نے وہی کیا جو ایک ہندو کر رہا تھا۔مسلمان کو اس نے نیچے گرایا ہوا تھا اور خود اس کے سینے پہ سوار تھا۔ اس کے ساتھ ہی بھاں بھاں کر کے روئے بھی جا رہا تھا۔پاس سے گذرتے کسی راہگیر نے اس سے اس چول کا سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ ابھی تو میں نے اسے نیچے دبا رکھا ہے لیکن مجھے پتہ ہے کہ جونہی یہ اٹھے گا اس نے مجھے بہت مارنا ہے۔بس اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے رو رہا ہوں۔فوج جتنا سیاسی معاملات سے دور رہنا اور ہونا چاہتی ہے اندر سے خوفزدہ یہ نابغے اتنا ہی اسے ان معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ مشرف کے معاملے کو بھی سنجیدگی اور متانت سے سلجھایا جا سکتا تھا لیکن ذاتی انتقام اور صرف ایک آدمی کو نشانہ بنانے کی وجہ سے یہ معاملہ قانونی سے ہٹ کے ذاتی ہو گیا۔ مشرف نے آئین شکنی کی۔اس میں دو رائے نہیں لیکن کیا مشرف ہی اس کا قصور وار ہے۔کیا یہ سلسلہ ایوب سے شروع نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس میں جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا کو شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صرف مشرف کیوں؟ اگر آپ نے انتقام لینا ہے تو پھر جو چاہے آپ کا کرشمہ ساز کرے لیکن اگر روایات بنانی ہیں تو آج بھی فوج کے ساتھ بیٹھا جا سکتا ہے۔کوئی حل نکل سکتا ہے۔فوج کو بتایا جا سکتا ہے کہ ہم مشرف کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے ہم اسے لیکن ایک مثال بنا کے روایت قائم کرنا چاہتے ہیں ۔فوج تو شاید خود ہی اس بات کے لئے تیار ہے کہ ملک کی بہتری اور بھلائی کے لئے اپنے آپ کو اس گند سے علیحدہ کر لے۔آپ کو چالیس بکسوں اور ایک مالشئیے سمیت سرور پیلس میں جگہ مل سکتی ہے اور آپ کے کیسیز کو بیک برنر پہ ڈالا جا سکتا ہے۔ پچاس ہزار لوگوں کے گلے کاٹنے والے طالبان سے بات ہو سکتی ہے۔بھارت سے دوستی کی بات چل سکتی ہے تو مشرف کی سزا میں بردباری اور دوسروں کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے کیوں نہیں بچایا جا سکتا۔تھوڑی سی فراست کی ضرورت ہے اور تھوڑے سے تحمل اور برداشت کی۔انتقام تباہی لاتا ہے اور معافی معاملات کو بتدریج بہتر کر دیتی ہے۔نیلسن منڈیلا کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ماضی بھول کے آگے چلنا ہی بہترین روایات قائم کرنے کا باعث بنتا ہے۔تین ماہ مشرف کے اے ایف آئی سی میں قیام نے آپ کو اندر ہی اندر اپنی اوقات تو دکھا ہی دی ہے تو پنگے لینے سے فائدہ۔

آپ ترکی کی مثالیں دیں گے تو آپ کو طیب اردگان اور عبداﷲ گل بھی پیدا کرنے ہوں گے کہ قوم جنکی پشت پہ کھڑی ہے۔آپ کی تو ہر روز ایک نئی کہانی نکلتی ہے۔ بچے آپ کے باہر ہیں ،پیسہ آپ کا باہر ہے۔ملک سے زیادہ آپ ملک دشمنوں کے طرفدار ہیں اورقومی اسمبلی میں گلے پھاڑ پھاڑ کے آپ ترکی کی مثالیں دیتے ہیں ۔ جرنیلوں کا نام لے لے کے ان کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں کہ انہی جرنیلوں کی گود میں چڑھ کے آپ جوان ہوئے ہیں ۔قاعدہ ہے کہ اپنے مربی کی داڑھی نہیں نوچی جاتی۔ایسا کرنے والوں کی اکثر گردنیں کٹتی ہم نے دیکھی ہیں۔تاریخ تو یہی کہتی ہے اور مطالعہ پاکستان بھی، خدا جانے آپ کی سوکس کیا کہتی ہے؟

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268492 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More