صحافتی اقدار کی پابندی۔۔۔

دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
ابھرتی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی پرنٹ و الیکٹرنک میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی ہوئی اور اسے بہت زیادہ آزادی میسر ہوئی اور جدید ٹیکنیکل آلات سے آراستہ ہوااورکام کرنے کے عمل کو آسان بھی بنادیا گیا ہے لیکن اس تمام عوامل کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا سے لیکر الیکٹرونک میڈیا تک صحافتی پہلو بہت کمزور نظر واقع ہو ہے ، جہاں نہ اخلاقی اقدار ہے اور نہ ضابطے و قوانین کی پاسداری۔ موجودہ دور میں بیشتر رپورٹرز، اینکرز اور کالم کارصحافتی اصول و ضوابط سے خالی ہیں شائد اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں باقائدہ تربیت کا فقدان ہے یا پھر اپنی ذاتیات اور خواہشات کا حصول سب سے بالاتر ہے یہی وجہ ہے کہ قلیل تعداد میں ایسے صحافی ہیں جن میں رپورٹرز، انیکرز اور کالم کار جو اپنی ذات سے باہر نکل کر حق و سچ کے ساتھ ساتھ ملکی و قومی سلامتی و عزت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انتہائی ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں تو دوسری جانب لیکن کثیر تعداد ایسے کرداروالے صحافت سے محروم ہے۔ صحافت ایک نہایت مہذب، با عزت، با ضمیر، با کمال شعبہ سمجھا جاتاہے جس کی ذمہ داری دیگر ملکی شعبوں سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ابلاغ کے ذریعے ملکی حالات اور سیاسی و جغرافیائی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔ملکی ترقی میں جہاں صحافت کا کرادار اہم سمجھا جاتا ہے وہیں عوام میں محبت و بھائی چارگی کے جذبے کو بیدار کرنے میں بھی صحافت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔پاکستان میں آزاد ذرائع ابلاغ کی عمر ترقی یافتہ ممالک کے میڈیا کے مقابلے میں کم ہے تاہم پیشہ ورانہ مہارت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود پیشہ ورانہ اخلاقیات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دیا جاسکے۔معاشرے کو ابتری سے بچانے کے لئے میڈیا کے افراد پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔خبر ناموں ، ٹاک شوز، بریکنگ نیوز اور مباحثوں کی نوعیت کیا رہی ہے؟

کیا میڈیا نے عوامی رائے سازی میں کوئی مثبت کردار ادا کیا یا محض بے ترتیب رپورٹنگ اور کاروبار کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ گذشتہ سالوں میں پاکستانی میڈیا کو آزادی ملنے اور پرائیویٹ نشریات کے آغاز سے بہت سے اخلاقی ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ گذشتہ چند سالوں میں پاکستانی میڈیا کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو جہاں اس کے اچھے اقدمات دکھائی دیتے ہیں وہیں بہت سی بے ضابطگیوں اور غیر سنجیدہ رویوں کی طرف بھی نظر جاتی ہے۔پاکستانی میڈیا کو اس آزاد ی سے حاصل ہونے والے اختیارات اچھا امر ہیں لیکن اس بات کو پھر سے تجزیاتی میزان پر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا گذشتہ چند سالوں میں سماجی رویے اور معاشرتی معیارات بہتر ہوئے ہیں یا مزید بے حسی میں اضافہ ہوا ؟ وڈیرا اور جاگیردانہ کلچر، سماجی نظام اور بوسیدہ تعلیمی پالیسیاں وہیں کھڑے ہیں یا بہتری کی جانب سفر کر رہے ہیں ؟ آج یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داریوں اور اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے متوازن اور درست خبریں نشر کرے، میڈیا کی آزادی اور پرائیویٹ چینلز کے آغاز کے بعد سب سے اہم کام صحافتی اخلاقیا ت کا تعین کرنا ہے کیونکہ یہ فیصلہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ واقعہ کو کس انداز میں پیش کیا جائے کہ حقیقت کی تصویر کشی ہو، سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط چونکہ اضافی اقدار ہیں اس لئے کسی خبر یا واقعہ کے تمام ممکنہ رخ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ معلومات کا حصول اور اسے عوام تک پہنچانے میں کس نوعیت اور طبقے کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے اورکسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے بہر حال یہ اختیار خبر بنانے اور نشر کرنے والی ایجنسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ عوام تصویر کا وہی رخ دیکھ پاتے ہیں جو انہیں دکھایا جاتا ہے، پرنٹ میڈیا ہویا الیکٹرانک، غیر معیاری اور من گھڑت معلومات عوامی رائے کو ہمیشہ کے لئے آلودہ کر دیتی ہیں اور صحافتی اعتبار متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ا ±س واقعہ کی تاریخی حیثیت بھی غیر حقیقی ہو جاتی ہے لہذا کسی خبر کو قابل اعتبار بنانے اور پیشہ وارانہ لحاظ سے متوازن بنانے کے لیے صحافتی اخلاقیات متعین کرنانہایت ضروری ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں صحافتی آزادی گذشتہ چند سالوں میں معاملات کوکن خطوط پر چلایا گیاہے اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اور پرائیویٹ چینلز کے آغاز کے بعد میڈیا نے سماجی تبدیلی میں کیا کردار ادا کیا۔پاکستان میں آج کل صحافت پر سیاسی اثرات واضع طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، اب تقریباً کوئی نہ کوئی صحافی، اینکر، کالم کارکسی نہ کسی جماعت کی سپورٹ میں نظر آتا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان میں کس قدر خامیاں ہیں لیکن بڑی توجہ اور خوبصورتی سے اپنے الفاظ میں پنہاں کرکے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے کہ اس سیاسی جماعت کا مورل بلند اور بہتر نظر آتا ہے اس عوض بھاری مراعات اور اجرت حاصل کی جاتی ہے ، لیکن دوسری جانب ایسے کثیر تعداد ہے جو اپنے ضمیر اور پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کی خاطر بڑی قربانیاں دیتے ہیں کبھی بے روزگاریوں کی شکل میں تو کبھی دھمکی اور جبر برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔پاکستان میں جب سے میڈیا کو آزادی میسر آئی ہے اس شعبہ میں اخلاقی اقدار میں کمی، بے ضابطی ، گروہ بندیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شفارش اور دیگر ذرائع سے آنے والے اینکرز سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کا تجزیہ حرف آخر ہے اور ان سے بہتر کوئی نہیں!!سیاسی مفادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے اینکرز اور رپورٹرز خبر اور واقعات کی اصل شکل کو بگاڑ کر پیش کرنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگ اس بات سے عاری ہیں کہ ان کی ذرا سی کوتاہی، غلطی، غیر ذمہداری پاکستان کی سلامتی اور امن کیلئے کس طرح زہر انگیز ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے انتہائی حساس اداروں کو نشانہ بنانے سے سوائے پاکستان کا امیج خراب ہونے کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا، پاکستان مخالف ممالک تو ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ ان شخصیات میں کن کن کے نام سامنے موجود ہیں جو پاکستان کے انتہائی حساس اداروں کو اپنے مفادات، غیروں کی خواہشات کے خاطر کس کس طرح زہر انگیز جملوں ،گمراہ کن بیانات سے نشانہ بنائے بیٹھے ہیں اور اوپر سے مظلوم بننے کی کوشش کرنا، صحافی برادری کو گمراہ کرنے کے لیئے نئے سے نئے انداز اپنائے ہوئے ہیں ایسے لوگوں کو نہ صرف صحافت سے بے دخل کردینا جاہئے بلکہ ملک بدر کرکے ان پر پابندی عائد کردینی جائیے یا پھر غداری کے مد میں سزا دینی چاہیئے تاکہ کسی اور کو پھر ملک سے غداری کرنے یا پھر ملک کے خلاف سازش کرنے کی ہمت نہ ہو۔عجیب بات ہے کہ اب امریکہ ہو یا بھارت یہ فوراً پاکستان کے اندرونی معامالات میں مداخلت کرنے اور بیان بازی کرکے دنیا کو پاکستان کے خلاف نقصان پہنچانے پر ہر وقت قمر بستہ رہتے ہیں پھر بھی یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے یا تو پھر ایسے لوگ انہیں کے آلہ کار ہیں ، یاد رکھیئے کہ ایسے لوگوں کی مخالفت اور لا تعلقی کرنے کا سلسلہ خود صحافی برادری سے شروع ہونا چاہیئے۔ ہماری جان ، ہمارا سب کچھ اس وطن کیلئے ہے اور اس دین اسلام کیلئے۔ ہر ملک کا صحافی اپنے ملک کیلئے جذبہ رکھتا ہے تو پاکستانی صحافی کیوں اس جذبہ کے اظہار کیلئے شرماتا ہے، یہ سوچنا ہوگا ہر صحافی کو اور نئے عزم نئے قدم کے ساتھ بڑھنا ہوگا پاکستان کی بہتری اور بہتر صحافت پیش کرنے کیلئے۔موجودہ حالات کے تناظر میں جو سب سے زیادہ تنخواہ اور مراعات حاصل کررہا ہے وہی سب سے بڑا اینکر، صحافی اور تجزیہ کار ہے چاہے اسے صحافت کی الف نہ آتی ہو اور اگر کوئی قابل ذہین، ایماندار، سچا ہے مگر وہ کم تنخواہ پر صبر و شکر کررہا ہے اور اسے دیگر مراعات حاصل نہیں وہ اسی قدر کم اہمیت کا حامل صحافی ہے ، اب قارئین سمجھ جائیں کہ پاکستان میں صحافت کا رخ کس طرف ہے اور اصل صحافت کن حالات سے دوچار ہے، یہ کبھی صحافیوں کی انجمنوں میں جا کر دیکھیں !! اے کاش کہ ہم وہی صحافیوں کو دیکھیں جیسے مولانا جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر تھے۔ آمین ثما آمین

جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 246374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.