دریا دل

فتو سو گئے ہو کیا؟ شیداں کی آواز آئی۔
کیا بات ہے، آدھی رات کو بھی جاگ رہی ہو۔
مجھے نیند نہیں آرہی۔
مگر کیوں۔ کیا پریشانی ہے۔
فتو میں نے کئی مہینوں میں محلہ داروں کے چھوٹے موٹے کام کر کے چار پانچ سو روپے بچائے تھے اور تم سے بھی چھپا رکھے تھے۔ مگر بیٹی ایک ہفتہ بیمار کیا ہوئی سارے پیسے اس کی بیماری پر خرچ ہو گئے۔
کوئی بات نہیں پیسے خرچ کرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اب سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو۔

فتو بچیاں جوان ہو رہی ہیں۔ میں یہ پیسے ان کی شادی پر خرچ کرنے کے لیے اکٹھے کر رہی تھی۔ دو تین سال بعد ان کے بیاہ کا خرچہ بھی چاہیے ہوگا۔ مردوں کو تمہاری طرح کچھ فکر نہیں ہوتا۔ مگر ماؤں کو تو ان باتوں کا سوچنا ہوتا ہے۔ شیداں نے کہا۔

ٹھیک کہا تم نے واقعی میرے تو ذہن میں یہ بات ہی نہیں تھی۔ مگر اب فکر نہ کر، سوچتا ہوں۔ مگر اب سونے دو۔

ماں باپ نے نام تو فتح محمد رکھا تھا مگر اسے نہیں یاد کہ کسی نے اسے فتح محمد کہا ہو۔ سب اسے فتو ہی کہتے تھے۔ ایک فیکٹری میں مزدورکا کام کرتا تھا اور روزانہ اسے کام کے تین سو روپے مل جاتے تھے۔ شیداں اس کی بیوی تھی جسے گھر کے کاموں سے ہی فرصت نہ تھی۔ دو بچیاں تھیں اور وو جوان ہوتی بچیوں کی دیکھ بھال سے بڑھ کر کون سا کام تھا۔ کبھی کبھار گھر پر کوئی چھوٹا موٹا کام مل جاتا تو وہ کر کے کچھ پیسے کما لیتی اور ان معمولی پیسوں کو سنبھال کر رکھ لیتی۔ فتو جو تین سو روپے روزانہ کما کر لاتا اس سے گھر کا بمشکل گزارہ ہو رہا تھا۔ خود تو وہ روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر رہے تھے مگر جوان ہوتی بچیاں شیداں کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث تھیں۔

فتو فیکٹری سے شام کو واپس آیا تو شیداں پھر بچیوں کو بیاہنے کا ذکر لے بیٹھی۔ فتو بہت سادہ تھا مگر اپنی بیوی اور بچیوں سے بے حد پیار کرتا تھا۔ بیوی کی پریشانی نے اسے بھی بہت پریشان کر دیا تھا۔ مگر کیا کرے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ روز شام کو وہ کئی منصوبے بناتے مگر قابل عمل نہ ہونے کے سبب دوبارہ سوچنا شرو ع کر دیتے۔ شیداں نے ایک دن مشورہ دیا کہ فتو تمہارے ساتھ فیکٹری میں کئی سیانے لوگ ہوں گے۔ ان سے مشورہ کرنا شاید ہماری مشکل کا کچھ حل بتا دیں۔

فتو کھل اٹھا۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہ تھا۔ صبح ہی کسی سے بات کروں گا۔ کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔
شیداں نہ کہتی تو فتو کو شاید اس بات کا خیال بھی نہ آتا۔ مگر اب وہ بیٹیوں کے بارے انتہائی فکر مند تھا۔ صبح فیکٹری پہنچ کر اس کی دلچسپی کام سے زیادہ اس بات میں تھی کہ کوئی بندہ تلاش کرے جو اسے مشورہ دے سکے کہ کس طرح وہ کچھ رقم اکٹھی کر کے اپنی بیٹیوں کو بیاہ سکے۔

گاموں بھی فیکٹری میں فتو کا ساتھی مزدور تھا۔ مگر تھا ایک لیڈر۔ اس کی پھرتیاں دیدنی تھیں۔ کام کے دوران ہی پوری فیکٹری میں گھوم جاتا۔ ہر ایک کی خیریت دریافت کرتا اور کوشش کرتا کہ اگر کسی کے کام آسکے تو ضرور آئے۔ آج بھی معمول کے مطابق گاموں چکر لگاتے ہوئے فتو کے پاس آیا تو فتو نے اسے روک کر بڑے رازدارانہ انداز میں اپنی پریشانی کا بتایا اور اسے مدد کرنے کا کہا۔ گاموں نے فتو سے وعدہ کیا کہ وہ اس کی پریشانی کا کوئی نہ کوئی حل نکال کر اسے دو، تین دن میں بتائے گا۔

فتو اس دن بہت خوش گھرواپس آیا۔ آتے ہی اس نے شیداں کو گاموں سے ہونے والی ساری بات بتائی۔ کچھ ہو جانے کا سوچ کر دونوں بہت مسرور تھے۔ غربت بڑی عجیب چیز ہے سدا باتوں سے بہل جاتی اور سپنوں کے سہارے بسر ہوتی ہے۔ گاموں کا وعدہ ان کے لیے ایک سہانہ سپنا تھا اور اب ان کے دن اسی سپنے کے سہارے گزرنے شروع ہو گئے۔ گاموں روز فتو کو گزرتے تسلی دیتا کہ بس سمجھو تمہارا کام ہو گیا، میں انتظام کر رہا ہوں۔ فتو شیداں کو اسی طرح بتاتا اور دونوں مزے سے خواب چنتے رہتے۔ وہ جنہوں نے کبھی کسی بڑی رقم کی شکل نہ دیکھی تھی ان کی چھوٹی چھوٹی خواہش بھی ان کے لیے ایک بڑا سپنا ہی ہوتی ہیں۔

ایک دن گاموں صبح ہی صبح فتو کے پاس آیا اور اسے مبارکباد دی کہ خوش قسمت ہو بہت اچھا کام ہے۔ ہمارے قصبے میں ایک بڑا چوہدری ہے بڑا دریا دل ہے۔ اس کی بہت سی گائیں اور بھینسیں ہیں۔ بڑی سفارش سے اسے کہا ہے کہ بھینس کا ایک چھوٹا بچہ تمہیں دے دے۔ وہ مان گیا ہے۔ بھینس کا بچھڑا تمہیں مل جائے گا۔ تمہاری بیوی اور بچیاں قصبے کے اردگرد خالی کھیتوں میں دن میں اسے چرا کر پالیں گی۔ سال ڈیڑھ سال بعد جب وہ بچھڑا پوری بھینس بن جائے گا تو مارکیٹ میں اس کی قیمت معلوم کر کے چوہدری اور تم آدھی آدھی رقم بانٹ لو گے۔ اگر تم میں سے کوئی اسے رکھنا چاہے تو آدھی رقم دوسرے کو دے کر بھینس خود رکھ سکتا ہے۔

فتو نے ڈرتے ڈرتے گاموں سے پوچھا: بھائی ویسے سال ڈیڑھ سال بعد اس بھینس کی قیمت کیا ہوگی؟ گاموں نے تھوڑا سوچا اور پھر کہا میرے خیال میں پچاس یا ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔

گاموں کی بات سن کر فتو کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پچاس ساٹھ ہزار جس کا مطلب تھا اس کے حصے پچیس، تیس ہزار روپے آئیں گے۔ اس نے زندگی میں اتنی بڑی رقم نہ دیکھی تھی اور نہ سنی تھی۔ اس کی پوری زندگی زیادہ سے زیادہ سو کے ہندسے تک محدود رہی تھی۔ ہزاروں تو اس کے تصور سے بھی زیادہ تھے۔ وہ چشم تصور میں بار بار پچیس ، تیس ہزار کی رقم پکڑتا، گنتا اور پھر شیداں کو کہتا چھپا کر رکھ لو۔ کسی کہ پتہ نہ چلے کہ ہمارے پاس اتنی رقم ہے۔ خوشی سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

ساتھیوں نے دیکھا فتو کی حرکتیں آج روز سے کچھ مختلف تھیں۔ اسے کرنا کچھ اور ہوتا تھا مگر کر کچھ اور رہا تھا تو ایک ساتھی نے آگے بڑھ کر کہا۔

فتو تمہاری طبیعت خراب لگتی ہے، تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ۔ کہیں کسی مشین میں ہاتھ نہ آجائے۔
نہیں نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ فتو نے کہا۔

مگر سردی کے باوجود اس کے ماتھے کا پسینہ بتا رہا تھا کہ کچھ غلط ہے۔ ساتھیوں کے کہنے پر وہ بیٹھ گیا مگر اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اڑ کر گھر پہنچ جائے اور یہ اچھی خبر سب گھر والوں کو بتائے۔ امید سے بڑی خوشی اسے چھپانی مشکل ہو رہی تھی۔

شام کو فتو گھر پہنچا تو اس نے فوری طور پر شیداں اور بچوں کو اپنے پاس بلایا اور ناہموار سانسوں کے ساتھ انہیں ساری بات بتائی۔ بس اسی وقت سے گھر میں عید کا سماں شروع ہو گیا۔ بچھڑے کو رکھنا کیسے ہے، اسے باہر کب لے کر جانا ہے، کس نے لے کر جانا ہے، اسے کیا کھلانا ہے، سارا خاندان اس رات سویا بہت کم اور بچھڑے کے بارے میں غور زیادہ کرتا رہا۔ بچھڑے کے آنے میں گو ابھی کچھ دن تھے مگر اس کے استقبال کا پورا اہتمام آج ہی سے شروع ہو گیا تھا۔

فتو اور شیداں کا گھر بہت چھوٹا سا تھا۔ بمشکل ایک مرلہ زمین پر ایک چھوٹا سا کمرہ اور کمرے کے آگے چھوٹا سا صحن۔ صحن میں ایک غسلخانہ سا بھی تھا۔ ہینڈپمپ بھی صحن میں ہی تھا اور چولہا بھی۔ لیکن ان تمام کے باوجود محلے میں گری ہوئی ٹوٹی پھوٹی اینٹیں اکٹھی کر کے ایک باڑ سی بنائی گئی اور اس کے اندر والے حصے کو بچھڑے کے لیے تیار کیا گیا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ اس حصے پر چھٹ ڈالنا ان کے بس میں نہ تھا۔ ویسے بھی رات کو کوئی بچھڑا چرا کر نہ لے جائے اس لیے رات کو بچھڑے کو اپنے ساتھ کمرے میں سلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ کمرے کے اندر بہت سی چیزوں کو سمیٹ کر بچھڑے کے لیے جگہ بنائی گئی اور پھر بے تابی سے بچھڑے کا انتظار کیا جانے لگا۔

فتو تو صبح فیکٹری چلا جاتا مگر شیداں اور اس کی بیٹیاں دن بھر کچھ نہ کچھ کرتی رہتیں۔ وہ گھر کے گرد و نواح میں خالی کھیت بھی دیکھ آئیں جہاں بچھڑے کو جا کر گھاس چرانی تھی۔ گھر کی چھت اور ایک دیوار کو صاف کیا گیا کہ گوبر کے اُپلے بنا کر چولہے کا ایندھن تیار کرنا ہے۔ ایندھن کے لیے نئی لکڑی لانی انہوں نے بند کر دی۔ ہفتہ بھر میں ہر چیز تیار تھی بس انتظار تھا تو بچھڑے کا۔

کوئی ہفتہ بعد ایک دن چھٹی کے وقت گاموں فتو کو ساتھ لے کر چوہدری کے پاس گیا۔ چوہدری کے منشی نے سادہ کاغذ پر فتو کے انگوٹھے لگوائے اور زبانی اتنا بتایا کہ یہ بچھڑا ہمارا ہے اور تمہارے پاس امانت ہے۔ اسے پالو، بڑھا کرو، اس کی حفاظت تمہارا فرض ہے۔ نقصان کے تم ذمہ دار ہو گے۔ باقی باتیں گاموں نے بتا دی ہوں گی۔

ہاں ہاں سب بتا دیا ہے۔ فتو نے جواب دیا۔ اسے تو صرف بچھڑے کے ملنے کی جلدی تھی۔ منشی اسے بھینسوں کے باڑے میں لے گیا اور ایک بچھڑا اس کے سپرد کر دیا۔

فتو بچھڑا لے کر گھر پہنچا تو گویا ان کی عید ہو گئی۔ رات کا ایک پہر گزر چکا تھا۔ گھپ اندھیرا ہونے کے باوجود کھیتوں سے گھاس کاٹ کر لائی گئی۔ صحن اور کمرے کے دروازوں کو تالے لگا کر وہ بچھڑے سمیت کمرے میں سمٹ کر بیٹھ گئے۔ گھر کا ہر فرد تھوڑی تھوڑی دیر بعد اٹھ کر بچھڑے کو چھوتا۔ اسے گھاس کھلانے کی کوشش کرتا اور پھر اس کی طرف منہ کر کے لیٹ کر سونے کی کوشش کرتا۔ اتنی جذباتی کیفیت میں وہ رات بھر بہت کم سوئے۔

شیداں کی زندگی میں بچھڑے کی آمد سے اک نئی رونق آگئی تھی۔ پہلے وہ خاوند کو کھانا کھلاتی، پھر بچیوں کو اور سب سے آخر میں خود کھاتی تھی۔ اب بچیوں کے ساتھ بچھڑے کی باری بھی ہوتی اور شیداں اب بھی سب سے آخر میں کھاتی۔ بچھڑا اسے بچوں کی طرح عزیز تھا۔ اب اسے سارا دن کام کرنے کے باوجود تھکاوٹ کی بجائے ایک فرحت محسوس ہوتی تھی۔

وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ فتو اور شیداں بچھڑے کوجوان ہوتا دیکھتے اور دن گنتے اور روز اندازہ لگاتے رہتے۔ اب بچھڑا دس ہزار کا ہو گیا۔ اب پندرہ ہزار کا ہو گیا۔ اب بیس ہزار کا …… یوں دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً ڈیڑھ سال گزر گیا۔ اب وہ بچھڑا نہیں ایک مکمل گائے تھی۔ فتو کو جاگتے میں بھی اب سپنے نظر آنے لگے۔ اسے لگتا بھینس کی قیمت ساٹھ ہزار طے ہو گئی ہے اور اسے اس کے حصے کے تیس (30) ہزار مل گئے ہیں۔ وہ یہ پیسے شیداں کو دے رہا ہے۔ کبھی اسے لگتا کہ گھر میں پیسے وہ مل کر چھپا رہے ہیں۔ کبھی میاں بیوی مل کر سوچ رہے ہوتے کہ پیسے کیسے خرچ کرنے ہیں۔ کہاں کہاں خرچ کرنے ہیں۔ شیداں نے تو اب بیٹی کے لیے رشتہ بھی ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا۔

قسمت بڑی عجیب ہے۔ مہربان ہو تو فقیر کو شاہ بنا دے اور اگر نامہرباں ہو تو غریب سے اس کی کٹیا بھی چھین لیتی ہے۔ گرمی کا موسم تھا۔ شیداں اور بچیاں چھت پر سوئی ہوئی تھیں اور فتو چارپائی بچھا کر صحن میں بھینس کے پاس۔ رات ہر چیز ٹھیک تھی۔ صبح اٹھے تو بھینس ادھ موئی پڑی تھی۔ اس کے منہ سے جاگ نکل رہی تھی۔ ڈاکٹر کو بھاگم بھاگ لے کر آیا گیا۔ پتہ چلا رات کو کوئی زہریلی چیز سانپ وغیرہ اسے کاٹ گیا ہے اور اس وجہ سے بھینس کی یہ حالت ہے۔ دوپہر تک کوشش کے باوجود بھینس بچ نہ سکی اور مر گئی۔ بھینس کے ساتھ ساتھ فتو، شیداں اور بچیوں کے ارمان بھی مر گئے۔ گھر میں فقط آہ و زاری تھی، سوگ تھا۔ ان غریبوں کے لیے یہ حادثہ اس قدر روح فرما تھا کہ کوئی دوسرا اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔

چوہدری کو بھینس کے مرنے کی خبر ہوئی تو اس نے فتو کو بلایااور اس سے بھینس کی قیمت کا آدھا حصہ مانگا۔ خود ہی بھینس کی قیمت 70ہزار روپے بتائی اور فتو سے 35ہزار روپے فوراً ادا کرنے کا کہا۔ فتو نے ہاتھ جوڑ کر چوہدری کو کہا:
چوہدری صاحب! آپ کو بھینس کا مرنا شاید محسوس نہ ہو مگر بھینس کے مرنے سے ہمارے ارمان، ہماری خوشیاں، ہماری آرزوئیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم خود مر گئے ہیں۔ ہمارے پاس تو 35روپے بھی نہیں آپ کو 35ہزار کہاں سے دیں گے۔

مجھے نہیں پتہ کہ تم کہاں سے دو گے۔ اگر پیسے نہیں دے سکتے تو صبح سے میرے پاس کام کرنے آجاؤ۔ روزانہ مزدوری کے کچھ پیسے تم لے لینا بقیہ مجھے دیتے جانا۔ جب تک 35ہزار روپے پورے نہیں ہوں گے تم کہیں اور نوکری نہیں کر سکتے۔ تم اگر صبح کام پر نہ آئے تو میرے آدمی تمہیں زبردستی لے آئیں گے۔ بہتر ہے تم خود ہی آجانا۔

فتو نے گھر آکر ساری بات شیداں کو بتائی۔ دونوں بہت دیر تک سوچتے رہے مگر کوئی حل نہ پا کر فیصلہ کیا کہ فتو صبح سے چوہدری کے پاس ہی جایا کرے گا۔

فیکٹری میں فتو آٹھ گھنٹے کام کرتا تھا۔ وہ بھی زیادہ تر فقط مشین پر کھڑے رہنا، بڑا آسان کام تھا۔ مگر چوہدری کے گھر پر اس سے سولہ گھنٹے کی مشقت لی جانے لگی۔ وہ صبح چھ بجے کام پر آتا اور رات دس بجے کے بعد تھکا ہارا گھر پہنچتا۔ فیکٹری سے اسے روزانہ تین سو روپے ملتے تھے۔ مگر چوہدری نے اسے سو روپے مزدوری دینے کا کہا۔ پچاس روپے چوہدری اپنے 35ہزار پورے کرنے کے لیے روزانہ کاٹ لیتا اور فقط 50 روپے فتو کو گھر لے جانے کے لیے ملتے۔ پچاس روپے گھر کی ضروریات سے اس قدر کم تھے کہ دو، دن ہی میں گھر میں فاقے راج کرنے لگے۔ سولہ گھنٹے کام کرنے سے فتو کی صحت بھی خراب ہو نے لگی۔

ایک ہفتہ آنسو بہاتے گزر گیا۔ بہت زیادہ مشقت سے فتو کی حالت بھی خراب ہوتی جا رہی تھی۔ بھوک نے گھر میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ شیداں نے بچیوں کو لیا اور چوہدری کے پاس پہنچ گئی۔

چوہدری صاحب میں اور میری بچیاں آپ کے پاس آئی ہیں۔ ہم پر کچھ رحم کرو۔ میرا میاں کام کی زیادتی سے اور ہم بھوک سے مر جائیں گے۔ ٹھیک ہے بھینس کے مرنے سے آپ کا بھی نقصان ہوا مجھے تو ان بچیوں کو بیاہنا تھا۔ گو دونوں میں دو سال کا فرق ہے مگر دونوں جوان ہیں۔ بھینس کے مرنے سے ہمارا تو سب کچھ لٹ گیا ہے۔ میرے میاں کو چھوڑ دو۔ ہم کوشش کر کے تمہارے پیسے دینے کی سعی کریں گے۔ مگر یہی حال رہا تو میرا فتو مر جائے گا۔ ہم بے آسرا ہو جائیں گے۔ ہم پر رحم کرو۔ شیداں ہاتھ جوڑ کر کھڑی رہی۔

چوہدری نے مسکرا کر بچیوں کی طرف دیکھا۔ نرم و نازک، دبلی پتلی خوبصورت سی معصوم بچیاں۔ چوہدری نے سر سے پاؤں تک پوری طرح ان کا جائزہ لیا اور شیداں سے پوچھا۔
بڑی کی عمر کیا ہے؟
یہی کوئی پندرہ سال ہوگی۔ شیداں نے جواب دیا۔
پندرہ سال۔ چوہدری نے دہرایا۔ پھر لڑکی کا دوبارہ جائزہ لیا اور بولا۔

تمہیں پتہ ہے یہ عمر بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ اس کی شادی تو توُ کر نہیں سکتی۔ بس چند دنوں میں یہ بھاگ جائے گی کسی نوجوان کے ساتھ اور تو اسے یاد کر کے روتی رہ جائے گی …… اچھا میں تمہاری مدد کرتا ہوں تم اپنا میاں لے جاؤ اور اپنی بیٹی مجھے دے جاؤ۔ میری حویلی میں مزے سے رہے گی۔ تمہیں بھی کسی بات کی فکر نہیں رہے گی۔

شیداں نے چوہدری کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں سفاکی، ہوس اور شیطانیت صاف نظر آرہی تھی۔ ہاتھ باندھ کر منت کرنے والی شیداں ایک دم شیرنی کی طرح مضبوط نظر آئی۔ یہ نہیں ہو سکتا، چوہدری میرے جیتے جی کوئی میری بچیوں کو مجھ سے نہیں چھین سکتا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھ سکتا ہے۔ وہ پلٹی اور بچیوں کو لے کر گھر آگئی۔

فتو کی صحت اور گھر کی حالت مسلسل بگڑ رہی تھی۔ شیداں علاقے کے ہر معزز کے پاس گئی کہ میرا فتو مر رہا ہے خدا کے لیے میری مدد کرو۔ میرے فتو کو بچا لو۔ مگر چوہدری اس قدر با اثر اور مضبوط آدمی تھا کہ کوئی شیداں کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ شیداں انصاف کی تلاش میں پولیس کے ایک افسر کے پاس گئی تو اسے ہر بات کی پہلے سے خبر تھی۔ بولا چوہدری تو بڑا دریا دل ہے اس نے تمہارے میاں کے بدلے بیٹی کو نوکری کا کہا تھا۔ مان لیتی تو میاں بھی بچا لیتی اور بیٹی بھی رانیوں کی طرح رہتی۔ اب لین دین کا معاملہ ہے پولیس کیا کر سکتی ہے۔

اس دن شیداں بہت مایوس تھی۔ وہ گھر آئی اور سر کو باندھ کر لیٹ گئی۔ وہ بہت مایوس اور تھکی ہوئی تھی۔ رات سوئی مگر صبح اٹھ نہ سکی۔

فتو اور بچیوں کے پاس اس کے لیے آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ شیداں کی موت پر وہ خوب روئے مگر کچھ نہ ہو سکتا تھا۔ چوہدری اپنے آدمیوں سمیت وقت پر پہنچ گیا۔ کفن دفن کے اخراجات اور دیگر خرچے چوہدری نے کیے۔

شیداں کے جنازے پر چوہدری نے افسوس کا اظہار کیا اور بھری مجلس میں اعلان کیا کہ وہ شیداں کی بن ماں بچیوں کو معاشرے میں بھٹکنے کے لیے بے سہارا نہیں چھوڑے گا۔ فتو تو پہلے ہی اس کے پاس ہے وہ بچیوں کی حفاظت کی خاطر اپنے ساتھ حویلی لے جا رہا ہے جہاں وہ اپنے باپ کے ساتھ رہیں گی۔ لوگ چوہدری کی دریا دلی کی تعریف کر رہے تھے۔ اب کوئی شیداں ان بچیوں کو بچانے کو موجود نہ تھی۔ چوہدری کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ایک مکروہ مسکراہٹ اور بچیاں حویلی جانے کے لیے اس کی گاڑی میں بٹھا دی گئی تھیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443334 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More