کتے اورمربے……عوام اور چوہے مار گولیاں

حکمران سن لیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ مداخلت کریگی۔ عام شہری کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔کروڑوں روپے خرچ کرکے میلے منعقد کیے جارہے ہیں لیکن غریب آدمی کا کسی کو احساس نہیں ۔جمہوری حکومت عام لوگوں کو آٹا بھی سستے داموں فروخت نہیں کرسکتی تو پھر اس کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔حکمرانوں کے تو کتے بھی مربے کھاتے ہیں اور غریب 50 روپے کلوآٹا خریدنے کی بجائے 20 روپے کی چوہے مار گولیاں کھا کر مرنا زیادہ آسان سمجھتے ہیں ۔ خواتین بچے فروخت کررہی ہیں ،لوگ خودکشیاں کررہے ہیں،اربوں روپے کے اثاثے مگر عام آدمیوں کو اشیائے ضروریہ تک دستیاب نہیں ہیں ۔حکومت نے اناج کی قیمتیں اتنی بڑھادی ہیں کہ عوام الناس بہت پریشان ہیں ۔جمہوری حکومت تو لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتی ہے اب ایسا کیوں نہیں ہورہا ۔ غریب آدمی کیا کرے۔جو غریب ہیں جن کے بچے ہیں وہ کہاں جائیں۔یہ قیمت کہا ں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ تمام لاء افسر بتادیں کہ کیا یہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ غریب مررہے ہیں۔ بہت ہوگیا اب تو حکومت عوام پر رحم کرے۔سندھ اور پنجاب کی رپورٹ سامنے ہے،باقیوں کی بھی رپورٹ آئی ہوگی۔ عدالت کب تک حکومت کے کام کرتی رہے۔کیا حکومت بھی اپنے کا م کرے گی یا نہیں۔اب اس معاملے پر بھی ہمیں ہی نوٹس دینا پڑا۔ آرٹیکل 38کے تحت ریاست اپنے شہریوں کو بلاامتیاز ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پابند ہے اس میں صحت،تعلیم اور خوراک شامل ہیں۔ سوالیہ نشانات لئے یہ تمام فقرات جسٹس جواد کی جانب سے کہے گئے ۔ جوکہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کی جانے والے سماعت کے دوران کہے گئے۔ جس میں ان کی عوام کے حوالے سے بے چینی نمایاں ہیں اور حکومتی بے حسی پر ان کو کی جانے والے تنبیہ بھی واضح ہے۔ انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے ہر معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی ضرورت پر زور دیا۔ عدالت نے ارزاں نرخوں پر آٹے کی فراہمی کا حکم دیا تھا اور وفاقی وصوبائی حکومتوں کو15روز میں رجسٹرار کے پاس روپورٹس جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔متعلقہ وزارت نے چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز سے مشترکہ اجلاس بلایا تھا۔عدالت نے کہا کہ آپ چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کی رپورٹس یکجاء کر کے ایک ڈاکومنٹ بنادیں۔مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔حکومت خود تو ضیا فتیں کررہی ہے اور غریب کو سستا آٹا تک دستیاب نہیں۔عوام مررہے ہیں ،کیوں؟

جسٹس صاحب! اﷲ آپ کو خوش رکھے۔ عوام کے حوالے سے نہایت ہی مثبت سوچ اور فکر ہے۔ حکومت نے تو قسم کھالی ہے کہ عوام کے بہتر مفاد میں کو قدم نہیں اٹھانا اور اپنی بہتری اور فلاح کیلئے کو ئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنا۔ حد ہوگئی ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام کے ملک میں ہر طرح کے وسائل ہوتے ہوئے بھی عوام بنیادی سہولیات تعلیم خوراک اور صحت بھی مہیا نہیں کرسکتی ۔کیا عوام کا ان باتوں سے پیٹ بھرسکتا ہے کہ مشرف غدار ہے یا نہیں۔کیا اس عمل سے بجلی کی پیداوار بڑھ سکتی ہے کہ ہم نے ڈالر کی قیمت گرادی ہے شیخ رشید استعفی دے دے۔ حکمرانوں عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ پنجاب اور سندھ فیسٹیول منعقد کردیئے جائیں۔پیسے کی قدر میں اضافہ مہنگائی کا توڑ بالکل نہیں۔کہیں تو کچھ ایسا کردو کہ عوام یہ مان لیں کہ یہ کام خالصتاعوام لناس کے بہتر مفاد میں کیا گیا ہے۔ ایک واقعہ کوڈ کرکے اجازت چاہوں گا۔

ایک مرتبہ ایک صوفی بزرگ نے دینی معاملات کیلئے دشوار گزار پہاڑیوں پر جارہے تھے کچھ سفرکے بعد انہیں تھکاوٹ محسوس ہونے لگی ان کے پاس سامان کی تھیلی تھی وہ بھی انہیں بوجھ اور رکاوٹ محسوس ہونے لگی تو انہوں نے ارادہ کیا کہ سفرجاری رکھنے کیلئے اس تھیلی کا بوجھ کم کرنا ضروری ہے۔ایسا کرنے کیلئے وہ اسے پھینکنا چاہتے تھے اسی اثناء میں ان کی نظر ایک دبلی پتلی لڑکی پر پڑی جس نے اپنے وزن سے بھی زیادہ ایک صحت مند بچے کو اٹھایا ہوا تھا اور اس کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔صوفی بزرگ نے پوچھا کہ تم نے اسے کیسے اٹھایا ہوا ہے تم تھکتی نہیں ہو بچی نے جواب دیا یہ میرا بھائی ہے اور مجھے اس سے محبت ہے اور میں اپنی مرضی اور خوشی سے اس وزن کو اٹھاتی ہوں یہ سن کر بزرگ مسکرائے اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے ۔

محترم جسٹس صاحب جب تک ہم اپنی ذمہ داریوں کو خوشی اسلوبی اور بوجھ سمجھے بغیر نہیں نبھائیں گے اس وقت تک حالات میں بہتری ،عوام کی خوشحالی میسر نہیں آسکے گی ہمیں بھی اپنے ذمیہ کام مذکورہ بالا بچی کی طرح بغیر کسی غرض ،حرص، طمع،لالچ کے سرانجام دینے ہونگے ورنہ امیروں کے کتے مربے کھاتے رہیں گے اور پاکستان کی غریب عوام چوہے مار گولیاں کھا کر اپنی جانوں کا نذرانہ بے حس حکومت اور حکمرانوں کے نام کرتی رہے گی ۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193212 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More