فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے جمہوری حق کا درست استعمال ضروری

جمہوری نظام میں عوام کے ذریعے عوام کے لیے حکومت تشکیل پاتی ہے جس کے لیے حقِ رائے دہی کا استعمال ناگزیر ہے۔ اسی لیے الیکشن ہوتے ہیں اور نمائندے عوامی رائے کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ ماضی میں سرزمین گجرات پر مسلمانوں کی نسل کشی پر مبنی فسادات نے عالمی پیمانے پر ملک کی شبیہ خراب کی وہیں ان فسادات سے ہندو توا کو شہ ملی اور فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ انھیں ایک طریق کار مل گیا کہ کس طرح حیوانی جذبات کی تسکین کے لیے انسانی لہو سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ فسادات میں انسانی جانوں کا ضیاع اور مذہبی عصبیت کا بدترین مظاہرہ بھی دہشت گردی کی ایک شکل ہے اور جب یہ اجتماعی شکل اختیار کر جائے تو اس کی تباہی کس قدر ہول ناک ہوگی اس کا اندازا لگانا مشکل ہے۔ یہی کچھ گجرات میں ہوا جس کا تذکرہ بھی سوہانِ روح ہے۔

اس سے حوصلہ پانے والوں نے ملک کی سلامتی کو نشانہ بنایا اور بموں کی زد پر کتنے ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بھگوا توا قوتوں نے مالیگاؤں سمیت کتنے ہی مقامات پر دہشت گردانہ کارروائیاں کیں جس کو کرکرے جیسے ذمہ دار آفیسران نے بے نقاب کیا ۔اور آج ان کی ایک بڑی تعداد قانون کی زد میں ہے، دیانت و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاتا تو مزیدفرقہ پرست چہرے سلاخوں کے پیچھے دکھائی دیتے۔

گجرات کارڈ فرقہ پرستوں کو اس قدر بھایا کہ اب وہ چاہتے ہیں کہ جمہوری اقدار کا خوں کرنے کے لیے جمہوری طرز پر ہونے والے انتخابات میں ایسوں کو چن لائیں جو اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیتوں کو دبا سکیں اور انھیں مزید کچلنے کی راہ ہم وار کر سکیں۔ اس کے لیے ملک میں اس وقت مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی بھی تگ و دو ہے تاکہ تعمیر کے بجائے مذہبی عصبیت کے نام پر ووٹ بٹورا جائے بہ ایں حالات عوام کی ذمہ داری ہے کہ جذباتی سیاست کا شکار نہ ہوں بلکہ تعمیری و فکری اعتبار سے ملک کی سا لمیت کے لیے ذہن سازی کی راہ ہم وار کریں اور سیکولرزم کے کردار کو مستقبل میں بھی قائم رکھیں۔

حالاں کہ بعض ناعاقبت اندیش افراد نے انسانیت کے قاتلوں کی جاں بخشی کے لیے مسلم امہ میں گجرات کی ترقی کا ڈھونگ جتا کر جتن کیے لیکن ایسے دورکعت کے اماموں کو قوم نے یکسر مسترد کر دیا اور مظلومین گجرات کے خون کی سرخی نے قومی وقارکو خواب غفلت سے بیدار رکھا۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی عصبیت کو جمہوری ملک میں ہوا دینے والے فکر مند ہیں اور انھیں دنیا بھر کے پروپیگنڈے کے باوجود عدم اطمینانی دامن گیر ہے۔ ایسے مولویوں کو بھی عوام نے راستہ دکھایا جو موذی کی مہنگی کاروں میں مسافرت کر کے اس سے دوستی کا پیغام دینا چاہتے تھے اور اس طرح مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی کرنا چاہتے تھے۔ قوم بھولی ضرور ہے لیکن وہ زخموں کو بھوٗلی نہیں ہے۔

مسلمانوں کے لیے ایسے حالات میں ضروری ہے کہ وہ کسی انسانیت کے قاتل کی لہر کا مطلق خوف نہ کھائیں۔ ہر دکھائی پڑنے والا جوش دائمی نہیں ہوتا، بلکہ یہ لہر وقتی ہے، انصاف ودیانت پسند عوام جن کی ملک میں اکثریت ہے جمہوری وقار کو بحال رکھنے کے لیے غیر فرقہ پرست پارٹیوں کو ووٹ دے کر سیکولرزم کا چہرہ بحال رکھنے میں ضرور کامیاب ہوگی ، ایسی امید کی جا سکتی ہے۔یاد رکھیں! جمہوری اقدار کی بقا میں ہی ہمارے لیے بھلائی ہے اس لیے غیر فرقہ پرسٹ پارٹی کو ووٹ دے کر جمہوری روایات کو بچانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جذباتی حالات کا شکار ہو کر اقلیتوں کی ووٹوں کا غیر صحیح استعمال ہو، اور ووٹ منقسم ہو جائے۔ یہ غیر دانش مندانہ قدم ہوگا۔ اس لیے بہت سوچ وچار کے ساتھ ووٹ دیں ، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو یک طرفہ ووٹ ملتی ہے اور سیکولر ووٹ کئی امیدواروں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور فرقہ پرست کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس رُخ سے غور و فکر کر کے ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جو تعمیری سوچ و فکر کے حامل ہوں ۔اور گزشتہ کی طرح چن کر آنے کے بعد ۵؍سال تک شہر کی طرف سے بے خبر رہنے والے کو راستہ دکھا دیں کیوں کہ اب سابقہ بے حسی کا مظاہرہ کس قدر مضر ہوگا اس کا اندازا لگانا دشوار نہیں ہے۔ اسی طرح ایسے کوفوقیت نہ دیں جن کو پڑنے والا ووٹ فرقہ پرستوں کو طاقت و قوت پہنچانے کے مترادف ہو جائے۔ اس لیے اپنی جمہوری قوت کا صحیح صحیح استعمال ضروری اور لازم ہے۔ ہمیں اس پر سوچنا چاہیے۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255858 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.