ہم آہ بھی کرتے ہیں

تجزیہ : محمدفرقان سنبھلی

دہلی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری اچانک کانگریس کے حمایتی بن کرسامنے آئے تو نہ صرف بھاجپا بلکہ کئی اسلامی وغیر اسلامی لیڈران نے ان پر طنز کی بوچھارکرڈالی۔بھاجپاکاحال تو یہ ہے کہ وہ آج کل چھینکتے ہی ناک کاٹنے کو دوڑرہی ہے۔اسے نہ مودی کے نعرہ یادآتے ہیں اور نہ اسے امت شاہ کی بجنوراورشاملی میں دی گئی دھمکی یادآتی ہے۔ ہاں سونیاگاندھی اور مولانابخاری کی ملاقات اسے فرقہ پرستی سے پرنظر آنے لگتی ہے۔بہر حال بی جے پی کے چہرے کو تو سبھی جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دھمکائے بغیر رہ نہیں سکتی،لیکن مسلم لیڈران اور علماء کرام کو اچانک کیا ہواکہ وہ بھی ہاتھ دھوکرمولانا بخاری کے پیچھے پڑ گئے۔دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولاناعبدالخالق سنبھلی نے اپنے دوٹوک بیان میں کہا کہ مولانا بخاری کی اپیل ان کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔ہندوستان جمہوری ملک ہے،یہاں ہرانسان کو اپنی رائے دینے کا حق ہے،لیکن ان کے کہنے پر مسلمان کانگریس کو ووٹ دے گا یہ سوچنا غلط ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ذات اور مذہب میں تقسیم ہوکر ملک کو توڑنے والوں کی جگہ قوم کی خدمت کرنے والے کو ترجیح دینی چاہئے۔بہت عمدہ بات ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے جب ملائم سنگھ یادو کے ساتھ مشترکہ ریلی میں مولاناارشدمدنی دکھائی دیے تو کیا انہیں بھی کوئی اپیل کرنی چاہئے تھی سوال یہ ہے؟ مظفرنگر سانحہ کے بعد مسلمانوں سے کئے ریزرویشن کے وعدہ خلافی کے بعد بھی اگر مولانا ارشدمدنی ملائم سنگھ کی حمایت کوتیارہیں تو سید احمدبخاری کوکس بنیاد پر اپیل کرنے سے روکاجاسکتاہے؟شیعہ چاندکمیٹی کے صدرمولاناسیف عباس نقوی نے کہا کہ شاہی امام کا بیان بچکانہ ہے،وہ علما ء کے سیاست میں سامنے آنے پر آگ ببولا ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب مولانا کلب صادق اور مولانا کلب جواد بھی اس طرح کی ملاقاتیں سیاسی شخصیتوں سے کرتے ہیں تو ان کے خلاف ہنگامہ کیوں نہیں ہوتا؟وہ تو بخاری کو سیلزمین قراردیتے ہیں۔لیکن بخاری صاحب ہی کیوں؟ہمارے تمام بڑے علماء کیاا سی طرح کی سیلزمین شپ میں مبتلانظر نہیں آرہے ہیں؟سپا اور بسپا بھی مولانابخاری کوہدایت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ فاشسٹ طاقتوں کو مضبوط کرنے کی جگہ ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔سوال یہ ہے کہ مودی کی حمایت میں سبھائیں کرچکیں اور تین بار بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دے چکی بی ایس پی پرکس طرح مسلمان یقین کرسکتے ہیں؟کلیان سنگھ جیسے بابری مسجد کے قاتل کو ساتھ لے کر مسلمانوں کو ٹھینگا دکھانے والے ملائم سنگھ یادواوران کی پارٹی نے مسلمانوں کے ساتھ کئے وعدوں کو کس خوبصورتی سے نبھایا ہے،ذرااس کی بانگی بھی دیکھ لی جائے۔

سماج وادی پارٹی نے وعدہ کیا کہ وہ 18؍فیصدی ریزرویشن دے ،آج تک اس سلسلہ میں کوئی کام نہیں ہواہے۔مسلم اداروں جیسے وقف بورڈ،مدرسہ بورڈ،اقلیتی بورڈ،اترپردیش اردواکادمی اورفخرالدین میموریل کمیٹی وغیرہ کو دوسال تک معطل رکھا گیا اور اب تک اسے فعال نہیں کیاجاسکا۔اس کا بجٹ روک کر مسلم لڑکیوں کورقم تقسیم کرکے کہاگیا کہ مسلمانوں کے لیے کام کیا۔مسلمانوں کی رقم ایک طرف روک کر دوسری طرف دے دی گئی تو کیافائدہ ہوامسلمانوں کو۔مظفرنگر فساد میں بچے ٹھنڈ سے مرتے رہے اور حکومت سیفئی میں جشن مناتی رہی یہاں تک کہ زبردستی ٹینٹ اکھاڑکرکیمپوں کوختم کردیاگیا اور پناہ گزینوں کو ٹھنڈ میں بے آسراوبے سہاراکردیاگیا۔توکیا اسی بنیاد پر سماج وادی پارٹی کوووٹ کرنا چاہئے۔سنبھل کو ضلع بنانا چاہئے تھا ملائم سنگھ یادوکو کیوں کہ سنبھل نے ان کو اورا ن کے بھا ئی کو سیاسی زمین فراہم کی تھی اور انہیں کامیاب بناکر ایوان پارلیمنٹ میں بھیجاتھا مگر وہ صاف مکر گئے۔مایاوتی نے ضلع بناکر ہیڈکوارٹر کا مسئلہ پھنسادیا۔اب حال یہ ہے کہ سماج وادی حکومت مسلم اکثریتی شہر سنبھل کو ہیڈکوارٹر دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اب مولانا بخاری اور کانگریس کی بات……کانگریس نے دس سال میں کون ساایسا کام مسلمانوں کے لیے کیا ہے جس کی بنیاد پر اس کی حمایت کی جائے؟یہ بڑااہم سوال ہے۔کانگریس کی دوغلی پالیسی نے بھی اکثر مسلمانوں کو پریشان کیاہے۔اس نے 4.5فیصدی ریزرویشن دینے کا ناٹک کیا اور آج اس کی کیا پوزیشن ہے کسی کو نہیں پتہ،بابری مسجد معاملہ میں جس طرح د لخراش فیصلہ آیا وہ کس کی شرارت پر مبنی ہے یہ بھی مخفی نہیں ہے۔گھوٹالوں سے بدحال کانگریس نے اصل مسلم قائدین کی جگہ نام نہاد لیڈران کو آگے کرکے مسلمانوں کو سبز باغ دکھانے کی کوششیں کیں۔مولاناآزاد فاؤنڈیشن کی اسکالر شپ کس کو بانٹتے ہیں پتہ نہیں؟اقلیتوں کو اسکالرشپ دینے میں کس قدر سنجیدگی برتی جاتی ہے یہ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی رقم کب کہاں کس کوکتنی ملی شاید سرکار بھی ٹھیک ڈھنگ سے اعدادوشمار پیش نہ کرسکے۔ایسے میں بھی مولانابخاری کانگریس کو اگرحمایت کا اعلان کرتے ہیں تو وہ محض اس لئے قابل جوازہوسکتاہے کہ انسانیت کے قاتل کو وہ طاقت حاصل نہ ہوجائے کہ ملک فسادات کی آگ میں جلتا نظر آئے اور مسلمان عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی گذارنے پرمجبور ہوجائیں۔

بے شک یہ الزامات صحیح ہیں کہ مولانابخاری پہلے سپا،بھاجپا کو بھی حمایت کی اپیل کرچکے ہیں۔ممکن ہے کہ ان کی اپیل کے پس پشت کچھ خاص ذاتی نوعیت کی وجوہ بھی ہوں جیسا کہ ان پر الزام لگتا رہا ہے۔تب بھی ان کی اپیل کو مسلمان اس تناظر میں دیکھیں کہ آج ہمارے سامنے جو مسائل ہیں ان سے نمٹنے کی کوشش کو ن کرسکتاہے؟آج کامسلمان بیدارذہن ہے اوروہ گذشتہ کئی انتخابات سے صحیح فیصلے کرتا آرہا ہے۔ایسے میں وہ اپنے حق میں صحیح فیصلہ ہی کرے گا۔اس لئے تمام لیڈران مسلمانوں کی فکرکرنا بندکریں اور اسے طے کرنے دیں کہ آخر وہ کس کا ساتھ دے تاکہ اس کی گردن پر لٹکی تلوار کا خوف ختم ہوسکے
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46357 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More