حکومت مشکل کے بھنور میں پھنس چکی ہے،

پاک فوج کے سربراہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حالیہ دنوں میں بعض عناصر کی طرف سے فوج پر بے جا تنقید پر افسروں جوانوں کی تشویش کے حوالے سے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں جب ملک اندرونی اور بیرونی مشکلات سے دوچار ہے پاک فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اور اپنے ادارے فوج کے وقار اور اداراتی افتخار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی، صورتحال یہ ہے کہ جب سے مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے پاک فوج کا یہ دوسرا کھلا ردعمل ہے-

پہلا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب نومبر 2013ء میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے ظالمان کا سرغنہ وحشی درندے حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا اور یہ بھی کہا تھا کہ میں طالبان عرف ظالمان سے لڑائی میں مارے جانے والے پاکستانی فوجیوں کو شہید نہیں سمجھتا۔ 10 نومبر کو جاری کیے گئے آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں منور حسن کی طرف سے دہشت گردوں کو شہید قرار دینے کی مزمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکا بیان غیر زمہ دارانہ افسوسناک اور گمراہ کن ہے، منور حسن معافی مانگیں اور جماعت اسلامی اپنی پوزیشن واضح کرے پر منور حسن نے معافی نہیں مانگی، لیکن اسکی مجلس شوری نے 31 مارچ 2014ء کو منور حسن کو با عزت رخصت کردیا۔ اور جناب سراج الحق 9 اپریل کو جماعت اسلامی کے نئے امیر کی حثیت سے حلف اٹھارہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شہادت کے رتبے پر کس کو فائز کرتے ہیں اور کس کس کو نہیں-

جنرل راحیل شریف اپنے نرم الفاظ سے ہر ادارے پر واضح کردیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا تحفظ کرے گی، اس سے قبل میاں نواز شریف نے وفاقی وزیروں مشیروں اور نون لیگی رہنمائوں کو جنرل مشرف غداری کیس پر بیان بازی سے روک دیا تھا۔ ظاہر ہے وزیرعظم نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ انکے وزیر مشیر اور پارٹی عہدیدار اپنی اپنی حدود سے باہر جارہے ہیں، وزیراعظم نے پرویز مشرف کا معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا ہے،
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

اب برسر اقتدار جماعت کے وزیروں مشیروں اور مسلم لیگ کے عہدیداروں نے مختلف نیوز چینلوں پر یہ تاثر دیا ہے کہ وہ غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت سے ملزم پرويز مشرف کو سزائے موت ہی دلوا کر رہیں گے۔ خواجگان مسلم لیگ نون (خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق) نے تو اپنی اپنی وزارتوں کا کارو بار چھوڑ کر یہی کام سنبھال لیا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم نواز شریف دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح اپنی جماعت میں ڈسپلین قائم کردیں، کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ بین الاقوامی اور سیاسی معاملات پر وزیر اعظم یا انکے مشیر خارجہ ہی اظہار خیال کیا کریں اور وزراء وزرائے مملکت اور مشیران اپنے اپنے محکموں کے متعلق بیان دیا کریں۔ کیوں نہ وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ ن کا سیکرٹری اطلاعات ہی حکومت اور پارٹی کی پالیسی کی ترجمانی کیا کرے؟

جہاں تک مشرف غداری کیس کا تعلق ہے اور نام نہاد جمہوریت کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مشرف کو غداری کیس میں سزائے موت دلوا کر رہیں گئے تو یہ انکی خام خیالی بے اور یہ وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں، مشرف کو کچھ نہیں ہوگا بلکہ فرسودہ جمہوریت کرنے والے اور ملک کو داہنی ہاتھوں سے لوٹنے والے خود بند گلی میں پھنس چکے ہیں-
mohsin noor
About the Author: mohsin noor Read More Articles by mohsin noor: 273 Articles with 244317 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.