جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

آفتابِ نبوّت کے طلوع ہونے سے پہلے انسانیت کو عجیب حالات اورعجیب انسانوں سے واسطہ پڑا۔انسان درندے بن چکے تھے۔ کسی کی جان لینا اور چیونٹی کو انگلیوں میں مسلنا برابر تھا۔ عصمت کی چادر تار تار تھی۔شراب پانی کی طرح بہتا تھا۔قتل وقتال مشغلہ بن چکا تھا ۔ اخلاقی اعتبار سے انسانیت پستیوں میں رُل رہی تھی۔پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہوچکا تھا ۔مہذب دنیا اُن کو وحشی تصوّر کرتی تھی اور اُن کو اپنی رعایا بنانے سے ہچکچاتی تھی لیکن یہی لوگ تھے جب آغوشِ نبوّت میں آئے اور تعلیماتِ اسلام کو اپنی دامن میں بھر دیا تو دنیا اُن کے قدموں میں تھی اور جہان بانی کے اُصول اُن کے عمل کو دیکھ کر طے کئے جاتے تھے۔صدیاں گزرنے کے باوصف دنیا اُن کے مرتّب کردہ قانون کو اپنی عظیم درس گاہوں میں پڑھاتی ہے۔خالص دینی پہلو سے ہٹ کر اُن کی دنیاوی ترقّی پر آج بھی دنیا انگشت بدنداں ہے۔آخر یہ گُر انہوں نے کہا ں سے سیکھا ؟؟ اِس سوال کا جواب خود فاروقِ اعظم ؓ نے ان الفاظ میں دیاــ’’مجھے میرا باپ اِس لیے مارتا تھاکہ مجھے اُونٹ چَرانا نہیں آتا تھالیکن آج اِس دین کی بدولت سینکڑوں مربّع میل سلطنت کا حکمران بنا دیا گیا ہوں۔‘‘

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ایک روشن ضمیر والا انکار نہیں کر سکتا لیکن جن کی ضمیر کو احساسِ کمتری کے کالے دھویں نے گھیر رکھا ہو وہ یہاں بھی اپنی کج روی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ایک موقّر اور معروف انگریزی روزنامہ کے اُردو ایڈیشن میں ایک مضمون نظر سے گذرا۔مضمون نگار نے مذہب اور سیاست کے باہمی تعلّق کو نہایت بھیانک صورت میں پیش کیا۔موصوف کے مضمون کے ابتدائی الفاظ کچھ اِس طرح کے تھے’’روایت ہے کہ جب سیاست کے خیمے میں مذہب کا اُونٹ داخل ہوتا ہے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے‘‘ اِس ضمن میں جماعتِ اسلامی کے کردار کی آڑ میں مذہب پر خوب چاند ماری کی ہے ۔اگر موصوف کو مذہب سے خدا واسطہ کا بیر نہ ہوتا تو جماعت اسلامی یا کسی دوسری مذہبی جماعت کے ذاتی فعل کو مذہب سے نہ جوڑتے۔اِ س موقع پر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی مذہب کی سیاست میں شامل ہونے سے برے بلکہ مضمون نگار کے بقول شرمناک اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔اِس سوال پر غور کرنے سے پہلے اُن اسباب کا جائزہ لینا چاہئے جنہوں نے اِس سوال کو جنم دیا۔

دراصل یہ سوچ مغرب سے درآمد کی گئی ہے۔قصہ یہ ہوا کہ تیسری صدی عیسوی کے بعد عیسائی مذہب پوپ صاحبا ن کی خواہشات پر مبنی مذہب بن گیا ۔اِس پر مستزاد یہ کہ مذہب میں کسی قسم کی تفصیل اور تفسیر کے حقوق بھی انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھے۔کسی کو اس میں کسی قسم کی چوں چراں کی اجازت نہیں تھی نیز ریاستی اُمور بھی اُن کے اشارہ آبرو پر ترتیب پاتے تھے ۔اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے انہوں نے ہر نئی چیز کی مخالفت کی اور نامور سائنسدانوں کو بدترین اذیتیں دی۔جان ہس اور جیروم کو زندہ جلا دیا گیا۔گلیلیو پر مصائب کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ جب یہ مذہب انسانوں کی ناقص آراء اور محدود سوچ کے گرد گھومنے لگاتو ظاہر ہے اِس میں ایک آسمانی مذہب کی طرح ہر زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی۔ جدید سائنسی ایجادات اور خواہشات کی اساس پر تعمیر یہ مذہب متصادم ہونے لگے۔ جلد یابدیر اُس کو جدید تحقیقات کی روشنی کے سامنے ڈھیر ہونا تھا۔صدیاں گذر گئی مگر یہ صورتِ حا ل برقرار رہی آخر مارٹن لوتھرنے پاپائیت کے اِس راج کو ختم کردیا مگر بدقسمتی سے انہوں دیگر مذاہبِ عالم کا جائزہ لیے بغیر یہ نعرہ لگایا کہ مذہب اور سیاست کے سنجوگ سے فساد پھوٹتا ہے۔مذہب انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اِس کو سیاست میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔مارٹن لوتھر کا یہ نعرہ چار دانگ عالم میں پھیل گیااور زندگی کا ہر شعبہ متاثر کیا ۔ہمارے ہاں کے اندھی تقلید کرنے والوں نے خود کو مارٹن لوتھر اور اسلام کو عیسائیت تصوّر کرکے یہ نعرہ بلند کیا۔ انہوں نے اس باب میں اسلامی تعلیمات پر ایک نظر ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔در حقیقت اسی پس منظر کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ سیاست کے خیمے میں مذہب کا اونٹ داخل ہوجائے تو انسانیت منہ لپیٹ کر باہر نکل آتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مذہب کی سیاست میں شمولیت سے اِس قدر شرمناک اثرات مرتّب ہوتے ہیں ۔اِس سوال کے جواب کے لئے ماضی بعید کے چنگیز خان ،ہلاکوخان اور ماضی قریب کے ہٹلر،مسولینی ،نپولین،شاہ ایران اور جمال عبد الناصر جیسے لوگوں کے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں جن کے افعال سے خود شرم بھی شرم سے پانی پانی ہوگیا حال آں کہ یہ لوگ بھی مذہب کو سیاست سے دور رکھنے کے قائل تھے بلکہ اپنے ملک کی کم وبیش سڑسٹھ سالہ تاریخ پرایک طائرانہ نظر ڈالناہی کافی ہوگا۔

ان سڑسٹھ سالوں کاقریبا آدھا حصہ فوجی حکمرانوں نے گذارا۔پاکستان کو کشکول گدائی پر ڈالنے،کشمیر کے ایشو کو خود اپنے ہاتھوں سے کمزور کرنے،پاکستان کو دولخت کرنے ،جمہوریت کا تختہ اُلٹنے اور ریاست کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے اِن حکمرانوں نے یہ سب کچھ مذہب کی بنیاد پر کیا؟؟؟ضیاء الحق کا نام لے کر حقائق کو مسخ نہیں کیا جا سکتا۔

آدھازمانہ سیاستدانوں کی طبع آزمائی میں گذر گیا۔اِن سیاستدانوں میں ــ’اِدھر ہم اُدھر تم‘ کا نعرہ لگانے والا مذہب کا نام لیوا تھا؟؟ اربوں کھربوں روپے سویس بینک میں جمع کرنے والے مذہب کے’ ٹھیکدار‘تھے؟؟؟بیرونِ ملک طوائفوں پر ڈالر نچھاور کرنے والے مذہبی جماعت کے لوگ تھے ؟؟؟ عدالت میں پیشی کس کی ہوئی اور کون وزارتِ عظمٰی سے ہٹایا گیا؟؟آج تک بجلی چوری میں پیشیاں کون بھگت رہا ہے؟؟؟ این ،آر، اُو کی چھتری تلے قرضے معاف کرنے والے کون تھے؟؟ایسی ہزاروں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جس میں انسانیت کو شرمانے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے مذہب کو سیاست سے دور رکھا ۔اِس کے بر عکس ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کو اور خصوصا اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھنے والے رُسوائی کے اِس دلدل سے دور رہے ۔اِس حقیقت کے باوجود اگر کوئی شخص اِسلام پر کیچڑ اچھالتا ہے تو اِس کو سوائے اُس کی احساسِ کمتری اور مریضانہ ذہنیت کے اور کیا کہا جا سکتا ہے؟؟؟تاریخِ پاکستان ہو یا تاریخِ عالم جن لوگوں نے مذہب کو بیچ سے نکالا انہوں نے بہیمیت کی تاریخ رقم کی۔یہ مذہب ہی ہے جو انسان کے دل میں خدا خوفی پیداکرکے اُس کو حیوان بننے سے روکتا ہے ورنہ انسان کو حیوان بن کر چنگیزیت پر اُتر آنے مین دیر نہیں لگتی۔اِس لئے اقبال نے کہاتھا’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘

Farhad Ali
About the Author: Farhad Ali Read More Articles by Farhad Ali: 4 Articles with 10601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.