نوماہ کا بچہ کس سے فریادکرے؟

جدید دور میں حسب روایت پنجاب پولیس کی کاروائیوں میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آتی رہتی ہے۔لیکن چند ماہ میں آنے والی تبدیلیاں کچھ یوں رہیں کہ تھانہ مسلم ٹاون پولیس نے روائتی’’ پْھرتیوں‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 9 ماہ کے شیر خوار بچے موسیٰ کو اقدام قتل اور کار سرکار میں مداخلت جیسے سنگین نوعیت کے مقدمہ میں نامزد کردیا بچہ اپنے دادا و باپ کی گود میں بیٹھ کر ضمانت کروانے سیشن عدالت پہنچ گیا عدالت نے ضمانت منظور کر لی اور 12 اپریل کو پولیس کو طلب کر لیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے مقدمہ درج کرنے کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی جبکہ قائم مقام ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار نے بچے پر مقدمہ درج کرنے پر تھانہ مسلم ٹاؤن کے اے ایس آئی کو معطل کر دیا۔ تھانہ مسلم ٹاؤن پولیس کے اے ایس آئی راشد نے زیر دفعہ 324/353 کے علاوہ دیگر دفعات کے تحت 30افراد کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا وہ محکمہ سوئی گیس کے ہمراہ علاقہ میں گیس چوری پکڑنے کے لئے چھاپہ مارنے کے لئے گئے جہاں پر محلے داروں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس پارٹی پر قاتلانہ حملہ کیا اور کار سرکار میں مداخلت کی جس میں پولیس نے پانچ افراد جن میں عرفان، عمران، طارق، ایمی اور اس کے 9 ماہ کے شیر خوار بیٹے موسیٰ کو نامزد ملزم ٹھہرایا جبکہ دیگر 25 افراد کو نامعلوم ظاہر کیا گیا جس پر نامزد ملزمان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رفاقت علی قمر کی عدالت میں عبوری ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے پہنچ گئے اس وقت کمرہ عدالت میں رش لگ گیا جب مقدمہ میں نامزد ملزم 9 ماہ کا شیرخوار منہ میں دودھ کا فیڈر لئے اپنے باپ کی گود میں بیٹھ کر اپنے وکیل عرفان صادق تارڑ کے ہمراہ فاضل جج کے روبرو پیش ہوا عدالت نے انتہائی تعجب کا اظہار کیا۔ سنگین نوعیت کے مقدمہ میں عدالت کے روبرو شیر خوار بچے کے پیش ہونے کی خبر سیشن کورٹ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اس موقعہ پر لوگوں نے پولیس کی کارکردگی پر شدید مذمت کی تاہم فاضل جج نے شیر خوار کی ضمانت کنفرم جبکہ دیگر ملزموں کی پچاس پچاس ہزار کے مچلکوں پر ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس تھانہ مسلم ٹاؤن اور مدعی مقدمہ اے ایس آئی راشد کو طلب کیا ہے ۔

بچے کے والدین محمد موسی کو گود میں اٹھا کر جج رفاقت علی کی سیشن عدالت میں پہنچ گئے ۔ عدالت نے پولیس پر برہمی کا اظہار کیا اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ دل تو کرتا ہے آپ کو ابھی جیل بھجوا دوں تاہم کل آپ کے اعلیٰ پولیس افسران کے سامنے پوچھ گچھ کروں گا کیا پولیس کی یہی کارکردگی ہے کہ وہ اصل ملزمان کو پکڑنے کے بجائے 9 ماہ کے بچے پر مقدمہ درج کر دیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام پولیس پر اعتماد نہیں کرتے اور شدید پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ عدالت نے پولیس سے استفسار کیا کہ آپ نے کیا سوچ کر 9 ماہ کے محمد موسی کے خلاف مقدمہ درج کیا یہ تو اپنا فیڈر تک نہیں اٹھا سکتا تو آپ کو مارنے کیلئے ہتھیار کیسے اٹھائے گا۔

ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کے نواحی علاقے میر ہزار خان کی بستی بھنڈی والی کی رہائشی فرسٹ ایئر کی طالبہ آمنہ کے خود سوزی کے واقعہ نے اہل علاقہ کے ساتھ پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی ’’ہلا‘‘ کر رکھ دیا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب متاثرہ خاندان سے اظہار تعزیت کے لئے تحصیل جتوئی پہنچے ۔ انہوں نے وقوعہ کے اصل حقائق جاننے کے بعد آر پی او ڈی جی خان امین وینس کو او ایس ڈی‘ ڈی ایس پی مظفرگڑھ‘ ایس ایچ او اور تفتیشی کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے ۔ انہوں نے 5 لاکھ کا امدادی چیک دینے کے ساتھ ساتھ متوفیہ کے بھائی کے لئے نوکری کا بھی اعلان کیا۔بدقسمت آمنہ کی خود سوزی کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے ۔ چند ماہ قبل علاقے کے بدقماش بااثر شیطان صفت انسان نادر بھنڈ نے آمنہ کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ متاثرہ لڑکی اپنے والدین کے ساتھ متعلقہ تھانے پہنچی اور ملزمان کے خلاف پرچہ درج کرایا مگر تفتیشی افسر نے رشوت لے کر ملزمان کو بے گناہ اور زیادتی کے واقعہ کو بے بنیاد قرار دیا۔ تفتیشی کی رپورٹ پر ہونے والے فیصلے نے متاثرہ خاندان کو مایوس کر دیا۔

خود سوزی وقوعہ کے روز ملزمان نے راہ جاتی آمنہ کا راستہ روک کر تضحیک کی اور طنزیہ جملے کسنے شروع کر دئے ۔ بتایا جاتاہے کہ ملزم نے اس موقع پر مٹھائی بھی تقسیم کی جس پر متاثرہ طالبہ آمنہ طیش میں آ گئی اور انصاف نہ ملنے پر متعلقہ تھانے کے سامنے پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا لی۔ موقع پر موجود بعض لوگوں کے مطابق آمنہ کو خود سوزی پر میڈیا کے بعض افراد نے اکسایا تاکہ خبر کو ہائی لائٹ کر کے اعلیٰ سطح پر انصاف کا مطالبہ کیا جا سکے مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے پٹرول کی آگ تو چند لمحوں میں ہی جلا کر راکھ کر دیتی ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے آمنہ بی بی شعلوں کی نذر ہونے لگی تو متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے مٹی پھینک کر آگ تو بجھا لی مگر وہ آمنہ کو نہ بچا سکے ۔ 80 فیصد جلنے والی آمنہ کئی گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد نشتر ہسپتال ملتان میں زندگی کی بازی ہار گئی۔ آمنہ کی موت کی خبر جب علاقے میں پہنچی تو کہرام برپا ہو گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ مانگی اور اگلے روز خود متاثرہ خاندان سے اظہار افسوس کے لئے پہنچے ۔ وزیراعلیٰ نے تمام حقائق معلوم کرنے کے بعد ڈی ایس پی مظفرگڑھ چودھری اصغر‘ ایس ایچ او تھانہ بیٹ میر ہزار خان اور تفتیشی افسر رانا ذوالفقار کو فوری گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے ۔ انہوں نے ڈی پی او مظفرگڑھ عثمان اکرم گوندل کو معطل اور آر پی او ڈیرہ غازی خان عبدالقادر قیوم کو فوری او ایس ڈی بنانے کا حکم جاری کیا۔ وزیراعلیٰ نے آر پی او ڈیرہ غازی خان اور ڈی پی او مظفرگڑھ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کے بعد بروقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور فرانزک سائنس لیبارٹری سے ضروری ٹیسٹ کیوں نہیں کرائے گئے ؟ تفتیشی افسر کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی؟ یہ افسوسناک واقعہ انصاف کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے ۔ پولیس نے انصاف کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ ابھی تک تفتیشی افسر‘ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ وزیراعلیٰ نے کہا کہ علاقے میں اتنے بڑے ظلم اور ناانصافی پر پولیس اور قانون بے بس پایا گیا جو کہ افسوس ناک بات ہے ۔ پولیس تفتیش میں کوتاہی کے باعث یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے فاتحہ خوانی کے بعد متوفیہ کے رشتے داروں سے بھی ملاقات کی اور انہیں دلاسہ دیا کہ متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کیا جائے گا اور غفلت کے مرتکب اہلکار سزا سے نہیں بچ پائیں گے ۔ ملزموں کو کیفر کزدار تک پہنچائیں گے اور آمنہ بی بی کے خاندان کو ہر قیمت پر انصاف دلاوں گا۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے تقریباً ایک گھنٹہ متاثرہ والدین کے ساتھ گزارا۔ وہ کرسی پر بیٹھنے کی بجائے دری پر آمنہ کے والد اور والدہ کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ اعلیٰ افسران کو بھی وہاں بیٹھنا پڑا۔ملزم کی والدہ نادر نے اپنے موقف میں کہا آمنہ بی بی کی بہن نے میرے بیٹے جعفر سے پسند کی شادی کی۔ اس کے والد نے صلح کے بدلے ایک بیگھہ زمین لے کر صلح کی اور اب ہمارے مویشی حصہ پر آمنہ بی بی کے والد کے پاس تھے جو کہ اس نے غائب کر دئیے تھے اور میرے بیٹے نادر نے مویشیوں کی واپسی کے لئے جتوئی جسٹس آف پیس کی عدالت میں رٹ دائر کر رکھی ہے ۔ انہوں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ واقعہ کی تفتیش میرٹ پر کی جائے ۔ اگر میرا بیٹا ملوث ہو تو سخت سزا دی جائے بصورت دیگر اسے رہا کیا جائے ۔ جبکہ متوفیہ کے والد غلام فرید‘ والدہ نظام مائی‘ بھارت رحمت اﷲ اور دیگر نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران بتایا کہ میر ہزار خان پولیس اگر انصاف کے تقاضے پورے کرتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ آمنہ مائی کے ملزمان کے سرپرست سابق ایم پی اے کے بھائی ہیں جس نے اپنے سیاسی اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ملزمان کو بے گناہ کرایا۔ اس حوالے سے ایم پی اے حلقہ 259 خان محمد جتوئی نے کہا یہ ہمارے پاس نہیں آئے ۔ ہمارے پاس آ جاتے تو ہم انہیں انصاف لاتے ۔ جس کو دکھ ہوتا ہے جس کو تکلیف ہوتی ہے وہ ہمارے پاس چل کر آتے ہیں ۔ ہمیں کیا پتہ کس کو کیا تکلیف ہے ۔ ہم مذمت کرتے ہیں جنہوں نے یہ کیا ہے انہیں کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کی ایسی کاروائیوں سے اس بات کا اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ پنجاب کے پولیس جس پر سالانہ اربوں روپے خرچ کیا جاتا ہے وہ معاشرہ کو کیسا اور کسی طرح انصاف مہیا کرسکتی ہے ایوان اقتدارمیں بیٹھے لوگوں کیلئے ایسے واقعات لمحہ فکریہ ہیں کہ اقتدار ختم ہونے کے بعد ان کے ساتھ پولیس کا رویہ کیساہوگا؟
 
Syed Arif Nonari
About the Author: Syed Arif Nonari Read More Articles by Syed Arif Nonari: 12 Articles with 6956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.