شیطانی خیالات کی بنیادیں

 خیالات کا ایک دھارا ہے جو ہمارے دل و دماغ میں چل رہا ہے ۔ایک کے بعد ایک خیال ہمارے ذہن کے پردے پر نمودار ہو تا ہے جس کے پیچھے ہماری سوچ لپکتی ہے ۔ خیال اور سوچ الگ الگ اصطلاحیں ہیں ۔جس تیزی سے کسی چیز کے متعلق ، ہماری ترجیحات ترتیب پاتی ہیں اسی تیزی سے خیالات کا آنا جانا متعین ہوتا ہے ۔کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کا خیال ، اس چیز سے متعلق کوئی بھی امکانی صورت ہے جس کی ابتدائی شکل ہمارے ذہن میں جنم لیتی ہے ۔ ہمارا خیال ، نظرئیے سے تصدیق کے مراحل طے ہونے تک ، ہماری سوچ کہلاتا ہے ۔

اﷲ تعالی اتنا زبردست ہے کہ ہمارے نفس میں اٹھنے والے ایسے خیال بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہیں : سورہ نمبر 50 ، سورہ ق ، کی آیت نمبر 16 میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں : (۔۔۔۔ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ اور اس کے نفس میں جو خیالات اٹھتے ہیں ہم ان سے بھی واقف ہیں اور ہم اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔۔۔۔)

ایک صحت مند دماغ میں کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے متعلق سوچ کی ابتداء کیلئے اس چیز سے متعلق محرکات یا اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ بچپن سے آگے کسی بھی دور تک چیز کے متعلق حاصل شدہ معلومات
۲۔امکانی صورت ِ حال کا خاکہ
۳۔ جبلتیں ( تجسس ، ملکیت کا احساس ، وغیرہ )
۴۔ حواس ِ خمسہ ( آنکھ ، کان ، جلد یا صرف دماغ سے صرف احساسات کے ذریعے بھی بینائی و شنوائی سے محروم لوگ سوچ کا عمل شروع کر لیتے ہیں )
۵۔ ارادہ ( نیت )
۶۔ ترجیحات ( ضرورت ،مجبوری وغیرہ )

تجسس انسان کی جبلت ہے جسکے تحت ہم ہر نئی چیز کو اختیار کرنے کے لئے بے چین ہوجاتے ہیں۔ اس چیز سے متعلق کسی عمل کے ممکن ہونے کے امکانات بھی اہمیت رکھتے ہیں ۔ مثلاً جب پاکستان میں سب سے پہلے کسی شخص نے موبائیل کے متعلق معلومات کو سنا ہو گا تو ان معلومات کو رفتہ رفتہ اکٹھا کرتا چلا گیا ہوگا ۔اس کے رنگ ، ہئیت ، سائز ، قیمت ، برتنے کے طریقے ، اور اس کے د یگر فوائد کو ذہن میں سٹور کر لیا اور موبائیل کا ایک ابتدائی خیال اور اس سے متعلق ابتدائی ترجیحات ذہن میں قائم کر لیں اور موبائیل اور اپنی زندگی سے متعلق مختلف امکانات کے مختلف دیگر متعلقات کی ایک شکل بھی اس کے دماغ میں جنم لیتی چلی ہو گی ۔

پھر ایک دن موبایئل پا لینے اور برتنے پر ذہن میں موجود خیالات کی عملاً تصدیق کے بعد اسے معلوم ہوگیا کہ موبائیل اس کی طے کردہ ترجیحات کے مطابق ایک فائدہ مند چیز ہے تو اس شخص نے اپنے مذہبی نظریات سے اس کے جائز ہونے کی تصدیق کے بعد حتمی طور پر موبائیل کا استعمال شروع کر دیا ۔ اس ترتیب میں فرق بھی ہو سکتا ہے ۔ شروع میں ہی محض ابتدائی معلومات کے بعد ہی قائم شدہ نظرئیے سے کسی چیز کے اختیار کرنے یا کسی کام کے کر گذرنے کا فیصلہ ہو سکتا ہے اس بات کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کسی چیز کے متعلق کس قدر محتاط اور کس قدر تحقیقات کرنے کے عادی ہیں ۔ہماری سوچیں ، دن کے ہر پل اسی طرح خود کار طریقے سے کام کرتی ہیں ۔

اگر آپ دی گئی مثال کے مطابق سلسلہ وار ترتیب دیکھیں تو کسی بھی مادی یا غیر مادی چیز کے منفی یا مثبت پہلوؤں کے اعتبار سے نیت کو اولاً ذہن میں رکھتے ہوئے کسی خیال کے اجزائے ترکیبی کی ترتیب یہ ہوئی :
۱۔نیت
۲۔ معلومات
۳۔ معلومات کا تجزیہ
۴۔معلومات پر مبنی عملی تجربہ ( چاہے وہ سوچ ہی سوچ میں گیان کی طاقت سے ہو جائے )
۵۔ چیز سے متعلق سوچے گئے امکانات کی عملی تصدیق ۔
۶۔ فیصلہ / عمل

کسی شخصیت کے متعلق بھی ہماری سوچ کا تقریباً یہی Pattern ترتیب پاتا ہے ۔ اس میں نیت کو محض اجزائے ترکیبی کی حد تک ہی ابتداء میں رکھا ہے ورنہ نیت عمل سے پہلے سوچ کے ان تمام مراحل میں کسی بھی درجے میں اپنا عمل دکھا کر حتمی فیصلے پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ بعض صورتوں میں آخری فیصلے کے لئے تصدیق ، ہمارا تکنیکی علم یا مذہبی رویہ کرتا ہے ۔ تکنیکی علم کے حوالے سے چیز کی موزونیت ، ذاتی پسند نا پسند اور معاشرتی دباؤ اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ بعض لوگوں میں مذہب کی صورت میں ان کا مذہبی نظریہ اس چیز کے متعلق حتمی رائے یا فیصلے کے لئے کردار ادا کرتا ہے ۔ایسے لوگوں کے لئے معاشرتی دباؤ کے برعکس اپنے مذہبی نظریئے سے تصدیق کے بعد ہی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے دلی سکون ہوتا ہے ۔ اس قسم کے نفس کو نفس ِ مطمئنہ یا نفس ِ لوامہ کہا گیا ہے ۔

اوپر بیان کردہ چھے نکات ایک مکمل انسانی سوچ کی تکمیل کے مدارج ہیں ۔ بعض معاملات میں سوچ کے عمل کے دوران ، ہم محض معلومات اور ان کے تجزئیے کے مدارج ہی طے کرتے ہیں ۔مثلاً کسی شخص کی بنیادی معلومات ملنے پر ہم نے ان کا تجزئیہ کیا اور وہ تجزیہ ء شدہ معلومات ذہن میں جمع کر لیں ۔ پھر کہیں ضرورت پڑنے پر اس تجزئیے کا استعمال کر لیا ۔ اس حد تک ہی سوچ کا عمل ختم ہو گیا ۔ بعض دفعہ اس سے آگے کے مدارج بھی ضرورت پڑنے پر پورے کئے جاتے ہیں ۔سوچ کا یہ عمل کسی بھی درجے تک کا ہو یہ صحیح ہے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ آپ کا درست اسلامی نظریہء کرے گا ۔ اس طرح اسلام میں علم یعنی حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

سوچ کا یہ عمل بعض صورتوں میں چند سیکنڈز میں مکمل اور بعض اوقات ساری زندگی جاری رہتا ہے ۔ مثلاً سوچ کا یہ عمل مختلف حوالوں سے علمی سطح پر تمام زندگی جاری رہتا ہے لیکن مثلاً کسی چیز کے خریدنے کا فیصلہ کرنے کے اعتبار سے چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے ۔ علمی سوچ کا عمل ساری زندگی اس لئے جاری رہتا ہے کیونکہ کسی مادی یا غیر مادی چیز کے متعلق حتمی علم کی تصدیق کا مسئلہ درپیش رہتا ہے جبکہ کسی چیز کے خریدنے کی سوچ کا فیصلہ چند سیکنڈز میں اس لئے ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی تصدیق اور حتمی رائے تک کے مراحل مکمل ہو چکے ہوتے ہیں ۔

زندگی سے متعلق مادی ، غیر مادی اشیاء اور متعدد شخصیات کے حوالے سے ہمارے ذہن میں معلومات پر مبنی ایک ً نظریاتی ماخذ ً یا Ideological Data Base ً رفتہ رفتہ وجود میں آتا چلا جاتا ہے جس میں ہمارا مذہبی نظریہ ، معاشرتی نظریہ ، معاشی نظریہ وغیرہ وغیرہ ، ہماری اپنی ذاتی نفسیات ، مذہبی رجحان ، معاشرت ، معاش اور تعلیم وغیرہ کے پس ِ منظر کے ساتھ ، اپنے اپنے حلقہء عمل داری میں جگہ بناتے چلے جاتے ہیں ۔

بچپن سے لڑکپن تک اور بعض صورتوں میں بلوغت تک بھی محض ایک ً معلوماتی ماخذ ً یا Information Data Base بنتا ہے ۔ ایک سکول جانے والے بچے میں ہم اسی Information Data Base کے ذخیرے میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے متمنی ہوتے ہیں ۔ لڑکپن میں کبھی اس Information Data Base میں ہمیں Ideological Data Base کی ایک جھلک بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے ۔

اﷲ تعالی نے ، دنیا کے کرڑوں انسانوں کے معاشی اور سماجی انجن کی بھر پور حرکت کو انسانی جبلتوں اور نظرئیے کا مرہون ِ منت کر دیا ہے۔ اﷲ تعالی نے یہ تانہ بانہ اس خوبصورتی سے بنا ہے کہ ایک تو انسانوں کے لئے زندگی کے اس دھارے میں شامل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا اور دوسرا یہ کہ انسانی نظریات ہم میں سے ہر ایک کی زندگی کی تمام تر عملی Dynamics اور Mechanics کو متعین کرتے ہیں ۔ ً نظریہ ً یا ً ایمان ً انسانوں کے مابین مائل بہ زندگی خود کاریت( Automation ) کا باعث ہے ۔

اﷲ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے کسی دوسرے شخص کی جان ، مال اور عزت کو آپ سے قیامت تک کے لئے محفوظ بنا دیا ہے ۔ آپ کے اچھے یا برے خیالات کا تعین آپ کے Information Data Base میں موجود جمع شدہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے جانے بغیر ممکن نہیں ۔ نہ جانے یہ دونوں حقوق کس علمی معیار کے ساتھ آپ کے ذہن میں موجود ہیں ۔ ؟ یہ بھی کہ آپ کس معیار کے ساتھ ان پر عمل کرنا چاہتے ہیں ؟ آپ کس سطح پر اور کس پیمانے کے ساتھ ان حقوق میں سے کس میں ڈنڈی مارنے کی نیت اختیار کر لیتے ہیں ؟ یہ سب آپ ہی جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالی نے قرآن ِ مجید میں فرمایا ہے کہ انسان خود اپنا گواہ کافی ہے ۔

آپ کے ذہن میں آنے والے اچھے یا برے خیالات کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ آپ اﷲ تعالی اور کسی بندے کے متعلق کس قدر کسی خود ساختہ بد گمانی کا شکار ہیں ؟ مثلاً کچھ لوگ جو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے ذہنوں میں زنا بالجبر ، جنسی تشدد ، اذدواجی نا انصافی کے متعلق کوئی برا خیال ڈالنا شیطان کے لئے کیا مشکل ہے ؟ نفس ِ امارہ ایسے بدگمان لوگوں کو کنٹرول کرتا ہے ۔

قرآن ِ مجید میں ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ ہم تو اصلاح کے لئے مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ اﷲ تعالی کے آگے اپنے عمل کی جواب دیہی کے حوالے سے بدگمانی کرتے ہوئے یہو دی کہتے تھے کہ دوزخ کی آگ ہمیں چند دنوں کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی ۔ حضرت عیسی ؑ کے امتی یہ سمجھتے رہے کہ حضرت عیسی ؑ نے سولی چڑھ کر ہم سب کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے ، اب ہمیں سات خون معاف ہیں ۔

ہم مسلمانوں کو بھی بغور دیکھتے رہنا چاہئے کہ کیا ہم نے بھی حضور پاک ﷺ کی شفاعت کے حوالے سے ایسی ہی کوئی ایک رائے تو قائم نہیں کر لی ہے ۔ ؟ اگر ہم معصوم لوگوں کو مسجدوں ، گرجوں اور مندروں میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے اس لئے مارتے ہیں کہ ہم معاشرے کی اصلاح کر رہے ہیں تو ہم یقیناً اﷲ تعالی اور حضرت محمد ﷺ کے حوالے سے کسی نہ کسی بدگمانی کا شکار ضرور ہیں ۔ معصوم لوگوں کو آخر کسی بھی جواز کے تحت کس طرح موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے ۔ ؟ ورنہ حضور پاک ﷺ اگر اپنی زندگی میں کسی صحابی ؓ کو دشمنوں میں جاسوسی کرنے کے لئے بھیج سکتے تھے تو وہاں اس وقت کے لحاظ سے کوئی تباہی پھیلانے کے لئے بھی تو بھیج سکتے تھے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کے آگے جواب دیہی کے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی بدگمانی ہمارے شیطانی خیالات اور اعمال کی ایک بنیاد ہو سکتی ہے ۔

کسی بھی مادی ، غیر مادی چیز یا انسان سے متعلق کسی امکانی صورت کے حوالے سے بدگمانی اور اس سے اگلے قدم پر بدنیتی ، انسان کا اپنا اختیاری عمل ہے جسکی موجودگی میں شیطان انسانوں کو مزید آگے گناہوں کی دلدل میں گھسیٹتا چلا جاتا ہے ۔ بدگمانی کی شکل میں خیال ہو یا سوچ کسی بھی طرح سے غیر اہم نہیں ہے ۔ ہمیں اپنے ً Ideological Data Base ً پر مسلسل نظر رکھے رہنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اﷲ تعالی کی مرضی اور حضور پاک ﷺ کی اتباع میں ترتیب پا رہا ہے یا اس میں ہماری مرضی اور منشا کا عمل دخل زیادہ ہے ۔ اگر اس ً Ideological Data Base ً میں ہماری مرضی کا عمل دخل زیادہ ہے تو یہ ہماری اندھی مرضی یا ہمارا اندھا دل کہلائے گا کیونکہ ہم اس کے ذریعے سے ہی حالات و واقعات کو پرکھتے اور غلط فیصلے کرتے ہیں ۔ سورہ الحج کی آیت 46 میں اسی کے متعلق کہا ہے کہ : (۔۔۔صرف
آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔۔۔۔۔) اﷲ تعالی کی یہ آیت نہ صرف نابینا افراد کے لئے حوصلہ افزاء ہے بلکہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک دفعہ ابتدائے آفرینش میں ابلیس اندھے دل کے فیصلے کی بھینٹ چڑھا تھا تو کیا آج کا انسان بھی ایسا ہی کچھ کرنا چاہتا ہے ؟

ایک خیال سے ہمارے نظریات اور پھر اعمال جنم لیتے ہیں جو ہمیں جنت یا دوزخ میں لے جا سکتے ہیں ۔ سورہ نمبر 41 ، سورہ حم السجدہ کی آیات نمبر 22 اور 23 میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : (۔۔۔بلکہ تم یہ خیال کرتے تھے کہ اﷲ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر ہی نہیں ، اور اسی خیال نے جو تم اﷲ کے بارے میں رکھتے تھے ، تم کو ہلاک کر دیا اور تم خسارے میں پڑ گئے ۔۔۔۔)

( اختتام )
Farhat Ali Baig
About the Author: Farhat Ali Baig Read More Articles by Farhat Ali Baig: 2 Articles with 2033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.