معالجہ

کتنی عجیب اور تلخ حقیقت ہے‘ کہ ہمارے دوست اور دشمن کا فیصلہ‘ دوسرے کرتے ہیں اور ہم ناصرف اسے تسلیم کر لیتے ہیں‘ بلکہ ہماری پوری زندگی‘ اس کیے گیے فیصلے کے گرد‘ گھومتی رہتی ہے۔ آتی نسلوں کی‘ اس سے‘ عقیدت یا نفرت کے‘ جذبات شامل ہو جاتے ہیں۔ انہیں رفتہ کے طے شدہ‘ کے خلاف بات کرنا تو بڑی دور کی بات‘ سننا بھی ناگوار گزرتا ہے۔

ہماری ماں کی‘ تائی اماں سے کبھی بھی‘ نہیں بنی تھی۔ انہیں‘ تائی اماں کے ہر اچھے میں بھی‘ برائی نظر آتی تھی۔ وہ ان کی بھلائی کو بھی‘ اپنے ساتھ سازش کا نام دیتی تھیں اور پھر وہ رولا ڈالتیں‘ کہ خدا کی پناہ۔ ایک بار‘ بھائی نوید تائی اماں کے پاس کھڑے تھے‘ ہماری ماں نے‘ بڑا زبردست ہنگامہ کھڑا کیا۔ ان کا موقف تھا‘ کہ تائی حاجرہ اسے الٹی سیدھی پٹی پڑھا رہی ہے۔ ابا نے بھی‘ اس معاملے کو سیریس لیا۔ بھائی صاحب کی خوب پٹائی ہوئی۔ تایا بھی غصہ میں آگیے‘ دونوں بھائیوں کی خوب تو تکرار ہوئی۔

اس آئے دن کے‘ بات بات پر‘ جھگڑے اور تو تو میں میں سے تنگ آ کر‘ ابا نے رہائش ہی بدلنے کی ٹھان لی۔ ہم دادا ابو کا مکان چھوڑ کر‘ کرائے کے مکان میں اٹھ آئے۔ ماں نے‘ سوئی سوئی کنج لی اور خالی کمرے پر تالا چڑھا دیا۔

مالک مکان بالائی منزل پر رہتے تھے اور ہمیں زیرین منزل ملی تھی۔ دو کمرے اور ان کے سامنے برآمدہ تھا۔ باروچی خانہ‘ صاف ستھرا تو نہ تھا‘ ہاں اس کے ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ یہ ہی حال‘ غسل خانے کا تھا۔ ہاں البتہ بیٹھک کی حالت بہتر تھی۔ دادا ابو کے گھر میں‘ ہمیں صرف ایک کمرہ ملا تھا۔ وہ ایک کمرہ‘ یادوں اور محبتوں کی خوش بو سے لبریز تھا۔ اس کا ماحول‘ دادا ابو کی باتوں اور مسکراہٹوں میں رچا بسا تھا۔ وہ کبھی خالی ہاتھ‘ گھر نہ آئے تھے۔ جب بھی باہر سے آتے‘ ہم بچوں کے لیے‘ کچھ ناکچھ ضرور لے کر آتے۔ خود بانٹ کرتے تھے۔ سب بچوں میں برابر تقسیم کرتے۔ گھر میں کوئی چیز‘ جب دادو انہیں دیتیں‘ تو اس میں سے بھی‘ ہم بچوں کو دے دیتے۔ دادو کہتیں‘ آپ کھائیں‘ میں ان کو مزید دے دوں گی۔ وہ ان کی بات‘ سنی ان سنی کر دیتے۔

الله انہیں کروٹ کروٹ جنت دے‘ ہم سب کو وہ بڑا عزیز رکھتے تھے۔ میری امی ان سے بھی الجھ الجھ پڑتیں۔ وہ کسی بحث کی بجائے‘ مسکرا دیتے۔ ابا نے کئی بار کہا‘ میرے ابا امی سے نہ الجھا کرو۔ وہ ابا کی کب سنتی تھیں۔ امی‘ دادا ابو کی سگی بھتیجی تھیں۔ ان کا خیال تھا‘ کہ اپنی لانے سے‘ گھر میں پیار اور سکون ہو گا۔ ان کی خدمت کریں گی‘ مگر کہاں؟ یہ سب خیالی سا ہو کر رہ گیا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود‘ دادا ابو نے گھر بکھرنے نہ دیا تھا-

یہاں کرایہ کے مکان میں‘ دادا ابو اور دادو کی مسکانیں نہ تھیں۔ کسی گوشے میں بھی‘ ان کی یادوں کی مہک موجود نہ تھی۔ ہاں‘ چالیس روپے کرائے کا ابا پر بوجھ آ پڑا تھا۔ ہم سے کوئی کھیل کے دوران شور کرتا‘ تو مالک مکان اوپر سے ڈانٹ پلاتا۔ دن بھر مالک مکان کی بیوی بڑ بڑ کرتی رہتی۔ بعض اوقات واضح الفاظ میں‘ امی کی سرزنش کرتی۔ امی تھی کہ چوں تک نہ کرتی۔ ہاں بڑی باریک آواز میں‘ کھری کھری سناتی۔ ایک دن‘ ذرا اونچی آواز میں‘ کچھ کہہ گئیں۔ شام کو‘ مالک مکان نے‘ ابو سے کچھ پوچھے بغیر‘ مکان سے جواب دیا۔ اس کی زوجہ کہہ رہی تھی‘ لہذا غلط تو نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ہمیں شریف لوگ سمجھ رہے تھے‘ لیکن اب مکان سے جواب ہونے پر‘ ہماری شرافت کا گراف‘ زیرو سے بھی‘ نیچے چلا گیا۔

ابا مکان سے جواب مل جانے پر پریشان تھے‘ لیکن ہماری امی کی سنائی ہوئی کہانی کے باعث‘ غصہ میں بھی تھے۔ وہ کہہ رہے تھے‘ کہ مالک مکان نے ہمیں کمی کمین سمجھ رکھا ہے۔ ہم باعزت لوگ ہیں۔ مفت تھوڑا رہ رہے ہیں‘ کرایہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں سمجھ کیا رکھا ہے۔ امی نے جتنا بھرا‘ اس سے لگ رہا تھا‘ کہ ابا مالک مکان کو قتل ہی کر دیں گے۔ ابا نے کہا‘ واپس اپنے مکان میں چلتے ہیں۔ امی نے صاف جواب دے دیا۔ انہوں نے کہا‘ مر جاؤں واپس نہیں جاؤں گی۔

ہمیں یکے بعد دیگرے‘ تین مکان بدلنے پڑے۔ ہر بار‘ کوئی ناکوئی مسلہ کھڑا ہو جاتا۔ پھر طے یہ ہوا‘ دادا کی جائیداد سے حصہ لے کر‘ کوئی ذاتی مکان ہی خرید لیا جائے۔ دادا کی جائےداد میں سے‘ سترہ سو ملے اور ہم دین پور اٹھ آئے۔ مکان کی تعمیر وغیرہ میں‘ ابا چھے سو بائیس روپے کے نیچے آ گیے۔ قرض کے سبب‘ ہمارا ہاتھ تنگ پڑ گیا۔ گھر میں بےسکونی سی پڑ گئی۔ ابا اور امی کی‘ ہر وقت کڑکڑ رہنے لگی۔ تنگ دستی کے سبب‘ ہم بہن بھائی بھی متاثر ہوئے۔ بدقسمتی کی بات یہ تھی‘ کہ لڑائی اس وقت شروع ہوتی‘ جب ہم کھانا کھانے لگتے۔ کھانا‘ کھانا حرام ہو جاتا۔ ابا جب کام پر جانے لگتے یا کام سے واپس آتے‘ کوئی ناکوئی‘ ایسی بات ضرور ہو جاتی‘ جس کے باعث‘ گھر کا ماحول تلخ ہو جاتا۔

ابا اپنے بھائی کی‘ ہمیشہ کمی محسوس کرتے‘ لیکن منہ سے‘ حرف بھی نکال نہیں سکتے تھے۔ ان کے چہرے پر بکھری بےبسی‘ دیکھی نہیں جاتی تھی۔ خدا معلوم‘ اپنے آنسو کس طرح ضبط کرتے ہوں گے۔ ایک دن ہمارے گھر میں عجب ان ہونی ہوئی۔ ابا گرج رہے‘ اور امی کی آواز‘ ان کی آواز کے نیچے‘ دب رہی تھی۔ وہ تایا کی بیٹی‘ میرے بڑے بھائی مدثر کے لیے‘ لانا چاہتے تھے۔ جنگ تھی‘ کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ ابا نے‘ تاؤ میں فائرنگ شروع کر دی۔ دو چار چپت رسید تو کر بیٹھے‘ پھر الله دے اور بندہ سہے۔ پورے دس دن‘ گھر میں ناگواری رہی۔ ہمیں ڈسٹرب دیکھ کر‘ ابا کو ہھتیار ڈالنا پڑے۔ عقیلہ‘ بھائی کی پسند تھی۔ انہیں بھی‘ دل پر پتھر رکھنا پڑا۔ اس جنگ میں‘ خالہ عنایت‘ کنبہ کی ہیرو ٹھہریں جب کہ تایا ابو دشمن قرار پائے۔ ان کا جب کبھی ذکر چھڑتا‘ امی ان کے ظلم وستم کے قصے چھڑ دیتیں۔

یہ کوئی ایسی نئی بات نہ تھی۔ دوست اور دشمن کا فیصلہ طاقت ہی کرتی آئی ہے۔ ہٹلر بلاشبہ ظالم تھا۔ اس کے برعکس‘ برٹش کون سے ہل پر نہائے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے ہیرو اور محسن ہیں۔ چرچل کا نام روشن ہے‘ حالاں کہ یہ دونوں کردار ایک ہی سکہ کے‘ دو رخ تھے۔ اگر گریبان میں منہ ڈال کر دیکھا جائے‘ تو حقیقت یہ ہی نظر آئے گی‘ کہ ظالم ہم تھے۔ برصغیر کی فوج وہاں جا کر لڑی۔ دشمن اس لیے نہیں کہہ سکتے‘‘ کہ برصغیر کی فوج‘ درحقیقت برٹش گورنمنٹ کی فوج تھی اور بہت سوؤں کو زبردستی بھرتی کیا گیا تھا۔ بابر چوں کہ فاتح تھا‘ تاریخ میں بہ طور مسلم ہیرو‘ زندہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا‘ وہ بہ طور شخص کیسا تھا‘ کس سے اور کیوں لڑا‘ کسی کو جاننے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہر اچھائی اس کی طرف پھیر دی جائے گی۔ جو بھی سہی‘ دوست کون ہے اور دشمن کون ہے‘ کا فیصلہ طاقت کرتی ہے۔

آج ایک عرصہ گزر چکا ہے‘ ہم ایک دادا کی اولاد ہو کر‘ ایک دوسرے کو‘ پہچان نہیں سکتے۔ گلی بازار گزرتے ہوئے‘ ہم اپنے ہی بچوں کو پہچان نہیں سکتے۔ مجھے اس حقیقت سے انکاری نہیں‘ کہ میرے ہی گھر میں‘ اپنے پرائے اور دوست دشمن کا فیصلہ‘ ساجدہ‘ یعنی میری بیوی ہی کرتی ہے۔ ہمارے اپنے‘ پرائے کیا‘ نامعلوم اجنبی ہو گیے ہیں۔

آخر ہم‘ کب حقائق کے پیش نظر‘ خود دوست اور دشمن کا فیصلہ کریں گے۔ ہو سکتا ہے‘ ابا مرحوم نے دیوار گرانے کا‘ آخری فیصلہ کیا ہو‘ لیکن انھیں‘ طاقت کے قدموں میں ہتھیار رکھنا ہی پڑے۔ فیصلہ تو میں نے بھی کیا ہے‘ کہ اپنی بہن کلثوم کی بیٹی شازیہ‘ اپنے بیٹے‘ شکیل کے لیے لاؤں گا۔ دیکھیں‘ کیا ہوتا ہے۔ میں صدیوں سے چلے آتے‘ اصول کو‘ شکست دینے کے لیے‘ آخری حد جاؤں گا۔ میں ہر صورت میں یہ جنگ جیتنے‘ کی کوشش کروں گا۔ میری بہن غریب ہے‘ تو کیا ہوا۔ میں پلے سے‘ ساجدہ کا منہ مانگا‘ جہیز خرید کر دوں اور یہ خبر‘ اس کے فرشتوں کو بھی نہ ہو سکے گی‘ کہ اس کی بہو کا جہیز‘ میں نے خود اپنے پلے سے بنایا۔ یہ روپے پیسے‘ بچوں کے لیے ہی تو ہوتے ہیں۔ بلواسطہ سہی‘ سب کچھ جائے گا تو میرے بیٹے ہی کے گھر۔

سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘ غلط قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست مانتے ہیں اوراس رستے کا‘ زبانی کلامی احترام بھی کرتے ہیں۔ عملی طور پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔ جب یہ طور درست ہے‘ تو فتح کے لیے‘ میں کیوں‘ اس سے پہلو تہی کروں۔ سب کہتے ہیں‘ کہ جنگ‘ سیاست اور پیار کے لیے‘ منفی بھی‘ منفی نہیں‘ تو میں اس رستے کو اختیار کرکے‘ فتح کا منہ ضرور دیکھوں گا۔

ہاں مجھے یہ تاسف ضرور رہے گا‘ کہ میں نے صدیوں سے چلے آتے‘ اصول پر خط کھیچنے کے لیے‘ منفی طریقہ استعمال کیا ہے‘ لیکن کیا کروں‘ میرے پاس کوئی دوسرا رستہ موجود نہیں۔ میں بڑھاپے میں‘ اپنے باپ دادا کی طرح ذلت آمیز شکست قبول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ ذلیل ہو کر پیچھے ہٹنا‘ کوئی صحت مند عمل نہیں۔
بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔

2-11-1974
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176181 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.