چار اپریل پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن

ذوالفقار علی بھٹو شہید !!
میلے عاشقاں دے سدا لگدے رہن گے
گڑھی خدا بخش میں بھٹو میلہ
ذوالفقار علی بھٹو نے دوران اسیری کہا تھا کہ پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کی چابی میری جیب میں ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس کیا حل ہے توا نہوں کہا ’’جمہوریت کی فوری بحالی پاکستان کے مسائل کے حل کی چابی ہے……مگر افسوس اس وقت کے آمر مطلق ضیا الحق نے اس طرف توجہ نہ دی کیونکہ جالندھری جنرلوں اور ججز کو پاکستان سے زیادہ اپنے اقتدار کا دوام زیادہ عزیز تھا……ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے کے مطابق ملک میں فوری انتخابات کروادیئے جاتے اور ذاتی پسند اور نا پسند کے تحت انتخابات کے نتائیج کے حصول کے لیے جدو جہد نہ کی جا تی ……نہ ہی ایک پیپلز پارٹی خصوصا بھٹو خاندان کا راستہ روکنے کی ضد میں لسانی اور مذہبی جماعتیں تشکیل نہ دی جا تیں اور ان کی سرکاری سرپرستی نہ فرمائی جاتی تو آج پاکستان لسانی تقسیم کے ہنگاموں اور مطالبات سے محفوظ ہوتا……اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج پاکستان معاشی لحاظ اور سیاسی طور پر دنیا بھر کو لیڈ کر نے کی پوزیشن میں ہوتا ……لیکن ایسا وہ سوچتے ہیں جنہوں نے ملک اور جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہوتی ہیں……جن کا خمیر عوام میں سے ہوتا ہے ……جن کا ضمیر زندہ ہوتا ہے……ضیاء الحق کی ہزار کوششوں کے باوجود عوام کے دلوں میں نقش نام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو مٹایا نہیں جا سکا ……ذولافقار علی بھٹو شہید نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’میں گڑھی خدا بخش بھٹو کی قبر سے بھی عوام کے دلوں پر حکومت کروں گا‘‘ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ان کی شہادت کو 33 برس ہو گئے ہیں اور ان کی وراثت پیپلز پارٹی ہر بار ان کے نام ،سیاست، اور قربانی کی بدولت انتخابات میں جیت کر سرخرو ہوتی آ رہی ہے…… ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور عالم اسلام سے کیے گئے اپنے ہر وعدے کو نبھایا ہے عالم اسلام کو یہود و نصاری کی معاشی و اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی مگر طاغوت اور استعمار کے سامنے سر نگوں ہونے سے انکار کر کے تاریخ میں امر ہو گئے ہیں……ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بات اور ایک جلسہ عام خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو ایک نہیں دو ہیں ایک میں اور ایک آپ ……‘‘’’ کیا آپ پاکستان کے لیے لڑوں گئے مروں گئے ‘‘پاکستان کو ایٹمی قوت بناؤ گئے‘‘ تو عوام کے ہجوم بیکراں نے یک زبان ہوکر جواب دیا تھا کہ ’’ہاں ہم پاکستان کیت لیے لڑیں گئے بھی اور مریں گئے بھی ‘‘اسی جلسہ عام میں ذوالفقار علی بھٹو نے جوش خطابت میں مائیک توڑ ڈالے تھے جس کو آج سیاست دان نقالی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں…… ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے عوام کو شعور کی سلطنت بخشی اور سیاست کو ڈرائینگ روم سے نکال کر مزدوروں ،کسانوں۔ہاریوں کے گھروں میں منتقل کیا اور عوامی سیاست کی بنیاد ڈالی ……انہوں نے نہ صرف عوامی سیاست کو اپنا جزو ایمان بنائے رکھا بلکہ پاکستانی سیاست کو مقتدرہ قوتوں کے چنگل سے بھی نجات دلائی ……عالم اسلام خصوصا پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے اور پاکستانی سیاست کو جاگیرداروں،وڈیروں اور اسٹبلشمنٹ کے مضبوط حصار سے آزادی دلانے استعماری نظام حکومت کی تبدیلی کے لیے انہوں نے اہم کردار ادا کیاذوالفقار علی بھٹو نے 24سال تک مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات سرانجام دے کر عوامی خدمت کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان نقوش کو عوام کے دلوں اور سرکاری فائلوں میں سے نہ کوئی اب تک نکال سکا ہے اور نہ نکال پائے گا…… انہوں نے عالم اسلام کے بکھرے ہوئے ممالک کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کی جدو جہد کی جس پر استعماری قوتقں نے ہماری اندرونی مقتدرہ قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کی سازشوں کے جال بچھائے……جس میں ہماری محب وطن سیاسی جماعتوں نے بھی نہ صرف استعماری قوتوں کا ساتھ دیا بلکہ انہیں پھانسی پر لٹکانے کے لیے اہم اور بھرپور کردار ادا کیا……پاکستان سمیت پوری دنیا کے مظلوم عوام نے جس قدر محبت اور عقیدت کے پھول ذوالفقار علی بھٹو پر نچھاور کیے ہیں دنیا میں اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔عوام کی اس عقیدت اور محبت کا ایک نمونہ یہاں میں پیش کرتا ہوں ……ایک بات کی وضاخت کرتا چلوں وہ یہ کہ اس واقعہ کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ہے اور قافلے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے گڑھی خدا بخش بھٹو کی جانب رواں دواں ہیں۔سندھ میں اپریل کے مہینے میں غضب کی گرمی ہوتی ہے ہر طرف گرمی کی ’’لو‘‘ کا راج ہوتا ہے۔ ایک قافلے کے ہمراہ میں بھی روہڑی اسٹیشن سے ہوتا ہو نو ڈیرو پہنچتا ہوں وہاں سے تین چار کلو میٹر کا فا صلہ پیدل طے کرتے ہوئے اپنی منزل ’’گڑھی خدا بخش بھٹو کی جانب گامزن ہوں……کہ میری نظر ایک ایسے ضعیف بزرگ پر جا ٹھرتی ہے جس نے اپنا جوتا اتار کر سر پر رکھا ہوا ہے اور ننگے پاؤں چلے جا رہا ہے ……گرمی کا یہ عالم کہ پکی سڑک آگ برسا رہی ہے اور برے بڑے جواں گرمی کی شدت سے نڈھال ہوئے جا رہے ہیں……میں نے آگے بڑھ کر ننگے پاؤں چلنے والے بزرگ سے پوچھا کہ ’’بابا جی آپ نے جوتا اپنے سر پر رکھا ہوا ہے اور ننگے پاؤں چل رہے ہیں اسکی کی وجہ ہے کیا جوتا اتنا مہنگا اور قیمتی ہے ‘‘…… قارئین اس ننگے پاؤں چلنے والے بزرگ نے جو جواب مجھے دیا اس نے مجھے حیران ہی نہیں پریشان بھی کر کے رکھ دیا…… بزرگ کا جواب کیا تھا سنیئے’’ پتر شہید بابا کے ’’حج‘‘ پر جا رہا ہوں سوچا کونسا روز روز آنا ہے اس لیے شہید بابا کے مزار پر ننگے پاؤں چل حاضری دے رہا ہوں۔شہید بابا ننگے پاؤں حاضری قبول کر لیں ‘‘ یہ ان خوفناک دنوں کی بات ہے جب ہر کوئی گڑھی خدا بخش نہیں پہنچ پاتا تھا…… میرے ساتھ اس سفر میں آغا نوید ، لاہور پیپلز پارٹی کی رونق سیٹھ بشیر احمد،مساوات کے ایڈیٹر جناب اسد منیر بھٹی، شرقپور شریف کے صحافی محمدصدیق طاہر شریک سفر تھے……جب ہم ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر پہنچے تو الگ نظارے ۔ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں شہید بابا کو ’’پر سہ‘‘ دے رہا تھا……اسی احاطے میں جناب بھٹو کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی محمود سے بھی گفتگو ہوئی انہوں نے بھٹو صاحب کی تدفین سے متعلق بہت سی باتیں بتائی جو میں اپنی کتاب ’’بھٹو میلہ ‘‘ کے لیے چھوڑ رہا ہوں…… ہاں تو بات ہو رہی تھی پاکستان کے عوام کی بھٹو صاحب سے محبت اور عقیدت کی۔کیا آپ نے پاکستانی تاریخ میں ایسی محبت اور عقیدت کے مناظر دیکھے ہیں۔ یقینا نہیں دیکھے ہوں گئے ……پاکستان کے عوام پر بزور طاقت گیارہ گیارہ برس حکومت کرنے والے کسی آمر کی قبر پر بھی گڑھی خدا بخش جیسے ’’میلے ‘‘ سجے ہیں میرے خیال میں پاکستانی عوام کو تو ان کے پیدا ہونے اور اس دنیا سے رخصت ہونے کی تاریخیں بھی یا د نہیں ہوں گی……لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی ذات اور شخصیت ایسی ہے جس کی تاریخ پیدائش اور شہادت کی تاریخ دونوں عوام کو ازبر ہیں…… اب ذوالفقار علی بھٹو کی محبت کو ایک اور زاویہ سے دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے جس بھی رہنما نے ان سے بے وفائی کی عوام نے اسے اپنی نظروں اور دل دونوں سے گرا دیا ہے مثال کے طور پر جناب بھٹو کی کابینہ کے ہر دلعزیز وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی نے بھٹو صاحب کو پس دیوار زنداں چھوڑ کر اپنی نئی پاکستان پروگریسو پیپلز پارٹی قائم کی تو بس ہیرو سے زیرو ہو گئے……سابق وزیر اعلی پنجاب جناب حنیف رامے نے بھٹو کے مقابلے میں مساوات پارٹی کی بنیاد رکھی تو اپنی کوٹھی تک محمدود ہو کر رہ گئے……سابق وزرائے اعلی پنجاب اور سندھ جناب غلام مصطفی کھر اور غلام مصطفی جتوئی نے جنرل ضیا ء الحق کے ساتھیوں کی آشیر باد سے نیشنل پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی تو غبارے کی طرح پھٹ گئی اور جتوئی صاحب ضلع نو شروفروز تک محدود ہوگئے……اور شیر پنجاب غلام مصطفی کھر صاحب ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ اددو میں پھنس کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے……اور برملا کہتے ہیں کہ ان کی خوائش ہے کہ وہ پنجاب کے عوام کے لیے کچھ کر جائیں لیکن آج ذوالفقار علی بھٹو اس دنیا میں نہیں ہیں جو انہیں پنجاب کے ا قتدار اعلی کا مالک بنا دے……اسی طرح مرحوم حنیف رامے اور مولانا کوثر نیازی بھی واپس پیپلز پارٹی میں آنے پر مجبور ہو گئے۔لاہور کی سیاسی محافل و مجالس کے روح رواں ہونے والے ملک معراج خالد بھی اسٹبلشمنٹ سے جا ملے تو ڈنگ ٹپاؤ وزیر اعظم کے علاوہ لکشمی بلڈنگ کے مکین ہو گئے ……اپنے سردار فاروق لغاری صاحب جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیجارو گاڑی کے پائے دان پر کھڑے ہونا فخر سمجھتے تھے ۔انہوں نے جب اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر محترمہ کی پیٹھ میں ٹ اٹھاون ٹو بی کا چھرا گھونپا اور سمجھنے لگے کہ اب وہ بے نظیر بھٹو سے بڑا لیڈر بن گیا ہوں اور اس حماقت پر انہوں نے اپنی جماعت ملت پارٹی قائم کر لی مگر ’’ حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے‘‘ کے مصداق ان کی پارٹی پھول تو دور کی بات ہے کلی بننے سے قبل ہی مرجھا گئی یعنی دم توڑ گئی ……آج کسی کے علم میں بھی نہیں ہے کہ کوئی ملت پارٹی بھی تھی……ہاں یہ بھی ایک روز روشن کی طرح ایک حقیقت ہے کہ جو بھی بھٹو خاندان یا پیپلز پارٹی سے جڑا رہا وہ ہیرا بن گیا خواہ وہ گلزار احمد خاں ہو ،قیوم نطامی ہو ،سیٹھ بشیر احمد ہو یا پھر لاہور کے قلعہ لچھمن سنگھ کی گلیوں میں پرانی سی موٹر سائیکل پر پھرنے والا اور سیٹھ بشیر احمد کے گھر سے ناشتہ کرنے پر مجبور ڈاکٹر اسرار شاہ ہو……جب تک پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے جرا رہا تو بہت کچھ تھا ……اپنے ماضی کو بھول کر بھٹو کے دماد کو آنکھیں دکھانے پر زیرو ہوگیا…… یہاں میں فتوی بازوں سے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم ولادت پر سرکاری تعطیل نہ ہو تو کسی کو پتہ بھی نہ چلے کہ پچیس دسمبر کو کیا ہوا تھا……کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ قائد اعظم کی برسی پر کبھی کسی بھی مسلم لیگ کی جانب سے قافلوں کی صورت میں ’’مزار قائد ‘‘پر حاضری دی ہو……یہ مسلم لیگ خواہ کوئی بھی نون ہو یا قاف ہو،ف ہو یا پھرعین غین لام میم ہوں ……کسی نے ایسا کرنا گوارا نہیں کیا ……ابھی 25 دسمبر2011 کو مسلم لیگ نواز نے اپنے صدر میاں نواز شریف کی سالگرہ تو منائی مگر کسی ایک تقریب کی رپورٹ اخبارات میں شائع نہیں ہوئی کہ کسی نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منائی اور کیک کاٹا گیا……اور نہ ہی کبھی قائد ملت خان لیاقت علی خاں کی ولادت کے موقعہ پر سالگرہ کی تقریب منعقد کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے یوم شہادت کے موقعہ پر ایوان اقبال یا کسی اور جگہ پر کسی قسم کا اجتماع دیکھنے کو ملا ہے ……ہاں ایک بات ضرور کہوں گا کہ جب تک نواز شریف برسراقتدار رہے ہیں اور ضنرل ضیاء الحق کا فرزند اعجاز الحق ان کے ساتھ رہا ہے اسکی برسی سرکاری سرپرستی میں منائی جاتی رہی ہے مگر جب سے نواز شریف نے ضیا ء الحق کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے تو ضیا الحق کی برسی بھی غائب ہو گئی ہے……یہ شرف صرف اور صرف پاکستانی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل ہے کہ ان کی جماعت برسراقتدار ہو یا نہ ہو ہردونوں صورتوں میں گڑھی خدا بخش بھٹو میں ’’بھٹو میلہ ‘‘ضرور سجھتا اور لگتا ہے……عاشقان بھٹو ہر سال اسی سج دھج سے اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مزار پر حاضری دیتے ہیں…… حاضری صرف حکمرانوں تک رہ گئی ہے کیونکہ وہ بھی ایک مجبوری بن گئی ہے اس لیے پاکستان کے ہر نئے سربراہ مملکت کو مزار قائد پر حاضر ہونا پڑتا ہے ورنہ اسکا شمار قائد کے مخالفین میں ہو جائیگا……کیا کسی شاعرنے جناب بھٹو کی برسی کے حوالے سے خوب کہا ہے کہ ’’میلے عاشقاں دے سدا لگدے رہن گئے‘‘

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144880 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.