پرندے کی آزادی

 یہ اپنی اپنی قسمت کی بات ہوتی ہے اور مقدروں کا کھیل ……کچھ قیدی پنجروں اور جیلوں میں ایڑیا رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔لیکن انکے پاس زر ضمانت بھی نہیں ہوتا ……کسی کے پاس وکیل کرنے کی فیس دینے کی ہمت نہیں ہوتی ……کچھ قیدی اس میں پرندے اور انسانوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ……انہیں پنجروں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے باہر کھلی فضا میں لانے کے لیے بہت سے امراء وزرا ء ، شہنشاہ اور ریاستوں کے سربراہا ن بے چین رہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے اپنے قومی اور نجی خزانے کی تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ ماضی میں بھی پاکستان سے ایک قیدی پرندے کو مضبوط سلاخوں کے بنے ہوئے پنجرے سے رہائی دلانے کے لیے سعودی عرب سے ایک طیارہ آیا تھا اور وہ ایک پرندے اور اس کے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لے گیا تھا……

اب ایکبار پھر ایک قیدی پرندے کی آزادی کا وقت آگیا اور اس سپیشل پرندے کو شکاریوں کی نظروں سے بہت دور لیجانے کے لیے متحدہ عرب امارات سے ایک چھوٹا بزنس طیارہ بھی پہنچ چکا ہے۔اور وہ طیارہ اس وقت ائر مارشل نورخاں ائر بیس پراپنی اگلی منزل کے لیے اڑان بھرنے کو تیار کھڑا ہے۔ ماضی میں جس پرندے کو پورے خاندان سمیت سعودی عرب بھیجا گیا تھا۔ وہ پرندہ وزیر اعظم نواز شریف تھا ……اس بار متحدہ عرب امارات کا بزنس طیارہ جس پرندے کو لینے پہنچا ہے ۔ وہ پرندہ پاکستان کے عوام کو ’’مکا‘‘ فضاوں میں لہرا لہرا کر ڈرانے والا فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ہے۔

جنرل مشرف نے پاکستان آنے سے قبل اور بعد میں بھی بڑے زور شور سے کہا تھا کہ وہ واپس جانے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہی رہوں گا……جنرل مشرف کے وکیل اور ہر آمر کے دستر خوان سے ہڈیاں چوسنے والا احمد رضا قصور بھی یہی دعوی کرتا تھا کہ مشرف باہر نہیں جائیگا……یہی دعوی انکے ایک اور وکیل مسٹر سیف بھی کیا کرتے تھے۔لیکن اب تو انکے کے وکیل تحریری طور پر درخواستیں دے رہے ہیں کہ انکا علاج امریکہ میں ہونا ہے ،اور انکی والدہ بھی شدید علیل ہیں اور انکی تیمارداری بھی کرنی ہے۔لہذا انہیں بیرون ملک جانے دیا جائے۔

میں اپنے پچھلے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ جنرل مشرف کے لیے امریکی اور سعودی امداد پہنچ گئی ہے۔ اس وقت میرے خیرخواہوں نے میرا تمسخر اڑایا تھا۔ کہ ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا‘‘ کسی نے کہا کہ’’ ذات دی کوڑھ کرلی تے چھاٹیراں نوں جپھے‘‘ مطلب میں کہاں اور جنرل مشرف کے معاملات کہاں بھلا مجھے انکی کیا خبر ہو سکتی ہے؟ لیکن میں آج اپنے ان خیرخوہوں سے کہتا ہوں کہ اے دانشوری و فہم کے ٹھکیداروں……اے عقل سلیم کو اپنی جاگیر قرار دینے والوں،یہ سب چیزیں اﷲ کی عطا کردہ ہیں……ضروری نہیں ہے کہ کسی بڑے اخبار کا مالک بننے سے عقل بھی آ جاتی ہے یا کسی ٹی وی چینل کی اینکری کرنے سے بندہ عقلمند ہوجاتا ہے……یہ درست ہے کہ یہ سب کچھ حاصل ہونے سے بڑی اخبرنویس کا نام مل جاتا ہے۔

لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ چھوٹے اخبار سے منسلک شخص کو کسی بڑی خبر کا کھوج نہیں لگ سکتا یا وہ حالات کس سمت جا رہے ہیں اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا۔خیر میں جذبات کی رو میں بہہ کر کہیں دور چلا گیا …… بات کر رہا تھا کہ ایک قیدی پرندے کو لینے متحدہ عرب امارات سے ایک چھوٹا بزنس طیارہ نورخاں ائر بیس پر تیار کھڑا ہے۔اور دوسری اطلاع یہ ہے کہ جنرل مشرف کا سامان باندھا جا رہا ہے۔تفصیلات طے ہو رہی ہیں۔ کسی لمحے بھی ہمارے میڈیا پر یہ بریکنگ نیوز سنی جا سکتی ہے کہ’’ پرند اڑ گیا‘‘

مشرف کو پاکستان واپسی کی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔نورخاں ائر بیس سے بزنس طیارے کے اڑتے ہی حکومت کو سکھ کا سانس لینے کا موقعہ مل جائیگا اور جنرل مشرف کی حلق میں اٹکی جان بھی چھوٹ جائیگی ……اب جنرل مشرف اپنی اور ہم سب کی ’’ماں‘‘ کی دل وجان سے خدمت اور تیمار داری کر سکیں گے۔ مجھے امید ہے کہ جنرل مشرف ہم سب کی ماں کے سامنے ہم سب پاکستانیوں سے بے وفائی کی شکایت نہیں کریں گے……میری اور پاکستانی قوم کی جانب سے اﷲ پاک کے حضور یہی دعا ہے کہ وہ انکی ماں کو اور انہیں صحت کاملہ آجلہ عطا فرمائے ٓمین ثم آمین

دس سال سعودی عرب کے سرور پیلس میں ’’ سرور ‘‘ کے ساتھ گذار کر پاکستان واپس آنے والے پرندے میاں نواز تو دس سال بعد واپس آگے تھے جنرل مشرف کب دوبارہ وطن عزیز کی سرزمین پر اپنے قدم رکھتے ہیں؟شائد اس بارے میں کوئی بھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا……کم از کم پانچ سال تو ان کے واپس آنے کا دور دور تک امکان دکھائی نہیں دیتا…… میری دعا ہے کہ کوئی بھی چاہے وہ کسی بھی ملک کا شہری ہے اسے اپنی دھرتی سے دور رہنے کی سزا نہ ملے۔کیونکہ جو لطف وکرم ……سکون اور مزہ اپنی دھرتی پر جینے میں ہے وہ کہیں اور نہیں۔ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ جنرل مشرف کے دل پر جو بیت رہی ہے۔ کیونکہ جیل جیل ہی ہوتی ہے چاہئے وہ فائیو سٹار ہوٹل ہی کیوں نہ ہو یا گھر کوہی جیل کا درجہ دیا گیا ہو۔ ہے تو قید ہی ناں……آزادی کے ساتھ کھلی فضا میں سانس لینے اور بھی اپنی مرضی سے تو اسکا مزہ ہی کچھ اور ہے۔اﷲ پم سب کی آزادی کی محافظت فرمائے-

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144478 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.