اسلامی نظریاتی کونسل نے سیکولر حلقوں کے اعتراضات مسترد کردیے

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کو غیر ضروری قرار دیے جانے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث کے آغاز کے ساتھ سیکولر حلقوں اور سندھ اسمبلی کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آچکا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار، مخالفین کے اعتراضات اور دوسری شادی کے سلسلے میں مذہبی، قانونی اور تحقیقی پہلوﺅں کے حوالے سے عابد محمود عزام نے اسلامی نظریاتی کونسل کے شعبہ تحقیق کے سربراہ الیاس خان اور رکن مولانا قاری حنیف جالندھری سے خصوصی گفتگو کی، جو نذر قارئین ہے

گفتگو:عابد محمود عزام
الیاس خان، سربراہ شعبہ تحقیق اسلامی نظریاتی کونسل

سوال:ان دنوں دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کے قانون کا ذکر بار بار کیا جارہا ہے،جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے،ملکی قوانین کی رو سے یہ بات کس حد تک درست ہے ؟
جواب: اسلامی نظریاتی کونسل کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ پہلے سے قانون موجود تھا کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے پوچھا جائے گا، اب اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ اس قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1961کا جو فیملی لا ہے اس میں یہ بات سرے سے موجود ہی نہیں ہے، یہ قانون میں ہے ہی نہیں کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینی ہوگی۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ سیکشن 6 میں قانونی سقم ہے اور وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ جو سیکشن 6 جس کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ ایک(ڈیڈ لا) مردہ قانون ہے۔ ایوب خان کا بنیادی جمہوریتوں کا 1969کا جو قانون تھا، اسی کے تحت ثالثی کونسل بنی ہوئی تھی، وہ ڈی سی کے انڈر ہوتی تھی، وہ اسی کا حوالہ دیتے ہیں، اب جو قانون کانسٹیٹیوٹ بک میں ہے ہی نہیں تو اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا، دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ نے دوسری یا تیسری شادی کرنی ہے تو اس کے لیے آپ کو ثالثی کونسل میں درخواست دینی ہوگی، اب اگر آپ نے اس صورت میں دوسری یا تیسری شادی کرلی کہ آپ نے اس کے لیے درخواست نہیں دی تھی تو پھر ایک سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ جب یہ ہوجائے گا تو اس قانون کے مطابق پہلی بیوی کے ساتھ انصاف ہوگیا۔ اب اس بات کی وضاحت کہیں موجود نہیں ہے کہ پہلی بیوی کے حقوق کیسے پورے ہوں گے، جو عدل کا تقاضا ہے، اس قانون میں پہلی بیوی کے ساتھ اس عدل کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ اب پہلی بیوی کو تو نان نفقے سے محروم ہوگئی، لیکن اس ظلم کے حوالے سے کوئی کچھ نہیں بولتا، اب یہ قانون کہتا ہے کہ اس طرح دوسری شادی جائز ہونے کے باوجود اس کی رجسٹریشن نہیں ہوگی، اب ایک تو آپ نے ”جرم“ کرنے والے کو دو سزائیں ایک ساتھ دے دیں، یعنی وہ سزا بھی کاٹے، جرمانہ بھی بھرے اور دوسری بیوی کو قانونی بھی ثابت نہیں کرسکتا، اب آپ نے ان لوگوں کو بھی سزا دے دی جو جرم میں شریک نہیں تھے، اس میں دوسری بیوی کا کیا قصور ہے، اس طرح تو آپ نے اس کی شناخت بھی چھین لی۔ اب دوسری بیوی سے جو اولاد ہوگی، ان کے نہ تو شناختی کارڈ بن سکیں گے، نہ ہی پاسپورٹ اور نہ ہی دوسری ضروری دستاویزات بن سکتیں، اس طرح آپ نے ان بچوں سے ابوت کی شناخت بھی چھین لی۔ دوسری بیوی کا اس خاوند سے جو زوجیت کا تعلق ہے، قانون اس کی بھی نفی کرتا ہے۔ جبکہ یہی قانون دوسری شادی کو ناجائز یا باطل بھی قرار نہیں دے رہا، تیسری بات یہ ہے کہ ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کا قانون جس کے تحت غیر منتخب نمائندے ہوتے تھے، اسی قانون کے تحت اس ثالثی کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل سننے کا حق بھی ڈپٹی کمشنر کو دیا ہوا ہے، جبکہ موجودہ بلدیاتی لا کے مطابق ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر ضلعی ناظم کے ماتحت ہیں، احکامات بھی اسی سے لینے ہیں، جب خاوند سزا کاٹ کر آئے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ اس کے ذمے جو بیوی کا مہر ہے اسے دے، اگر وہ نہیں دے گا تو اس سے بطور ریونیو (بقایا جات) کے طور پر وصول کیا جائے گا، اب اگر اس طرح مہر کی رقم ریونیو کے طور پر حاصل کی جائے گی، تو وہ پہلی بیوی کو تو نہیں ملے گی، کیونکہ ریونیو کے طور پر جو رقم وصول ہوتی ہے وہ کبھی کسی فرد کو نہیں مل سکتی۔ اب ایک تو اس سیکشن کے تحت کئی قانونی سقم بھی سامنے آتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس صورت میں عدل کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس قانون کے تحت زیادہ سزا اس فرد کو ملی جس نے کوئی جرم سرے سے کیا ہی نہیں۔

سوال:بعض ارکان سندھ اسمبلی کا کہنا ہے کہ شادی کی کم سے کم حد مقرر نہ کر کے اسلامی نظریاتی کونسل نے بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے،شادی کی کم سے کم عمر کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کا کیا موقف ہے ؟
جواب:اسلامی نظریاتی کونسل نے صرف یہ کہا ہے کہ اولیا نکاح کرواسکتے ہیں، شادی نہیں۔ شادی تب ہوگی جب وہ بالغ ہوں گے، کونسل نے کہا ہے کہ ان کو خیار بلوغ حاصل ہے، بالغ ہونے کے بعد وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں یہ شادی منظور نہیں ہے۔ کونسل نے صرف نکاح پڑھانے کی بات کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کم عمری کی شادی کو جرم قرار دے رہے ہیں، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا نکاح بھی تو کم عمری میں ہوا تھا،ان کا نکاح 6 یا 9 سال کی عمر میں ہوا تھا۔ اگر رشتے داروں کی آپس میں اپنے بچوں کی نکاح کروانے کی خواہش ہو ، دونوں بچوں کے والدین بھی راضی ہوں، اگر وہ ان بچوں کا نکاح کروادیتے ہیں اس پر تو پابندی نہیں ہے، لیکن ان کو رخصت کرنا ظلم ہے۔ کونسل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ان کو خیار بلوغ حاصل ہوگا۔ بچے بڑے ہوکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں یہ نکاح منظورنہیں ہے۔

سوال: اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار کیا ہے اور آپ شعبہ تحقیق کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے کونسل کے کردار سے کس حد تک مطمئن ہیں؟
جواب: میں اس شعبے کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کونسل کا کوئی بھی فیصلہ اسلامی احکامات کے خلاف نہیں ہوتا، اس میں معاشرتی مسائل کا ہر طرح کا ادراک ہوتا ہے، آئینی اور قانونی نقطہ نظر بھی سامنے رکھا جاتا ہے، جو مسائل اور فیصلے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان پر بحث ہوتی ہے، اس لیے میں اس ادارے کی کارکردگی سے مکمل طور پر مطمئن ہوں۔

رکن اسلامی نظریاتی کونسل مولانا قاری حنیف جالندھری
سوال:ان دنوں ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت زور پکڑتی جارہی ہے،سندھ اسمبلی میں اس کونسل کو ختم کرنے کی قرارداد بھی منظور کی جاچکی ہے،آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
جواب: اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی اور قانونی ادارہ ہے، اس کو تحلیل کرنے کا مطالبہ اور قرار داد ملک کو سیکولر بنانے کی ناکام کوشش ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت اس پس منظرمیں کی جارہی ہے تاکہ ملک اسلامائزیشن کی بجائے سیکولزم کی طرف جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جو سفارشات دی ہیں، وہ قرآن و سنت کی روشنی میں دی ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ پارلیمنٹ ان سفارشات پربحث کرے اور ان پر غور کرے، لیکن آج تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر غور نہیں کیا گیا۔

سوال:بعض حلقے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے زیادتی کے واقعات میں ڈی این اے رپورٹ کو شہادت تسلیم نہ کرنے اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کو ضروری قرار نہ دینے پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں،اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: مختلف این جی اوزاور متعدد ممالک پاکستان میں اسلامائزیشن، اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب و تمدن کو پسند نہیں کرتے، وہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل اور اسلامائزیشن کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل تو قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیتی ہے، وہ کسی کی خواہش کی پابند نہیں ہے، اس قسم کی خواہشات دراصل ہمارے ملک کے داخلی اور مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔

سوال: اقوام متحدہ کے ایلچی گورڈن براﺅن نے کہا ہے کہ جدید دنیا میں کم سنی کی شادی قبول نہیں، اس کے ساتھ انہوں نے پاکستان کو کم سنی کی شادی سے پاک کرنے کے لیے امداد کی پیشکش بھی کی ہے، آپ ان کے اس بیان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب:اصولی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا چارٹرڈ اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہر ملک کو آزادی حاصل ہو، خود مختاری ہو، ان کے ایسے بیانات ہمارے ملک کے ریاستی نظام اور ہمارے دین و مذہب میں کھلی مداخلت ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جس طرح وہ خود ہر چیز میں آزاد ہیں، اسی طرح ہم پاکستانیوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اپنے ملک کے اندر جو نظام پسند کریں وہی نظام رائج اور نافذ کریں۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ہر ایسی مداخلت جس سے ملک کی آزادی، خود مختاری اور سلامتی متاثر ہو اس مداخلت کو روکے اور ایسی امداد جس سے ہمارے ملک کے نظریے اور دینی تشخص پر کمپورمائز اور سمجھوتا کرنا پڑتا ہو، ایسی کوئی امداد قبول نہیں کرنی چاہیے۔

سوال:بعض ارکان سندھ اسمبلی کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ناکام ہوچکی ہے، اس سے جان چھڑا لینی چاہیے،اس قسم کا مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے؟
جواب:یہ صرف جذباتی باتیں ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، وہ ہوائی باتیں کررہے ہیں، وہ یہ حوالہ دیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی فلاں سفارش قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ کونسل کے خلاف قرار داد منظور کرنے والے حضرات اس حوالے سے کوئی دلیل نہیں دیتے ہیں۔ کونسل اسلامی ادارہ ہے، جو کہ قرآن و سنت کے مطابق کام کرتا ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والے لوگ جو بھی قرار داد پیش کریں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہونی چاہیے، ہوائی باتیں نہ کریں۔ یہ لوگ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے اپنا موقف دینا چاہتے ہیں تو متعلقہ فورم پر دیں۔

سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کے مطالبے پر عمل ہوسکتا ہے؟
جواب:اسلامی نظریاتی کونسل کی جو مخالفت ہورہی ہے، یہ سب کچھ ملک کو اسلا مائزیشن سے سیکولرازم کی طرف لے جانے کی کوشش ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت کرنے والوں کا یہ خواب ان شاءاللہ کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، ملک کو اسلامی بنانا، اٹھارہ کروڑ عوام کی آواز ہے۔

سوال: جس طرح بعض حلقے اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت کررہے ہیں، اس کونسل کی اسپورٹ میں کون لوگ ہیں؟
جواب: پاکستان کی اکثریت اسلامی نظریاتی کونسل کی حمایت کرتی ہے،یہاںاکثریت مسلمان ہے، سب مسلمان ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ اٹھارہ کروڑ عوام اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ ہےں اور ملک میں اسلام چاہتے ہیں۔ صرف چند لوگ ہی اپنی خواہشات یا کسی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ملک کو سیکولزام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔انشاءاللہ وہ ضرور ناکام ہوں گے۔

سوال:اسلامی نظریاتی کونسل کا اچانک میڈیا ٹرائل کیوں شروع ہوگیا ہے،کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
جواب:اسلامی نظریاتی کونسل اب زیادہ متحرک اور فعال ہے، اب وہ اپنا بہتر کردار ادا کررہی ہے، غیر اسلامی قوانین کے بارے میں سفارشات دے رہی ہے، روشن خیالی کے دور میں بنائے گئے غیر اسلامی قوانین کا اسلامی نظریاتی کونسل جائزہ لے رہی ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کو تبدیل اور مسترد کررہی ہے، اس وجہ سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہورہی ہے اور وہ شور مچارہے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.