بھارت میں کالے دھن کی بھرمار

بھارت میں 543 رکنی لوک سبھا کے انتخاب میں دھن دولت بری طرح لٹائی جارہی ہے۔ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی مختلف حلقوں کے لیے امیدواروں کے ناموں کا اعلان ہونے پر انتخابی دنگل کا بگل بج چکا ہے۔ ان حلقوں میں ہزاروں سیاسی کارکن رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے پوری طرح حرکت میں آ چکے ہیں۔ ظاہر ہے الیکشن پیشے کے بغیر تو نہیں لڑا جاسکتا ہے۔ اس انتخاب کے لئے بھارتی حکومت ایک کھرب روپے کے اخراجات کرتی ہے۔ بھارتی انتخابی کمیشن نے امیدواروں کے لیے ذاتی طور پر اپنے حلقے میں ستر لاکھ روپے کے اخراجات کی حد مقرر کر رکھی ہے۔بھارت کے ایک صنعتی ادارے ایسوچیم کے مطابق ہر حلقے میں کم از کم چار سنجیدہ امیدوار ہوتے ہیں اور ادارے کے اندازے کے مطابق ہر امیدوار اوسطاً پانچ کروڑ روپے انتخاب پر خرچ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے تقریباً ایک سو دس ارب روپے آئندہ دو مہینوں میں انتخابات کے دوران خرچ کیے جائیں گے۔ اخراجات کی حد مقرر ہونے کے سبب ان میں سے بیشتر رقم کالے دھن سے آئے گی۔رواں انتخابات میں بے ایمانی اور بدعنوانی سب سے اہم موضوع ہے۔ بھارت میں کھلی معیشت کا راستہ اختیار کیے جانے کے بعد ملک کی سیاست اور صنعتی نظام میں بدعنوانی نے ایک نئی اور حیرت انگیز جست لگائی ہے۔ ۔معروف جریدے ’دی ایکنامسٹ‘ کے مطابق پچھلے دس برس میں بد عنوان سیاست دانوں اور صنعت کاروں نے بے ایمانی رشوت اور کمیشن سے سیکڑوں ارب ڈالر بنائے ہیں۔ بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’ٹرانس پیرینسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق بھارت میں 54 فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں گذشتہ برس کسی نہ کسی مرحلے پر رشوت دینی پڑی ہے۔ "بد عنوانی کے خلاف تحریک چلانے والے انّا ہزارے اور اروند کیجریوال جیسے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انتخابی اخراجات بھارت میں بدعنوانی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ امیدواروں کو جیتنے کے لیے کروڑوں روپے صرف کرنے پڑتے ہیں اور جیتنے کے بعد ان کی ساری توجہ جائز اور ناجائز ہر طریقے سے صرف پیسے کمانے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس بار کے انتخابات میں کالا دھن کے گیارہ ہزار کروڑ سے بیس ہزار کروڑ روپے تک صرف کیے جانے کا اندازہ ہے۔ آئندہ حکومت کتنی ایماندار ہوگی اس کا اندازہ ابھی سے لگایا جا سکتا ہے۔"ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ملک کی غالب اکثریت بدعنوانی سے بے چین ہو رہی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 96 فی صد لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بد عنوانی کی وجہ سے ملک آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ گذشتہ پانچ برس میں ملک میں بدعنوانی کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوئی ہے۔رشوت چور بازاری اور بے ایمانی کا یہ عالم ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک کرناٹک کی کانوں سے دو ہزار ٹرک روزانہ بے روک ٹوک غیر قانونی طور پر خام لوہا نکال کر چین بر آمد کیا جا رہا تھا۔ جب تک کوئی آواز اٹھتی تب تک ریاست کے کئی سیاست داں اور بڑے بڑے سرکاری اہلکار دو ارب ڈالر سے زیادہ کما چکے تھے۔تحقیقی ادارے ’گلوبل فینانشیل انٹیگر یٹی‘ کے اندازے کے مطابق بھارتی سیا ست دانوں، صنعت کاروں اور اہلکاروں نے 2007 سے ہر برس کالے دھن کے اوسطاً 52 ارب ڈالرغیر ممالک میں جمع کیے۔ یعنی سات برس میں بے ایمانی کے ساڑھے تین سو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم باہر بھیجی گئی۔پچھلے برس امریکہ برطانیہ اور دیگر بعض ملکوں کی طرف سے سوئٹزر لینڈ، لگزم برگ اور جرمنی کے بینکوں پر دباؤ پرنے کے بعد جرمنی اور سوئٹزر لینڈ نے وہاں پیسہ جمع کرنے والوں کی فہرست بھارتی حکومت کوسونپی تھی۔ لیکن کالا دھن جمع کرنے والوں کی یہ فہرست ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان بظاہر مفاہمت نظر آتی ہے۔اپوزیشن بی جے پی نے موجودہ منموہن سنگھ کی حکومت کو تاریخ کی سب سے بدعنوان حکومت قرار دیا ہے لیکن خود اس کا دامن بھی صاف نہیں لگتا۔ احتسابی ادارے لوک پال کو بااثر نہ ہونے دینے اور اس کی تقرری میں ہر ممکن رکاوٹیں ڈالنے میں سبھی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ادارہ ابھی تک تشکیل نہیں پا سکا ہے۔اب ایک بار پھر انتخابات کی سرگرمیاں ہیں۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق نرینرد مودی اور سونیا گاندھی جیسے رہنماؤں کے انتخابی جلسوں کے انعقاد پر 15کروڑ روپے سے لے کر 50 کروڑ تک روپے صرف ہوتے ہیں اور اس طرح کی ریلیاں ہر روز ہو رہی ہیں۔بد عنوانی کے خلاف تحریک چلانے والے انّا ہزارے اور اروند کیجریوال جیسے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انتخابی اخراجات بھارت میں بدعنوانی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ امیدواروں کو جیتنے کے لیے کروڑوں روپے صرف کرنے پڑتے ہیں اور جیتنے کے بعد ان کی ساری توجہ جائز اور ناجائز ہر طریقے سے صرف پیسے کمانے پر مرکوز ہوتی ہے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت نے سوئس بینکوں میں کالے دھن کے الزامات کی تحقیقات شروع کردی ہیں،بھارت کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والے سماجی رہنما اروندکیجری وال کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ بھارت کے مالدارشہریوں نے غیرقانونی طورپر اربوں روپے بیرون ملک بینکوں میں جمع کررکھے ہیں، بیان میں مزید کہاگیاہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اورغیرملکی ٹیکس حکام سے ان بھارتی کھاتہ داروں کی معلومات حاصل کی جارہی ہیں جنہوں نے اپناپیسہ بیرون ملک جمع کررکھاہے۔واضح رہے کہ سماجی رہنما اروند کیجری وال نے دعویٰ کیاتھا کہ صرف ایک غیر ملکی بینک میں 700بھارتی شہریوں نے غیرقانونی طورپر اربوں روپے جمع کررکھے ہیں۔
تین سال پہلے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے بھارتی جریدے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ کالا دھن زیادہ بھارت سے آتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بھارتی عوام کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے،وقت گزرنے کیساتھ ساتھ سوئس اکاؤنٹس میں بلیک منی کے حوالے سے بھارتی شخصیات کے نام بھی شائع کرکے منظر عام پر لائے جائینگے۔انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سوئس اکاؤنٹس میں بلیک منی کے حوالے سے متعدد نام بھارتی شخصیات کے بھی ہیں جن میں کچھ نام اس قبل شائع کئے جا چکے ہیں تاہم ،جلد منظر عام پرآنے والی اشاعت میں اگرچہ کہ میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کتنی بھارتی شخصیات کے نام اس فہرست میں شامل ہیں لیکن میں نے بھارتی شخصیات کے نام جلد شائع ہونے والی فہرست میں دیکھے ہیں۔وکیلیکس کے ان انکشافات نے بھارتی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر دیا تھا۔ سوئس بینکوں میں جتنا کالا دھن بھارتیوں کا ہے اتنا کسی دوسرے ملک کا نہیں،بھارتی اپوزیشن اس الزام کو لے اڑی تھی۔ اورحکومت سے جواب طلب کرلیا تھا۔ جولین اسانج نے ایک اورسنسنی خیز خبر سنادی کہ وکیلیکس جلد ان کرپٹ بھارتیوں کے نام بھی جاری کرسکتا ہے جنہوں نے کرپشن کا پیسہ بینکوں میں چھپارکھا ہے۔ اسانج نے بھارتی عوام سے کہا ہے کہ وہ امید رکھیں بہت جلد کرپٹ حکام کے چہروں پرسے پردہ اٹھ جائے گا۔ وکیلیکس کے اس انکشاف پربھارتی اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا تھا۔،بھارت کے سینئرترین وکیل رام جیٹھ ملانی نے کہا ہے کہ حکومت کرپٹ افراد کے نام چھپانے کی کوشش کررہی ہے،کیونکہ سب سے زیادہ کرپٹ افراد موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔ ان ا یہ الزام کسی حد تک صحیح بھی تھا کیونکہ اب تک یہ نام راز ہی رہے ہیں۔ وکی لیکس نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ انڈرورلڈ اور گینگسٹرز بالی ووڈ فلموں میں کا دھن کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ پچھلے ایک عشرے سے بالی ووڈ کی ماردھاڑ والی فلموں کا پسندیدہ موضوع" انڈرورلڈ" اور" گینگسٹرز" رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ" انڈر ورلڈ" کی اصطلاح سے بھی عام آدمی انہی فلموں کے ذریعے متعارف ہوا ہے۔ ان فلموں میں گینگسٹرز کا کردار نہایت نفرت آمیز ہوتا ہے جو بات بات پر دوسروں کو قتل کردینے اور پیسے کی خاظر ملک دشمنی سے بھی نہیں چوکتا۔ پھر گینگسٹرز اور سیاستدانوں کا چولی دامن کا ساتھ دکھایا جانا بھی عام بات ہوگئی ہے۔ اکثرفلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ سیاستدان ہی گینگسٹر کو پروان چڑھاتے اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ "بالی ووڈکے بیشتر فلمساز انہی گینگسٹرز اور انڈر ورلڈ ڈانز " سے فلموں میں بڑھ چڑھ کر پیسہ لگانے پر رضامند کرتے ہیں۔ یعنی انہی کا جوتا اور انہی کا سر!! سرمایہ بھی انہی کا اور بدنامی بھی انہی کی۔اصل معاملہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے سفارتی انکشافات کرنے والی ویب سائٹ "وکی لیکس "نے بالی ووڈ فلموں اور اس کے چمکتے دھمکتے ستاروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ویب سائٹ نے اب تک جہاں دنیا بھر کی حکومتوں کے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے وہیں وکی لیکس نے اپنی کیبل میں یہ راز بھی افشاں کیا ہے کہ بالی ووڈفلمساز بڑے بڑے گینگسٹرز اور سیاستدانوں سے اپنی فلموں میں سرمایہ لگواتے او ر انہیں منافع کی شکل میں بڑی بڑی رقمیں دیتے ہیں۔ یہ وہی دھن ہے جسے بھارتی اصطلاح میں "کالا دھن "کہا جاتا ہے۔وکی لیکس کا دعویٰ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران بالی ووڈ فلم انڈسٹری نے ناصرف ممبئی کے انڈر ورلڈ سے قربت حاصل کی بلکہ انہیں کالے دھن کو سفید دھن میں تبدیل کرنے کا راستہ بھی سجھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بڑے ڈان سے لیکر ہر چھوٹے سے چھوٹا 'ڈان 'فلموں میں پیسہ لگا تا ہے۔اگرچہ ویب سائٹ نے ان فلموں کا نام نہیں دیا جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان میں ڈان نے سرمایہ کاری کی لیکن ویب سائٹ نے دعویٰ کے ساتھ یہ کہا ہے کہ فلموں میں انڈر ورلڈ کی جانب سے پیسہ لگانے کا آغاز حکومت کی جانب سے بالی ووڈ کو صنعت کا درجہ دینے کے بعد شروع ہوا اور اس وسیع سرمایہ کاری کی بدولت بالی ووڈ کو اتنی بڑی فلمیں بنانے کی قوت مل گئی کہ اس نے مغربی انداز کی فلمیں بنانی بھی شروع کردیں۔یک مراسلے میں وکی لیکس کا کہنا تھا کہ اگرچہ بالی ووڈ مغربی انداز کی فلمیں بنا رہا ہے، تاہم اس بات کے امکانات موجود نہیں کہ بالی ووڈ کی فلمیں مغربی شائقین کی توجہ حاصل کرسکیں۔ وکی لیکس کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے بالی ووڈ بہت اچھی طرح واقف ہے اور وہ مغربی مارکیٹ میں داخل ہونے اور جنوبی ایشیا میں اپنا منافع کمانے کی نئی راہیں تلاش کر رہی ہے۔آڈٹ اور ٹیکس کے حوالے سے پیشہ ورانہ خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے ایم پی جی کے سربراہ جے ہل ٹھاکر نے وکی لیکس کو بتایا" فلموں میں پیسے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے گینگسٹرز کے ساتھ تعلقات کوئی نئی بات نہیں۔ اس کا آغاز 2000 میں ہوا تھا جب سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے بالی ووڈ، بینکوں سے یا پرائیویٹ طور پر بھی قرضے لینے کی پوزیشن میں نہیں تھی، ایسے میں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ان گینگسٹرز کی جانب سے کی جانے والی پیشکش قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ اس سے قبل ایسے افراد کا پیسہ قبول کر لیا جاتا تھا جو بڑے کاروبار کے مالک ہوا کرتے تھے، مثال کے طور پر کمرشل فنانسسنگ کرنے والے افراد اور ایسے سرمایہ کار جن کا تعلق تعمیرات یا تجارتی صنعت سے تھااور جو اپنے سرمائے پر ساٹھ سے سو فیصد تک سود وصول کرتے تھے۔ تاہم اس کے بعد سیاست دانوں اور گینگسٹرز کا دیا ہوا پیسہ بھی قبول کیا جانے لگا۔ یہ لوگ اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کی غرض سے پیسہ فلموں میں لگاتے تھے۔ٹائمز میگزین نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ انڈر ولڈ ڈان ابو سلیم نے بھارتی رپورٹرز کو بلایا اور بتایا کہ اس نے شاہ رخ خان کی فلم "دیوداس" کے لیے پیسہ فراہم کیا تھا۔ اس فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت کی مہنگی ترین فلم تھی۔بعض فنکاروں کو انڈرورلڈ ڈان کے ساتھ تعلقات نہ رکھنے کی بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے۔ اداکار رہیتک روشن، گووندا، امریش پوری اور ہدایتکار کرن جوہر کو انڈر ورلڈ کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد پولیس گارڈ رکھنے پڑ گئے تھے۔ سپر اسٹار عامر خان اور ڈائریکٹر اشوتوش گورریکر کو بھی دھمکی آمیز کالز موصول ہوئیں کیونکہ انھوں نے اپنی آسکر ایوارڈ میں نامزد ہونے والی فلم کی بھرپور کامیابی کے بعد گینگسٹرز کی جانب سے کی گئی کئی پیشکشوں کو ٹھکرا دیا تھا۔شاہ رخ خان نے بھی سٹی پولیس اور انسداد دہشت گردی اسکواڈ کو رپورٹ کی تھی کہ اسے گینگسٹر بنٹی پانڈے کی جانب سے دھمکی آمیز فون موصول ہو رہے ہیں اور ان سے دو ارب روپے طلب کیے جا رہے ہیں۔یہ تو رہا فلموں کا معاملہ لیکن بھارت میں کالے دھن والوں نے کھیل پر بھی قبضہ جمالیا ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں مبینہ سپاٹ فکسنگ کی خبروں کے بعد کروڑوں ڈالر کی یہ لیگ سوالوں کے گھیرے میں آ گئی تھی۔ وزیر کھیل اجے ماکن نے اس بات کو تسلیم کیا کہ آئی پی ایل میں کالے دھن کا کاروبار ہو رہا ہے۔ماکن کا ماننا ہے کہ بی سی سی آئی اور آئی پی ایل کو معلومات کے حق کے دائرے میں لانا چاہئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس سے کرکٹ میں کالے دھن پر روک لگے گی۔ایک چینل سے بات چیت میں ماکن نے کہا کہ بی سی سی آئی اور آئی پی ایل کو فیما ( فارن ایکسچینج منیجمینٹ ایکٹ) اور انکم ٹیکس کے تحت نوٹس بھیجے گئے ہیں۔ماکن نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئی پی ایل میں سینکڑوں کروڑ روپے کی ٹیکس چوری اور بلیک منی کا کاروبار ہو سکتا ہے۔اجے ماکن نے کہا کہ انہوں نے نفاذ ڈائریکٹوریٹ (انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ ) اور محکمہ انکم ٹیکس سے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے کہ کیا کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں کالا دھن دیا گیا تھا۔ ایک ٹی وی چینل کے اسٹنگ آپریشن میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح کھلاڑی کہہ رہے تھے کہ انہیں کالے دھن کے طور پر بی سی سی آئی کی معاہدہ رقم سے زیادہ رقم مل رہی ہے۔اس اسٹنگ آپریشن میں آئی پی ایل میں بدعنوانی کے انکشاف کا دعوی کیا تھا جس کے بعد بی سی سی آئی نے فوری طور پر اثرات سے پانچ بھارتی کھلاڑیوں کو معطل کر دیا تھا۔ بھارت میں فلم ، سیاست کھیل سب میں پیشہ چلتا ہے۔ اب کہیں بہار میں ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت ہو رہی ہے، کہیں مودی کے گجرات میں کانگریس کے ممبران اسمبلی بی جے پی میں داخل ہو رہے ہیں اور کہیں کل تک ریاستی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ براہ راست سیاست میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ جمہوریت پر ایمان برقرار رکھنے کے لیے الیکشن نام کا جو ’’ووٹ تہوار‘‘ ہوتا ہے وہ بے ایمانی کے ایک جلسے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب ملک کی درجن بھر انتخابی سروے ایجنسیوں میں سے ایک چھوڑ کر باقی تمام اسٹنگ آپریشن میں رنگے ہاتھوں پکڑی گئیں۔ یہ سروے ایجنسیاں کالادھن لے کر سروے کررہی تھیں اور ’’اوپری ‘‘پیسہ لے کر جھوٹے نتائج ملک کے سامنے رکھے جارہے تھے۔ ملک کے سب سے بڑے نیوز چینلز اور اشاعت گروپوں کے انتخابی سروے کرنے والی ایجنسیاں جب کھل کر اپنے تن اور من کو فروخت کی بات کرتے ہوئے خفیہ کیمروں پر پکڑی جائیں تو یہ لگتا ہے کہ اس کے بعد جمہوریت میں ایمان کیوں اور کیسے بچا رہے ؟ انتخابات تو بھرشٹ ہو چکے ہیں، پارٹیاں اور لیڈر کالے دھن پر سوار ہو کر، فرقہ پرستی اور ذات پات کی نفرت بھڑکاتے ہوئے پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ وہ ان مقامات کو بد عنوان کروڑپتیو ں اور ارب پتیوں سے بھرتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں سوا سو کروڑ سے زیادہ آبادی میں اسی کروڑ سے زیادہ ووٹروں کا ایمان جمہوریت پر کس طرح قائم رہے ؟ شائد اسی لئے دوسری طرف ممبئی کے ہائی کورٹ کو وہیں کی نچلی عدالت اور حکومت سے پوچھنا پڑ رہا ہے کہ سنجے دت جیسے طاقتورارب پتی فلمی ستارے کو مسلسل پیرول کیسے مل رہی ہے اور باقی لوگوں کو یہ کیوں نہیں نصیب ہو رہا ؟ ادھر ملک کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ، ملک کے سب سے مشہور اور متنازعہ ارب پتی تاجروں میں سے ایک سبرت رائے سہارا کے معاملے میں عدالت میں کھل کر بار بار کہہ رہی ہے کہ ڈیڑھ برس سے سبرت رائے عدالت کا حکم اور ہدایات ان سنی کر رہے ہیں اور کسی بھی بات پر عمل نہیں کر رہے۔ ہندوستانی جمہوریت میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کو سبرت رائے کی طرح کا خاص درجہ ملا ہوا ہو؟ اور جو برس ہا برس تک سپریم کورٹ کا وقت ضائع کرتے ہوئے، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم کو ان سنا کرتے ہوئے اپنی من مانی کرتے رہیں ؟مجموعی طور پر پارلیمنٹ، ریاستی اسمبلیاں، وفاق اور ریاست کی حکومتیں، کاروباری حضرات اور ملک کے لیڈر، پارٹیاں اور میڈیا، ان سب کا جو حال نظر آرہا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ چور تو سبھی ہیں، کچھ پکڑے جا چکے ہیں، اور باقی کا پکڑا جانا ابھی باقی ہے۔ ایسے ملک میں سچن ٹینڈولکر جیسے لوگ بھارت رتن بن رہے ہیں، جو کروڑوں کی ٹیکس رعایت حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اشتہاروں کی ماڈلنگ میں کھلاڑی نہیں اداکار ثابت کرتے ہیں، کروڑوں کی مہنگی کاروں سے لے کر پانی صاف کرنے والے واٹر فلٹر وں کی تشہیر کرنے والے یہ لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر غریبوں کی موت کے ذمہ دار گندے پانی کے بارے میں کبھی سوچتے بھی نہیں۔ کالے دھن میں بھارت ہی نہیں پاکستان بھی بدنام ہے۔یہ خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں 40پاکستانی سیاست دانوں اور تاجروں کا 200ارب ڈالر جبکہ مختلف ملکوں کی بااثر شخصیات اور کمپنیوں کا 20کھرب ڈالر کا کالا دھن پڑا ہوا ہے جسے نکلوانے کیلئے امریکہ، بھارت اور کئی یورپی ممالک سوئس حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ تحقیقاتی صحافت کے عالمی کنسوریشم (ICIJ) کی ایک رپورٹ کے مطابق سوئٹزرلینڈ ایسے لوگوں اور کمپنیوں کے لئے جنت ہے جو ٹیکسوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ 1991 تک پاکستان کو فارن کرنسی اکاؤنٹ رکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن نواز شریف حکومت نے 1992 میں اکنامک لبرالائزیشن سکیم کے تحت پہلی مرتبہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت دی تھی جس کے بعد اہم افراد نے پاکستان سے کالادھن سوئس بینکوں میں رکھوانا شروع کر دیا۔ بی ای ای آئی(BEEI)کے سابق صدر اے بی شاہد نے کہا ہے کہ نواز حکومت کا یہ غلط فیصلہ تھا حالانکہ یہ سہولت صرف غیر ملکی تجارت کرنے والوں کو بھی ملنی چاہیے تھی۔ سابق چیئرمین سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان رضی الرحمن نے تصدیق کی ہے کہ پاکستانیوں کی سوئس بینکوں میں پڑی رقم اربوں ڈالر میں ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں سیکریسی قوانین بہت سخت ہیں جس سے اکاؤنٹ کی معلومات کا پتہ چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہت عر صے سے کہا جارہا ہے کہ حکومت پاکستان یہ لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کیلئے قانونی حکمت عملی وضع کر رہی ہے اور سوئس حکام سے رابطے میں ہے۔ حکومت نے سوئٹزرلینڈ سے دوہرے ٹیکسوں کا دوطرفہ معاہدہ کرنے کے لئے مذاکرت پھرسے شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ نواز شریف کی نئی حکومت نے بھی آتے ہی دسمبر تیرہ میں کالا دھن سفید کرنے کی نئی اسکیم نکالی۔ کالا دھن سفید کرنے کی وزیراعظم سرمایہ کاری اسکیم کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا۔ اسکیم کے تحت سرمایہ کاری کرنے والوں سے آمدن کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔ گرین فیلڈ، انڈسٹری اور تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جاسکے گی۔ایف بی آر کے نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم کی سرمایہ کاری اسکیم کا آغاز یکم جنوری سے ہوجائے گا۔ جس کے تحت سرمایہ کارتعمیرات،بلوچستان، کے پی کیمیں کان کنی،تھرکول، گرین فیلڈاورانڈسٹری کیشعبوں میں سرمایہ کاری کرسکیں گے۔اسکیم کے تحت سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ اسکیم کے تحت کھاد،چینی،سگریٹ، ٹیکسٹائل کی صنعتیں لگانے کی اجازت دی جائے گی جبکہ گھی، تیل، اسلحہ اور مشروبات کی صنعتیں لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔جانے کیوں سیاست دانوں کو ہمیشہ کالے دھن والوں ہی کی کیوں فکر لگی رہتی ہے-

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387691 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More