غیر ملکی میڈیاکی یلغار اور ہم

ہمارے دوست اورسب سے ہمارے خیرخواہ ممالک ہی ہمیں زنچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں امریکہ ، برطانیہ سمیت دیگر یورپین ممالک کوپاکستان کا دوست ہی کہوں گا ……یاپھر آپ لوگ مجھے بتا دیں کہ میں انہیں کس لقب یا کنیت سے پکاروں؟ہاں مجھے آپکی اس بات سے کلی اتفاق ہے کہ دوستی کا دم تو ہم ہی بھرتے ہیں ۔وہ ہمیں اپنا دوست نہیں سمجھتے ……امریکہ اور اسکے اتحادی ہمیں ’’کرائے کے ٹٹو‘‘ سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں دیتے…… وہ کہنے میں حق بجانب بھی ہیں۔وہ اسلیے کہ ہم نے غیرت مند قوم ہونے کا مظاہرہ نہیں کیاامریکہ اور اسکے اتحادیوں کو کیمونیزم کا راستہ روکنے کے لیے افغانستان میں لڑنے کے لیے ’’مولویوں کی ضرورت پڑی تو ہم نے جہادی تیار کرکے دے دئیے…… اس نے ڈالروں کی برسات کردی جن کے باعث ہمارے ہمایوں اختر وغیرہ جنرلوں کی اولادیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالک بن گے……

انہوں نے ڈالروں کی ایک جھلک دکھائی اور ہم نے ایمل کانسی پکڑ کر امریکہ کے حوالے کردیا۔جس پر امریکی اٹارنی جنرل نے عدالت میں احتجاج کرتے ہوئے کہ ’’ ہم (پاکستانی)تو چند ڈالروں کی خاطر اپنی ماں تک بھیچ دیتے ہیں پگھر حکومت نے اتنی بڑی رقم کیوں ادا کی‘‘ہمیں پھر بھی غیرت نہ آئی۔امریکیوں نے یوسف رمزی مانگا ہم نے دے دیا……انہوں نے عافیہ صدیقی مانگی ہم نے پاکستان سے گرفتار کرکے ان کے حوالے کردی……یہ چند کیس مجھے یاد تھے سو لکھ دیا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ان کے علاوہ بھی ہوں ۔جن کے عوض جنرل مشرف اور انکی رجیم نے ڈالروں کمائے۔جن کا اعتراف وہ خود اپنی تصنیف شدہ کتاب بیمثال میں فخریہ طور پر کرچکے ہیں۔

امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے’’ پالے‘‘ ہوئے جہادی سر اٹھانے لگے تو اسے انہیں ’’ راہ راست ‘‘ پر لانے کے لیے ایکبار پھر ہماری ضرورت محسوس ہوئی تو ایک چھ فٹ کے آرمٹیچ نے فون کال کی تو ہم تیار ہوئے گے۔ڈالروں کو دیکھ کر ہماری رال ٹپکنے لگتی ہے۔سو ہم نے اپنے اور امریکہ کے’’ مشترکہ پالتو‘‘ جہادیوں کو قابو کرنے اور انہیں انکی اوقات بتانے کے لیے نہ جانے کیا کیا دینے کی حامی بھر لی۔

امریکہ ڈالر دکھاتا رہا ہم اسلام آباد مین امریکی سفارت خانے کی توسیع کے نام پر امریکی جاسوسوں کو قدم رکھنے کی اجازت مرہمت فرماتے رہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی آپ کو اسلام آباد جیسا بڑا سفارت خانہ ڈونڈھنے سے بھی نہیں ملے گا۔ماسوائے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موجودامریکی سفارت خانے کے……ہم نے ایک جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو پکڑا تو امریکیوں کی جان نکل گئی۔ ہماری پولیس نے امریکی جاسوس کو تھانے میں وی آئی پی بھی نہیں بلکہ وی وی آئی پی کا درجہ عنایت فرمایا۔اور نہ جانے کیا کیا جتن کرکے اسے پاکستان سے بھگا دیا گیا۔ اس کے بدلے نہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کوئی اور مطالبہ تسلیم کروایا۔

امریکہ اور اسکے اتحادی ہمارے اندر گھس کر ہماری تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے اور ہم محض زبانی کلامی احتجاج پر اپنی قومی سلامتی کی حفاظت یقینی بنانے کے خواب دیکھتے رہے۔ امریکی ہمارے اعصاب پر کس قدر سوار ہیں اس بات کا اندازہ اس سے لگائئیں کہ اگر کبھی بھول چونک کر ہمارے دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو دفترخارجہ طلب کرلیا کرتاتھا۔ توامریکہ سفارت خانے سے میڈیا کو خبر جاری ہوتی کہ امریکی سفیر کو طلب نہیں کیا گیا بلکہ وہ معمول کی ملاقات کے لیے دفتر خارجہ گے تھے۔…… ہماری امریکیوں پر نوازشات ابھی بھی جاری و ساری ہیں۔ہم نے ریمنڈ ڈیوس تو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ دے دیا…… مگر انہوں نے عافیہ صدیقی کے بارے میں کہا کہ عدالت کے معاملات میں امریکی انتظامیہ مداخلت نہیں کرتی۔ لیکن ہم نے اسامہ کی مخبری کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کو امریکی دباو پر سزا پر نظرثانی کرتے ہوئے اس میں دس سال کی کم کردی ہے۔جسکا امریکی انتظامیہ نے شکریہ ادا کیا ہے۔دوچار ماہ میں شائد ڈاکٹر شکیل آفریدی ملالہ کی طرح پرواز کر جائے۔

اس وقت بھی ہمارے میڈیا مین ہاٹ موضوع ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شایع ہونے والی ایک سٹوری ہے۔’’نیویارک ٹائمز ‘‘کا نامہ نگار’’ شارلٹ گال‘‘ اپنے منصور اعجاز کی طرح پاکستان اور بیرون پاکستان شہرت کی انتہائی بلندیوں کو چھوو رہے ہیں۔ شارلٹ گال کہتا ہے کہ جنرل مشرف کو اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں رہنے کا علم تھا۔اور دیگر لوگ بھی اسامہ کے پاکستان میں قیام سے آگاہی رکھتے تھے۔ امریکہ میڈیا بے غیرتی اور بے شرمی کی تمام حدیں عبور کرگیا ہے۔اسے ذرا سی بھی شرم نہیں کہ سراسر جھوٹ پر رپورٹس شائع کرکے پاکستان کی عوام اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔
ارے بھائی جب ہمیں شرم نہیں آتی تو وہ کیوں کیوں شرم کرے

ہمارے بیوروکریٹس،فوجی جنرل اور سیاستدان کیوں امریکہ کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں۔کیوں ہمارے سیاستدانوں نے یقین کر لیا ہے کہ جب تک امریکی آشیر باد نہیں ہوگی تو اسلام آباد کا اقتدار نہیں ملے گا۔؟ کیوں کر ہمارے بیوروکریٹس نے اس بات کو ایمان کا درجہ دے ڈالا ہے کہ ۔جبتک امریکہ سے تربیت نہ لیں گے اس وقت تک یہ انتظامی صلاحیتوں نے نابلد رہیں گے۔ دنیا میں ان کا امیج نالائقوں کا سا رہے گا؟ کیوں ہمارے فوجی جنرلوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب تک ان کے پاس امریکی اسلحہ و بارود اور انکی فوجی تربیت امریکی نہ کریں گے پاک فوج دنیا کی اعلی افواج میں شمار نہیں کی جائیگی ؟ہمیں یہ اس احساس کمتری اور ذہنی غلامی کے طوق کو اتار پھینکنا چاہیئے یہی1965اور 1971 کی جنگوں میں امریکی کردار کاسبق ہے۔اگرہمارے رباب اقتدار و اختیار پاکستان اور قوم سے مخلص ہیں۔تو انہیں امریکی غلامی کی زنجریں توڑنے کا اعلان کردینا چاہئیے ۔ورنہ امریکی اور اس کے اتحادیوں کا میڈیا جھوٹی رپورٹس شائع کرکے ہمیں بلیک میل کرتا رہے گا-

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144890 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.