حالات مجھے اِس بات کی اجازت نہیں دیتے

عید کے حوالے سے خصوصی تحریر

یوں تو دنیا میں قومی، ملی اور دینی تقریبات کو منانے کا سلسلہ زمانہ قدیم سے جاری ہے اور دنیا کی ہر قوم کسی نہ کسی انداز اور رنگ میں ان تقریبات کا اہتمام کرتی ہے، جشن مناتی ہے، خوشیوں کے شادیانے بجاتی ہے، لیکن ان کا جشن اور یوم عید عیش و عشرت اور نفسانی خواہشات کے تابع اور شہوانی لذتوں پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ اسلام کا تصور عید نرالی ہی شان کا حامل ہے اور اِس کے منانے کے انداز و اطوار دیگر قوموں کے طور طریقوں سے بالکل مختلف، جدا اور الگ ہیں، ایک مسلمان کی عید احکام الہیہ کے ماتحت اور اس کی خوشیاں رضائے الہی کے تابع ہوتی ہیں، اس کا ہر فعل اپنے ربّ کی خوشنودی کیلئے ہوتا ہے اور اس کا جشن طرب روحانیت کی تکمیل اور سعادت دارین کے حصول کیلئے ہوتا ہے، دین فطرت ہونے کی وجہ سے اسلام نے غم اور خوشی کو منانے کے طور، طریقے مقرر کرتے ہوئے ان تمام غیر فطری رسوم و رواج کے پردوں کو بھی چاک کیا ہے جسے امتداد زمانہ اور انسان کی لاعلمی اور جہالت نے عید (یعنی خوشی )کے رخ روشن پر ڈالا تھا۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو خوشی کے موقع پر عید منانے کی اجازت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اپنے خالق و مالک کی اطاعت و عبادت ہے، وہ یاد دلاتا ہے کہ ایک مسلمان خواہ راحت میں ہو یا مصیبت میں اسے کسی بھی حال میں اپنے خالق سے رشتہ نہیں توڑنا چاہیے، ہر حال میں اپنے رب کی اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ وہی کبریائی کا حق دار اور حاکمیت و الوہیت کا مستحق اور حمد و ثنا کا ثنا سزا وار ہے، اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ عید منانا اور جشن و طرب کے ایام مقرر کرنا فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، تم عید مناؤ، خوشی و مسرت، فرح و سرور کا اظہار کرو، مگر جشن و نشاط میں اپنی ہستی کو فراموش مت کرو، اپنے حقوق و فرائض سے غافل نہ ہوجاؤ اور اپنے خالق کو مت بھول جاؤ، اسلیئے کہ ایک مسلمان مومن ِصادق کی سچی خوشی اور حقیقی نشاط کا راز اِس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنا تن من دھن سب کچھ اپنے آقا و مولا کے سپرد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ” میری نماز، میری عبادات، میرا جینا، میرا مرنا اس رب العلمین کیلئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔“

آج ایک بار پھر اسی پیغام کو لے کر عید کا دن ہمارے درمیان موجود ہے، لیکن اِس خوشی و انسباط کے موقع پر عید مناتے اور عید کی مبارکباد دیتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے اہل وطن اور دنیا بھر کے ان مسلمانوں کو جو کفر طاغوت کے ظلم و جبر کا شکار ہیں، جو بے سرو سامانی کے عالم میں بے گھر در کھلے میدانوں میں پڑے ہوئے ہیں، بھوک، پیاس، تن عریانی اور غم و اندوہ جن کا مقدر ہے، اس عید کے موقع پر میں انہیں کون سا تحفہ پیش کروں، خوشی کی کون سی کہانی سناؤں، ان کی قلبی و روحانی آسودگی کیلئے کون سا سامان پیدا کروں، جس سے ان کے بجھے ہوئے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جائے، زخم مندمل ہوجائیں اور قلب و روح میں اطمینان و طمانیت کا احساس پیدا ہوجائے، لیکن میری بے بسی، کمزوری اور بے سرو سامانی خود میری راہ میں حائل مجھے کچھ بھی کرنے نہیں دیتی، دوستون معاف کیجئے گا، جب میں اُن کیلئے کچھ نہیں کرسکتا تو آپ کی خوشیوں میں بھی شریک نہیں ہوسکتا، حالات مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتے، میں آپ کو عید کی مبارکباد نہیں دے سکتا، عید مبارک نہیں کہہ سکتا۔

اِس لئے کہ عراق، افغانستان اور کشمیر سے لے کر فلسطین تک پوری امت مسلمہ لہو رنگ اور بالخصوص ارض وطن پاکستان کی سر زمین اپنے ہی سپوتوں کے خون سے رنگین ہے، ملک کے دو صوبوں میں آگ لگی ہوئی ہے، ایک صوبہ نفرتوں کی آگ میں جل کر ہم سے دور ہوئے جارہا ہے تو دوسرا اغیار کی سازشوں کا شکار آمادہ شورش ہے، ملک میں ہر طرف غم اور سوگ کی سی کیفیت ہے، ہم جدھر کان لگائیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی آہ و بقاء، خوفناک چیخیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں، جس سمت نظر اٹھائیں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، بے گورو کفن لاشے اور کٹے پھٹے جسم پڑے ہیں، اجڑی ہوئی بستیاں اور جلتے ہوئے گھر ہماری دینی غیرت و حمیت پر نوحہ کناں ہیں۔

یہی حال پورے عالم اسلام کا ہے، کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچینا، جیسے ممالک میں اسلام کا نام و نشان مٹانے کیلئے سروں کی فصل کٹ رہی ہے، افسوس تو اِس بات کا ہے کہ ہم اپنے دشمن کو ازل سے پہچانتے ہوئے بھی اس کی گود میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، اس کے دامن میں سایہ عافیت تلاش کررہے ہیں، وہ ہر بار ایک ہاتھ سے ہماری پشت میں خنجر گھونپتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے ہمارے منہ میں خیرات کا نوالہ ڈالتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ہمارا آقائے نعمت ہے، گویا ہم عزت و وقار کی دولت سے تو محروم تھے ہی اب عقل و شعور سے بھی عاری ہوتے جارہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر اور مراکش سے مغربی ایشیاء اور مشرق بعید تک پھیلی ہوئی ہر نعمت سے مالا مال اللہ کی پسندیدہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نام لیوا امت اِس درجہ ذلیل و خوار کیوں ہے، غور کیا جائے تو دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے کہیں زیادہ اپنوں کی حماقتیں نظر آتی ہیں، پاکستان ہی کو لیجئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جغرافیائی اور مالی و سائل کے اعتبار سے بہترین خطہ زمین دیا، لیکن ہم نے اسے غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، آخری امت ہونے کے وصف کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کے آخری اور مکمل دین، قرآنی دستور اور سب سے بڑھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی صورت میں گھر سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر شعبہ حیات میں بہترین راہنمائی میسر تھی لیکن ہم نے شرف و کرامت کی اِن ساری نسبتوں کو اپنے لئے توہین سمجھا۔

اسلام نے ہمیں محبت و دوستی کا جو معیار دیا تھا، ہم نے اس کے برعکس کفار و مشرکین سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور اپنوں سے بیگانے ہوگئے، یوں ہم نے دینی شناخت، نظریاتی تشخص، ثقافتی معیار اور علمی برتری کو خود ہی فراموش کردیا، لہٰذا قدرت نے ہمیں عظمت و رفعت کی کہکشاؤں سے اٹھا کر ذلت کی پستیوں میں دے مارا، آج پاکستان اپنے درماندہ کارواں کو لے کر اکیسویں صدی میں رینگ رہا ہے، بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال اِس ملک کو گھر کے چراغوں سے ہی آگ لگ گئی، اِس کے محافظ بدقستمی سے تسلسل کے ساتھ اِس ملک کا خون چوستے رہے، اِس کے نظام سیاست و معیشت کی نہ کوئی سمت متعین ہوئی اور نہ ہی کوئی فکر و فلسفہ اور پالیسی، پورے کا پورا نظام اشخاص اور ان کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتا رہا ہے، جو الیکشن میں کامیاب ہوگیا ،وہ نقب لگانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹنے کے علاوہ کسی اور تعمیری کام کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پر وقت ضائع نہیں کیا۔

سامراجی آقاؤں سے لئے گئے نظام سیاست نے ہمارے سیاستداں کو یہ تحفظ بھی فراہم کیا کہ وہ بیرونی قوتوں کے کارندے بن جاتے ہیں، خدا ناخواستہ ان پر ملک میں کوئی کڑا وقت آ بھی جائے تو امریکہ٬ فرانس اور دوسرے یورپی ممالک میں پناگاہیں ان کی منتظر ہوتی ہیں، جہاں وہ بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے کتوں اور گھوڑوں سمیت منتقل ہوکر ملک بدری کے مزے لیتے ہیں، الغرض وہ ملک کے اندر رہیں یا ملک بدر ہوں، ان کے آرام و سکون اور عیش و عشرت کیلئے ہر نعمت دامن پھیلائے کھڑی رہتی ہے، لیکن غریب و محکوم عوام کہاں جائیں وہ تو زندگی کا بوجھ اٹھا کر دو قدم بھی چلنے کے قابل نہیں رہے اور اب تو ان کو اپنی ساری توانائیاں سانسوں کی ڈوری قائم رکھنے کیلئے صرف کرنا پڑتی ہیں، عجیب حال ہے عوام جس قدر بدامنی، مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے ہاتھوں نیم جاں ہیں، یہ مراعات یافتہ طبقہ اسی قدر خوش باش اور توانا دکھائی دیتا ہے، عوام کا خون نچوڑ کر اپنے مفادات کے عالیشان محل تعمیر کرنے والے قوم کے وسائل کو اپنے لئے شیر مادر سمجھتے ہیں۔

اِن تمام تلخ حقیقتوں کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ِان لیڈروں کو بار بار ملک و قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کے موقعہ کون دیتا ہے، کیا ہمارا دیا گیا ووٹ انہیں ایوان اقتدار تک پہنچانے کا باعث نہیں بنتا، ایک دو بار نہیں قوم اپنے ساتھ پچھلے 62سالوں سے یہ مذاق خود کررہی ہے، بات طبقاتی اونچ نیچ اور اقتصادی تفاوت تک محدود رہتی تو کسی حد تک قابل برداشت ہوتی، لیکن اب تو بات اِس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ ہماری سلامتی و بقاء بھی خطرے میں نظر آرہی ہے، دشمن ہماری تاک میں ہے، وہ ہمیں تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے، ملک کے دو صوبے آگ و خون کی لپیٹ میں ہیں، لاکھوں افراد اپنے گھروں سے دور کھلے میدانوں میں بے یارو مددگار بے سرو سامانی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں غربت، بھوک، بے روز گاری اور مہنگائی کی حالت یہ ہے کہ غریب اپنے معصوم بچوں کے گلوں میں برائے فروخت کے بورڈ آویزاں کرنے پر مجبور ہیں، روپے پیسے کی حرص میں بچوں اور خواتین کی اسمگلنگ تو رہی ایک طرف ان کے گردے اور دیگر اعضاء بیچے جارہے ہیں، بدامنی اور انارکی کی حالت یہ ہے کہ لوگ گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں، اندرونی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے حکومت کے ستون ڈگمگا رہے ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔

یہی حال دنیا بھر میں مسلمانوں کا ہے جو ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں، اسلامی تہذیب و ثقافت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،قوانین الہیہ کے ساتھ مذاق ہورہا ہے، لیکن ہمارے سیاسی رہنماؤں نے قوم کو سوئے حرم متوجہ کے بجائے امریکہ کو اپنا قبلہ و کعبہ بنالیا ہے، اب آپ ہی بتائیے کہ ان حالات میں کیسے خوشی منائی جاسکتی ہے، کیسے کسی کو عید کی مبارکباد دی جاسکتی ہے، یقیناً یہ بہت مشکل کام ہے، رسم دنیا نبھانے کیلئے دل کے زخموں کو دباتے ہوئے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے جب میں احباب سے ملتا ہوں، تو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہوئی درد کی شدید لہر مجھے میرے اپنوں کے درد سے لاتعلق اور بیگانہ نہیں رہنے دیتی، مجھے خوش ہونے والوں کی خوشیوں میں شریک نہیں ہونے دیتی، مجھے عید مبارک نہیں کہنے دیتی۔

دوستوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج عید کا دن ہمارے لیے دعوت فکر و عمل لے کر آیا ہے اور ہم سے ہمارے دائرہ کار اور اختیار کے مطابق اس احساس ذمہ داری کا متقاضی ہے، جس سے ہم بحیثیت مسلمان کسی طور بھی بری الذمہ نہیں، عید کے یہ لمحے اپنے پس منظر اور پیش منظر میں ایثار و قربانی کا پیغام رکھتے ہیں اور تقاضہ کررتے ہیں کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غلاموں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاگو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اٹھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی صفوں کو درست کرو اور ایمان اور تقویٰ کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر دین کی دشمن قوتوں باطل کے خلاف ڈٹ جانے کیلئے تیار ہوجاؤ، کیونکہ یہی رمز مسلمانی اور امت کے درد کا اصل درماں ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 315721 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More