پاکستان رہے سلامت …… تاقیامت

برصغیر پاک و ہند کے تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تویہاں مسلمانوں کی حکومت کا باقاعدہ آغاز محمد بن قاسمؒ کی آمد سے ہوا۔ اس دور کی فتوحات کے بعد مسلمانوں نے ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی اس دور حکومت میں مسلمانوں نے نہ ہندؤوں کے مذہب کو چھیڑا ،نہ ان کی تاریخ اور شناخت کو مسخ کیا ،نہ ان کی مذہبی و تہذیبی رسومات پر حملے کیے۔ نتیجتاً مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکومت میں بھی ہندوؤں کی اپنی شناخت باقی رہی۔

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی تسلط کے خلاف لڑی گئی اس جنگ میں ہندوؤں نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور مسلمان یہ جنگ ہار گئے۔ انگریزوں نے اس جنگ کا انتقام بڑی بے دردی سے لیا اور مسلمانوں کا جانی، مالی اور معاشرتی استحصال شروع کر دیا۔ دوسری جانب انگریز کی چاپلوسی کر کے ہندو برطانوی راج کے نور نظر بن گئے اور ان کی ساری مہربانیاں حاصل کر لیں۔

جس دن سے مسلمانوں نے برصغیر پر قدم رکھا اپنی تمام خوش اخلاقی رواداری کے باوجود ہندوؤں نے انہیں قبول نہیں کیا۔ ہندو ذہنیت ہمیشہ تعصب سے پُر رہی اور مسلمان ان کی نظر میں کم تر ہی رہے۔ جنگ آزادی میں شکست کے بعد ہندو نے مسلمانوں سے کئی سالہ حکمرانی کا انتقام لینا شروع کر دیا ۔ 1857میں برصغیر کے باسیوں کے اجتماعی مفادات و سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بننے والی کانگریس جلد ہی اپنے اصل مقاصد سے ہٹنا شروع ہو گئی اور صرف ہندوؤں کے مفادات کے لیے کام شروع کر کے اپنی اصلیت ظاہر کر دی۔ ہندووں میں مذہب و لسانیت کا تعصب اس قدر بھرا ہوا تھا کہ 1867ء سے ہی ملک میں اردو ہندی جھگڑے کو کھڑا کر دیا گیا۔ پھر یہ جھگڑا طول پکڑتا گیا اور 1906ء تا 1927ء بے شمار مسلم کش فسادات کا سبب بنا۔

کروڑوں بتوں کے پجاریوں کی مواحد مسلمانوں کے متعلق تنگ نظری کا یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلمانوں کے اکابر رہنماؤں علامہ اقبال و دیگر نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کا اقرار و انکار کرنے والے کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ مسلمانوں نے اپنی بقا و تشخص کی سا لمیت کے لیے ایک نئے وطن کی جدوجہد شروع کر دی۔ مسلمانوں سے ہندوؤں کی حددرجہ نفرت اور عدم برداشت کے بعد مسلم اکابرین اور عام مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ مسلمان اور ہندو متحدہ قومیت کی صورت میں کبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکیں گے۔پھر آہستہ آہستہ یہی سوچ مسلمانان ہند کی اجتماعی آواز بنتی چلی گئی۔ یہی دو قومی نظریہ تھا۔ جو نظریہ پاکستان بنا۔

آج نئی نسل اسی بات کو نہیں جانتی کہ مسلمان تو سب اقوام و مذاہب کے ساتھ مل کر اکٹھے رہ رہے تھے لیکن ہندوؤں کے رویہ نے مسلمانوں کو اپنی بقاء، دین اور تہذیب کو بچانے کے لیے ایک الگ وطن کے لیے سوچنے پر مجبور کیا۔ آج پاکستان کی ماضی اور اس کے قیام کی تاریخ سے لا علم نئی نسل سوال کرتی ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا؟ اگر ہم اکٹھے رہتے تو کیا ہوتا؟ اگر آر پار کو جوڑ کر دوبارہ اکٹھے ہو جائیں تو کیا حرج ہے؟ خالصتاً اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان کا وجود آج ایک سوالیہ نشان بنایا جا رہا ہے۔

برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی خواہش کو حقیقت میں بدلنے کے لیے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ بنی اور 23مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں ایک قرار داد منظور ہوئی جسے قرار داد پاکستان کہا گیا۔ مولوی فضل الحق کی پیش کردہ اس قرار داد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداﷲ ہارون، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ اور یوپی کے مسلم لیگی رہنماء چوہدری خلیق الزماں نے کی۔ اس قرار داد کے منظور ہوتے ہی ہندوستان کے گلی بازاروں سے ایک ہی نعرے کی گونج سنائی دینے لگی۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘،’’ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ‘‘۔ بالآخر طویل جدوجہد اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے اتحاد آگے انگریز سامراج کو مجبور ہونا پڑا اور 14اگست 1947ء کو کسی رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر نہیں، بلکہ لا الہ الا اﷲ کی نظریاتی بنیاد پر عالم اسلام میں مدینہ کے بعد دوسری ریاست معرض وجود میں آئی۔

نئے ملک کا اعلان ہوتے ہی ہندوستان کے لاکھوں مسلمانوں کی آنکھیں پاکستان کی سرزمین کو دیکھنے کے لیے ترسنے لگی۔ لاکھوں لوگوں نے ملک پاکستان کی طرف ہجرت شروع کر دی۔ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک ایسے ملک کی طرف چل پڑے جس کی تعمیر ابھی ہونی تھی۔ ہجرت کرنے والوں کے پاس جذبے کی دولت کے سوا کوئی خاص ساز و سامان نہیں تھااور نہ تقسیم کے بعد پاکستان کو اس کے حصے کے اثاثہ جات دیئے گئے جس سے یہ نوزائیدہ مملکت اپنے انتظامی امور کو چلا سکتی۔ مسلمانوں کو غلام بنا کر رکھنے والے ہندوؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ مسلمان ان کے ہاتھ سے نکل جائیں اور ایک آزاد ملک کی آزاد فضاؤں میں رہنا شروع کر دیں۔ ازل سے ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت ہجرت کے وقت ایک چنگاری بن گئی اور پاکستان کی جانب چلنے والے قافلوں کے مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور لوٹا گیا۔ ہجرت کے دوران لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں اور اپنی ماؤں بہنوں کی عصمتیں قربان کر دیں۔ پاکستان جانے کی تڑپ لے کے چلنے والے جب پاکستان پہنچے تو اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ دہلی سے لاہور پہنچنے والی ریل گاڑیاں اوران گاڑیوں میں سوار ہزاروں مسلمانوں کے جسم توپاکستان پہنچے لیکن آنکھیں دیکھنے کے قابل نہیں رہیں۔ ہر ڈبے سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے دروازوں سے خون میں نہائے بازو لٹک رہے تھے۔ نہ کوئی چیخ و پکار تھی اور نہ کوئی فریاد۔ راستوں میں ہندو اور سکھ بلوائیوں نے ایسے حملے کیے کہ شاید ہی کوئی قافلہ ان سے محفوظ ہو کر پاکستان تک پہنچ پایا ہو۔ آج بھی ان قافلوں سے اغوا ہونے والی ہزاروں مسلمان عورتیں ہندوؤں او ر سکھوں کی بیویاں اور مائیں بنی تلخ زندگی گزار رہی ہیں۔

لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں بننے والا پاکستان 6دہائیاں گزر جانے کے بعد دنیا بھر میں عالم اسلام کے ایٹمی و دفاعی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان دنیا بھر کے حاسدین اور کفار کے نشانے پر ہے۔ ہندوستان، امریکا اور اسرائیل آج بھی اس کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے ہمہ وقت مصروف ہیں۔

بھارت پاکستان پر اب تک کئی جنگیں مسلط کر چکا ہے۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ، پاکستان میں تخریب کاری، کارگل پر جارحیت، لائن آف کنٹرول پر شرارتیں، پاکستان کے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پانی کی چوری، سمجھوتا ایکسپریس حملے اور دیگر بے شمار سانحات و واقعات کے ذریعے بھارت آج پاکستان پر وار کر رہا ہے۔
ہندو آج بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم رکھتا ہے۔ چاہے وہ پاکستان کے مسلمان ہوں یا ہندوستان کے۔ آج بھی ہندوستان کے 25کروڑ سے زائد مسلمان بھارت میں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت، گجرات اور احمد آباد میں مسلمانوں کا قتل عام اور حالیہ طور پر مظفر نگر کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم، کشمیر میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں اور مالی گاؤں بم دھماکے جیسے واقعات یہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی چند مثالیں ہیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی اور بدامنی کے پیچھے افغانستان میں جاری امریکہ بھارت کا گٹھ جوڑ آج پھر مسلمانوں سے آزادی پاکستان کے وقت جیسا تقاضا کر رہا ہے۔ آج حالات پھر اہل پاکستان کو ایک ایسے موڑ پر لے آئے ہیں کہ وہ لا الہ الا اﷲ کی رسی کو تھام لیں ۔ اہل پاکستان نے اپنے اتحاد و اتفاق کے ذریعے پاکستان کے خلاف جاری مختلف سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی محب وطن دینی و سیاسی جماعتوں نے اہل پاکستان کو مایوسی اور بے چینی کے دلدل سے نکالا اورقوم کو ایک نیا حوصلہ دیا اور ان کا مورال بلند کیا۔ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر جماعۃ الدعوۃ پاکستان کی بہت بڑی ، منظم اور محب وطن قوت کے طور پر پورے ملک میں اپنی حیثیت منوا چکی ہے اور اپنی فکر اور تحریک کے لحاظ سے پاکستان کی وحدت کی مہم چلا کر اسکی علامت بن چکی ہے جس میں ہر صوبے ،زبان ، قوم اور علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بلا تفریق شامل ہیں ۔ جو صرف اور صرف پاکستان کے دفاع ، اتحاد اور نظم کی بات کرتے ہیں۔

آئیے!آج کے دن آزادی پاکستان کے لیے جانوں کی قربانی پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ، ہم اس بات کا عزم کریں کہ آپس کی رنجشوں اور نفرتوں کو مٹا کر جس طرح لازوال قربانیوں سے حاصل ہونے والے اس ملک کو ہم نے مختصر مدت میں دنیا کی ایک بے مثالی قوت بنایا ہے۔ آج اسی طرح اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہو گااور دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ پاکستانی عوام ایک فولادی دیوار کی مانند ہے۔ آج تک جو بھی اس سے ٹکرایا ہے اس نے اپنا نقصان کیا ہے اور جو آئندہ بھی ٹکرائے گا۔ اپنا ہی سر پاش پاش کرے گا۔

جماعۃ الدعوۃ ملک کی تمام دینی و سیاسی مذہبی و سماجی جماعتوں کو دعوت دیتی ہے کہ جس طرح کل سب نے متحد ہو کر انگریزوں اور ہندوؤں کو شکست دے کے پاکستان حاصل کیا تھا۔ آج پھر اسی لا الہ الا اﷲ پر متحد ہو کر دفاع پاکستان کے لیے وطن عزیز کے خلاف جاری سازشوں کا خاتمہ کریں ۔جماعۃ الدعوۃ نے ساری پاکستانی قوم کی طاقت کا رخ اپنے ملک کو مضبوط بنا نے اور دشمن کا مقابلہ کرنے پر مرکوز رکھا ہے۔ آئیے سب یک زبان ہو کراس بات کا عزم کریں کہ وطن عزیز ان شاء اﷲ تا قیامت قائم و دائم رہے گا اور بہت جلد پاکستان لا الہ الا اﷲ کی حقیقی جاگیر بن کر دنیا کے نقشے پر اپنی حیثیت منوائے گا۔

Dr Muzammil Iqbal
About the Author: Dr Muzammil Iqbal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.