پولیس اور عوامی توقعات

پولیس کے بارے میں پبلک میں ایک عمومی تائثر پایا جاتا ہے کہ یہ ایک ظالم و جابر اور نجانے کتنی خوفناک اور خطرناک فورس ہے مگر حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے،پولیس والے جن وسائل اور ان جن حالات میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد کم از کم میری رائے تو اس خیال اور رائے سے یکسر مختلف ہے،گذشتہ دنوں انڈین وفد کٹاس راج میں اپنی مذہبی رسومات ادا رکرنے آیا اس وفد میں لگ بھگ دو سو کے قریب ہندو تھے جن میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے یہاں پر میری انڈین پنجاب کے سابق لاء منسٹر ماسٹر موہن لال سے بات ہوئی میں نے ان کا انٹرویوکیا اور اس دوران جب میں نے ان سے پاکستانی لوگوں اور پھر پاکستانی پولیس جو ان کی سیکورٹی پر مامور تھی کے متعلق بات کی تو انہوں نے چار دفعہ زور دے کر یہ بات کہی کہ پاکستانی پولیس کا رویہ انڈین پولیس کے مقابلے میں انتہائی مہذبانہ اور ملنسار ہے،ماسٹر موہن لال نے کہا کہ مجھے پاکستان کے بارے میں عجیب و غریب داستانیں سنائی گئی تھیں جس کی وجہ سے واہگہ بارڈر پر پہنچ کر ایک دفعہ تو میں نے واپس جانے کا ارادہ کر لیا مگر پھر وہاں پر ایک پولیس اہلکار جس کا تعلق جہلم سے تھا نے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ میں گارنٹی لیتا ہوں آپ کی جان و مال کی انشااﷲ آپ کو کچھ بھی نہیں ہو گا اور آپ پاکستا ن سے حسین یادیں لیکر اپنے وطن لوٹیں گے،واہگہ سے لیکر چوا سیدن شاہ تک جس طرح پنجاب کے پولیس اہلکاروں نے ہمار ا خیال رکھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے یہ ہے وہ کریڈیبلٹی جو آپ لوگو ں کا افتخار ہے،میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ سب اچھا ہے بہت کچھ درست کرنے کی ضرورت ہے،آپ کو اپنا امیج بہتر کرنے کے لیے بھرپور تگ و دو کرنا ہوگی،جو حضرات بھی ان لیکچرز کااہتمام کر رہے ہیں ان سے اس سے قبل بھی گذارش کی تھی کہ یہ بہت اچھی کاوش ہے مگر اس کے علاوہ اور بھی بے شمار کام ہیں آپ کے بلکہ ریاست کے کرنے کے،اگر آپ پولیس کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ریاست اور ڈیپارٹمنٹ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی،ان کے ڈیوٹی ٹائمز کا تعین کرنا ہوگا جس کے لیے افرادی قوت اور وسائل کی فراہمی کو یقینی بنا نا ہوگا،کسی بھی تھانے میں بیٹھا محر ر اور منشی آنیوالے سائل کو کرسی اور پانی کا گلاس تب ہی مہیا کر سکے گا جب اس کے پاس ایک دو کلاس فور موجود ہوں گے اگر وہ خود اٹھ کر پانی لینے چل پڑے یا کرسیاں ڈھونڈنا شروع کر دے تو تھانے کے معاملات نہیں چل سکتے،موٹر ووے پولیس کو ہر سال نئی گاڑی دی جاسکتی ہے تو ان لوگوں کو کیوں نہیں ،کیوں صرف ان کو نو دس لٹر تیل پر ڈیلی ٹرخایا جا رہا ہے،امن وامان قائم کرنے والوں کے گھر والوں ان کے بیوی بچوں کو سب سے پہلے امان و سکون مہیا کیا جانا چاہیے،کتنے علاقوں میں کتنے اسکول ہیں جو صرف پولیس اہلکاروں کے بچوں کے لیے مختص ہیں،فوجی فاؤنڈیشن،بحریہ فاؤنڈیشن اور پی اے ایف اسکول قائم ہو سکتے ہیں تو ان کے بچوں کے لیے کیوں نہیں،باقی فورسز والوں نے اپنے حاضر و ریٹائرڈ افسروں اور اہلکاروں ان کے بچوں حتی ٰ کے ان کے ماں باپ کی ویلفئیر اور علاج معالجے کا بندوبست کر رکھا ہوتا ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے مگر پولیس والوں کے بچوں کے اسکولز اور ان کے والدین کے علاج کے آگے سوالیہ نشان کیوں ہے،ہر شخص پولیس سے نرم رویے اور خوش اخلاقی کی توقع کرتا ہے مگر اپنی دم پہ ذرا سا پاؤں آنے پہ تلملا اٹھتا ہے کہ جراء ت کس طرح ہوئی میری گاڑی میرا موٹر سائیکل بند کر دیا،ذرا سا بھی با اختیار بندہ نجانے کیوں اپنے آپ کو قانون و ضابطے سے بالا سمجھنا شروع کر دیتا ہے،ہر کوئی تھانے میں جانے سے پہلے اپنا سفارشی رقعہ یا ٹیلی فون ساتھ رکھتا ہے،اور اس کے علاوہ پولیس کے فرائض کا بھی ضرور تعین ہوناق چاہیے میاں بیوی آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو پولیس نے کچھ نہیں کیا،ایکسیڈنٹ ہو جائے تو پولیس نے کچھ نہیں کیا،آگ لگ جائے تو پولیس نے کچھ نہیں کیا،دو سگے بھائیوں کا جائیداد کا تنازعہ بس جی پولیس پیسے والے کے ساتھ ہے،آگ بجھانا اور میاں بیوی کو راضی کرانا کیا پولیس کا کام ہے ،ابھی گذشتہ دنوں شہر کے کاروباری پلازہ میں آگ لگی جو گھنٹوں بجھائی نہ جا سکی وہاں پہ ڈی پی او اور ایس ایچ او سٹی اپنی دستیاب نفری کے ہمراہ موجود تھے مگر جن کاکام آگ بجھانا تھا ان کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ گاڑی کہاں کھڑی کریں اور پانی کہاں سے ڈالیں میں نے وہاں بھی لوگوں کو کہتے سنا کہ دیکھ لیں جی کروڑوں روپوں مالیت کی مشینیری جل رہی ہے پولیس والے ہاتھ پہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں،وہاں پولیس کیا کرے آپ ان کو وہ وسائل بھی فراہم نہیں کرتے جو ان کی لازمی ضروریات ہیں آگ بجھانے کے آلات تو بڑی دور کی بات ہے،سب سے زیادہ ڈیوٹی ان کی ہر کوئی شاکی بھی ان سیے ،سند دن پہلے ایک لیڈی سول جج سے بات ہوئی تو ان کو بھی کہتے سنا کہ اگر یہ پولیس والے سدھر جائیں نا تویہ ذرا بھی اپنی ڈیوٹی صیح نہیں دیتے،میں نے بڑے ادب سے گذارش کی میڈم یہ پولیس والے ہی ہیں جو سب سے پہلے مجرم کو جپھا ڈالتے ہیں،سوال کیا گیا کہ اسلام آباد کچہری میں یہ کہاں تھے عرض کیا کہ اسلام آباد کچہری میں آنیوالوں نے اسی لیے تو اس جگہ کو حملے کے لیے چنا کہ وہاں موجود پولیس اہلکار کسی صورت فائرنگ نہیں کر سکتے کیوں کہ جس کسی نے بھی وہ علاقہ دیکھ رکھا ہے وہ بخوبی آ گاہ ہے کہ چند کنال پہ نجانے کیا کچھ تعمیر کر دیا گیا ہے ایک ایک کیبن میں دس دس وکیل اور باتھ روم سائز کے کمروں میں عدالتیں قائم ہیں،وہاں ورکنگ ٹائم میں لوگوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے وہاں اگر پولیس اہلکار گولی چلاتے تو بے پناہ نقصان ہوتا اور اگر کوئی ایک بھی وکیل یا راہ گیر پولیس کی گولی سے مر جاتا تو پھر یہ کہاں جاتے،میں نے اس کے علاوہ سب سے بڑی ذلالت جو دیکھی ہے وہ پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت ہے،جس سے نجانے کب جان چھوٹے گی ،چھوٹے گی بھی یا نہیں،کوئی پولیس والا آزاد رہ کر پرسکون ماحول میں اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے سکتا،ہر وقت اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر کسی ایم این اے ایم پی اے کو انکا رکیا تو اگلے دن کہیں دور دراز بیٹھا ہو گا،اب اگر ایک ایس ایچ او کو تعینات ہی ایم پی اے یا ایم این اے کرواتا ہے تو وہ کیسے اپنے متعلقہ سیاسی پردھان کو انکار کر سکتا ہے،آپ اگر ان کا امیج بہتر کرنا چاہتے ہیں ان سے کوالٹی ورک لینا چاہتے ہیں ایک ذمہ دار اور کوئیک ریسپانس فورس بنانا چاہتے ہیں تو ان کے کام میں سیاسی مداخلت بند کردیں ان کو شارپ شوٹر نئی گاڑیا ں نئے موٹر سائیکل اور ٹرینڈ کتے بمہ سٹاف مہیا کر دیں پھر دیکھیں کہ یہ لوگ کیسے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں،جہاں عام سیکورٹی ادارے فیل ہو جاتے ہیں وہاں پہ آرمی فی الفور کنٹرول کر لیتی ہے وجہ کیا ہے کہ وہ اپنے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ،فراہم کردہ بہترین وسائل کا استعمال بھی بہترین کرتے ہیں، ہیں وہ ہمارے ہی بھائی بند،فرق صرف مکمل اختیارات اور ان کے استعمال کا حق دینے کا ہے آپ ان کے اختیارات میں غیر ضروری قدغنیں بند کرواد یں پھر ان سے رزلٹ مانگیں جو معیار پہ پورا نہ اترے اسے گھر بھیج دیں،دنیا بھر میں سب سے زیادہ پولیس مظبوط ہوتی ہے جس کے ٹکٹ اور لکھے کو سپریم تک بھی کوئی چیلنج نہیں کر سکتاجب کہ اپنے ہاں صورتحال اس سے بالکل الٹ ہے،جب تک کتا کنویں سے نہیں نکلے گا کنواں پاک نہیں ہو گا،جتنی مرضی ورکشاپ کروا لیں لیکچر دلوا لیں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا،ورکشاپس اور لیکچرز کے ساتھ ساتھ ضرورت کتا کنویں سے باہر نکالنے کی بھی ہے،،،،(پولیس لائنز میں: پولیس کا امیج کیسے بہتر ہو: کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں ضلع بھر کے ایس ایچ اوز سے خطاب)