’آپ‘ کیا ہے ؟

بھلے ہی عام آدمی پارٹی نے دہلی انتخاب میں امید سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہو ، مگر جن لوگوں نے اس پارٹی کو عام سے خاص بناکر دہلی میں دوسری بڑی اکثریت دلائی ،ان میں سے بہت سیشاید اب پارٹی کے ڈھلمل رویہ کی بنیاد پر متنفر ہونے لگے ہیں ، ڈھلمل رویہ میں ہنوز تیز ی آتی جارہی ہے ، ٹکٹ کی تقسیم اورعام آدمی پارٹی لیڈروں کے عام انتخابات لڑنے اور نہ لڑنے کے نظریہ نے صاف ظاہر کردیاہے کہ کسی بھی معاملہ پر ان کا نظریہ صاف نہیں ہے ،عام آدمی پارٹی کے ذریعہ بنی دہلی میں حکومت سے قطع نظر ٹکٹ کی تقسیم کے لئے یہ پارٹی جو روش اختیار کررہی ہے ، وہ بھی اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے اورقول وعمل میں تضاد کی واضح دلیل بھی۔ بسااوقات ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس پارٹی کا جھکاؤ فرقہ پرستوں کی طرف ہے ، شاید انہیں ہی مضبوط کرنے کے لئے سیاسی گلیاروں میں آکر دھماچوکڑی اور ہڑبونگ مچارہی ہے۔

لوک سبھا کے لئے جاری لسٹوں کو بھی سامنے رکھ کر اس پارٹی کے نظریات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اندازہ ہوگا کہ عام آدمی کو ترجیح دینے والی پارٹی خاص لوگوں میں ہی محدود ہوکر اپنا سیاسی سفر جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ منظرعام پر آئی فہرست سے جہاں یہ ثابت ہوگیا کہ بی جے پی جس طرح مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں آنا کانی کرتی ہے ، بالکل اسی راہ پر عام آدمی پارٹی کے لیڈران بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔جیسا کہ عام آدمی پارٹی کا نعرہ ہے کہ ہم بھید بھاؤ کی سیاست نہیں کرتے ہیں ، فرقہ اورجماعت کی تقسیم میں ہمارا یقین نہیں ہے ، اگر اسی نظریہ کو سامنے رکھیں تو70لوگوں کی فہرست میں ایسے چہروں کو شامل کیا جاتا ، جن سیلگتا کہ عام آدمی پارٹی چہروں اور مذاہب کو سامنے رکھ کر ٹکٹ تقسیم نہیں کررہی ہے ،مگر جاری ہونے والی لسٹ سے صا ف ظاہر ہے کہ اندرون میں بنائے گئے لائحہ عمل کی بنیاد پر ہی ٹکٹ تقسیم ہوئی ہے۔اگر ٹکٹ کے اس کھیل کو مسلم نظریہ سے دیکھیں تو بھی مایوسی ہوگی ، کیوں کہ کسی نہ کسی سطح پرعام آدمی پارٹی میں دم مارہے چند مسلم چہرہ مسلمانوں کو عام آدمی پارٹی کی طرف مائل کرنے میں جڑے ہیں ، وہ بھی مسلمانوں کو ٹکٹ دلوانے میں سو فیصد ناکام نظر آئے ، حتی کہ خود ان کا ٹکٹ بھی خطرہ میں نظر آرہا ہے۔ٹکٹ کی تقسیم سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ آم عام پارٹی اب تک نہ سیکولر ہے اور نہ ہی مسلم نواز، کیوں کہ اگر سیکولر ہوتی تو بھی مسلم امیدوار کی تعدادزیادہ ہوتی اوراگر مسلم نواز ہوتی تو ایسے چہرہ شامل ضرور ہوتے ہی جو واقعی مسلمانوں کو مین اسٹریم سے جوڑ نے میں کوئی نہ کوئی کردار اداکرسکتے ہیں ۔ اس سیاسی کھیل سے یہ کہنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے ، آخر عام آدمی پارٹی کیا ہے ، کیاوہ ڈھلمل رویہ کی بنیاد پر ٹکٹ کی تقسیم میں غیر جانبداری نہیں اپنا رہی ہے یا پھر جن کے اشاروں پر ناچ رہی ہے ، انہیں خوش کرنے کے لئے یہ ڈرامہ جاری ہے ۔

تعجب تو اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ایک طرف جہاں مسلم دانشوروں کا طبقہ عام آدمی پارٹی کی طرف مائل ہور ہاہے ، وہیں دوسری طرف عام پارٹی کے لیڈران ان کے سہارے مسلمانوں کو سبز باغ دکھاتے مصروف نظر آرہے ہیں ۔دہلی میں واقع ایوان غالب میں22فروری کو عام آدمی پارٹی میں نمبر دو کی حیثیت رکھنے والے منیش سسودیا نے مسلم دانشوروں سے مل کر جو یقین دہانی کرائی ، وہ بھی جاری ہونے والی لسٹ کے مدنظر مزاق لگ رہاہے ، منیش سسودیا کے سامنے مسلم دانشوروں نے کہا کہ ہم اپنے طور پر انتخابی منشور تیار کرکے دیں گے ، جنہیں عا م آدمی پارٹی مسلمانوں کی فلاح کے لئے اپنے انتخابی منشور میں شامل کرے گی ، منیش سسودیا نے بھروسہ دلایا کہ ایسا ضرورہوگا ، ہم مسلمانوں کی فلاح کے لئے یہ کام کرسکتے ہیں ، مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ جو پارٹی ٹکٹ کی تقسیم میں جانبداری کا کھیل کھیلے وہ کیسے مسلم مسائل کے تئیں سنجیدہ ہوسکتی ہے ، بفرض محال اگر وہ مسلمانوں کے ذریعہ تیار ’مسلمانی انتخابی منشور‘کو شامل کرلے بھی تو اس کی کیاضمانت کہ یہ پارٹی کامیابی کے بعد انہیں عملی جامہ بھی پہنائے ۔ ایک یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اگر انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کی کوئی حقیقت ہوتی تو مسلمانوں کی صورتحال ناگفتہ بہ نہیں ہوتی ، ہر انتخاب میں نہ جانے کتنے وعدے کئے جاتے ہیں ، مگر ان میں سے کسی پر نیک نیتی سے عمل نہیں ہوتا ہے ، یوپی کی اکھلیش حکومت کو ہی لے لیجئے ، اس نے یوپی الیکشن سے قبل دو بڑے وعدے کئے تھے ، ایک جیل میں پھنسے بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی اور مسلمانوں کو 18فیصد ریزرویشن ، مگر دیکھئے کیا ہوا ن وعدو ں کا ۔

اسی طرح چند دنوں قبل خود اروندکجریوال نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں کہا تھاکہ وہ مسلمانوں کو امید سے زیادہ ٹکٹ دیں گے ، اولاً ، اگر یہ پارٹی نہ مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی دگر فرقوں کو تو آخر کجریوال نے یہ کیسے کہا کہ مسلمانوں کوامید سے زیادہ ٹکٹ دیں گے ؟ اگر انہوں نے کہا ہے تو آخر ٹکٹ کی تقسیم میں جانبداری کا کھیل کیسے ہور ہا ہے ؟ مسلمانوں کو نظر انداز کیو ں کیا جارہاہے ؟ آپ کو بتادیں کہ عام آدمی پارٹی نے70امیدواروں پر مشتمل جو دولسٹ جاری کی ہے ، ان میں فقط 4مسلم ہیں، یعنی اس تقسیم میں مسلمانوں کی نمائندگی 6فیصد ہے ۔مجھے یاد ہے کہ23فروری کو چند مسلم دانشوروں کی میٹنگ تھی ، اس میٹنگ میں عام آدمی پارٹی کا وہ مسلم چہرہ بھی تھا ، جو عام آمی پارٹی میں ٹکٹ تقسیم کرنے والی ٹیم کا بھی حصہ ہے ، بات یہ سامنے آئی کہ جو پارٹی مسلمانوں کو 15فیصد ٹکٹ دے ، اسے ہی مسلمان حمایت کریں گے ، عام آدمی پارٹی کے اس لیڈر نے بھی ایسا ہی کچھ کہا کہ عام پارٹی اس کے لئے تیار ہوسکتی ہے ، مگر مسلم دانشوروں سے عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کی کئی ملاقات کے بعد بھی مسلمانوں کے تعلق سے کوئی نظریہ سامنے نہیں آرہا ہے ، حالانکہ اس مسلم چہرہ نے مارچ کے دوسرے ہفتہ میں بھی عام آدمی پارٹی کے سیاستدانوں اور مسلم دانشوروں کو ایک اسٹیج پر بلانے کی مہم تیز کردی ہے ۔سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر 15فیصد، امید سے زیادہ مسلمانوں کوٹکٹ دینے اور مسلم انتخابی منشور شامل کرنے والے عام آدمی پارٹی کے لیڈران کہاں ہیں ؟کیاانہیں جاری ہونے والی دونوں لسٹ کے بارے میں معلوم نہیں ؟ کیا انہیں اپنے دئے گئے بیان پر کوئی افسوس نہیں ؟ 70امیدواروں کی فہرست میں چار مسلم امیدوار کچھ اس طرح ہیں : خالد پرویز، جنہیں مرادآباد سیٹ سے کانگریس کے ایم پی محمد اظہر الدین کے خلاف میدان میں لایا گیا ہے ، مدھیہ پردیش کے جبل پور سے عبدالنصیر حنفی ، مہاراشٹر کے سانگلی سے ثمینہ عبدالمجید خان اور سرینگر سے ڈاکٹر رضا مظفر بھٹ کو قسمت آزمانے کا موقع دیا گیا۔

دہلی میں گرچہ کوئی بھی مسلم ممبر اسمبلی منتخب نہیں ہوسکا ، مگر کئی حلقوں میں بڑی کامیابی حاصل کرکے کئی مسلم چہروں نے اپنی شناخت پیدا کرلی ، جس سے یہ امید ہوچلی تھی کہ انہیں لوک سبھا کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی قسمت آزمائی کا موقع دے گی ، مگر اب جب کہ ٹکٹ کی تقسیم جاری ہے تو انہیں بھی نظرانداز کردیا گیا، مثلاً ،اوکھلا حلقہ سے نمبر دو کی پوزیشن حاصل کرنے والے عرفان اﷲ خان کو بھی ایسے حلقہ سے ٹکٹ نہیں دیا گیا، جہاں سے ان کی کامیابی کی راہ ذرا آسان لگ رہی تھی ، لوگوں کو امیدتھی کہ عرفان اﷲ خان کے نام پر پارٹی مہر لگائے گی ، مگر تمام ترقیاس آرائیوں کو نظر انداز کرکے راج موہن گاندھی کو مشرقی دہلی سے امیدوار بنادیا گیا ۔ رہیں شاذیہ علمی تو انہیں بھی شاید سونیا گاندھی کے خلاف میدان میں لانے کی تیاری کی جارہے ، جہاں کی ڈگر بہت ہی مشکل ہے ، اگر جس اسمبلی حلقہ سے شاذیہ تقریباًساڑھے 3سو ووٹ سے ہاری ، وہیں سے انہیں لوک سبھا میں قسمت آزمانے کا موقع دیا جائے تو شاید فتح حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوجائے ۔

یہ ہیں وہ باتیں جو مسلمانوں سے متعلق ہیں کہ عام آدمی پارٹی کس نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو روکنے میں جٹی ہیں اور دگر سیاسی پارٹیوں کی طرح اس پارٹی کے قول وعمل میں بھی تضاد واضح نظر آرہاہے ، مسلمانوں سے قطع نظر ٹکٹ کی تقسیم سے بھی یہ صاف نہیں ہورہا ہے کہ آخر اس پارٹی کا 2014 کے انتخاباب کے لئے نظریہ کیا ہے ؟ کیوں کہ کبھی ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرستوں کی راہ آسان کرنے کی ذمہ داری لے لی ، کبھی ایسا لگتا ہے کہ اپنے کامیاب ممبر اسمبلی میں سے کسی کو ٹکٹ نہیں دے گی تو کبھی ایسا لگتا ہے کہ ممبران اسمبلی کو بھی لوک سبھا میں قسمت آزمانے کا موقع مل سکتا ہے ، ایک یہ بھی المیہ ہے کہ عام آدمی پارٹی میں ذرا حیثیت رکھنے والوں کو ایسے کانگریسی اور دیگر پارٹی کے منجھے منجھائے اور قدآور امیدواروں کے خلاف میدان میں اتار دیا جاتا ہے ، جن کے سامنے کامیابی مشکل نظر آتی ہے ،ایسے میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار جیتنے سے رہیں ، البتہ کانگریس کو نقصا ن پہنچنے کے بعد فرقہ پرست جماعت کے لئے راہ ہموار ہوتی نظر آتی ہے ، اس پس منظر میں مسٹر کجریوال کے ذریعہ مودی پر دیا گیا بیان بھی واضح ثبوت ہے ۔

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92366 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More