شوق حکمرانی اور امن عامہ

کچھ دن قبل روزن اقتدار سے خبر آئی کہ اسلام آباددہشت گردوں کے نرغے میں ہے اور غیر محفوظ ہے تو جناب چوہدری نثار علی خان نے خوفزدہ لوگوں کو دلاسا دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ بات اندر تھی مگر کیا کریں اسلام آبا دولت آباد اور دزد آبادبن چکا ہے۔ بھلا غریب آدمی اسلام آباد میں سکونت و سکون پذیر ہونے کا سوچ سکتا ہے؟ وہاں تو وہی لوگ رہ سکتے ہیں کہ جنہیں نہ آمدن کا اندازہ نہ خرچ کا۔ خیر سے یہی لوگ زیادہ ڈرپوک ہوتے ہیں اور دہشت گرد کے آنے سے قبل ہی ان کی روح فنا ہوجاتی ہے تو جناب چوہدری صاحب نے انکی ڈھارس بندھا دی۔کہاجاتا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے اسلام آباد میں چڑیا پر نہیں مارسکتی۔ داخلی راستوں پر عقابی نگاہوں والے سپوت تعینات ہیں ۔یہ پاکستان ہے اور یہاں ان سپوتوں کی تقرریاں زیادہ تر سیاسی رشوت ہے۔اراکین اسمبلی اور صاحبان اقتدار نے انہیں بھرتی کرانے میں کمال کردیا ساتھ ہی مال ۔جو کبھی اے ایس آئی کے لیئے ڈیڑھ دو لاکھ تھا۔ آج کا بھاؤ مجھے معلوم نہیں ۔ اندازہ ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے رشوت کا بھاؤ ضرور چڑھا ہوگا۔ بڑی گاڑیوں کو احترام کے ساتھ دو قدم پیچھے ہٹ کر گذرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اسلام آباد میں دہشتی گردی پھیلانے والوں کو تمام تر سہولیا ت حاصل ہیں۔ ایڈیشنل جج محترم مرحوم مغفور جناب رفاقت علی صاحب شہید کو نشانہ بنانے کے لیئے نہائت دیدہ دلیری سے کچہری پر حملہ ہوا۔ دہشت پھیلانے کے لیئے اندھا دھند فائرنگ کی اور نہتے لوگوں کو ناحق خون میں نہلا دیا، کئی گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے۔ جو کچھ ہوا وہ ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ عوام کو اپنے غیر محفوظ ہونے کا یقین ہوگیا۔ چند افراد حکمرانی سے ناجائز استفادہ کرتے ہوئے اپنے آپکو کئی حفاظتی حصارو ں میں رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان سے زیادہ اہم لوگ انتہائی غیر محفوظ ہیں جسکی مثال شہید جج صاحب ہیں۔ جہاں تغافل اور تجاہل کا غلبہ ہو وہاں یہی کچھ ہوتا ہے۔ اسلام آباد کچہری پہلے بھی ایک دفعہ دہشت گردی کا نشانہ بن چکی ہے۔ اسلام کے باغی مسلمان حکمران ہونگے تو یہی کچھ ہوگا۔ جو اس ملک میں اسلام کا آفاقی نظام رائج کرنے سے قاصرہیں۔ امن و آشتی اسلامی نظام حیات میں مضمر ہے۔ میں پہلے بھی چند مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ قرآن و سنت میں دہشت گردی کے خاتمہ اور امن و سکون کی بحالی کا حل ہے۔ اس سے باہر تو جہالت کفراور فساد فی الارض ہے۔ عوام ہی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ حکمرانوں نے تو اپنے گرد عوامی خزانے سے تنخواہ پانے والے محافظ رکھے ہوئے ہیں۔ پھر ان کا دعویٰ ہے کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور ہم جمہوریت کی پیدا وار ہیں۔ ایسی نمائندگی اور ایسی جمہوریت پر لاکھوں مرتبہ لعنت کہ جس سے ملک میں امن قائم نہ ہو اور روزانہ درجنوں افراد کا خون ناحق ہو۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا کچہری عوامی سیر گاہ ہے؟ وہاں داخلی واک تھرو گیٹ نہیں؟ اگر ہیں تو دہشت گرد کیسے اندرگئے؟ انہوں نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی وہاں بھی پرچی والے ہوتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کچہری میں متعین ستاون میں سے دس اہلکار غیر حاضر تھے پھر بھی سنتالیس حاضر تھے انہوں نے کیا کیا؟ اچھا خاصا وقت وہ وہاں رہے اور پھر اپنی گاڑی میں واپس چلے گئے۔ پولیس والوں نے انہیں گاڑی میں بیٹھنے کا موقع کیوں دیا؟ پولیس والوں کے پاس اسلحہ تھا انہوں نے دہشت گردوں پر فائر کیوں نہ کھولا؟ اگر انکی گاڑی کے ٹائر وں پر فائر کر دیتے تو پھر وہ گرفت میں آجاتے۔ جو صورت حال سامنے ہے اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ قومی خزانے سے تنخواہ پانے والے اپنی جانیں بچاکر سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں مقتولین میں پولیس کا کوئی اہلکار شامل نہیں۔

حیرت ہے کہ عدالت میں کوئی محافظ موجودنہ تھا۔ جانوں کے مقابلے میں وکلاء کے چیمبرز کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ تو بن جائیں گے مگر جو اس دنیا سے ناحق طور پر رخصت ہوگئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ ان کے خون ناحق کے بارے ان حکمرانوں سے ضرور پوچھے گا۔ اور اﷲ کی پوچھ گچھ کا نتیجہ نار جہنم ہے اور عذاب الہی ہے۔ طالبان نے اس طالمانہ کاروائی سے بریت کا اظہار کیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق طالبان نے احرارالہند نامی تنظیم کا سراغ لیا ہے۔ وعدوں کی پاسداری،اﷲ اور رسول ﷺ سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ طالبان از خود احرار الہند کے دہشت گرد وں کو حکومت کے حوالے کریں یا انکے خلاف خود کوئی مؤثر کاروائی کریں ۔ اس کے نتیجہ میں طالبان کا خلوص بھی سامنے آئے گا۔ سننے میں آیا ہے کہ ملک میں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ دن دہاڑے خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ کس نے یہ سب کچھ کیا ؟ معلوم نہیں۔ ظالموں کے خلاف قانون کبھی حرکت میں آیا ہی نہیں۔ اب ججوں نے کیا کرنا ہے؟ کیا انکے بال بچے نہیں؟ کیا انہیں اپنی جانیں عزیز نہیں؟ جج کو ایک گن مین بھی نہیں دیا گیا اور قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو درجنوں گاڑیوں میں پولیس ، ایلیٹ فورس اور رینجرز کی بیسیوں نفری حاصل ہے۔ ایوان اقتدار ہی ظالم ہوجائے تو تحفظ اور عدل کی توقع عبث ہے۔ کوئی اقتدار اور دولت کے نشے میں اﷲ مالک کائنات کو نہ بھولے ۔ وہ ظالموں کو عبرتناک انجام سے دوچار کرتاہے ۔ حکمران اگر ظلم ، قتل و غارتگری کا سد باب نہیں کرسکتے تو مسند اقتدار چھوڑدیں ۔ اﷲ پاکستانیوں کا محافظ اور مددگار ہے اور وہ بے سہارا عوامِ پاکستان کی ضرور سنے گا۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128058 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More