نواب اکبر بگٹی جنہیں موت پر بھی اختیار رہا - پارٹ٢

نواب صاحب کو اس قتل نے دو طرح کے دکھ دئیے ایک بیٹے کا غم دوسرا یہ احساس کہ بلوچ معاشرے میں سردار کا خاندان قابل احترام ہوتا ہے- سردار کی عزت کی خاطر قبیلے کے لوگ جان دیتے ہیں- لیکن یہاں اپنے ہی قبیلے کے لوگوں نے اٹھ کر اپنے بڑے کی بے احترامی کی اس سے نواب صاحب کو یہ اشارہ مل گیا کہ اس کے دشمن اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں-

یہاں ایک بہت ہی اہم بات ضروری ہے وہ یہ کہ سردار کے گھر اور خاندان کا احترام باہمی احترام کی بنیادوں پر استوار ہے اس سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ سردار کا گھر قبیلے کے لوگوں کیلئے قابل احترام ہے اور قبیلے کے لوگوں کی عزت سردار کے ہاں اہمیت نہیں رکھتی- بلوچ معاشرے میں سردار کیلئے جو شرط ہمیشہ رہی ہے وہ یہ کہ وہ اپنے قبیلے اور اپنی قوم کے ہر فرد کی عزت کو اپنی عزت سمجھتا ہے وہ اپنے ہر بلوچ کی چادر و چار دیواری کو اپنی چادر و چار دیواری سمجھتا ہے بد قسمتی سے انگریزوں نے ان اقدام کی کسی حد تک بگاڑ کر رکھ دیا اور عام بلوچ و سردار کے درمیان طبقاتی لکیریں کھینچی جاسکیں اس کے باوجود بلوچستان کے کئی ایک سردار آج بھی اپنی صفات پر پورا اترتے ہیں جن میں نواب اکبر خان بگٹی کا مقام یقیناً بلند ترین رہا ہے -

جن صفات کی بنیاد پر بلوچ معاشرے میں سردار کا انتخاب کیا جاتا ہے ان میں دیانتداری، بہادری، سخاوت اور قول کی پاسداری لازمی شرائط رہے ہیں- نواب بگٹی کے بارے میں بلا جھجک کہا جاسکتا ہے کہ آپ میں یہ تمام بلوچی صفات حد درجہ موجود تھیں- قول کی پاسداری، دیانتداری و بہادری کا ثبوت آپ نے جنگ کے میدان کا میں دکھائی- سرزمین سے دیانتداری کا بہترین ثبوت دیتے ہوئے، بہادری سے لڑتے ہوئے اس قول کی پاسداری کی کہ وطن سے عشق کرنے والا سر کٹا سکتا ہے لیکن اس کا سودا لگا کر سر نہیں جھکا سکتا-

سخاوت کے بارے میں مختصراً اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آپ بلوچستان کے واحد نواب تھے جس کے دسترخواں پر کوئٹہ، کراچی و ڈیرہ بگٹی میں بیک وقت دو سو سے پانچ سو لوگ کھانا کھاتے تھے- عام دنوں میں دو سو اور خاص دنوں میں ہزاروں بگٹی اپنے نواب کی خدمت میں موجود رہتے تھے-مہمان خانے اور اپنے لوگوں کو رکھنے میں بے پناہ خرچہ اٹھتا تھا ایک اندازے کے مطابق نواب صاحب کے اخراجات مہینے میں ڈیڑھ دو کروڈ روپے کے لگ بھگ تھے- بے تحاشہ دولت ہاتھ میں آنے کے باوجود کبھی بھی اسے جمع کرنے کا خیال نہیں آیا ڈیرہ بگٹی میں اپنے ہاتھوں سے ایک مہمان خانہ بنایا- آپ کی پوری زندگی میں یہی واحد تعمیرات تھی- کوئٹہ میں آخر تک اسی گھر میں مقیم رہے جسے ١٩٣٥ء کے زلزے کے بعد آپ کے والد نواب محراب خان نے تعمیر کرایا تھا- ایک گھر کراچی میں سلال بگٹی نے اپنی زندگی میں خود خریدا اس کے علاوہ نواب صاحب نے کوئی جائیداد نہیں بنائی- یورپ یا کسی اور ملک میں کوئی محل نہیں خریدا- اپنی جائیداد سانگھڑ کے ٣ ہزار ایکڑ اور سیاف ویلی میں١٢ ہزار ایکڑ زمین کی آمدن- پی پی ایل کو دی ہوئی زمینوں کے کرائے کا ساتھ اپنے لوگوں کے ہمراہ بیٹھ کر سادگی سے بانٹتے رہے-

جس طرح بلوچستان کے خلاف سازش کی جارہی تھی اس پر ایسا شاندار و مثالی بلوچ خاموش تماشائی نہیں بن سکتا تھا- لہٰذا بلوچستان اور خاص کر اکبر بگٹی شہید پر حملہ کوئی حادثاتی نہیں بلکہ ایک جامع منصوبے کا نتیجہ تھا- اسلام آباد اور بلوچستان کے تعلقات شروع دن سے اچھے نہیں رہے ہیں- بلوچ شروع دن سے راہ نجات ڈھونڈنے میں سرگرداں رہے ہیں اور پاکستانی حکام انہیں ہمیشہ غلام بنانے کے جنون سے آزاد نہ ہوسکا ہے- بلوچ اندرونی خلفشار اور بے اتفاقیوں کی وجہ سے منظم طور پر مزاحمت نہ کرسکا ہے- دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں نے کسی بھی دور میں اپنی اس خواہش کو نہیں چھپایا ہے کہ وہ بلوچستان کو مال غنیمت سمجھتے ہیں جو بھی اسلام آباد کی اس سوچ کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرے گا اسے کچل دیا جائیگا- آپریشن و قتل عام کے ساتھ ساتھ یہاں کی آبادی کا توازن بگاڑنے کیلئے شروع دن سے سازشیں ہوتی رہیں- ١٩٧٢ء میں آغا خان کی ایما پر ذوالفقار بھٹو نے ساحل بلوچستان پر تین چار لاکھ آغا خانیوں کو آباد کرنے کا پروگرام بنایا جو سردار عطاءاللہ مینگل کے بدولت پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا- ذوالفقار بھٹو کے ہی دور حکومت میں دوسری بار پنجاب کی آبادی کا بوجھ کم کرنے کیلئے پٹ فیڈر کے علاقے میں چند لاکھ کی نئی آبادی بسانے کے منصوبے کو سردار خیر بخش مری کے سرم
چاروں کے پے درپے حملوں نے ناکام بنادیا-

بلوچستان میں ماضی کے آپریشن کے تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو تمام آپریشنوں کا بنیادی مقصد بلوچوں کو اپنی سرزمین پر حاکمیت کے خواب سے محروم کرنا رہا ہے- پہلا آپریشن بلوچستان پر قبضہ کرنے کے لیے کیا گیا، دوسرا اس وقت ہوا جب خان قلات اور بلوچستان کے تمام سرداروں نے محسوس کیا کہ پاکستانی حکام نے ان کے ساتھ فراڈ کیا اور انہیں خود مختاری کا جھانسہ دیکر دھوکے سے پاکستان میں شامل کیا گیا لیکن وہ اب اتنے بےبس ہیں کہ پٹواری و نائب تحصیلدار بھی ان کی نہیں سنتے، اس سلسلے میں خان قلات احمد یار خان نے اسکندر مرزا سے ایک اہم ملاقات بھی کی تھی- جس میں بلوچستان، پنجاب و سندھ کے تمام بلوچ سردار و نواب شریک ہوئے تھے لیکن اسکندر مرزا نے ان کی شکایات اور انہیں وعدہ کئے گئے اختیارات دینے کی بجائے ناشائستہ زبان استعمال کر کے ان کی تزلیل کی- اس نئے صورتحال پر غور خوض کے لیے جب خان صاحب نے دوسری میٹنگ قلات میں بلوائی تو پاکستانی حاکم آپے سے باہر ہوگئے، کیونکہ وہ محسوس کررہے تھے کہ بلوچ اختیارات حاصل کرنے سے باز نہیں آرہے- نتیجے میں ٦ اکتوبر ١٩٥٨ء کو قلات پر پاکستانی فوج نے لشکر کشی کی، یہ آپریشن اتنا شدید تھا کہ قلات سے کوئٹہ تک تمام راستے پر ہر طرف فوج ہی فوج نظر آرہی تھی، خان صاحب گرفتار کئے گئے،ان کی چادر و چاردیواری کی بے حرمتی کی گئی، اس کے دو دن بعد یعنی ١٨ اکتوبر ١٩٥٨ء کو با قائدہ آپریشن کا آغاز ہوا جو بعد میں نواب نوروز خان زرکزئی کے سات قریبی سرمچاروں کی پھانسی اسر ان کی عمر قید کی سزا پر ختم ہوا-

تیسرا آپریشن ساٹھ کی دہائی میں جھالاوان، کوہستان مری و بگٹی علاقے میں شروع کیا گیا کہ تین بلوچ سردار، سردار نواب خیر بخش مری، سردار عطاءاللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی نے سیاسی طور پر زیادہ سے زیادہ اختیار لینے کے لیے کوششیں جاری رکھیں اور آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ نتیجے میں ایوب خان نے تینوں سرداروں کو سرداری سے معزول کیا اور ان کی جگہ سرکاری حمایت یافتہ سردار بٹھائے- ( جاری)
Baloch Voice
About the Author: Baloch Voice Read More Articles by Baloch Voice: 13 Articles with 13654 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.