جان بچانے والی چند جدید ترین ٹیکنالوجیز

اس وقت میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی بہت تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے جبکہ اب کئی ٹیکنالوجی اپنے دور رس اثرات کیلئے بالکل تیار ہے۔ ماہرین کے مطابق طب کے مستقبل میں جدت اور ڈاکٹر کے لمس کی حیثیت مرکزی ہونی چاہئے ۔ ڈان نیوز نے اپنی سائٹ پر چند ایسی جدید ترین ٹیکنالوجیز کا مختصر ذکر کیا جو مستقبل میں انسانی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کرسکیں گی٬ یہ رپورٹ کچھ اضافے کے ساتھ ہماری ویب کے قارئین کے لیے بھی پیشِ خدمت ہے-
 

گوگل گلاس
گوگل گلاس اس وقت بھی سرجری میں استعمال کئے جارہے ہیں۔ آج نہیں تو کل جب سرجن یہ گلاس پہنے ہوگا تو اس کے سامنے ' آگمینٹڈ ریئلٹی ' کے تحت مریض کی میڈیکل ہسٹری اور دیگر معلومات ظاہر ہوتی رہیں گی اور اس کےعلاوہ فوری طور پر ماہرین سے مشاورت، ایمرجنسی میں جی پی ایس سے لوکیشن کو معلوم کرنے اور ایمبولینس بلانے جیسے کام بھی آسانی سے ہوسکیں گے۔ چونکہ گوگل عینک کو آواز اور ہاتھوں کے اشاروں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آنکھوں میں پہنے ڈجیٹل کانٹیکٹ لینس دماغ سے کنٹرول کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے ذریعے مریض اصل آپریشن سے قبل ' ورچول آپریشن' کے مرحلے سے گزرے گا اور اپنے علاج کے متعلق بہت کچھ جان پائے گا۔

image


طبی فیصلوں میں مصنوعی ذہانت
آرٹیفشل انٹیلی جنس ( مصنوعی ذہانت) کا استعمال کئی ایک شعبوں میں کیا جارہا ہے۔ اگر ایک کمپیوٹر آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور طبی معلومات سے لیس ہو تو معلومات کی حد تک اچھے سے اچھا ڈاکٹر بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اگر کمپیوٹر کو طبی معلومات فراہم کی جائے تو اس کی بنا پر وہ علاج اور سرجری میں بہترین فیصلہ کر کے معالج کو اس سے آگاہ کرسکتا ہے۔ اس طرح مستقبل میں کوئی بھی ڈاکٹر علاج سے پہلے اپنے کمپیوٹر سے ضرور مشورہ کرے گا۔ اس کی ایک مثال آئی بی ایم کا ' واٹسن' کمپیوٹر ہے جو ایک سیکنڈ میں 20 کروڑ صفحات پروسیس کرتا ہے اور اس کی یہ صلاحیت کئی ادارے استعمال کررہے ہیں۔

image


رگوں میں دوڑتے پھرنے والے روبوٹ
کئی برس سے نینو ٹیکنالوجی کو مختلف بیماریوں کےعلاج میں استعمال کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ واضح رہے کہ نینو ٹیکنالوجی میں ایسے آلات اور روبوٹ وغیرہ تیار کئے جاتے ہیں جو ایک میٹر کے ایک اربویں حصے جتنے باریک ہوتے ہیں اور یہ انسانی جسم میں جاکر مختلف کام کرسکتےہیں۔ اسی طرح کے نینو روبوٹس کو خون میں داخل کر کے مریض کے مرض کی جگہ پر دوا ڈالی جاسکتی ہے۔ یہاں تک کہ مرض سے پہلے بھی اس کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ یہ دل کے دورے کے بعد ٹشوز کو آکسیجن کی سپلائی فراہم کرتے ہوئے انہیں مرنے سے بچاسکتے ہیں، کینسر سیلز سے لڑسکتے ہیں اور دیگر بیماریوں کو ختم کرسکتے ہیں۔

image


تھری ڈی پرنٹنگ
حال ہی میں تھری ڈی پرنٹنگ کے کئی کمالات سامنے آئے ہیں ۔ تھری ڈی پرنٹرز کو فارماسیوٹیکلز اور بایو ٹیکنالوجی کا ملاپ کہا جاسکتا ہے۔ غریب علاقوں میں تھری ڈی پرنٹر سستے طبی آلات تیار کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مصنوعی اعضا اور مریضوں کو سہارا دینے والے انفراسٹرکچرز بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ تھری ڈی پرنٹرز سے دل ، گردے، دوائیں اور زندہ سیلز ( خلیات) کی تیاری پر بھی کام ہورہا ہے۔ اس مقام پر سائنس فکشن آج کی حقیقت بن جاتی ہے۔

image


سب کیلئے جینوم، وہ بھی مفت
انسانی جینوم ( تمام جین کا مکمل نقشہ) تحقیق اور علاج کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ ہرماہ انسانی جینوم کی نقشہ سازی کی قیمت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ایک وقت آئے گا جب مریض کیلئے اپنا جینوم معلوم کرنا ، خون کے ٹیسٹ سے زیادہ آسان اور کم خرچ ہوجائے گا اور امکان ہے کہ یہ سہولت مفت میں فراہم کی جاسکے گی۔ لیکن اب بھی ہر فرد کا جینوم معلوم کرنا ایک مہنگا نسخہ ہے۔ اگر کسی مریض کا جینوم معلوم ہو تو اس کیلئے خاص دوا بنانا بہت آسان ہوگا کیونکہ ڈاکٹر وہی دوا دے گا جو اس کے جین کے لحاظ سے موافق ہوں گی۔ مستقبل میں دوا اور علاج کو جین کے لحاظ سے مرتب کرنے پر ہم زیادہ جلدی اور کم سائیڈ افیکٹس کے ساتھ شفا حاصل کرسکیں گے۔ اس طرح بعض حالات میں ماں کے پیٹ میں موجود بچے کا جین معلوم کر کے اس کی پیدائش سے قبل ہی اس کی بہت سی بیماریوں کو دور کرنا ممکن ہوگا۔

image


اسمارٹ سرجیکل آلات
ذرا تصور کیجئے ایسی چھری یا نشتر کا جو اتنی سمجھدار ہو کہ رسولی سے ٹکراتے ہی یہ بتا دے کہ یہ عام پھوڑا ہے یا کینسر کا مجموعہ ہے ۔ اس کا مطلب ہوگا کہ ٹشو یا بایوپسی کا تجزیہ کرنے کیلئے کسی لیبارٹری کی ضرورت نہ ہوگی اور سرجری کے آلات سے ہی یہ کام لینا ممکن ہوگا۔ اس سلسلے میں ٹرائی کورڈر ایکس پرائز کا اعلان کیا گیا ہے جس کے ذریعے ایک دستی اور وائرلیس آلہ بنایا جائے گا جو حقیقی وقت میں کئی امراض کا پتا لگائے گا اور ان پر نظر رکھے گا۔ ایسے آلات کو اسٹار ٹریک فلموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

image


میڈیکل لیبارٹری جو پہنی جاسکتی ہے
اب تیار ہوجائیے کیونکہ ایسے میڈیکل آلات پر کام ہورہا ہے جنہیں کپڑوں اور دیگر اشیا کی طرح پہنا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا ہی آلہ ، اسکیناڈو بھی ہے ۔ اسے ماتھے پر رکھتے ہی یہ بلڈ پریشر اور درجہ حرارت بتاتا ہے۔ ایک اور آلہ الائیوکور مریض کی ای ای جی کو نوٹ کرتا ہے۔ اسی طرح جبڑے کی حرکت، الرجی اور دیگر چیزوں کو نوٹ کرنے والے سسٹم بھی بنالئے گئے ہیں۔ ان سب کا مقصد یہ ہے کہ گھر اور کلینک پر ہی لیبارٹری سہولیات فراہم کی جاسکیں اور مرض کو شروع میں ہی پکڑا جاسکے تاکہ علاج آسان بنایا جاسکے۔ مستقبل میں جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو یو ایس بی کی طرح کسی آلے میں اپنا ڈیٹا لیتے جائیں گے اور ڈاکٹر اس کی روشنی میں آپ کا علاج کرے گا۔

image


نرس یا انسانی روبوٹ
جہاں ایک جانب عمر رسیدہ مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے وہیں دوسری جانب نرسوں کی تعداد میں عالمی قلت بھی سامنے آرہی ہے جو ان کی بنیادی دیکھ بھال کرسکیں- لیکن مستقبل میں ایسے روبوٹ (humanoid robots) موجود ہوں گے جو مریضوں کی بنیادی دیکھ بھال کرسکیں گے- یہ روبوٹ خون کے انتقال کے لیے مریض کے بازو پر موجود بہترین نس کا انتخاب کرسکیں گے- آپریشن روم میں بھی مریض کے علاوہ کوئی دوسرا فرد موجود نہیں ہوگا اور وہاں موجود آلات کا استعمال بھی یہی روبوٹ کریں گے جس سے آلات جراثیم سے پاک بھی رہیں گے-

image


مریض اور ڈاکٹر کا رابطہ اب اور بھی آسان
میڈیکل مواصلات دنیا بھر کے مریضوں اور طبی پیشہ ور افراد کو انتہائی متاثر کررہی ہے- میڈیکل کمیونیکیشن کے ذریعے سے نا صرف مریض اپنے مسائل سے ڈاکٹر کو آگاہ کر رہے ہیں بلکہ ان سے مسائل کے حل بھی دریافت کررہے ہیں- اس سلسلے میں سوشل میڈیا بھی انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے- مستقبل قریب میں مریض کی تمام معلومات آن لائن فراہم کی جائیں گی جنہیں کوئی بھی کسی وقت دیکھ سکتا ہے- طب کی تاریخ میں یہ ایک اہم ڈویلپمنٹ ہوگی اور اسی وجہ سے آنے والے ڈیجیٹل دور کے لیے ڈاکٹروں کو تربیت دی جارہی ہے-

image
YOU MAY ALSO LIKE:

The medical and healthcare sectors are in the midst of rapid change, and it can be difficult to see which new technologies will have a long-lasting impact.Ideally, the future of healthcare will balance innovative medical technologies with the human touch. Here, I've outlined the trends most likely to change our lives, now or in the near future.