کیڑے مکوڑے، پٹہ اورسیاسی گالیاں

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا اپنے زمانہ کے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے سے بچو کیونکہ ایک آدمی جنت والوں کے عمل کرتا ہے پھر اﷲ کے علم کے مطابق وہ پلٹا کھا جاتا ہے اور دوزخ والوں کے عمل کرنے لگ جاتا ہے اور وہ دوزخی بن کر مرتا ہے اور ایک آدمی دوزخ والوں کے عمل کر رہا ہوتا ہے پھر وہ اﷲ کے علم کے مطابق پلٹا کھا جاتا ہے اور جنت والوں کے عمل کرنے لگ جاتا ہے اور جنتی بن کر مرتا ہے اگر تم نے ضرور ہی کسی کے پیچھے چلنا ہے تو پھر تم ان لوگوں کے پیچھے چلو جن کا خاتمہ ایمان و اعمالِ صالح پر ہو چکا ہے اور وہ دنیا سے جا چکے ہیں جو ابھی زندہ ہیں ان کے پیچھے مت چلو (کیونکہ کسی زندہ انسان کے بارے میں اطمینان نہیں کیا جا سکتا نہ معلوم کب گمراہ ہوجائے )

قارئین! سیاست ایک بڑا ہی بے رحم کھیل ہے روز ازل سے ہی ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں کہ اقتدار اور ذاتی مفادات کی خاطر کبھی تو بادشاہوں نے اپنے بھائیوں کو قتل کروا دیا کہیں پر اپنے بیٹوں کے سر قلم کروا دیئے کسی جگہ بیٹوں نے اپنے باپ کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اسے قید کر دیا الغرض ایسے ایسے دلخراش قسم کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے زیادہ پیچھے مت جائیے صرف مغلیہ دور حکومت کے بادشاہوں کے احوال پڑھ لیں تو دکھائی دیتا ہے کہ اپنی محبت کی خاطر جہانگیر نے اپنے باپ اکبر اعظم کے خلاف بغاوت کا پرچم اٹھا لیا شاہ جہان کو اس کے اپنے بیٹے نے ایک قلعے میں قید کروا دیا ایسے بادشاہ سلامت بھی گزرے کہ جنہوں نے اپنے سگے بھائیوں کو بے دردی سے قتل کروا کر اپنے اقتدار کی بنیاد ان کے خون پر رکھی۔ یورپ میں بھی زمانہ جاہلیت میں جمہوریت کے عروج سے قبل ایسے ہی خون ریز واقعات تاریخ کے اوراق میں درج ہیں جنہیں دیکھ کر انسان پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ اقتدار کی خاطر انسان کس حد تک بے رحم اور ظالم ہو جاتا ہے کہ وہ رشتوں کا تقدس بھی بھول جاتا ہے اور انسانیت کے درجے سے گر کر ایک جانور جیسی یا اس سے بھی گری ہوئی حرکات کا ارتکاب کرنا شروع کر دیتا ہے ۔قلوپطرا اورہیلن آف ٹرائے جیسے کردار بھی موجود ہیں کہ جو اقتدار کی خاطر کسی بھی طاقت ور طالع آزما کی جھولی میں جانے سے گریز نہیں کرتیں اور اقتدار اور حکومت پر براجمان رہنے کے لیے اپنے بیٹے سے بھی ناجائز ازدواجی تعلقات کو دیوی دیوتاؤں کا کھیل قرار دے کر حرام کاری اور سیاہ کاری کے مرتکب ہوتے ہیں الغرض اس عارضی بادشاہت ،حکومت اور اقتدار کی خاطر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ایسی ایسی حرکات کرتا ہے کہ جو عقل و شعور سے کوسوں دور ہوتی ہیں ۔

قارئین وقت بدل گیا ہے لیکن انسان نہیں بدلا طریقہ کار بدل گیا ہے لیکن وہی پرا نا کھیل اب نئے اندا ز سے کھیلا جاتا ہے اگر ہم پاکستان اور آزادکشمیر کی سیاسی تاریخ کو کھنگال کر دیکھیں تو ہمیں پاکستان کے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں ایسے ضمیر فروش اور بے غیرت لوگ کلمے کی بنیاد پر بننے والی اس مملکت کی کلیدی کرسی پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں جن کا کلمے سے رسمی تعلق بھی نہ تھا ان صاحبان اقتدار نے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کو بلا مبالغہ ’’ شراب و شباب کا مرکز ‘‘ بناکر رکھ دیا گورنر جنرل غلام محمد نے ایک انتہائی خوبصورت سوئس نسل کی لیڈی کو اپنا پرسنل سیکرٹری مقرر کر رکھا تھا اور یہ مفلوج حکمران صر ف اس بات پر خوش ہو جاتا تھا کہ اس کی خوبصورت سوئس لیڈی سیکرٹری اس سے مسکرا کر بات کر لے او ر ان کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھ جائے ۔ہمارے وطن میں سکندر مرزا جیسے فوجی ڈکٹیٹر بھی سربراہ مملکت کی حیثیت سے تشریف لائے جو ساری ساری رات ایوان صدر میں شراب و شباب کی محفلیں سجانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے اور ان کے دور حکومت میں ایوان صدر کا دفتر پوری رات کام کرتا اور صبح جب قریب آتی تو شیطان کا رقص تھم جاتا اور محفل برخاست ہوجاتی ہمارے اس وطن میں تو آغا یحییٰ خان جیسا فوجی ڈکٹیٹر بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان رہا کہ جس کی اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا کہ نامی گرامی طوائفیں داد عیش دینے کے لئے کھلم کھلا ایوان صدر دن اور رات کے اوقات میں آیا کرتی تھیں اس حوالے سے مختلف کتابوں میں یہ واقعہ درج ہے کہ پاکستانی فلم ایکٹریس ترانہ ایک شب ایوان صدر پہنچیں اور صدر سے ملاقات کا عندیہ دیا گارڈز نے انہیں دروازے پر روک لیا اور کافی دیر بعد انہیں ایوان صدر جانے کی اجازت دی رات گئے جب وہ واپس آنے لگیں تو دروازے پر وہی گارڈز کھڑے تھے انہوں نے ایک ساتھ اداکارہ کو سیلوٹ پیش کیا اداکارہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ آتے ہوئے آپ لوگوں نے مجھے کافی دیر انتظار بھی کروایا اور کسی قسم کی عزت افزائی بھی نہ کی اب جاتے ہوئے آپ مجھے سیلوٹ مار رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر گارڈز نے ایک تاریخی جملہ دہرایا انہوں نے کہا ’’ آتے ہوئے آپ صرف ترانہ تھیں اور جاتے ہوئے اب آپ قومی ترانہ ہیں ‘‘ پوری پاکستانی تاریخی ایسے ان گنت کرداروں سے بھری ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ جو ذاتی مفادات، اپنے عیش وآرام اور شیطان کے راستے پر گامزن ہو کر پاکستان جیسی انقلابی سلطنت کو اس کے اصل راستے سے ہٹانے کا مکروہ کام کرتے رہے ہیں یہ تو ان لاکھوں عظیم شہداء کی قربانیوں اور خون کی برکت ہے کہ پاکستان آج بھی قائم ہے اور حیرت انگیز طور پر ترقی بھی کر رہا ہے ورنہ یار لوگوں نے تو پہلے بھی کوئی کمی نہیں کی اور آج بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

قارئین! پاکستان کی طرح آزاد کشمیر کا بھی ایک قومی المیہ رہا ہے کہ آزادی کے ابتدائی چند برس چھوڑ کر قومی سفر کی چھ دہائیاں سرابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے گزر گئی ہیں ہر آنے والا بڑے بڑے دعوے کرتا ہوا آتا اور جانے والوں کی کرپشن کی داستانوں کے انبار لگا دیتا اور اگلا آنے والا سابقہ حکومت کے متعلق انہی نادر خیالات کا اظہار کرتا آزاد کشمیر میں زیادہ عرصہ سواد اعظم جماعت مسلم کانفرنس کی حکومت رہی ہے جن کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ یہ بنیادی طور پر پاکستان کی وفاقی حکومت کی حلیف جماعت ہے اگرچہ مسلم کانفرنس کے ناقدین حلیف جماعت کی جگہ اسے وفاق کی ’’کاسہ لیس جماعت‘‘ کا نام دیتے تھے اس جماعت نے چاردہائیوں تک آزاد کشمیر میں بلا شرکت غیرے حکومت کی وقت بدلا، وفاق کی ترجیحات بدلیں ، زمینی حقائق تبدیل ہوئے اور آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس دو حصو ں میں بٹ گئی اور مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے جنم لے لیا ۔26 جون 2011ء کے انتخابات میں چند ماہ قبل جنم لینے والی مسلم لیگ ن نے حصہ لیا اور سردارسکندر حیات خان، راجہ فاروق حیدر خان، شاہ غلام قادر اور چوہدری طارق فاروق کی قیادت میں اس جماعت نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کااعزاز حاصل کر لیا۔ بلوچ حلقہ ایل اے 22 میں جب وزیر حکومت اختر ربانی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے تو 22فروری کو ضمنی انتخاب کا فیصلہ ہوا انتخابی مہم شروع ہوئی اور ایسی شروع ہوئی کہ جیسے پہلے کبھی بھی نہ تو دیکھی تھی اور نہ ہی سنی تھی۔ پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کے لئے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنی بھاری بھرکم کابینہ، مشیروں اور کوآرڈی نیٹرز کا لشکر لے کر بلوچ پہنچ گئے اور ہر ووٹر کے دروازے پر دستک دیناشروع کر دی اس کے جواب میں مسلم لیگ ن کے صدر راجہ فاروق حیدرخان سابق وزیراعظم بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بلوچ میں اپنے امیدوار سردار فاروق طاہر کی الیکشن مہم چلانے لگے انہی دنوں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان میرپور اور آزاد کشمیر کے دیگر صحافیوں اور گلگت بلتستان کے صحافیوں کا ایک مشترکہ وفد وزیرامور کشمیر وگلگت بلتستان چوہدری برجیس طاہر سے ایک تفصیلی نشست کرنے کے لئے اسلام آباد گیا ملاقات میں چیئرمین وفاقی کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات ماروی میمن، سیکرٹری کشمیر افیئرز وگلگت بلتستان شاہد اﷲ بیگ اور دیگر بھی موجود تھے اس موقع پر چوہدری برجیس طاہر نے کشمیر کے صحافیوں سے سوال کیا کہ ایسا موقع کہ جب بلوچ میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں کیا الیکشن مہم کے لئے مجھے بھی اپنی پارٹی کے امیدوار کی حمایت کے لئے جانا چاہیے یا نہیں اس پراستاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان نے وفاقی وزیرامور کشمیر برجیس طاہر سے گزارش کی کہ اگرچہ صدر وزیراعظم آزاد کشمیر اور ان کی کابینہ کے درجنوں ارکان بلوچ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں لیکن وسعت نظری کاثبوت دیتے ہوئے وزیر امور کشمیر کو حد سے بڑھ کر مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ وفاق کے نمائندے ہیں اور ان کی حیثیت آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے لئے انتہائی محترم ہے اس پر برجیس طاہر کھل کر ہنسے اور کہنے لگے کہ ’’بلوچ کی انتخابی مہم چلانے کے لئے آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے صدر ووزیراعظم سمیت کیڑے مکوڑوں کی طرح ہر گلی اور محلے میں گھوم رہے ہیں اور آئینی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار کی انتخابی مہم میں حصہ لوں گا ‘‘ برجیس طاہر کی یہ گفتگو نیشنل میڈیا پر آئی اور تمام اخبارات میں چھپی تو پیپلز پارٹی کی آزاد کشمیر حکومت غصے کے مارے پاگل ہو گئی پیپلز پارٹی کے آخری جلسے میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کے متعددوزراء برجیس طاہر پر برس پڑے اور میڈیا پر ان کے الفاظ اس طریقے سے رپورٹ ہوئے کہ ’’ برجیس طاہر کے گلے میں پٹہ ڈالیں گے، برجیس طاہر ہمارا حاکم نہیں بلکہ آئین کے مطابق آزاد کشمیر حکومت کا ملازم ہے ‘‘اس آخری جلسے میں معزز خاتون پارلیمنٹرین ماروی میمن کے متعلق متعدد مقررین نے انتہائی نازیبا، اخلاق سے گری ہوئی اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی باق نہیں انتہائی گھٹیا تقریریں کیں اس سے قبل آزاد کشمیر اور پاکستان کے مختلف اخبارات میں ماروی میمن اور مظفرآباد سے منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے رکن قانون سازاسمبلی بیرسٹر افتخار گیلانی کے بڑھتے ہوئے روابط کے بارے میں معنی خیز خبریں بھی شائع کروائی گئیں اور انتہائی غلیظ ذہنیت رکھنے والے نامعلوم مکروہ لوگوں نے ماروی میمن اور بیرسٹر افتخار گیلانی کے رومانس کا تذکرہ کیا ان خبروں کا بیرسٹر افتخار گیلانی نے انتہائی سنجیدہ نوٹس لیا اور آخری اطلاعات آنے تک یہ معاملہ عدالت میں جانے والا ہے یہاں ہم یہ ضرور کہتے چلیں کہ ہر انسان کو کسی دوسرے کی ماں بہن اور بیٹی کے متعلق کوئی بھی بات کرنے سے پہلے یہ یاد کر لینا چاہیے کہ گھر میں اس کی بھی ماں بہن اور بیٹی ہے رہی بات کسی کو کیڑا مکوڑا کہنے کی یا کسی کے گلے میں پٹہ ڈالنے کی دھمکی دینے کی تو ہمارا یہ خیال ہے کہ یہ گفتگو کسی بھی پارلیمنٹرین کو تو بہت دور کی بات ہے ایک عام آدمی کو بھی زیب نہیں دیتی وزیرامور کشمیر کو بھی چاہیے کہ وہ آزاد کشمیر کا ’’وائسرائے اورلینڈ لارڈ‘‘ بننے سے پرہیز کریں کیونکہ کشمیری قوم اپنی ایک شناخت اور عزت رکھتی ہے کشمیری قوم کے وقار پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور اسی طرح وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید اور پیپلز پارٹی کے معزز وزراء کو بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ وفاقی وزیر امور کشمیر کے گلے میں ’’پٹہ ‘‘ڈالنے کی بات کر کے اپنے اخلاق کے اعلیٰ معیار کا اس طرح کا عملی ثبوت پوری دنیا کے سامنے پیش کریں پٹہ کسی بھی انسان کے گلے میں نہیں ڈالا جاتا یہ ٹرم جانوروں کے لئے استعمال کی جاتی ہے ویسے ہمیں ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ یہی وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر جب آزاد کشمیر کے پہلے دورے پر تشریف لائے تھے تو وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید اپنی کابینہ کے وزراء اور مشیروں کا ایک بہت بڑا لشکر لے کر ان کااستقبال کرنے گئے تھے اور کوہالہ پل پر پانچ سے زائدوزراء سینکڑوں گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ انہی وفاقی وزیر کا استقبال کر کے ایک بارات کی شکل میں مظفرآباد پہنچے تھے کل کا ’’ڈارلنگ وفاقی وزیر‘‘آج کا ’’ولن وفاقی وزیر ‘‘کیسے بن گیا ہم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ دو روز قبل اپوزیشن لیڈر و سابق وزیراعظم صدر مسلم لیگ ن راجہ فاروق حیدر کا ایک تفصیلی تاریخی انٹرویو ایف ایم 93 میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنیدانصاری‘‘میں کیا اس انٹرویو میں راجہ فاروق حیدر خان نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں نے وفاقی وزیر برجیس طاہر سے مظفرآباد میں کہا تھا اگر میں آزاد کشمیر کا وزیراعظم ہوتا تو میں دیکھتا کہ میرے کس وزیر کی یہ جرات ہے کہ وہ کوہالہ کے پل پر جا کر آپ کا استقبال کرے اپنی عزت انسان کو خود کرنا اور کروانا آنا چاہیے راجہ فاروق حیدر نے یہ بھی بتایا کہ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر جب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف مظفرآباد جوائنٹ سیشن سے خطاب کرنے کے لئے پہنچے تو وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید تقریر کرتے ہوئے خوشامد کی اس انتہا تک گر گئے کہ انہوں نے وزیراعظم پاکستان کو ’’ حضرت میاں محمد نواز شریف‘‘کا خطاب دیدیا اور ان کی اس خوشامد کا انداز دیکھ کر مسلم لیگ ن کی پارٹی میں ہوتے ہوئے ہم سب لوگ بھی ہکا بکا رہ گئے۔ اقتدار کی خاطر یہ مجاور حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے۔اسی انٹرویو میں وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے بھی گفتگو کرنا تھی لیکن انتہائی مصروفیت کی وجہ سے ان کے پی ایس او مسعود الرحمن اور بعد ازاں ان کے سیکرٹری عزادار حسین شاہ نے ہمیں رابطہ کر کے وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کا پیغام دیا کہ اس انٹرویو میں ان کی نمائندگی پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے مرکزی جنرل سیکرٹری اوروزیر خزانہ چوہدری لطیف اکبر کریں گے اور خود شرکت نہ کرنے کا ازالہ وہ اس صورت میں کریں گے کہ میرپور کے آئندہ دورے کے موقع پر وہ ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 93 بنفس نفیس آکر براہ راست انٹرویو دینگے چوہدری لطیف اکبر نے گفتگو کرتے ہوئے برجیس طاہر کی طرف سے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے قائدین اور کارکنان کو کیڑا مکوڑا کہنے پر شدید احتجاج کیا اور یہ خبر بھی بریک کی کہ وزیراعظم آزاد کشمیر اور آزاد کشمیر حکومت کی درخواست یا اجازت کے بغیر ہی وزیر امور کشمیر نے بلوچ انتخابات کے لئے رینجرز بلوا لیے اور یہ دھاندلی کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور ہم میاں نواز شریف سے اپیل کرتے ہیں کہ اس صورتحال کا نوٹس لیا جائے۔

قارئین! خیر بلوچ میں انتخابات ہوئے اور مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے واضح برتری حاصل کرتے ہوئے یہ سیٹ جیت لی اور اس کے بعد آزاد کشمیر کی سیاست ایک سائیکلون میں گھرگئی وزیر اعظم آزاد کشمیر نے اچانک گزشتہ روز چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل اور انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے برطرف کردیا اور بلوچ میں دھاندلی کے ذریعے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ہروانے کی تمام تر ذمہ داری ان پر عائد کردی۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے عجیب وغریب حکمنامہ جاری کر کے پورے آزاد کشمیر کے سیاسی ماحول میں ایک طوفان جیسی کیفیت پیدا کر دی بلوچ میں ضمنی الیکشن میں عبرتناک شکست کے بعد مجاور حکومت نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے بلوچ میں پہلے تو اپنے سیاسی مخالفین اور مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار فاروق طاہر کی فتح کا جشن منانے والے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے سردارتی مشیر سردار عنایت کی قیادت میں ایک جلوس نکالتے ہوئے پولیس پر فائرنگ کی اور کئی علاقوں کا رابطہ پوری دنیا سے کاٹ دیا اور اس کے بعد پہلے تو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے اپنے کابینہ کے ممبران کے ہمراہ وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر کے بارے میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کی اور اس کے بعد آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل اور انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔دوپہر کے وقت اچانک حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے پرائم منسٹر آفس میں یہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا کہ چیف سیکرٹری و انسپکٹر جنرل پولیس آزاد نے قوانین کے خلاف کام کرتے ہوئے رولز آف بزنس اور چین آف کمانڈ کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے آزاد کشمیر حکومت انہیں اپنی ذمہ داریوں سے برطرف کرتے ہوئے آزاد کشمیر چھوڑنے کا حکم دیتی ہے شام کے وقت کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے کیبنٹ ممبرز چوہدری لطیف اکبر، محمد طاہر کھوکھر اور دیگر کے ہمراہ وفاقی وزیر امور کشمیر، چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل، انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان اور دیگر کو بلوچ میں دھاندلی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے امیدوار فہیم اختر ربانی کی شکست کا ذمہ دار قرار دیا اور الیکشن سے ایک روز قبل اچانک چیف الیکشن کمشنر جسٹس منیر حسین چوہدری کی درخواست پر رینجرز کی بلوچ میں طلبی وتعیناتی کے عمل کو انجینئرڈ کرپشن کا نام دیا۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کی برطرفی کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بھی قانونی کارروائی اور انہیں برطرف کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری طرف اندرونی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وزیر امور کشمیر برجیس طاہر کی سفارشات پر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر میں آئینی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے اور موجودہ حکومت کو برطرف کرنے کے لئے اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان سابق وزیراعظم کو انتہائی اعلیٰ سطحی اجلاس میں طلب کرلیا ہے اس اجلاس میں مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے 13اراکین قانون ساز اسمبلی، بیرسٹر سلطان محمود گروپ کے بارہ اراکین قانون ساز اسمبلی اور دیگر پیپلز پارٹی کے باغی ارکان کے اشتراک سے چوہدری عبدالمجید حکومت کو مارچ کے پہلے ہفتے میں تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے ہٹائے جانے کی منصوبہ بندی کی پیش گوئی کی گئی ہے آنے والے تین دن مجاور حکومت کے مستقبل کا فیصلہ کر دیں گے۔

قارئین! آزاد کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے و ہ ٹھیک نہیں ہو رہا اگر چچا غالب کی زبان میں کہیں تو کیفیت کچھ ایسی ہے
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سؤ ظن ہے ساقیٔ کوثر کے باب میں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی ٔ فرشتہ ہماری جناب میں
رو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رقاب میں
اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے
جتنا کہ وہمِ غیر سے ہوں پیچ وتاب میں
اصلِ شہود وشاہد ومشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں

قارئین! آزاد کشمیر حکومت اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے کشمیر کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی جرات رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے جس کا ماضی میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا لینٹ افسران کو عموماً ’’آزاد کشمیر کا وائسرائے ‘‘سمجھا جاتا ہے اور آزاد کشمیر کے کسی بھی ’’ایرے غیرے نتھو خیرے‘‘ سیاستدان یا بیورو کریٹ کی کبھی بھی یہ جرات نہیں ہوئی ہے کہ وہ چیف سیکرٹری یا آئی جی پی کے آگے ’’چوں‘‘بھی کرے۔ چوہدری عبدالمجید نے تو حقیقتاً ایک نہیں بلکہ دو توپوں کو لات ماری ہے وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے خضر حیات گوندل کو چیف سیکرٹری کامنصب نہ چھوڑنے کا حکم دیدیا ہے اور آئی جی پی کو بھی چارج اپنے پاس رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس کے برعکس وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے فیاض اختر چوہدری کو عارضی مدت کے لئے چیف سیکرٹری اور فہیم عباسی کو آئی جی پی مقرر کرنے کا حکم جاری کردیا ہے اقتدار کے بے رحم کھیل میں دو لشکر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں اور ہاتھیوں کی اس لڑائی میں کشمیری عوام کا گھاس کی طرح کچلے جانے کا امکان ہے۔ اﷲ تعالیٰ کشمیری اور پاکستانی قوم کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
دو عقاب بہت بلندی پرپرواز کر رہے تھے اچانک ایک جیٹ طیارہ انتہائی تیزی سے ان سے بھی اونچا پرواز کرتا ہو شعلے اور دھواں چھوڑ کر آسمان سے گزرا ایک عقاب حیران ہو کر کہنے لگا
’’یار کتنا عجیب اورتیز پرندہ تھا یہ اتنی تیزی سے کیسے اڑ رہا تھا ‘‘
دوسرے عقاب نے سنجیدگی سے جواب دیا
’’اگر تمہاری دم میں بھی اس کی طرح آگ لگا دی جائے تو تم بھی اتنی ہی تیزی سے اڑو گے‘‘

قارئین!فیصلہ آپ خود کر لیں کہ دونوں حریفوں میں سے زیادہ تیزی سے زیادہ اونچی پرواز کون کر رہا ہے اور کس کی دم میں آگ لگی ہوئی ہے بعض سیاسی تجزیہ کار وزیراعظم چودھری عبدالمجید کے حالیہ اقدام کو ان کی طرف سے ’’سیاسی شہید‘‘ بننے کی منصوبہ بندی قراردے رہے ہیں لیکن اگر کشمیری قوم کے وقار کی خاطر چوہدری عبدالمجید نے خلوص سے یہ کارروائی کی ہے تو یقینا وہ کشمیری قوم کے سلام کے مستحق ہیں۔ پبلک سرونٹس چاہے وہ وفاق کے نمائندے ہی کیوں نہ ہوں وہ عوام کے نوکر ہوتے ہیں ان کے ’’حاکم ، وائسرائے یا لارڈ ‘‘نہیں بن سکتے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336814 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More