وہی ہوا جس کا ڈر تھا

کسی بھی مسئلے کا حل جنگ نہیں ہوتی دنیا میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ان میں سے اکثریت کا حل بلاآخر مذاکرات سے ہی نکالا گیا پاکستان کی تاریخ میں یہ موڑ انتہائی اہمیت کا حامل تھا جب ملک کے اند ر افراتفری اور دہشت گردی کاخاتمہ ممکن ہونے کو تھا لوگوں کو ایک امید ہو چلی تھی کہ شاید اب کی بار حکومت مذاکرات کے ذریعے سے امن کے قیام کو ممکن بنا سکتی اس کے لئے حکومتی کوششیں بلا شبہ لائق تحسین ہیں مگر جب حکومت ان مذاکرات کی طرف جا رہی تھی تو دوسری طرف نظر رکھنا بھی اس کا کام تھا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ و ہ کون سی طاقتیں ہیں جو یہ کھبی بھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان میں امن و مان کا بول بالا ہو جائے جب ہم کسی کو مذاکرات کی میز پر لے آتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ مذاکرات کو کامیاب بھی کیا جا سکتا ہے اب اس کو کس طرح سے راضی کرنا ہے یہ کام مذاکراتی کمیٹی کا ہے مثبت بات دونوں طرف سے یہ دیکھنے میں آئی کہ کسی بھی فریق کی طرف سے کو ئی پیشگی شرائط نہیں رکھیں گئی تھی جس وجہ مذاکرات آسان اور بامقصد ہوتے نظر آ رہے تھے اور ان میں ہونے والی پیش رفت بھی تسلی بخش تھی مگر اچانک سے کچھ ایسے واقعات رونماء ہوئے یا کیے گئے جس کی وجہ سے سارے کا سارا عمل رک گیا بلکل اسی طرح جب پچھلی بار مذاکرات کی میز پر آتے ہوئے طالبان کو ایک ہی امریکی ڈرون حملے سے اتنا دور کر دیا گیا اور قائم ہونے والی امن کی فضا کو خراب کر دیا گیاتھا اب کی بار ڈرون اٹیک تو نہ ہوا مگر تباہی اس سے زیادہ کی گئی تاکہ حکومت ان مذاکرات کو شروع کرنے کا سوچے بھی نہ دوسری طرف حملے ہمارے سیکیورٹی پر مامور ان بہادر نوجوانوں پر کیے گئے جن کی عزت و احترام عوام میں سب سے زیادہ ہے اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ عوامی دباؤ لا کر حکومت کو مجبور کیا جائے کہ ہ آپریشن کرئے نا کہ مذاکرات کی طرف جائے لیکن حکومتی صبر اس بات کی ضمانت ہے کہ حکومت کے سامنے ملکی حالات بلکل کھلے اور واضح ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر امریکہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو پاکستان یہاں طالبان سے بات کیوں نہیں کر سکتا جب سے امریکہ افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد سے صلح اور مذاکرات جیسے موضوع پر ایک سلسلہ کا آغاز ہوگیا تھامگر ایک شور تھا بھانت بھانت کی آوازیں سننے میں آرہی تھیں مذاکرات کرنے چاہیے مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے امن اومان کو لایا جائے طالبان کو قومی دھارے میں لایا جائے معتدل طالبان سے مذاکرات کیے جائیں اور دوسری طرف امریکہ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ ان مذاکرات کے خلاف بھی باتیں کر رہا تھاکہ ہم مذاکرات نہیں کریں گے مذاکرات نہیں ہوسکتے مذاکرات کی بات بھی نہ کرو آخری حدف کے حصول تک لڑیں گے کوئی صلح نہیں ہوسکتی بس اب فیصلہ ہو کر رہے گا وغیرہ وغیرہ مگرآہستہ آہستہ امریکہ کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی اور پھر بیان کچھ اس طرح کے شروع ہوگئے ہتھیار پھینکنے والوں سے مذاکرات ہو سکتے وغیرہ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ اخراجات ہیں جو ان جیسی جنگوں میں اکثر ہوتے ہیں اسی طرح جب پاکستان نے دیکھا کہ امریکہ خود تو طالبان سے مذاکرات کر کے اپنی جان چھڑوا رہا ہے تو پاکستان نے بھی طالبان سے مذاکرات کرنے کے لئے سوچنا شروع کیا اور ایک ایسا ماحول بن گیا کہ لگا کہ اب کی بار ہونے والے مذاکرات ماضی کے مذاکرات سے ناصرف مختلف ہوں گے بلکہ ان کے کامیاب ہونے کے امید واضح طور پر نظر آنے لگی تھی جب سے یہ مذاکرات شروع ہوئے تھے دہشت گردی کا سلسلہ بڑھ گیا تھا پہلے کراچی کا واقعہ ہوا پھر مہمند ایجنسی کا واقعہ یکے بعد دیگرے کئی دہشت گردی کے واقعات سے اس امن عمل کا راستہ رک گیا جس کے بارے میں لوگ بہت پر امید تھے حکومت اور طالبان کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اگر وہ مذاکرات کامیاب کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ان بیرونی طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہو گا وہ بیرونی طاقتیں جو دہشت گردی کی سفاکانہ کاروائیاں کر کے اس کا سارا الزام طالبان پرڈال کر حکومت کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ طالبا ن کے خلاف آپریشن کرئے ان کی اس چال کو سمجھنا ہو گا اگر دیکھا جائے تو پاکستان نے امریکی جنگ میں بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے اس جنگ کی وجہ سے پاکستان معاشی ،معاشرتی اور اقتصادی طورپر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے آج ہم جتنے بحرانوں کو سامنا کر رہے ہیں اگر ان سب کی شروعات دیکھی جائیں تویہی امریکی جنگ ہے جس کی وجہ سے ہم ایسی دلدل میں ڈوب رہے ہیں جہاں سے نکلنے کا واحد راستہ ہے کہ ہم اس جنگ کو ختم کر دیں اور مذاکرات کو کامیاب کرانے کی کوشش کریں ایسی صورت میں ہی پاکستان کو ان بحرانوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے اور پاکستان کے اس امن و سکون دوبارہ واپس لایا جا سکتا ہے اس کے لئے ان بیرونی طاقتوں کی سازشوں کو سامنے رکھنا ہو گااب یہ کام طالبان کمیٹی اور حکومتی کمیٹی کا ہے کہ وہ اس سارے معاملے کو کس طرح سے حل کرتی ہیں پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا تھا کہ دونوں اطراف کے لوگ ناقابل یقین حد تک تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہے تھے اور دونوں طرف کے لوگ بھی پر امید تھے عوام کی اکثریت کی سوچ بھی اس کے حق میں ہموار تھی تمام فریقین جانتے تھے کہ خدا نخواستہ اب کی بار اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ سارا عمل جو ملک سے دہشت گردی کے خاتمے امن و امان کی بحالی کے لئے شروع کیا گیا تھا بہت پیچھے چلا جائے گا اور اس عمل کے رکنے یا ٹوٹنے کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوگا اور اس عمل کو توڑنے والی قوتوں کا وہ مقصد پورا ہو جائے گا جس کے ذریعے سے وہ پاکستان میں امن و امان کے قیام کو نہیں دیکھنا چاہتی لیکن پاکستان کی عوام اب بھی پر امید ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت ان حلقوں سے بامقصد کامیاب مذکارات کرنے میں کامیاب ہو جائے گی -
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206866 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More