نجکاری…… مسئلے کا واحد حل ہے تو ؟

حکومت پاکستان مختلف سرکاری اداروں کی نج کاری پر تلی ہوئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ذاتی طور پر صوبائی وزراء اعلیٰ کا خصوصی اجلاس طلب کرکے ان سے مشاورت بھی کی اور معاونت بھی طلب کی ہے۔ اس سے حکومتی تیز رفتاری اور نج کاری کے لیے بے تابی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے پیچھے معاملات کی بہتری کا عنصر ہے یا کاروباری مفادات ، اﷲ ہی جانتا ہے۔ اگر معاملات کی بہتری کی پریشانی وزیراعظم صاحب کو لاحق ہو تو نج کاری سے زیادہ توانائی کے بحران کو ختم کرنے پر وقت صرف کرتے۔

ہماری حکومتیں بھی کیا کمال ہیں، کل تک ٹرانسپورٹ کو سی این جی پر منتقل کرنے کی مہم جاری تھی، دن رات اس کی برکات کا ذکر تھا، کروڑوں روپے اشتہار بازی پر لگائے گئے، جیسے کبھی ’’کم بچے اور خوشحال گھرانہ‘‘ کا سبق بچوں اور بڑوں کو صبح ، دوپہر او ر شام پڑھایا جاتا تھا۔ مغرب والے اب بچے پیداکرنے کی مہم پر کروڑوں لگا رہے ہیں، لگتا ہے اگلے چند سالوں میں ہمیں بھی اسی راہ پر چلنا پڑے گا۔

بھٹو صاحب نے پرائمری سکول تک سرکاری تحویل میں لے دئیے تھے، کاروبار کی ستیاناس کردی، تعلیم کا بیڑا غرق کیا۔ ان عقل مندوں کو دیکھیں یہ سکول اور ہسپتال تک پرائیوٹائز کر رہے ہیں۔ ابھی سٹیل مل، پی آئی اے اور واپڈا کی باری ہے، دوسرے مرحلے پر ہسپتالوں سے آغاز ہوگا، اسلام آباد کا سب سے بڑا ہسپتال ’’پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز ‘‘(المعروف کمپلیکس ہسپتال) بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی میں سابقہ دور میں تبدیل کردیا گیا تھا، جس پر ابھی عمل درآمد ہو رہا ہے۔ جہاں اسلام آباد کے علاوہ آزادکشمیر، خبیر پختون خواہ اور پنجاب کے قریبی اضلاع کے لاوارث مریض علاج کرواتے ہیں۔ اس کونیم سرکاری ادارے میں منتقل کرتے ہی مریضوں سے وصولیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوگا کہ کوئی ادھر جانے کے بجائے قبرستان کو ترجیح دے گا۔

سٹیل مل ، پی آئی اے اور واپڈا کے خسارے میں جانے کی وجہ سیاسی بنیادوں پر نالائق اور بلا ضرورت ملازمتوں کی فراہمی ہے۔ آج بھی اگر کسی غیر جانبدار ادارے سے ان سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مشاورت کی جائے تو مسئلہ غیر ضروری سٹاف اور مراعات کا ہی ہوگا۔ جو لوگ سفارشوں اور رشوت کی بنیاد پر بھرتی ہوتے ہیں وہ ’’پیداگری‘‘ سے زیادہ کچھ کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ ہماری حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ کسی غریب پاکستانی نے کسی کو بھرتی نہیں کرویا، نہ کسی کی مجال ہے۔

ہمارے ہاں نج کاری کا طریقہ کار یہ ہے کہ نوازشریف صاحب کے سابقہ دور میں ایک صاحب نے حبیب بنک کی نج کاری کے لیے سب سے کم بولی دی تو اسے جان کے لالے پڑ گئے اور وہ رضاکارانہ طور پر اپنی بولی سے دست بردار ہوگیا اور حبیب بنک آغا خان صاحب کی جھولی میں پھینک دیا گیا، یونائیٹڈ بنک منشا گروپ کو سونپا گیا۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری اس کی املاک کی کل مالیت کے تقریبا دس فیصد پر کی گئی۔ یہی معاملہ پی آئی اے اور دیگر اداروں کے ساتھ ہونا ہے۔اربوں روپے کا ماہانہ منافع دینے والا پی ٹی سی ایل کس بنیاد پر پرائیوٹ کیا گیا، کوئی نہیں جانتا۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ سٹیل مل، پی آئی اے اور واپڈا میں غیر قانونی بھرتیوں کو ختم کرتے ہوئے بدیانت افسران اور اہل کاروں کو فارغ کرکے اسے منافع بخش ادارہ بنا لیا جائے۔

اگر حکمران اپنے ملازمین کی کرپشن نہیں روک سکتے اور اس بنا ء پر اداروں کی نج کاری کر رہے ہیں تو کل کہیں ضلعی انتظامیہ بھی کی نج کاری نہ کرنا پڑے۔ ہمارے ہاں سرکاری اداروں میں بھرتی کرتے وقت جیالوں، متالوں، عزیزوں ،رشتہ داروں اور نوٹ برداروں کو جب تک ترجیح دی جاتی رہے گی تب تک کرپشن دن بدن بڑھتی رہے گی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں، ہسپتالوں میں علاج نہیں، زراعت میں تحقیق نہیں، عدالتوں میں انصاف نہیں، پولیس اور انتظامی اداروں میں کوئی قانون اور قاعدہ نہیں۔ اگر عوام کو بہتر سہولتیں دینا مقصودہے تو سٹیل مل اور پی آئی اے کے بجائے ان اداروں پر توجہ دیں۔ جو عوام کو جاہل اور مریض بناتے جارہے ہیں۔ سٹیل مل کی نج کاری سے حکمرانوں کو تو کچھ مل جائے گا، عوام کو کیا ملے گا۔ عوام کی بہتری کے لیے بھی اگر وزیراعظم کسی دن وزراء اعلی کو طلب کرلیں۔ کسی دن آزادکشمیر میں کرپشن کے خاتمے کے لیے کسی کی ذمہ داری لگا دیں، تب عوام محسوس کریں گے کہ حکمرانوں کو عوام کی بھی کچھ نہ کچھ پروا ہے۔ جہاں طالب علم کو ڈومیسائل کے لیے ، ڈرائیونگ لائسنس، ایک مرلہ زمین کا فرد کی نقل کے حصول، تھانے میں رپورٹ درج کروانے اور محکمہ برقیات سے بل کی نقل لینے کے لیے بھی رشوت دینا پڑے۔ وہ تو تھانے، کچہری، عدلیہ، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں تک کو پرائیوٹ کرنے بلکہ پوری حکومت کو کسی پرائیوٹ ادارے کے سپرد کرنے پرتیار ہیں۔

کسی نے بجا طور پر کہا تھا کہ پاکستان کو ملک ریاض (بحریہ ٹاؤن) کے حوالے کردیں وہ پورے ملک کو بنا، سنوار بھی دے گا اور سارے قرضے بھی ختم کر دے گا۔ جمہوریت کے نام پر جو لوگ ہمارے پر مسلط ہیں یہ لوٹ کھسوٹ سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتے۔ جس ملک میں تھرڈ ڈویژنر میٹریکولیٹ اور گریجویٹ وزیر تعلیم اور وزیر صحت ، وزیر منصوبہ بندی اور دیہی ترقی ہوں گے وہ کیا خاک ترقی کرے گا۔ ہمارے اکثر ممبران پارلیمنٹ کی ڈگریاں ہی جعلی ہیں۔ انہوں نے قوم کی کیا قیادت کرنی ہے۔ یہ لوگ قوم کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل کر خود اقتدار کے مزلے لے رہے ہیں۔ جس دن عوام کو شعور حاصل ہوگیا ، اس دن ایسے لوگوں کو وہ کسی دفتر میں نائب قاصد لگانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ لیکن وہ دن کب آئے گا؟
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105481 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More