کشمیر پربھارت کی مسلسل ہٹ دھرمی

بھارت کی مسلسل ہٹ دھرمی سے ثابت ہوگیا کہ وہ کشمیر کا معاملہ حل کرنا ہی نہیں چاہتا،بلکہ مسلسل پاک بھارت تعلقات کو کشیدگی کی بھینٹ چڑھائے رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی ہی پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور دوستی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایک طرف مذاکرات کا راگ الاپنا اور دوسری جانب ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیے جانا ” بغل میں چھری منہ میں رام رام“ کا مصداق ہے۔ بھارت اگر کشمیر کے معاملے کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتا تو کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی ثالثی کی پیشکش کا مثبت جواب دیتا۔گزشتہ دنوں اقوام متحدہ نے کہا کہ دنیا کے دیگر تنازعات کی طرح ہمارے دفاتر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جس کے جواب میں بھارت نے اقوام متحدہ کی جانب سے ثالثی کے بیان کو مسترد اور مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے کا راگ الاپتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی پاکستان کی جانب سے کشمیرکے بارے میں اس طرح کے بیانات دیے گئے، جنھیں بھارت نے باربار مسترد کیاہے۔اقوام متحدہ کے ترجمان کے بیان کوبھی ہم ماننے کے لیے تیارنہیں اور اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں۔

گزشتہ سال بھی اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے لیے انہیں ثالث بنانے پر اتفاق کریں تو وہ اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اس وقت بھی بھارت نے اسی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تھا، بلکہ بھارت ہمیشہ پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی بھی مذمت کرتا آیا ہے۔ حالانکہ بھارت خود کشمیر کے معاملے کو سب سے پہلے اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ 1947 میں جب بھارت نے تحریک آزادی کشمیر کے تقاضوں اور تقسیم برصغیر کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے نام سے الحاق کی ایک جعلی دستاویز کو بنیاد بنا کر 27 اکتوبر 1947ءکو ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ جبری الحاق کا ڈراما رچاتے ہوئے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں، تو کشمیر کے غیور عوام نے اس جبر ی الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، ڈوگرہ مہاراجہ اور بھارتی افواج کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے ریاست کے بڑے حصے کو آزاد کروا لیا۔ ممتاز برطانوی مو ¿رخ لارڈ برڈ ووڈ کے مطابق مجاہدین کی کارروائیوں کے مقابلے میں بھارتی فوجیں شدید دباو ¿ کا شکار تھیں۔ چنانچہ جب بھارت کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ اگر یہ جہاد جاری رہا تو مجاہدین بہت جلد پوری ریاست کو اس کے قبضے سے آزاد کرالیں گے، تو اس صورت حال سے عہدہ برآہو نے کے لیے 1948 کے آغاز میں بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کشمیر کا تصفیہ کرانے خود اقوام متحدہ میں جاپہنچے تھے۔

سلامتی کونسل نے اپنی 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادوں کے مطابق طے کیا کہ کشمیر میں فوری جنگ بندی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کا اہتمام کیا جائے۔ بھارت نے خود بھی اقوام متحدہ میں کشمیر کے لیے دی گئی اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ”حالات معمول پر آنے کے بعد اہل کشمیر بین الاقوامی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔“ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کی تمام تجاویز کو قبول کیا، تاکہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق مل سکے۔ اس کے برعکس بھارت ان قراردادوں کوتسلیم کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود ان قراردادوں سے منحرف ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ اس نے یہ غیر حقیقت پسندانہ دعویٰ کیا کہ کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ تاریخی حقائق کے منافی،قانونی اصولوں کے خلاف اورجھوٹ پر مبنی ہے۔یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کے سوا کروڑ انسانوں کا معاملہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر نظریاتی اور علاقائی دونوں لحاظ سے پاکستان کا جزو لانیفک ہے۔ پاکستان کے نام میں حرف ” ک “ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ معاشی اور دفاعی لحاظ سے کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے صدیوں پرانے خونی رشتوں کے علاوہ جغرافیائی اعتبار سے بھی کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے، کیونکہ اس کے دریاو ¿ں او رشاہراہوں کا رخ ماسوائے پاکستان کہیں اور نہیں جاتا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی نیت قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کوکشمیر سے محروم کرنے کی تھی،اسی لیے بھارت نے اپنی بھاری افواج کے ذریعے اس پر اپنا تسلط جما لیا اور پھر اس تسلط کو جائز تسلیم کرانے کے لیے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔اگر بھارتی لیڈر شپ نے خلوص دل کے ساتھ یو این سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنا کر کشمیر میں استصواب کا اہتمام کیا ہوتا تو آج پاکستان اور بھارت ایک اچھے پڑوسی کی طرح پ ±رامن بقائے باہمی کے فلسفے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ علاقائی تعاون کے ذریعے اپنی اپنی اقتصادی ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہوتے، جبکہ علاقائی اور عالمی امن کو بھی کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہوتا، لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھتے ہوئے کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے،جس کے جواب میں کشمیری عوام نے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، جو بھارتی سیکورٹی فورسز کی جانب سے دی جانے والی ہر قسم کی اذیتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرتے اور لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے آج بھی جاری ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے دنیا کو دکھانے کے لیے تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہر تنازعہ کے حل کی بات کی جاتی ہے، مگر جیسے ہی مذاکرات کے حوالے سے کشمیر کا تذکرہ ہوتا ہے تو بھارت کی ہٹ دھرمی والی رگ پھڑکنے لگتی ہے اور اسے اٹوٹ انگ کے سوا مسئلہ کشمیر پر کسی دوسرے لفظ کا استعمال سجھائی ہی نہیں دیتا۔ یہی بھارتی ہٹ دھرمی اب تک پاکستان بھارت کے درمیان تین جنگوں کی نوبت لا چکی ہے۔ بھارت کے پیدا کردہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے ہی پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی فضا استوار ہوئی ہے، جس سے علاقائی ہی نہیں عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ ان حالات میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے زیادہ معتبر ادارہ اور کونسا ہو سکتا ہے، جس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہی خود بھارت سب سے پہلے کشمیر کا تصفیہ کرانے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جا پہنچا تھا۔ اگر بھارت کشمیر کے معاملے پر کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تو پھر حریت کے متوالے کشمیری مجاہدین کی کاری ضربوں پر واویلا بھی نہ کیا کرے۔وہ خود ہی کشمیر کا فیصلہ کرلیں گے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.