کیا فرماتے ہیں علماء”آئین“ بیچ اس مسئلے کے؟

گزشتہ روز ہمارے ملک کے ایک بیرون ملک مقیم ”بہت بڑے لیڈر“ الطاف حسین نے ملک کے آئینی ماہرین کو ایک چیلنج کیا ہے کہ وہ موصوف سے آئین کے آرٹیکل 6 پر مناظرہ کرلیں۔ اگر وہ ہار گئے تو وہ آئینی ماہرین کے مؤقف کو مان لیں گے اور اگر بحث کے بعد آئینی ماہرین ہار گئے تو وہ آرٹیکل 6 پر عوام کو گمراہ کرنا چھوڑ دیں اور صحیح بات عوام کو بتانا شروع کردیں۔ الطاف حسین صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ مناظرے کے لئے پاکستان آئیں گے یا آئینی ماہرین کو وہاں جانا پڑے گا، انہوں نے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں یہ بھی بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اکیلے ہی مناظرہ کریں گے یا اپنی معاونت کے لئے کسی اور کو بھی مقرر کریں گے نیز ایسی بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ مقابلہ کسی ایک آئینی ماہر سے ہوگا یا مخالف سمت سے بھی ماہرین ہوسکتے ہیں؟ اگر ایم کیو ایم یا موجودہ متحدہ قومی موومنٹ کا سابقہ ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو بہت عرصہ پہلے ایک مناظرے کا سنا ہوا حال سامنے آنے لگتا ہے۔

ہوا یوں کہ ایک بہت بڑے عالم دین تھے جن کو کسی نے مناظرے کا چیلنج کردیا، بات ہوئی اور وقت اور مقام طے کرلیا گیا۔ مقررہ وقت پر وہ عالم دین اور ان کے مخالف پہنچ گئے۔ عالم دین بہت ساری کتابیں بھی ہمراہ لائے تھے تاکہ حوالے کے طور پر پیش کیا جائے۔ جب انہوں نے فریق مخالف سے استفسار کیا کہ کیا وہ بھی اپنے دلائل کے حق میں کوئی کتاب وغیرہ لے کر آئے ہیں تو جواب ندارد، چنانچہ دوبارہ اگلے دن کا وقت مقرر ہوگیا۔ اگلے دن عالم دین دوبارہ اپنی کتابوں کے ساتھ پہنچ گئے اور فریق مخالف بھی آگیا۔ انہوں نے کتابوں کا پوچھا تو اس بار جواب ہاں میں تھا۔ مناظرہ شروع ہوا تو عالم دین کو پہلے بات کرنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے اپنے دلائل پیش کئے اور حوالے کے طور پر کتابیں بھی۔ جب فریق مخالف کی باری آئی تو انہوں نے دلائل دیے لیکن جب ان سے کسی کتاب کے حوالے کی بات کی گئی تو انہوں نے کپڑے میں لپیٹی ہوئی کوئی چیز جس کو کتاب ہی سمجھا گیا تھا عالم دین کے سینے پر دے مارا۔ اسی طرح عالم دین بار بار حوالہ مانگتا رہا اور فریق مخالف کپڑے میں لپٹی چیزیں ان کی طرف پھینکتا رہا کہ ”یہ لو حوالہ“، اصل میں اس نے کپڑے میں اینٹوں کو لپیٹ رکھا تھا۔ جب عالم دین نے 15/20 کپڑے میں لپٹی اینٹیں بطور ”حوالہ“ اپنے سینے پر کھائیں اور مزید کی تاب نہ رہی تو وہ سٹیج سے نیچے اتر آیا اور فریق مخالف نے شور مچا دیا کہ وہ جیت گیا ہے اور عالم دین ہار گیا ہے۔ مناظرے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجمع میں ہر طرف ”حوالے“ اڑتے نظر آئے اور عوام کے شور و غل میں مناظرہ بغیر کسی فیصلہ کے ختم کرنا پڑا!

اگر کوئی ماہر قانون و آئین جناب الطاف حسین کا چیلنج قبول کرنا چاہے تو اسے کپڑے میں لپٹی ہوئی اینٹوں کا ضرور خیال رکھنا چاہئے بلکہ اب تو اینٹوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں اب تو حجم میں اینٹوں سے بہت چھوٹی چیزیں میسر ہیں جن پر کپڑا چڑھانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ ماہرین آئین تو ویسے بھی ان ”چھوٹی چھوٹی“ چیزوں سے دور ہی رہتے ہیں اور اپنے دلائل کو ہی سب کچھ سمجھ لیتے ہیں جبکہ فریق مخالف اگر ہر قسم کی اشیاء سے ”لیس“ہو تو یقیناً ان سے کوئی بھی ماہر آئین ”پنگا“ لینے کی جرات رندانہ کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی ایسا شخص جو ملک سے باہر بیٹھ کر سیاست کررہا ہو اور ایک آمر کی وکالت کررہا ہو وہ کیسے کسی ماہر آئین سے مناظرہ کرے گا؟ کیا آئین کا آرٹیکل6 واضح نہیں ہے کہ جس پر کسی قسم کے مناظرے کی ضرورت محسوس ہو؟ کیا آئین اور قانون کو تھوڑا بہت سمجھنے والا شخص بھی آرٹیکل 6 کی روح کو اتنا مسخ کرسکتا ہے جتنا آج کل پاکستان میں کیا جارہا ہے؟ جب پوری قوم کا متفقہ مطالبہ ہے کہ آمر کا ٹرائل کیا جائے تو کیا اسے بچانے کی کوششیں کرنے والے قوم کی آنکھوں سے اوجھل ہیں اور کیا ابھی بھی پارلیمنٹ میں کسی متفقہ قرار داد کی ضرورت ہے؟ اگر کوئی شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے یہ سوال پوچھے تو جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ رہ گیا سوال کہ اس سے پہلے والے آمروں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے اور ان آمروں کا ساتھ دینے والوں کو بھی آرٹیکل 6 میں لایا جائے تو میں یہ بات ان کے گوش گزار کروں گا کہ اس سے پہلے جتنے آمر آئے انہوں نے اپنے غیر آئینی اقدامات کو پارلیمنٹ سے بھی تحفظ دلایا اور اس وقت کی عدلیہ سے بھی۔ لیکن جو اقدامات 3 نومبر 2007 کو ایک آمر نے کئے تھے ان کو نہ تو پارلیمنٹ تحفظ دے سکی ہے نہ ہی عدلیہ! اور ایسا کیوں ہوا؟ صرف اور صرف اس لئے کہ اب اس ملک کے عوام ساری چالاکیوں اور چالاکوں کو سمجھ چکے ہیں۔ اب وہ دوبارہ اسی سوراخ سے ڈسے جانے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی اپنے کالم میں ذکر کرچکا ہوں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوم کو اس مسئلہ پر بھی سڑکوں پر نکلنا ہوگا، موجودہ آمر کو سزا دلوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ قوم کو پارلیمنٹ اور عدلیہ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اب بہت ہوچکا، اگر مستقبل میں کسی آمر کی چیرہ دستیوں سے اس قوم اور ملک کو بچانا ہے تو ہمیں اب فیصلہ کر لینا چاہئے کہ وہ آمر جس نے اس ملک کو ایک بیوہ کو روپ دینے کی کوشش کی، یتیم کا مال سمجھ کر لوٹا کھسوٹا اور غیروں کی کہنے پر یہاں کے بے کس اور لاچار عوام کو 9 سال تک ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا، آئین پامال کیا اسے کسی صورت معافی نہیں ملنی چاہئے۔ اگر زرداری اینڈ کمپنی مشرف کو معافی دینا چاہتے ہیں تو صرف اپنی طرف سے دے سکتے ہیں قوم کی طرف سے نہیں۔ لال مسجد کی شہید ہونیوالی بیٹیاں کیا کسی کی کچھ نہیں لگتیں، عافیہ صدیقی سے کسی کا رشتہ نہیں، گمشدہ افراد کے لئے کوئی تڑپ اور سسک نہیں رہا، اکبر بگٹی کا اس قوم پر کوئی حق نہیں؟ زرداری، بلاول اور گیلانی اگر معاف کر بھی دیں تو انہوں نے بہت کچھ وصول کرلیا ہوا ہے، متاثرہ لوگ کیوں معاف کریں اور وہ بھی ایسے شخص کو جو معافی مانگنے پر تیار بھی نہیں اور اپنے ظلم پر شرمندہ بھی نہیں؟ الطاف حسین اور اسی طرح کے دوسرے لوگوں سے پوری قوم کا سوال ہے کہ ”کیا فرماتے ہیں علماء”آئین“ بیچ اس مسئلے کے؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207231 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.