میں

میں نے کبھی ڈائری نہیں لکھی۔کبھی دلچسپی بھی نہیں رہی۔ مگر پتہ نہیں کیوں۔آج بہت دل کر رہا ہے کہ اپنے دل کی دھڑکنوں کی گونج کو الفاظ کا لبا س پہنائوں۔ اپنی خوشی کو جملوں میں سمیٹوں۔رخساروں میں پھیلے گلاب کو دوات بنا کر صفحے گلابی کر دوں۔اور اپنی مسکراہٹ کو ڈائری میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دوں۔ ایسا کیوں ہو رہا تھا میں اب تک سمجھ نہیں پائی تھی۔ لیکن جو ہو رہا تھا اس میں جذبات تھے۔ احساسات تھے اور شاید امیدیں بھی۔ اور میں ان جذبات اور امیدوں کو کوئی نام نہ دے پائی تھی۔یہ احساسات شاید نئی نئی اہمیت کا تجربہ تھا۔ یہ شاید اپنایت۔ یا پھر ہر لڑکی کا خواب۔ کچھ پتہ نہیں تھا۔ بس احساسات تھے۔بے ترتیب دھڑکنیں تھیں۔ عجیب و غریب سوچیں۔ یہ جو بھی تھا۔ اچھا تھا۔کالج بس کے آنے کا وقت ہو گیا تھا اور میں تیار ہوتی پھر رہی تھی۔بس نے ہارن دیا تھا۔اور میں ناشتا چھوڑ ے بیگ اٹھا کر بس کیطرف بھاگی تھی۔مگر میرے پہنچنے سے پہلے ہی بس نکل چکی تھی۔ دور سڑک پہ اسکی کمر مڑتی نظر آرہی تھی۔ چونکہ آج تین اہم لیکچرز تھے۔جن میں سے ایک لیکچر تو میں نے پچھلی بار بھی نہیں لیا تھا۔ پھر بغیر سوچے سمجھے عجلت میں مین روڈ پہ جا کر ٹیکسی پکڑی اور کالج روانہ ہو گئی۔ کالج کے گیٹ پہ جب پرس نکالا تو معلوم ہوا۔ پرس آج پیسوں سے خالی ہے۔ اب میں کیا کروں اتنی شرمندگی۔ کیا کہوں ٹیکسی والے کو۔کیسے جان چھڑائوں۔اف اب کیا ہو گا۔ اور۔ پھر وہی فلموں والا سین ہوا۔ یہ سین تو ہمیشہ بہانے ہوا کرتے ہیں۔مین گیٹ کیساتھ پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں سے ایک لڑکا برآمد ہوا۔"میڈم۔۔! ضرور آج آپ پیسے نہیں لا سکیں۔" مجھے بہت شرمندگی اور ذلت کا احساس ہو رہا تھا۔ نہیں پتا تھا کہ یہی احساس اب بے ترتیب دھڑکنوں میں تبدیل ہو کر میری ہر سانس میں بسنے والا ہے۔ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ بولا تھا۔ "کوئی بات نہیں ایسا ہو ہی جاتا ہے اور ایسا ہر بار ےتھوڑی ہوتا ہے۔" اس نے بٹوہ کھولا اور ٹیکسی والے سے پوچھ کر اسے کرایہ تھما دیا۔ یہ لکھتے ہوئے پتہ نہیں کیوں میری سانسیں تیز ہو رہی ہیں۔ قلم کانپنے لگا ہے۔ عجیب و غریب سا احساس ہو رہا ہے۔معدے میں عجیب سے مروڑ بھی اٹھنے لگے ہیں۔ وزن بہت ہلکا پڑ رہا ہے۔ جیسے میں اڑ رہی ہوں۔خوشیوں کی طرف۔ مکمل زندگی کے ساتھ۔ یہی تو وہ لمحہ تھا۔ یہی وہ وقت ۔جو قدرت نے میرے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔ وہ لڑکا کافی ہینڈسم اور اسمارٹ تھا۔ملی ہوئی گھنی بھوئیں اور گھنی پلکیں۔ پیچھے کی طرف کیے ہو ئے بال۔برائون آنکھیں۔ چپٹا ناک۔ ہلکی مونچھیں۔ ڈریس پینٹ شرٹ۔ عجیب سا سحر تھا اسکی شخصیت میں۔ عجیب سی کشش۔ کسی بھی لڑکی کے لئے وہ جاذب نظر ہو سکتا تھا۔"اگر آپ کل یہیں نظر آئے تو میں آپ کو لوٹا دوں گی۔" یہ کہ کر میں مین گیٹ کی طرف تیز قدموں کیساتھ بڑھنے لگی تھی۔ اس لڑکے کو کالج میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔کالج میں پورا وقت اسے ہی سوچتی رہی۔ کل جب پیسے پکڑائوں گی۔تو کیا کہوں گی۔ کس طرح شکریہ ادا کروں گی۔ اگر فلموں کیطرح اس نے چائے کا کہ دیا تو۔۔۔؟؟ پھر میری دھڑکنیں تیز ہو جاتی۔ اگر کل نہ ہو اپھر۔ اگر وہ پرسوں بھی نہ ہوا پھر۔ دل ڈوب جاتا۔ پیٹ میں عجیب و غریب قسم کا درد اٹھتا۔ پھر میں پیسے کیسے واپس کروں گی۔گھر میں بھی وہ ہر وقت میرے خیالوں میں چھایا رہا۔ خود کو کئی بار کوسا کہ کسے سوچ رہی ہوں۔ ان خیالات کو موڑنےکی بہت کوشش کی۔ مگر پھر یہ ایک ہی سمت کیطرف بہنا شروع کر دیتے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اگلے دن کا انتظار بڑی بے چینی سے کرتی رہی تھی۔

اگلا دن میری زندگی کا سب سے حسین دن تھا۔ سب سے خوبصورت۔ خوب تفریح کی۔ پہلی بار مجھے اپنی اس قدر خوبصورتی کا احساس ہوا تھا۔ پہلی بار کسی کی تعریف اتنی اچھی اور سچی لگی۔ پہلی بار خود کو مضبوط پناہ گاہ میں پایا۔ سوچتی ہوں۔ اس دن کو اہرام بنا کے اپنی خوشیوں کو ممی کی صورت میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دوں۔ ایسی خوشیاں باربار کہاں آتی ہیں۔ ایسے لمحے خریدنے سے بھی نہیں ملا کرتے۔ جب میں بس سے اتری ۔ وہ اپنی گاڑی کے بونٹ پہ بس سے اترنے والوں کی طرف نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ جیسے ہی ہماری نظریں چار ہوئیں۔ اسکی مسکراہٹ ابھری۔ میں نے نظریں فوراً جھکا دیں ۔ میں سیدھا اسکی طرف گئی۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بولا تھا۔"قرض چکانے آئی ہیں۔۔؟؟ اسکی ضرورت نہیں تھی"۔ اور میں جو کچھ بولنے کو سوچ کے آئی تھی۔ سب ایک طرف رکھ کے بولی۔"اگر آج میں نے پیسے نہ لوٹائے تو کل کوئی مجبور مدد سے محروم رہ جائے گا “۔”بڑا آگے تک سوچتی ہیں آپ۔۔!!"۔ میری آنکھوں میں آنکھیں جمائے اس نے کہا تھا۔یہ تبصرہ تھا یا سوال ۔ جسکا مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ لیکن عجیب سی خوشی ضرور ہوئی تھی۔ جسے میں کوئی نام نہ دے پائی تھی۔ "اچھا یہ پیسے پکڑیں مجھے کلاس کے لئے دیر ہو رہی ہے"۔میں جلد ہی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جانا چاہتی تھی۔عجیب سحر تھا اسکی آنکھوں میں۔دل فریب آواز ۔ من موہن شخصیت۔"ٹھیک ہے۔آپ پھر کلاس میں جائیں۔ جب چھٹی ہو گی۔میں یہیں ہوں گا۔آپ مجھے اپنی پسند کا کچھ کھلا دیجیے گا"۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ مجھے پریشانی ہونے لگ گئی تھی۔میں نے پرس میں علیحدہ سے رکھے ان 220 روپوں کو نکالا۔اسکی گاڑی کے بونٹ پہ رکھے اور آ گئی۔ پورے کالج کے وقت میں یہی سوچتی رہی۔اگر اسے کھلانا پڑ جاتا تو کیا کھلاتی۔ اپنی فیورٹ یا اسکی فیورٹ۔ کہاں کھلاتی۔ اچھا بھی لگتا کہ نہیں۔ سارا وقت دل کی دھڑکنیں عجیب سی دھن پہ ناچتی رہیں۔ چھٹی کے وقت جب میں کالج گیٹ سے باہر نکلی۔ وہ وہیں کھڑا تھا۔ درختوں کے سائے میں۔ میں نے نظریں چرا لیں۔بس کو جانے میں تھوڑا وقت تھا۔ میں بس کے قریب جا کے کھڑی ہو گئی۔ وہ میری طرف چلتا ہوا آیا۔ "مجھے خوشی ہو گی۔اگر میں آپ کو گھر تک ڈراپ کر دوں"۔ایسا پہلی بار ہواتھا کہ کوئی میری طرف چل کر آئے اور مجھے گھر تک ڈراپ کرنے کی پیشکش کرے۔اور وہ بھی کھلے عام۔ دل سینے سے نکل باہر آیا چاہتا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا جواب دوں۔ کیا ردعمل ہونا چاہیے۔ مجھے زہر لگتی ہیں ایسی لڑکیا ں جو مردوں کے ساتھ گھومتی ہیں۔ مجھے کبھی بھی ایسا نہیں بننا تھا۔ لیکن آج مجھے ہی پیشکش۔ اور وہ بھی اس شخص سے جسے میں جانے انجانے میں پسند کرنے لگ گئی تھی۔جس سے ملاقات ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے تھے۔ جانتی تک نہیں تھی۔ "ہاں تو میں نے کرنی نہیں ہے"۔ اگر ناں کی تو سب کے سامنے ضد کرنا شروع نہ کر دے۔خوامخواہ نظروں میں آ جائو گی۔کیسی عجیب دلیل کی پٹی تھی۔ جو دل نے خود اپنی مرضی سے اپنی آنکھوں پہ پہن لی تھی۔اور میں چپ چاپ اسکی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔اور انکار کرتے کرتےہاں کر دی تھی۔پہلے تو اس نے آئس کریم کھلائی جو میں نے ناں ناں کرتے کھائی۔پھر ہم فاسٹ فوڈز پہ گئے۔ میں نے سب کے سامنے پبلک پلیس پہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح کھانا بھی گاڑی میں کھایا۔ اور گھر سے کافی فاصلے پر مجھے ڈراپ کر دیا۔ اس مختصر سے سفر میں ہمارا تعارف بھی ہو گیا تھا۔ پسندیدگی بھی بڑھ گئی تھی اور سنجیدگی بھی۔ اسکا نام آفتاب بیگ تھا۔بی بی اے کر رہا تھا۔اپنے ایک دوست کے چھوٹے بھائی کو ہمارے کالج ڈراپ کرنے آیا تھا۔اور پھر اسکی نظر میرے پہ جم گئی۔ اور بقول اسکے پہلی نظر میں محبت ہو گئی۔ میں اسے بہت اچھی لگی تھی۔ اسی لئے وہ اگلے دن اسی امید پہ موجود تھا۔کہ میں پیسے واپس کرنے آئوں اور ملاقات ہو جائے۔میری ماں جس خیالی جگنو کی روشنی سے میری آنکھیں بچپن سے جوانی تک چندھیاتی رہیں۔وہ اب میرے ہاتھ میں تھا۔جوحسین خواب لڑکی جوانی تک دیکھتی چلی آتی ہے۔ وہ خواب آج حقیقت کے روپ میں میرے سامنے تھا۔ جن مضبوط بانہوں کا تصور کرتے رات کٹتی تھی۔آج میں ان بانہوں کی پناہگاہ میں تھی۔مجھے میری زندگی مکمل ہوتے نظر آ رہی تھی۔ ہر لحاظ سے۔ میں نے پل بھر میں بادلوں کے عظیم الشان محل بنا لئے تھے۔ جنہیں ٹھوس شکل دینا ابھی باقی تھا۔

سوچتی ہوں حد پار نہ کرتی۔کنارے پہ ہی رہ کر سمندر کا نظارہ کرتی۔ سمندر میں مت اترتی۔ لیکن اس میں میری ہی مرضی تھی۔ اتنا یقین ہو گیا تھا مجھے۔چاہے بھنور میں پھنسوں یا لہروں کا عتاب مجھے میری جگہ سے ہلانا چاہے۔آفتاب تھا وہاں۔ میرا سہارا بننے کے لئے۔آفتاب سے میری جان پہچان ہوئے مہینہ گزرا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے برسوں سے واقفیت ہے۔کتنا لوِنگ اور کئرنگ ہے وہ۔ میری دو ستیں بھی اب چٹکیاں لینے لگ گئی ہیں۔ "ہم سمجھتے تھے تیرےدل کی ویرانی کے گھنے جنگل میں کبھی محبت و عشق کا سورج طلوع ہی نہیں ہو گا۔مگرتو تو کمال نکلی فاخرہ۔انتظار کرتی رہیں،اور جب سودہ کیا تو مہنگے داموں۔پیچہ بھی وہاں لڑایا۔ جہاں کٹ جانے کا ڈر نہ تھا"۔ اور میں ہنس کر بات ٹالنے کی کوشش کرتی۔لیکن میں چاہتی ہی یہی تھی کہ وہ مجھے آفتاب کے نام سے تنگ کریں۔اسکا ذکر سن کر دل نشے میں سرشار ہونے لگتا ۔وجود آفتاب کی دی ہوئی محبت اور امیدوں کی تھاپ پہ تھرکنے لگتا۔ایسا ہی تھا۔میں نے اپنے دل کو بنجر بنا رکھا تھا۔ شادی سے پہلے محبت کو دھوکہ، گناہ اور وقت کا ضیاع سمجھتی تھی۔دوسری لڑکیوں کی دیکھا دیکھی کبھی مجھ میں بھی حسرت جاگتی تھی۔اور میں اس حسرت کو "ایک ہی محبت وہ بھی شادی کے بعد " کی تھپکیاں دے کر سلا دیتی ۔محبت محبت ہوا کرتی ہے۔ شادی سے پہلے ہو یا بعد۔ اب محبت ہی زندگی، محبت ہی سانسیں، محبت ہی دنیا، اور محبت ہی مستقبل ہے۔کبھی انسان کسی ایسے دور سے بھی گزر سکتا ہے۔جس میں وہ خود کو خوشیوں کے جھونکوں میں اڑتا دیکھے۔مکمل زندگی کے تصور کیساتھ۔ فکر،الجھنیں، پریشانیاں زندگی سے ہمیشہ کے لئے معدوم ہوتی دکھائی دیں۔ایک مضبوط سہارے کا احساس اسکے دل و روح کو معطر کر دے۔ وہ میری ہر سانس ہر انگ میں بس چکا ہے۔ جس چیز کی کمی تھی۔ وہ اللہ نے پوری کی تو کیسے۔ ایک ایسے شخص سے ملوایا۔ جو کسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتا ہے۔ایک حسرت ہو سکتی ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ سب سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ مجھ سے بھی ہو گئی۔ اور ویسے بھی تو ہم جلد ہی شادی کرنے والے ہیں۔ وہ بس میری تعلیم کے خاتمے کا ہی تو انتظار کر رہا ہے۔سوچتی ہوں تعلیم کو ابھی سے خیر باد کہ دوں۔آفتاب کے پاس سب کچھ تو ہے۔مجھے کیا ضرورت ہے خوامخواہ جدوجہد کرنے کی۔بچوں کی اچھی تربیت کے لئے جتنا ایک عورت کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔اتنا تو علم ہے۔ اسکا چہرہ ہر وقت نگاہوں میں رہتا ہے۔جب بھی مستقبل کے بارے سوچتی ہوں۔ جو اس نے وعدے کیے ہیں۔ گدگدی ہونے لگتی ہے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا زندگی اتنی پر رونق بن جائے گی۔

آج اپنی ڈائری کا آخری ورق لکھ رہی ہوں۔آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس chapter کو ہمیشہ کے لئے ہی بند کر دوں ۔ یہ chapter تو نہ تھا۔ پوری کتاب تھی۔ جو پچھلے کئی مہینوں سے سلگ سلگ کر پڑھ رہی تھی۔ بدنامی کا دھبہ کبھی مرد پہ نہیں لگتا۔ یہ جھومر جب سجتا ہے تو سفید کپڑے میں لپٹی عورت کے ماتھے پر۔بدنامی اور دھوکے کی بھٹی میں دھکتی ہے تو عورت۔ کیونکہ وہ اپنا سب کچھ نیلام کر کے محبت کے میدان میں اترتی ہے۔ عزت بھی۔ اور یہ عزت اکیلی اسکی نہیں ہوتی۔ اسکے ماں باپ، اسکے بہن بھائی، اسکا خاندان۔سب کی عزت ہوتی ہے۔ اور پھر بقیہ زندگی تڑپ تڑپ کر سلگ سلگ کر اس عزت کو بچانے میں گزار دیتی ہے۔آفتاب اتنا برا بھی ہو سکتا ہے۔ اس حد تک بھی گزرسکتا ہے۔ توبہ ۔ہر وقت پریشانی کنڈلی مارے بیٹھی ہے۔کسی بھی وقت دھمکی آ سکتی ہے۔کسی بھی وقت بلاوہ آ سکتا ہے۔ اپنی زخمی، تلماتی روح کو مزید کچوکے لگانے کے لئے۔ کوئی راستہ ہی دکھ جائے۔ دھنستی چلی جا رہی ہوں۔ نکلوں تو کیسے نکلوں اس دلدل سے۔ کتنی بے وقوف ہوتی ہے عورت ۔جب بھروسہ کرنے پہ آتی ہے تو سب کچھ تیاگ کر بھروسہ کرتی ہے۔ اپنی زندگی، اپنی دنیا، اپنی سانسیں،اپنی عزت تک۔اور اسے سوائے دھوکہ کے کچھ نہیں ملتا۔دل کی بے ترتیب دھڑکنیں اب شور میں بھی واضح سنائی دینے لگ گئی ہیں۔ زندگی سرد اور منجمد ہو کے رہ گئی ہے۔وقت کٹتا ہی نہیں۔ موت ہے کہ وہ بھی نہیں آتی۔میں نے اتنی بڑی غلطی تو نہیں کی تھی کہ میری روح تک کو کیچڑ اور گندگی میں گھسیٹا جائے۔یہ کیسی خطا ہوئی تھی مجھ سے۔ جسکا مداوا کسی صورت ممکن نہیں۔ کسی صورت بھی۔ میں ایک کھلونا تو نہ تھی۔ جس سے جی بہلایا جائے۔ تجارت کی جائے۔ پیسے ہی تو لوٹائے تھے میں نے۔ اور کیا گناہ کیا تھا۔اگر مرد کا پیٹ ہوتا تو شاید ہی کوئی مرد پاکباز کہلاتا۔ پیٹ تو عورت کا ہوتا ہے۔ برق تو صرف عورت پہ گرتی ہے۔ بدچلنی و بدنامی کا عیب تو صرف عورت کے ماتھے پہ سجتا ہے۔جب بھی گھر واپس آتی ہوں۔ گھنٹوں سجدے میں پڑی رہتی ہوں۔ کتنی گڑگڑائی ہوں۔ کتنا روئی ہوں۔ ہر وقت آنکھ خون کے آنسووں سے تر رہتی ہے۔اور کیسے منائوں اس اللہ کو جو اکیلا مالک ہے۔ غلطی تو انسان کی فطرت میں ہے۔ لیکن کیا ایسی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ جسکا کوئی کفارہ نہ ہو۔ پل پل میں آگ میں سلگ رہی ہوں۔ لمحہ لمحہ میں عزت کی چکی میں پس رہی ہوں۔100 کوڑوں کی بعد دین بھی آزادی دے دیتا ہے۔ کیسا ہے یہ میرا گناہ کہ اتنی سزا کاٹنے کے باوجود بھی فرار ممکن نہیں۔اتنا تڑپنے کے باوجود بھی ذرا سا قرار ممکن نہیں۔یہی تھا میری امیدوں کا حاصل، میری بے ترتیب دھڑکنوں کا جواب۔یہی تھا میرا مستقبل، میرے خواب۔ اور۔ بادلوں کاوہ عالیشان محل، جو اولے بن کر میرے ہی سر پہ برس پڑا تھا۔

پیاری امی جان۔۔!
السلام علیکم۔۔۔!!!
مجھے پتہ ہے امی۔آپ بہت دکھی ہو۔ اداس اور غمگین ہو۔ مجھ پہ غصہ بھی ہو۔امی۔۔!! جو میرا رستہ بن گیا تھا۔ جن الام و مصائب سے میں گزر رہی تھی۔جن انگاروں پہ میں چل رہی تھی۔ یہی میری قسمت تھی۔یہی میری منزل، اور یہی میرا حاصل۔ میں نے آپ لوگوں سے فرار اختیار نہیں کیا۔ میں نے خود کو خود سے آزاد کیا ہے۔ اور میں اس پہ مطمئن ہوں۔

امی جان۔۔۔!!
میں جب پیدا ہوئی۔آپ نے ہر لمحہ میرے کان میں یہی سرگوشی کی۔" بیٹی تو پرائی ہے۔تو نے یہاں سے چلے جانا ہے۔ یہ تیرا عارضی گھر ہے۔"۔ جب بھی کام کاج میں سستی کی۔آپ نے ڈرایا۔"سسرال میں کیا کرو گی۔ کیا کہیں گے وہ۔پسند نہیں کریں گے تمہیں۔میری بدنامی ہو گی۔کیسی ماں ہے جس نے بیٹی کو ہنر نہیں دیا"۔ ماں جی۔۔!! آپ بالکل ٹھیک تھیں۔ بالکل ٹھیک۔ کوئی ماں اپنی اولاد کا۔ خاص کر اپنی بیٹی کا برا نہیں چاہتی۔آپ بھی میرا بھلا ہی چاہتی تھیں۔گھر میں 20،21 سال جیسے تیسے کر کے گزر جائیں گے۔ باقی زندگی مَیں اپنے سہارے اور سکون سے گزار سکوں۔ کسی کی محتاجی نہ ہو۔ سب ہنر آتا ہو۔ امی جی۔۔!! سب ٹھیک تھا۔ پرائی والی بات بھی ٹھیک تھی۔ بدنامی اور ہنر والی بھی۔ لیکن آپ کی ہر لمحہ سرگوشیاں۔پل پل دیے نئے گھر کے آداب۔ہر آن، ہر ثانیے دیے اسباق نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں ایک ان دیکھے شہزادے کا انتظار کروں۔ایسا شہزادہ جو صرف کہانیوں،آفسانوں اور فلموں میں ہوا کرتا ہے۔ اسے تلاش کروں۔ میں خوابوں میں کھو گئی۔ تصورات کے سمندر میں تیرنے لگی۔جہاں موجوں کے رخ اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتی تھی۔ جہاں چاہتی طغیانی پیدا کر سکتی تھی۔ جہاں چاہتی۔بھنور ختم۔مجھے خود ساختہ خوابوں کی دنیا حسین اور دلفریب لگنے لگی۔ وہ ایسی دنیا تھی۔ جہاں میں اپنی پسند کے کردار، اپنی پسند کے مناظر، اپنی پسند کی جگہ خود منتخب کر سکتی تھی۔ جہاں نہ مجھے بدنامی کا ڈر تھا۔ نہ ہی پرائے ہونے کا آفسوس۔وہاں سب اپنا تھا۔ ہنر سے مالامال، کمالات سے بھر پور۔خوشیاں ہی خوشیاں۔ جہاں میرے خوابوں کا شہزادہ میری محبت میں دیوانہ و پاگل نظر آتا۔ میرے حسن میں گرفتار کچھ بھی کر جانے کو تیار ہوتا۔جہاں میرے حسن اور خوبصورتی سے پوری دنیا متاثر نظر آتی۔ جہاں ہر جگہ میرا چرچہ، میری بات، میری عزت ہوتی۔ پھر مجھے سچ مچ میں ایک شہزادہ مل گیا۔ وہ آفتاب تھا۔ مجھے اپنی زندگی مکمل ہوتے دکھائی دی۔وہ شہزادہ ہی تو تھا۔ ہر چیز تھی اس کے پاس جو میرے خوابوں کے شہزادے کے پاس تھی۔ میں اپنی ساری امیدیں، آرزوئیں، تمنائیں اس شہزادے کیساتھ باندھ لیں۔ امی جی۔۔۔!! مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ وہ روشنی دینے والا، اجالا کرنے والا آفتاب نہیں تھا۔ وہ جلا دینے والا، بھسم کر دینے والا، خاکستر کر دینے والا آفتاب تھا۔ وہ مرد نہیں تھا۔ وہ شکاری تھا۔ شکاری۔ اور شکاری کو کبھی اپنے شکار سے ہمدردی نہیں ہوا کرتی۔ اور میں اس کے لئے صرف ایک شکار تھی۔ صرف ایک شکار۔ ٹمٹماتی خوشیوں کے دیے کو گل ہوتے دیر نہیں لگتی امی۔میں اسکی محبت کے جال میں پھنس گئی۔ پھر کچھ باقی نہ بچا۔ کچھ بھی۔ کچھ بھی اپنا باقی نہ رہا۔نہ عصمت، نہ جسم، نہ مرضی۔ایک ریموٹ کنٹرولڈ۔جو ایک فوں کال، ایک sms پہ چل پڑتی۔ میں نیلام ہوئی تو سر بازار ہوئی۔

امی جان۔۔!!
وہ مجھے گھسیٹتے رہے۔ نوچتے رہے۔ کچلتے رہے ۔بار بار۔ بھوکے بھیڑیے شرم و غیرت سے عاری۔ مجھ تن تنہا کا کوئی سہارا نہ تھا۔ مجھ سے صرف ایک غلطی ہوئی۔ صرف ایک غلطی۔ جسکا خمیازہ میں نے سوچا تک نہ تھا۔ ٹولے کے ٹولے۔۔؟؟ کیا یہاں انسان نہیں بستے۔ کیا واقعی میں انسانیت ہمیشہ کے لئے مردہ ہو چکی ہے۔ کیا میں شکار کے علاوہ کسی کو انسان نہ دکھ پائی۔ کیوں کسی کو میرے آنسوں، میری چیخیں،میری آہیں، میری تڑپ پگھلا نہ سکی۔ وہ تو شکاری تھا۔ کیا ان ٹولوں میں آنے والوں میں بھی کوئی انسان نہ تھا۔ جسے مجھ پہ ترس آ جاتا۔جسے میری عزت کے پیچھے اپنی عزت نظر آ جاتی۔ میری مجبوری و بے بسی کو دیکھ کر جسکی غیرت جاگ اٹھتی۔ اتنی سی غلطی پہاڑ بن کر ٹوٹے گی۔ وہ بلیک میل کر کے میرے جسم کی تجارت کرتا رہا۔ کیا ان خریداروں میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا۔ جسے حیا آ جاتی۔ جسے میرے چہرے کے پیچھے، اپنی بہن اپنی بیٹی کا چہرہ دکھ پاتا۔ جسے میری آہوں،چیخوں، آنسوں،فریادوں میں چھپی مجبوری دکھائی دے جاتی۔ میں کیا نام دوں ایسی انسانیت کو جن کا مذہب شہوت ہو۔ جن کی زندگی ہوس ہو۔ جن کی آنکھیں حیا سے عاری ۔ جن کے دل جذبات سے خالی ۔جو غیرت سے بے نیاز ہوں۔میں روئی، گڑگڑائی،معافیاں مانگی۔ واسطے دیے۔ کسی کا دل نہیں تھا۔ کسی میں غیرت نہیں تھی امی ۔ میں تو خوش تھی۔ محبت پا کر۔ اپنے دل کی بنجر زمین کو سیراب کیا بھی تو سیم زدہ پانی سے۔ امی۔۔۔!!! کیا یوسف کے بھائیوں کو کبھی معافی نہ مل سکی۔ کیا حضرت آدم آج بھی گناہ کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ کیا ایوب ایک عرصہ تڑپنے کے بعد بھی شفا کا حقدار نہ ٹھہرایا۔ کیا یعقوب کی بینائی واپس نہ لوٹ سکی۔ کیا یونس اندھے گڑھے سے کبھی واپس نہ آ سکا۔ ہر چیز کا ایک end ہے۔ پھر کیوں میرا کو ئیend نہیں۔ میں نے کیا اتنی بڑی غلطی کر دی ہے کہ روں تو رویا نہ جائے۔ چیخوں تو چیخا نہ جائے۔ تڑپوں تو تڑپا نہ جائے۔ کیا مجھے کبھی چین نہیں مل سکے گا۔یونہی مسلتی رہوں گی۔ کوئی تو حد ہو گی۔ کہیں تو آخر ہو گا۔کیوں نوچنے والے کو میری مجبوری کے پیچھے چھپی عزت نظر نہیں آئی۔ کیوں کسی بھیڑیے کو نوچتے کھسوٹتے اپنے گھرانے کے پیچھے میرا گھرانہ نظر نہیں آیا۔ کیوں کسی درندے کو میری ہڈیاں کھرچتے اپنی قبر دکھائی نہیں دی۔ آفتاب کہتا تھا چپ چاپ میرے بلانے پہ آ جایا کرو۔ نہیں تو video پورے علاقے میں عام کر دوں گا۔ اپنی عزت بچانے کے چکر میں اپنے خاندان کی عزت مت گنوا دینا۔ امی میں تنگ آ گئی ہوں۔ عزت کے معاملے میں اتنا لٹ چکی ہوں۔ کہ اب کچھ نہیں رہا لٹانے کو۔ آپ پریشان تھی نہ کہ میری رنگت اتنی زرد کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے کھانا پینا کیوں کم کر رکھا ہے۔ میں ہمیشہ اپنے کمرے میں کیوں بند رہتی ہوں۔ کالج جانے کو کیوں دل نہیں کرتا۔ پریشانی، بے چینی میری رگ رگ میں سما گئی ہے۔ سانسوں کی طرح آنسوں بھی اب میری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ جس دن سانس رکی۔ اسی دن آنسو بھی۔ کیسے ان ناپاک ہاتھوں سے حلال رزق کو ہاتھ لگاتی۔ آپ لوگوں کی عزت میں خیانت کرنے والی کیسے اس گھر میں آزادانہ عزت کیساتھ پھر سکتی تھی۔ کالج کیوں اپنا کالا منہ دکھانے جاتی۔ لیکن امی۔ اب فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود کو خود سے آزاد کر رہی ہوں۔ آپکا گھر پاک کر رہی ہوں۔ کبھی اندازہ نہیں تھا۔ انسان ایسے دور سے بھی گزر سکتا ہے۔ جہاں آگے کھائی۔ پیچھے کنویں والا معاملہ ہوتا ہے۔ جہاں زمیں قدم جکڑ لیتی ہے۔ جہاں آسمان پھٹ پڑنے والا محاورہ سچ لگنے لگتا ہے۔ جب زندگی ایک کڑوہ سچ اور خود سے انتہائی نفرت ہونے لگتی ہے۔ جب سانس گلے تک ہی اٹک کر رہ جاتی ہے۔ جب رگوں میں پھیلی بے چینی و پریشانی شریانیں پھاڑ کر باہر آنا چاہتی ہیں۔ایک اللہ ہی تو ہمراز ہوتا ہے۔ صرف اللہ ہی۔ اور وہ بھی آنکھیں چرانے لگے۔ میں جلتے کوئلوں اور انگاروں پر ننگے پیر چل رہی تھی۔ گھمنڈ تھا۔ ناز تھا مجھے آفتاب پہ۔ بھنوروں میں دھکیلنا والا ہی وہی تھی۔ تھپیڑوں کی زد میں دینے والا بھی وہی تھا۔

امی جان۔۔!!
آپ ہر دوسرے دن کہا کرتی تھیں۔ میری زندگی میں ایک شہزادہ آئے گا۔ اور وہ مجھے لے جائیگا۔ اپنے ساتھ۔ پھر خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔ سکون ہو گا۔ چین ہو گا۔ کاش آپ مجھے کسی شہزادے کا خواب نہ دکھاتی، میں آپ کی بیٹی ہوں۔ ابو نے کبھی احساس نہیں دلایا میں پرائی ہوں۔ لیکن آپ ہر لمحہ میرے کان میں میرے پرائے ہونے کی سرگوشی کرتی رہیں۔ اگر مجھے میرے خوابوں کا شہزادہ نہ ملتا تو کیا میں پھر بھی پرائی رہتی۔۔۔؟؟ یہ گھر میرا گھر نہ رہتا۔۔؟؟آفتاب نے جب پہلی بار میری طرف ہاتھ بڑھایا تھا، مجھے لمحہ بھر کو خیال آیا تھا۔ یہ مجھے ہاتھ نہیں لگا رہا۔ میرے گھرانے کو ہاتھ لگا رہا ہے۔ لیکن پھر آپ کی کہی ہوئی باتیں۔ تمہارا یہ گھر نہیں، تم پرائی ہو۔ ہمارے پاس چند دنوں کی مہمان ہو۔ پھر مجھے میرا گھرانا وہی گھرانا لگا۔ امی۔۔!! کاش آپ مجھے یہ احساس دلا دیتیں۔کہ بیٹا۔۔!! رشتے آسمانوں پر بنا کرتے ہیں۔انسان جوڑےنہیں بناتے اللہ بنایا کرتا ہے۔اگر اللہ نے تیرا جوڑا کہیں بنا دیا ہے تو مل کے رہے گا۔ اگر نہیں بنایا تو ہم کہیں بھاگے تھوڑی جا رہے ہیں۔ اپنے گھر میں پیدا ہوئی۔ اپنے گھر میں جوان ہوئی، اب بھی یہ تیرا ہی گھر ہے۔ امی۔۔۔!! میں اپنے گھر میں ہی قبر میں اتر جاتی، مجھے زیادہ خوشی ہونی تھی۔ کم از کم اپنے ماتھے پہ لگا یہ بدنامی کا دھبہ لے کر قبر میں نہ اترتی۔ امی۔۔۔!! میں سارا سہ لیتی۔ گزار لیتی وہ زندگی جیسی تیسی کر کے۔ لیکن امی۔ ایک دن ۔ ایک دن وہاں پہنچنے والی میں اکیلی نہیں تھی۔ ایک اور شکار بھی تھا۔ ایک اور معصوم جان، ایک اور معصوم لڑکی۔ کتنا چیخی تھی وہ۔ کتنا چلائی تھی۔ کتنا تڑپی تھی۔ گڑگڑائی۔معافیاں ما نگیں۔ ان بھیڑیوں کو واسطے دیے۔جواب میں درندےقہقہے لگاتے رہے۔ہنستے رہے اس بے بسی و مجبوری پر۔اس تارتار ہوتی عزت کی پوشاک پر۔ان خون کے آنسووں پر۔ اس آزادی پر،جس کو قابو کرنے والا کوئی نہ تھا۔اس اختیار پر جسکا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ تھا۔ جشن کے شادیانے تھے۔ ۔ غیرت سے عاری،نشے میں مخمور۔جنکو پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ ایک اور عزت لٹ گئی تھی۔ ایک اور آتما کا خون ہوا تھا۔ ایک اور زندگی مسلی گئی تھی۔ دنیا میں ہی ایک اور آگ کی بھٹی تیار ہوئی تھی۔ ایک اور خلا پیدا ہوا تھا زندگی میں۔ اس بیچاری کی بھی آرزوئیں ہوں گی۔امیدیں ہوں گی۔ خواب ہوں گے۔ عزت دار گھرانا ہو گا۔ لٹ گیا۔ وہ چلاتی رہی۔ وہاں کوئی انسان ہوتا تو سنتا۔ لیکن میں ۔جیسی بھی تھی انسان تھی۔ اور میں نے اسکی آواز پہ لبیک کہا تھا۔

میں نے فیصلہ کر لیا تھا۔ اب مزید کسی کی زندگی تباہ نہیں ہو گی۔ مزید کسی کے خواب نہیں ٹوٹیں گے۔ مزید امیدوں کے دیے اب کم ازکم اس جگہ سے گل نہیں ہوں گے۔

امی۔۔۔!! آج میں اس جڑ کا کام ہمیشہ کے لئے تمام کر کے آئی ہوں۔ مجھے پتہ تھا آج وہ اکیلا ہو گا وہاں۔ آج اس درندے کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جھونک کر آئی ہوں۔ ساتھ اس ذلیل کھٹیا کو بھی آگ لگا کر آئی ہوں۔جو ان درندوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔تاکہ پھر یہ کسی معصوم کی زندگی برباد نہ کر سکیں۔تاکہ کل کسی کی امیدوں، آرزوؤں ، تمنائوں، عصمت اور زندگی کا گلا نہ گھونٹ سکیں۔ کاش یہ حوصلہ مجھ میں پہلے آ جاتا۔ تو میں زیادہ نہ تڑپتی۔ ایک اور معصوم جان اس آگ کے کنویں میں نہ ڈالی جاتی۔ امی آج میں نے ایک قتل کیا ہے ۔ایک قتل اور کرنے لگی ہوں ۔خود کا۔ اللہ کی دی ہوئی زندگی اپنے ہاتھ میں لے رہی ہوں۔اور مجھے اسکا کوئی دکھ نہیں ہے۔کوئی آفسوس نہیں ہے۔ میں گناہ کا بوجھ لے کرمزید جی نہیں سکتی۔ آفسوس اس بات کا ہے۔کاش میں پہلا قدم نہ بڑھاتی۔ کاش میں اونچے اونچے خواب نہ دیکھتی۔تو یوں مجھے آج پنکھے سے جھولنا نہ پڑتا۔ آپ لوگوں کو یادوں کے بھنور میں دھکیل کر یوں خود غرض نہ بنتی۔ امی۔میں آپ سے اور باقیوں سے کوئی معافی نہیں مانگوں گی۔ میرے پاس بچا ہی کیا ہے جسکا واسطہ دے کر میں معافی مانگوں۔آج مجھے خود کی زندگی کا خاتمہ کرتے ہوئے یہ تسلی ہے۔کہ اللہ نے یہاں نہیں سنی۔ وہاں ضرور سنے گا۔ اسی میں اللہ کی کوئی حکمت ہے۔ جس آگ میں لمحہ لمحہ سلگ رہی تھی۔ جس درد میں پل پل مر رہی تھی۔ اسکا آخر تو ضرور ہو گا نا۔۔۔!! وہ موت ہے۔ ویسےبھی کلمہ پڑھا ہے۔ کسی دن تو عذاب کم ہو گا۔ اور یہ تسلی بھی ہے۔ کہ آپ کی عزت،بھرم اور انا سے مزید نہیں کھیلوں گی۔ اب جو سہنا ہے مجھے سہنا ہے۔ امی صرف آخری گزارش، آخری احسان۔میرے اس کیے دھرے کا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔ ورنہ لوگ اپنی بیٹیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے۔ اور بیٹیوں کو اپنی عزت کے اوپر لٹکتی برہنہ تلوار سمجھنے لگیں گے۔جو جسی بھی وقت گر سکتی ہے۔
واسلام
محمد شہزاد
About the Author: محمد شہزاد Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.