وا صف میری ابتداء واصف میری انتہا

 میرا نام واصف با صفا ، میرا پیر سید مر تضےٰ
میرا ورد احمد مجتبےٰ ، میں سدا بہا ر کی با ت ہو ں
حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صیح تشخص آپ کے اند ر کا انسان ہے ۔ اسی نے عبا د ت کرنا ہے اور اسی نے بغا وت ، وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا ، اس اندر کے انسان نے آپ کو جزا و سزا کا مستحق بنانا ہے ۔ فیصلہ آپ کے ہا تھ میں ہے آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین دوست ہے اور وہی بد ترین دشمن ۔ آپ خودہی اپنے لیے دشواری سفر ہو اور خو د ہی شا دابی منزل با طن محفوظ ہو گیا تو ظا ہر بھی محفوظ ہو گا ۔ ۱۵ جنوری ۱۹۲۹ کو سرزمین خوشاب میں ایک گہرے نایاب ، ایک ولی کامل اور وسعت و رفعت ،عزت و عظمت ، سعادت و معرفت ، حقیقت و عا قبت اور حق و صدا قت سے معمور راجا لو ں کا پیکر بے کرا ں جلوہ افروز ہو ا جس نے بز م جہا ں میں شرق و غرب میں اپنے علم کے سحر سے نو ر ہی نو ر پھیلا دیا ۔ واصف علی واصف ایک نام نہیں بلکہ حقیقی معنو ں میں ایک وصف با کمال ، بے مثال اور لا زوال شخصیت کا نام ہے آپ کے والد ملک محمد عارف ایک صوفی با صفا اور درویش صفت انسان تھے آپ کا تعلق بلند پا ئیہ گھرانے اعوان قبیلہ سے تھا جن کا سلسلہ نسب حضرت عبا س علمبردار سے ہو تا ہوا مولا علی شیر خدا ؓ سے جا ملتا ہے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبا ئی علا قہ خو شاب میں حاصل کی ۔ جون ۱۹۴۲ میں گو رنمنٹ ہائی سکول خو شاب سے مڈل کا امتحا ن پاس کیا بعد ازاں جھنگ میں اپنے ناناکے ہا ں میٹرک ، ایف اے ، بی اے کے امتحانا ت نمایا ں پو زیشنز میں پا س کیے اس کے بعد داتا کی نگری لا ہو ر تشریف لے گئے ۔ آپ وطن عزیز کے قومی کھیل کے بہت اچھے کھلا ڑی تھے ۔ رب ذولجلال کی کمال عطا ء کے آپ کو آپ ﷺ کے وصف سے نوازا اور استا د کے رتبہ سے سرفراز کیا ۔ آپ کے شا گردوں میں ادیب ، شعراء ، بیو رو کریٹ ، وکلاء ، ملنگ ، فقراء ، درویش ، صحا فی ، دانشور ، طا لب علم شامل ہیں ۔ اہل ذوق نظر اپنی پیاس اور طلب کے مطا بق فیضیا ب ہو تے رہے ۔ آپ ایک حق و صدا قت کے علمبردار ، عا شق صادق ، وسعت قلو ب و اذہا ن ، پیکر حسن و جمال ، بندہ مومن اور لا تعداد خو بیو ں کے مالک تھے ۔ جن کا تذکرہ لفظو ں ، جملو ں ، تحریروں ، تقریروں اور کتابو ں سے ممکن ہی نہیں ہے ۔ آپ کی تصا نیف میں شامل ہیں کرن کرن سو رج ، دل دریا سمندر ، قطرہ قطرہ قلزم ، شب چر اغ ، The Beaming Soul ، Ocean in a Drop ، بھرے بھڑولے ، حرف حرف حقیقت ، شب راز ، با ت سے با ت ، گمنام ادیب ، مکالمہ گفتگو ۱ تا ۲۸ اور مزید تصا نیف زیر طبا عت ہیں ۔ حضرت واصف علی واصف کی محبت و ممدد کا محور و مسکن انہی اشعار کی نظر
وہ دا نا ئے سبل ختم رسل مولا ئے کل جس نے
غبا ر ر اہ کو بخشا فر وغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یسین ، وہی طحہٰ
"The love of Allah is in fact the love of the beloved Prophet S.A.W.W .The Prophet S.A.W.W grants you the love of Allah, and Allah bestows on you the love of his Prophet S.A.W.W .Love believers in no obstacles in the path of beloved's obedience.Sacrifice is the mircle in the path of beloved,s obediene. Sacrifice is the miracle of love. Love produces a sense of wonder, an absorption and an awareness.The only way to deliverance from the contemporary agomy of life is love.( The Beaming Soul Wasif Ali Wasif)
پیکر علم و عمل واصف علی واصف کی زندگی کی ابتداء بھی وفا اور انتہا بھی وفا سے ہی منصوب ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کے سچے عا شق ہو نے کا ثبو ت محض زبا نی کلامی یا سیاسی و ذاتی بیانا ت سے نہیں بلکہ سیرت و کردار اور نظریہ و افکا ر سے عملی سطح پر دیا ۔ آپ کا فرمان ہے کہ آج اگر ہم ایک دوسرے کو معا ف کردیں اور ایک دوسرے سے معا فی مانگ لیں تو ہمارا مستقبل سکون قلب کے خزانو ں سے بھر جا ئے گا ۔ خدا ئے بزرگ و برتر نے آپ کو بڑے پختہ ایمان ، درست عقائد اور صراط مستقیم سے نوازا تھا جنہو ں نے وطن پر ستی ، عقیدت و الفت ، انسانیت و حقوق انسانی ، حقوق اﷲ و حقوق العباد ، بر دبا ری ، صبر و برداشت استقلال ، رواداری ، جذبہ ایثار ، نظم و ضبط ، اتحا د و یگا نگت اور ایمان رکھتے ہو ئے پر اعتماد لہجے میں ایک بے مثال ، لا زوال ، با کمال اور عظیم پیغام قوم کو دیا پاکستان نو ر ہے ، نو ر کو زوال نہیں ۔ حرف حرف ، لفظ لفظ ، ایک ایک جملہ آپ کا حقیقت اور امید نو سے مزین ہے اور مو جودہ حکمرانو ں کو جنجھوڑتا ہے کہ تم اس عرض پاک کی تبا ہی و بربادی کا سامان تیا ر کرتے رہو یہ پھر بھی محفوظ رہے گا اس پاک سرزمین کی فکر چھوڑو اور اپنی عا قبت اندیشی کی طرف دھیان دو دہشت و وحشت کی علا مت دنیا کی کوئی بھی طا قت نام نہا د طالبان ہو ں یا سی آئی اے ، موساد اور را اس وطن کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچا نے کی سقت نہیں رکھتے ہیں اس پر خدا اور اس کے رسول ﷺ کا نور پھیلا ہو ا ہے ۔ جس قوم کو انکے اسلاف نے بام عروج اور عظیم سوچ اور افکا ر و کردار سے نوازا ہو انکا ایمان اور ایقان کبھی متزلزل اور اضطراب کا شکا ر نہیں ہو سکتا ہے ۔ ان کے قلب میں کوئی خو ف و خطرہ اور کھو ٹ جنم ہی نہیں لے سکتی ہے ۔ وا صف صاحب فرما تے ہیں یہ ملک لاکھو ں جانو ں کی قربانی سے بنا ہے ۔ قوم کو ایک اعلیٰ زندگی عطا کرنے کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا ۔ لیکن افسوس چند ہوس پر ست جونکو ں کی طرح اس کا خون چو س رہے ہیں ۔ کسی غریب کو کیا فر ق پڑتا ہے ۔ اگر اس پر ہندو ظلم کرے یا اس پر مسلمان ظلم کرے غور کرنے کا وقت ہے ۔ سنجیدگی اختیا ر کر نے کا لمحہ ہے ۔
ورق ورق میری نظروں میں کا ئنا ت کا ہے
کہ دست غیب سے لکھی ہو ئی کتاب ہو ں میں

حضرت واصف علی واصف کی شخصیت روحانی اوصاف اور ادراک کے مالک تھی جنہو ں نے اپنے چا ہنے والو ں کو وسعت قلب و نظر سے نوازا مذہب ، فرقہ واریت ، گر وہو ں ، قبیلو ں ، مسلکو ں اور درجو ں کی دلدل سے آزاد کروایا اور ایک حسین زندگی بخشی جو لا محدود سوچ اور زاویے کی مالک ہے ۔ ان کی زبان سے نکلنے والا اخلا ص اور نیت سے بھرپو ر لفظ تا ثیر رکھتا ہے اور سننے والے اور پڑھنے والے کو اپنی محبت و عقیدت کا آسیر بنا لیتا ہے ۔ واصف خیال سنگت گو جرانوالہ میں چیف آرگنائزر میر جہا نگیر کی سرپر ستی میں ان کے کثیر مداحوں اور معتقدین ، مریدین اور حلقہ اثر میں تیزی سے اضا فہ کرتی جا رہی ہے جنہو ں نے واصف صا حب کی ذات اور افکا ر و اقوال کو دنیا کے کونے کو نے پہنچا نے کا منا سب اہتمام کر رکھا ہے اس سنگت کے تحت گو جرا نوالہ شہر میں ۶ عظیم الشان سیمینا ر ز کروائے جا چکے ہیں پہلا 1996 میں ہوا جس میں جسٹس کے ایم صمدانی ، حفیظ تا ئب اور منو بھائی نے شرکت کی دوسرا 2000 میں ہوا جس میں ڈا کٹر اجمل نیا زی ، سہیل عمر ، اکرام چغتائی ، اصغر ندیم سید اور فردوس جمال تشریف لا ئے ، تیسرا 2004 میں ہوا جس میں سا بق صدر رفیق احمد تا رڑ ، اشفا ق احمد اور حنیف رامے جلوہ افروز ہو ئے چو تھا 2007 میں ہوا جس میں افتخا ر احمد عارف ، عطا ء الحق قا سمی مو جو د تھے پا نچو اں 2011 میں ہوا جس میں را جہ ظفر الحق ، جنرل (ر) حمید گل ، ذوالفقا ر احمد چیمہ تشریف لا ئے اور چھٹے 2014 کے حالیہ سیمینا ر جو کہ 11 فروری کو انعقاد پذیر ہو رہا ہے میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ممنو ن حسین ، صا حبزادہ کا شف محمود ، وفا قی وزیر خرم دستگیر خان ، مجیب الر حمن شامی ، خوا جہ غلام قطب الدین فریدی ، اوریا مقبول جان ، سہیل عمر شامل ہو ں گے اور عظیم محسن انسانیت حضرت واصف علی واصف کی شان پر عقیدتو ں ، محبتو ں اور چا ہتو ں کے پھول نچھا ور کریں گے اس سیمینا ر میں آپ کے مدا حو ں کی کثیر تعداد موجود ہو گی ۔ ۱۸ جنوری ۱۹۹۳ کو آپ خالق حقیقی سے جا ملے لیکن آج بھی آپ اپنی محفلو ں ، گفتگو ، سنگتو ں ، عقیدوتو ں اور محبتو ں میں زندہ و جا وید ہیں گمان کیا جا تا ہے کہ موجودہ دور حاضر میں پر و فیسر رفیق احمد اور پر و فیسر عرفان الحق کی تحاریر اور خو بیا ں،وصف آپ سے مماثلت رکھتے ہیں جس طر ح مہر نبو ت اور ختم نبو ت کے بعد کوئی و وسرا نبی پیدا نہیں ہوسکتا ہے یکتائی رکھنے والی ذات اﷲ وحدہ و لا شریک کو یکتائی ہی پسند ہے کسی بھی صدی میں اب دوسرا کوئی واصف پیدا نہیں ہو سکتا ہے ۔ نسل نو کو آپ کی تعلیما ت ، افکا ر و کردار اور نظریا ت سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے تا کہ گمراہی اور بے راہ روی کے ساتھ ساتھ بے یقینی کا ابدی طور پر خاتمہ ہو جا ئے اور ملک کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی تر قی خوشحالی اور جد ت کی راہو ں پر گا مزن کیا جا سکے ۔ آپ ہمیشہ اپنے چا ہنے والو ں، اپنے ماننے والو ں،عقیدت والوں اور اپنے مدا حوں کے دلو ں میں یا د الہیٰ کی طرح شاد و آبا د رہیں گے ۔
ظرف کو حرف کا ہم راز طریقے سے کیا
کام تبلیغ کا دنیا میں سلیقے سے کیا
قصہ عشق کا اجمال نہیں تو کیا ہے
واصف اک دوسرا اقبال نہیں تو کیا ہے
واصفی فکر سے ہر سوچ سجی لگتی ہے
یہ صدی حضرت واصف کی صدی لگتی ہے

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 107162 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More