ڈیرہ غازی خان کے دیہی سکولوں کی حالت زار

پیارے پاکستان کو آزاد ہوئے چھیاسٹھ برس بیت گئے ہیں کسی آزاد قوم کی خوشحالی اور ترقی کرنے کے لئے یہ ایک معقول دورانیہ ہے لیکن بد قسمتی ہے ہمارے ذہن ہماری معیشت اور ہمارا تعلیمی نظام اب تک غلامانہ روایات کا آئینہ دار ہے۔

ڈیرہ غازی خان جو کہ جنوبی پنجاب کا ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے اس میں صرف اگر ضلع ڈیرہ غازیخان کے دیہی سکولوں کی حالت کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہاں کے حالات اور بھی دِگرگوں ہیں۔

اس تعلیمی زبوں حالی کے کئی عوامل ہیں جن میں کہیں سکول ہیں تو اساتذہ نہیں ہیں اور اگر کہیں اساتذہ ہیں تو وہاں سکول مناسب حالت میں موجود نہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ دیہی لوگوں کا غریب ہونا ہے اور یہ غریب لوگ اپنے بچوں سے بھیڑ بکریاں چروا کر اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔ اس کے بعد دیہی پرائمری سکولوں میں اساتذہ کی کمی شدت اختیار کرگئی ہے۔ ضلع ڈیرہ غازیخان کے 80%پرائمری سکولوں میں تو ایک ایک استاد تعینات ہے جو کہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے بالکل مناسب نہیں ہے۔ ایک استاد چاہے جتنا بھی قابل اور تعلیم یافتہ ہو وہ تمام چھے کلاسز کے 36مضامین کے ساتھ انصاف کر ہی نہیں سکتا۔
جن سکولوں میں طلباء کی تعداد مناسب /قابلِ ذکر ہے وہاں پر پنجاب گورنمنٹ کا اپنا بنایا ہوا ٹیچر طلباء فارمولہ جو کہ ایک نسبت تیس (1:30)ہے اسکی بھی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ سہولیات کی طرف آئیں تو اکثر پرائمری سکولوں کی چاردیواری نہیں ہے اسکے علاوہ پرائمری سکولوں میں طلباء کے لیے لیٹرین کا تصور بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صاف پانی اور طلباء کے لیے مناسب فرنیچر بھی بہت کم سکولوں میں میسر ہے اور کچھ سکولوں میں تو ٹاٹ تک موجود نہیں۔ گورنمنٹ پنجاب نے طلباء کے لیے یونیفارم میں پینٹ شرٹ تو ضروری قرار دے رکھی ہے لیکن معصوم بچے پینٹ شرٹ پہن کے زمین پر بیٹھنے کی وجہ سے روزنہ گندی کر دیتے ہیں یوں یہ یونیفارم بھی والدین کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔

حکومتی سطح پر دیکھیں تو مہذب اور ترقی یافتہ قومیں اپنے سالانہ بجٹ کا 20%سے 25%حصہ اپنی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ جبکہ اسکے مقابلے میں ہماری حکومت سالانہ بجٹ کا صرف 2%اس بنیادی شعبے پر خرچ کرتی ہے جو کہ انتہائی غیر مناسب ہے اور یہ تعلیمی نظام کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔

تعلیمی نظام کی گرتی ہوئی عمارت کو ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف دویلپمنٹ (DSD)نے سہارا دینے کی کوشش کی اور تعلیمی حالتِ زار کو بہتر بنانے کے لیے ہر ضلع سے قابل اور تربیت یافتہ اساتذہ کو بطور ڈسٹرکٹ ٹیچر ایجوکیٹر(DTE)تعینات کیا لیکن جب DTEsکو ٹریننگ سے مسلح کر کے فیلڈ میں بھیجا گیا تو وہاں حالات ہی کچھ اور تھے ۔ میٹرک /ایف اے /پی ٹی سی پاس PSTsکے پاس اس تربیتی کورس کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اہلیت ہی نہیں تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ گورنمنٹ نے سلیبس اور میڈیم انگریزی میں تبدیل کر دیا جس کی وجہ سے تعلیمی نظام مزید بدتر ہو گیا اور انDTEsنے بھی نتیجہ اخذ کیا کہ اس نظام اور ان Least(کم ترین) کوالیفائیڈ ٹیچرز (LQTs)کے ساتھ تعلیمی نظام کو ترقی دینا نہ صرف مشکل ہے بلکہ نہ ممکن ہے۔

خدارا آزادی کے اتنا عرصہ بعد اب تو ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور تعلیمی نظام کی بہتری پر توجہ دینی چاہیے اس سلسلہ میں میری حکومت اور عوام اور اربابِ اختیار سے چند گذارشات /تجاویز ہیں کہ سب سے پہلے ہر پرائمری سکول کو ضرورت کے مطابق مناسب عمارت اور چار دیواری مہیا کی جائے، ہر پرائمری سکول میں چھے اساتذہ ضرور دئیے جائیں تاکہ ایک ٹیچر ایک کلاس والے فارمولے پر عمل کیا جاسکے یا کم از کم ہر پرائمری سکول کو تین اساتذہ ضرور دئیے جائیں تاکہ ہر استاد دو کلاسیں لے سکے۔ اسکے علاوہ یہ کہ حکومت کو چاہیے ملکی بجٹ کا کم از کم 5%تعلیم پر خرچ کرے اور عوام سے میرا یہ التماس ہے کہ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے سکول کونسل کو فعال بنائیں اور سکول کونسل کے ممبران ، ہیڈ ٹیچر کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے با اختیار بنائیں تاکہ وہ کوئی تعمیری کام کرسکیں۔

خدا ہمارا حا می و ناصر ہو ۔(آمین)
Ghulam Mustafa Kulachi
About the Author: Ghulam Mustafa Kulachi Read More Articles by Ghulam Mustafa Kulachi: 2 Articles with 1546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.