طالبان کی دانش مندی پر افسوس!

صحافی تو زندہ شہید ہے۔ اسے طالبان یا ٹارگٹ کلرز کیا شہید کریں گے؟

صحافی تو زندہ شہید ہوتاہے۔گزشتہ دنوں ایکسپریس ٹی وی کے بے گناہ صحافتی عملے کو شہید کردیا گیا، جو اپنے صحافتی فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ ان کی شہادت کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے میڈیا پر قبول کی۔ طالبان کی عقل ودانشمندی پر افسوس کہ جو طالبان اپنے آپ کو حق اور سچ کی راہ کا شہسوار سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو پکا اور سچا مسلمان جانتے ہیں اور وہ سامراجی قوتوں کے خاتمے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے داعی ہیں۔ ان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ مساجد مسلمانوں کی ہیں، امریکہ، یہودی اور عیسائیوں کی نہیں۔ اﷲ اور اس کے رسول وکتاب اﷲ کی تبلیغ پر نکلے ہوئے افراد اور صحافی جو رزق حلال کے حصول کے لئے اپنے صحافتی فرائض سر انجام دے رہے ہوں، انہیں بے گناہ خون میں نہلادینا کہاں کا انصاف ہے۔ ؟طالبان کیا ہیں؟ اپنے آپ کو طالبان کہلوانے سے پہلے ہمیں اپنے دامن گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ ہم سب سے پہلے انسان ہیں۔ دوسرے درجے پر مسلمان، تیسرے درجے پر پاکستانی اور چوتھے درجے پر جو بھی ہماری معاشرتی پہچان یعنی صحافی، ڈاکٹر، مفتی، عالم دین وطالبان کے ناموں سے ہماری معاشرے میں پہچان ہے۔ اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان میں مضبوط اور پکے سچے مسلمان ہیں، تو جن پر یہ خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ کررہے ہیں، وہ بھی پکے، سچے مضبوط مسلمان نہ سہی پر سادہ کلمہ گو مسلمان تو ہیں۔ جن مساجد پر حملے کئے جارہے ہیں۔ صحافیوں اور ڈاکٹروں کو شہید کیا جارہا ہے، وہ بھی مسلمان ہیں۔ وہ یہودی، عیسائی،اسلام یا طالبان دشمن نہیں۔ پھر ان بے گناہ نہتے انسانوں کا بلاجوازقتل عام کیوں کیا جارہا ہے۔ یہ کون سا اسلام اور دین کا نظام ہے اور طالبان کس شریعت کے نظام کے نفاذ کے داعی ہیں۔ ہر انسان مکمل، جامع، باعمل اور پکا وسچا مسلمان نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی کمی یا خامی اس میں ضرور ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ماحول کی تربیت ومعاشرتی اقدار کی پاسداری اور شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہو کر وہ اپنے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ پتھر کو بھی سنگ تراش کئی مرتبہ تراشنے کے بعد ہیرا بناتا ہے۔انسان بھی ٹھوکریں کھا کھا کر سمجھتا ہے۔ طالبان کے دعویدار یہ تو غور وفکر کریں کہ وہ بھی اسی معاشرے میں رہ کر آج اپنی غلطیوں کو فراموش کرکے دوسروں کی غلطیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندر کے انسان ومسلمان کا پہلے خود محاسبہ کریں۔ سب سے پہلے اپنے وجود پر شریعت اور شرعی نظام کو نافذ کریں۔ پھر گھر ،معاشرے اور ریاست کی بات کریں۔ سب سے پہلے ہمیں تمام مذاہب ومکاتب فکر کے عزت واحترام کا خیال رکھنا ہوگا۔ ریاست کے قوانین کی پاسداری کرنی ہوگی اور قانون کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں تمام تر اختلافات دور کرتے ہوئے ملک اور نظام کی مضبوطی کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔

صحافی تو ہر دور میں مظلوم رہا ہے۔ وہ صحافی جنہیں طالبان نے قتل کیاوہ تو حصول روزگار کے لئے ایکسپریس ٹی وی چینل پر نوکری کررہے تھے۔ وہ ٹی وی چینلز کے مالکان نہیں اور نہ وہ نیوز اینکر پرسنزہیں۔ وہ سیاستدان بھی نہیں جو بلند وبانگ دعوے کرتے اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی طالبان کو دھمکی نہیں دی ،نہ کسی سے بھتہ لیا اور نہ کسی کے خلاف بات کی۔ نہ وہ کسی طالبان کو جانتے ہوں گے لیکن پھر بھی انہیں شہید کردیا گیا۔ ان کے گھروں کے چولہے بجھادیئے گئے۔ اسلام کے قانون واصول کے مطابق دشمن کو پہلے سمجھایا جائے۔ جب وہ باز نہ آئے تو اسے دھمکایا جائے۔

پھر بھی باز نہ آئے تو پھر اعلان جنگ کیا جائے۔ اگر طالبان کو ان کی صحافتی ڈیوٹی اور حصول روزگار کے لئے نوکری کرنا پسند نہیں تھا تو ان کے لئے روزگار کا متبادل موقع فراہم کرتے تاکہ وہ اپنے بچوں کی کفالت کرتے۔ صحافی کی زندگی تو مجاہد کی زندگی ہے۔ صحافی اپنی خواہشات اور ترجیحات کا گلہ گھونٹ کر معقول تنخواہوں پر اپنی زندگی گزر بسر کررہے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوچکی ہے اور روزگار ناگزیر ہوچکا ہے۔ صحافیوں کو تو روزگار کی ضمانت بھی نہیں ہے کہ وہ آفس جائیں تو انہیں رخصتی کا پروانہ ہاتھ میں پکڑادیا جائے۔ پاکستان میں صحافت ضرور آزاد ہے لیکن صحافی قید اور مالکان کی پالیسی ومنشاء کے ماتحت ہیں۔ ’’یس سر‘‘ ’’یس سر‘‘ کی گردان پڑھتے ہوئے نظر آتا ہے۔میڈیا ہاؤسز مالکان اور حکومتی ارباب اختیار توجہ دیں کہ جب ایک ادارے کا صحافی شہید یا زخمی ہوجاتا ہے تو اس ادارے کے مالکان کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہ بھی ٹی وی چینلز پر آکر یا پریس کلب کے باہر صحافی برادری کے ساتھ مل کر مزاحمت کریں۔ ایک ادارے کا ملازم ادارے کے لئے ایک جز اور ایک ادارہ ہی ہوتا ہے۔ حکومتی مراعات کا اعلان اور آسرے دیئے جاتے ہیں۔ ادارہ صرف ایک دستاویزی فلم اور رپورٹ چلا کر بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل کا صحافی شہید ہوجائے تو دوسرے چینل کو چاہئے کہ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ بھی بھرپور افسوس کا اظہار کرے اور یک زبان ہو کر صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومت پر زور ڈالیں۔ صحافی تو ملک کا معیار اور ادارے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ پریس کلبز اور صحافتی تنظیمیں تو سڑکوں پر بھرپور احتجاج کرتے نظر آتی ہیں لیکن سیاستدان اور سول سوسائٹی سے چند افراد فوٹو شوٹ کی حد تک احتجاج میں شریک ہوتے ہیں۔

بے گناہ صحافیوں کی شہادت کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں ، مساجد پر خودکش حملے اور دھماکے دہشت گردی اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ پاکستان کے آئین اور شریعت محمدیﷺ کے تحت ہمیں دیگر مذاہب اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا اور ان مذاہب کا ادب کرنا ہم پر فرض ہے۔ اگر ہم کسی کے جھوٹے خدا کو برا کہیں گے تو وہ ہمارے سچے خدا کو ’’نعوذباﷲ‘‘ برا کہے گا۔ ہم نے اگر ملک میں تبدیلی لانی ہے تو اپنے کردار واخلاق، پیار ومحبت سے ہی تبدیلی لانی ہوگی۔ طالبان یا جو بھی ملک دشمن لوگ ہیں یا کسی بھی وجہ سے ملک دشمنی پر مجبور ہیں، وہ لوگ مل کر ملک میں قانون کی مضبوطی کے لئے اداروں کا ساتھ دیں تاکہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ حصول روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں۔ یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جائے۔ ملاوٹ اور دو نمبر اشیاء کی مارکیٹ میں خرید وفروخت بند کی جائے، پھر ہی نظام میں تبدیلی کے نعرے لگانے کا حق ہے، نہ کہ حکومتی ایوانوں میں براجمان ہونے کے لئے تبدیلی کے نعرے لگائے جائیں۔ یہاں صرف سیاسی، بے ضرر، بلند وبانگ نعرے لگائے جاتے ہیں اور رات کی تاریکیوں میں اپنے مفادات کی جنگ کا سودا بند کمروں میں کرلیتے ہیں۔ عوام تبدیلی اور خوشحالی کے انتظار میں قرضوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبتی جارہی ہے۔ ہر انسان ، مسلمان وپاکستانی ، ملک دشمن اور بھٹکے ہوئے لوگوں کے لئے دعوت ہے کہ وہ خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ، ملک میں انتشار اور ملک دشمن سرگرمیوں کو ترک کرکے پہلے عملی طور پر ملک میں امن وامان کے قیام کے لئے حکومت کا ساتھ دے ۔ ہمیں اپنی مختلف پہچانیں پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک اچھا انسان اور پکا سچا مسلمان کہلوائیں اور پاکستان کا وجود کلمہ طیبہ کی بنیاد پر عمل میں آیا ہے۔ پاکستان سے محبت، پاکستان کی حفاظت، پاکستان میں قیام امن کی کوشش ہر پاکستانی پر لازم ہے۔ پاکستان زندہ باد۔
جاری ہے۔
Nadeem Shahzad
About the Author: Nadeem Shahzad Read More Articles by Nadeem Shahzad: 3 Articles with 2560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.