بیرسٹر سلطان اور مرد ِ بحران ۔۔۔۔!!!

قارئین ویسے تو وطن عزیز پاکستان میں جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کی دھوپ چھاؤں کا سفر بہت سے اسباق سے پُر ہے لیکن آزادکشمیر کی طرف اگر نظر دوڑائی جائے تو انتہائی افسوس ناک قسم کے مناظر سامنے آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت بنیادی طور پر ایک علامتی حکومت کے طور پر قائم کی گئی تھی اور اس کا مشن سٹیٹمنٹ یہ تھا کہ آزادکشمیر کا یہ خطہ تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے اور یہاں پر اس نظریاتی جدوجہد کو منظم کیا جائے گا جس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے ایک کروڑ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو بھارت کی غلامی سے نجات دلا کر آزادی کی منزل حاصل کی جائے گی ۔گزشتہ 66سالوں سے آزادی کے بیس کیمپ آزادکشمیر میں اور تو سب کچھ ہوا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا کہ جس کا تعلق اس ریاست کی آزاد حکومت قائم کرنے کے مقاصد کے ساتھ کوئی تعلق ہو ۔عرصہ دراز تک آزادکشمیر میں مجاہد اول بزرگ سیاستدان سردار عبدالقیوم خان اور ان کی پارٹی مسلم کانفرنس کی حکومت رہی لیکن باوجود اس کے کہ لبریشن سیل کے نام پر ایک وقت میں امیر المومنین جنرل ضیاء الحق مرحوم ہی کے دور حکومت میں 56کروڑ روپے کی رقم کے بارے میں سوالیہ نشان کھڑے ہوئے اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے یہاں تک کہہ دیا کہ تحریک آزادی کشمیر کو منظم کرنے کے لیے لبریشن سیل کا یہ خطیر فنڈ استعمال کرنے کا ہم اس لیے کوئی بھی حساب نہیں دے سکتے کہ اس سے دیگر بہت سے مسائل جنم لیں گے ۔

قارئین یہ سب باتیں اپنی جگہ پر لیکن افسوس ناک ترین حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فرنٹ پیج اب ’’ متروک زبانوں ‘‘ کی طرح ایک متروک ایشو دکھائی دیتا ہے اور پاکستانی پالیسی ساز اور سیاست دان بھارت کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے میں تو بھرپور دلچسپی دکھا رہے ہیں ایک میڈیا گروپ کے ذریعے ’’ امن کی آشا ‘‘ کے ذریعے ’’ لتا منگیشکر اور آشا بھونسلے کلچر ‘‘ کو پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے پاکستانی مسلمانوں کو بھارت کے ساتھ تجارت کے فوائد بھی بتائے جا رہے ہیں لیکن یہ کوئی بھی نہیں بتا رہا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کشمیر کے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے اور کشمیر کو پاکستان کے وجود کے لیے کتنا ناگزیر سمجھتے تھے بقول ساغر صدیقی یہ کہتے چلیں
راہنما کا نا م نہ لو
راہزن شرم سار سے ہونگے

ہم امید رکھتے ہیں کہ لاکھوں کشمیری شہداء کے لہو اور ڈیڑھ کروڑ کے قریب ’’ کشمیری غلاموں ‘‘ کے حال پر رحم کھاتے ہوئے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیاد ت ان تمام معاملات پر کچھ غور ضرور کرے گی رہی بات پاکستانی عوام کی تو یقین جانیے بیس کروڑ پاکستانیوں کے دل کشمیریو ں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور کشمیر کے حوالے سے کروڑوں پاکستانیوں کی نبض آج بھی مضطرب ہو جاتی ہے اس حوالے سے نظریاتی میڈیا سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں

قارئین یہاں اب کچھ بات ہم آزادکشمیر کے انتہائی مسموم اور دھواں دار قسم کے سیاسی منظر نامے کے متعلق بھی کرتے چلیں ۔آج سے چند سال قبل برطانیہ سے آنے والے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے قریبی دوست برطانوی ہاؤس آ ف لارڈ ز کے پہلے تا حیات رکن لارڈ نذیر احمد نے سردار عتیق احمد خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر کیا تھا اور ا س کے بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پانچ سالوں میں چارمرتبہ وزارت عظمیٰ کی تبدیلی دیکھی ۔یہ ایک انتہائی شرمناک قسم کی پارلیمانی تاریخ تھی جو ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے ۔

قارئین آج کل بھی سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اپنے قریبی دوست لارڈ نذیر احمد کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائدین میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے انتہائی قریبی رابطوں میں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ خفیہ اور انتہائی مضبوط حمایتیوں کی مدد سے وہ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سے بھی گہری قربت رکھتے ہیں ان کی یہی سیاسی گہرائی وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو گزشتہ اڑھائی سالوں سے ایک تڑپتا ہوا حکمران بنا چکی ہیں حالانکہ بظاہر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید میڈیا اور جلسوں سے خطاب کے دوران واشگاف دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں اپنی جماعت کا مکمل اعتماد حاصل ہے لیکن اس سوال کا جواب دینے سے وہ معذور دکھائی دیتے ہیں کہ اگر ان کی پارٹی کی مرکزی قیادت ان سے مطمئن ہے اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے نا راض ہے تو آخر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری پیپلزپارٹی سے فارغ کیوں نہیں کیا جاتا اور انہیں یہ موقع کیوں دیا جا رہا ہے کہ وہ کھلے عام جلسوں اور نیشنل میڈیا پر چوہدری عبدالمجید کو آزادکشمیر کا کرپٹ ترین وزیراعظم قرار دیئے جا رہے ہیں اس سب صورتحال سے دکھائی دیتا ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری واقعی ایک ٹیسٹ پلیئر ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو تھکا کر رکھ دیا ہے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے حامی انہیں مرد بحران قرار دے رہے ہیں کہ باوجود اس کے کہ 49کے ایوان کے 32اراکین قانون ساز اسمبلی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے بیرسٹر سلطان محمو چوہدری کی چھتری تلے جمع ہو چکے تھے پھر بھی وہ اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہے دوسری جانب بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے حمایتی یہ کہتے ہیں کہ ہمارے قائد نے اڑھائی سال سے نظریاتی کارکنوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کرپشن کو بے نقاب کیا ہے اور اس سب کے باوجود انہیں پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کا اعتماد حاصل ہے اس لیے مرد بحران کا خطاب بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو ملنا چاہیے اس کا فیصلہ ہم پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں کہ مرد بحران کون ہے اور بحران کس نادان مرد کی وجہ سے پیدا ہوا لیکن ہم یہ ضرور بتاتے چلیں کہ 2014کا سورج طلوع ہوتے ساتھ ہی وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کے لیے نئے چیلنجز سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں آزادکشمیر حکومت اس وقت مالیاتی بحران کا شکار ہے اور اس کی بنیادی وجہ مالیاتی ڈسپلن کا فقدان ہے اس وقت آزادکشمیر حکومت کی حالت یہ ہے کہ تین میڈیکل کالجز کے عملے کو تنخواہیں دینے کے لیے رقم بھی نہیں ہے محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپور میں ایک سو ساٹھ سے زائد ملازمین کو گزشتہ چار ماہ سے تنخواہیں نہیں مل سکیں اور کچھ ایسی ہی صورتحال اے جے کے میڈیکل کالج مظفرآبا داور غازی ملت میڈیکل کالج راولاکوٹ میں بھی پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے سابق صدر پاکستان آصف علی زردای اور محترمہ فریال تالپور سے ہونے والی حالیہ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں چودہ ارکان اسمبلی کی عدم شرکت بھی کئی سوال کھڑے کر چکی ہے اسی طرح چیف سیکرٹری آزادکشمیر کے ساتھ مختلف ایشوز پر اختلاف رائے بھی وزیراعظم آزاد کشمیر کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے باوجود بھرپور کوشش کے پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے سابق وزیراعظم اور چوہدری عبدالمجید کے سب سے بڑے سیاسی مخالف بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو پارٹی سے نکالنے سے صاف انکار کر دیا اورسابق صدر زرداری کے الفاظ یہاں تک میڈیا کے سامنے آئیں ہیں کہ میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں آپ ان کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں میں انہیں پارٹی سے ہر گز نہیں نکالو ں گا دوسری جانب آزادکشمیر کی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن آزا دکشمیر کی باڈی لینکویج بھی تبدیل ہو چکی ہے اور اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر خان اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق سمیت دیگر تمام قیادت اور ان سب سے بڑھ کر وزیر امور کشمیر برجیس طاہر کے بیانات اور تقریریں بھی آزادکشمیر حکومت کو دھمکی آمیز انداز میں مخاطب کر رہی ہیں سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر چوہدری عبدالمجید مالیاتی بحران پر قابو پاتے ہوئے میڈیکل کالجز کو بلیک لسٹ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں کسی طریقے سے مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ’’ کچھ لو اور کچھ دو ‘‘ کی بنیاد پر سودے بازی کرنا پڑے گی تا کہ وفاقی حکومت سے بیس ارب روپے کے قریب کا مالیاتی خسارہ پورے کرنے کے لیے امداد حاصل کی جا سکے جبکہ مسلم لیگ ن آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کو ایک انتہائی کرپٹ وزیراعظم قرا ر دیتے ہوئے ان سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے کے لیے رضامند دکھائی نہیں دیتی اگر آزادکشمیر میں قائم تینوں میڈیکل کالجز مالیاتی خسارہ کی وجہ سے بلیک لسٹ ہو گئے تو یقینا پیپلزپارٹی کے لیے سیاسی سطح پر یہ خود کشی ہو گی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میڈیکل کالجز میں کام کرنے والے پروفیسرز اگر میڈیکل کالجز چھوڑ کر چلے گئے اور اس کی بنیادی وجہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی ہوئی تو آئندہ دس سال کے لیے آزادکشمیر میں ایک میڈیکل کالج کے لیے بھی پاکستان سے فیکلٹی پروفیسرز آنے کے لیے تیار نہ ہو نگے اور آزادکشمیر کو تعلیمی میدان میں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اسی طرح سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کچھ خفیہ حمایتیوں کی مدد سے نا صرف سابق صدر آصف علی زرداری کی گڈ بکس میں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کی پارلیمانی پارٹی میں دس سے زائد ارکان قانون ساز اسمبلی ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں آنے والے چند دنوں میں آزاد کشمیر کی سب سے بڑی گجر بر ادری کے نو اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک نیا پریشر گروپ پیپلز پارٹی کی صفوں میں تشکیل پا جائے گا او ر اس گروپ کے سامنے آنے کے بعد یا تو وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید مستعفیٰ ہو جائیں گے اور بصورت دیگر وہ اسمبلی توڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے مطالبے اور منصوبہ بندی کے مطابق مڈ ٹرم الیکشن کی راہ ہموار ہو جائے گی سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں 2013چوہدری عبدالمجید کے لیے اعصاب شکن ضرور رہا لیکن وہ انتہائی خوش قسمت ثابت ہوئے کہ باوجود اربوں روپے کی کرپشن کے ثابت شدہ الزامات اور بیڈ گورننس کے وہ اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہے آنے والے چند ہفتے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور کسی بھی وقت انتخابات کا بگل بھی بج سکتا ہے اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت چوہدری عبدالمجید سے استعفیٰ لے کر کسی اور شخصیت کو آزادکشمیر کا وزیراعظم نامزد کر سکتی ہے ۔

بقول شاعر یہاں یہ ضرور کہیں گے کہ

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں
کچھ باتیں ویسی ہوتی ہیں
سوچوتو کیسی ہوتی ہیں
بس ایسی ویسی ہوتی ہیں

یقینا یہ تمام باتیں لمحہ فکریہ ہیں اور اہل دل کے لیے اضطراب کا باعث ہیں کہ آزادی کے بیس کیمپ میں اس وقت اصل مقاصد کو فراموش کر کے ’’ کرسی کرسی ‘‘ کا کھیل ’’ نیلامی ‘‘ کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے اﷲ مظلوم کشمیری مسلمانوں کے حال پر رحم کرے اور آزادکشمیر میں ایسی قیادت کو بر سر اقتدار لائے جو قابل بھی ہو ،مخلص بھی ہو اور دیانتدار بھی ہو آمین ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
شادی کے ایک ہفتے کے بعد نئی نویلی اور انتہائی پھوہڑ اور کھانے پکانے سے نا آشنا دلہن نے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے ہوئے شوہر سے لاڈ سے پوچھا

’’ ڈارلنگ اگر میں آپ کو روزانہ ایسا ہی کھانا بنا کر کھلاؤ ں تو مجھے کیا ملے گا ؟‘‘

شوہر نے کراہتے ہوئے روتی ہوئی صورت بنا کر کہا

’’ میری انشورنس پالیسی کے بیس لاکھ روپے ‘‘

قارئین ہمیں یوں لگتا ہے کہ مختلف ’’مرد بحران ‘‘ مل جل کر کشمیری قوم کو موت کے گھاٹ اتار کر انتہائی غیر ادبی انداز میں ان کی لاشوں کی انشورنس پالیسی کھانا چاہتے ہیں اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائے آمین ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337386 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More