حکیم محمد سعیدشہید- تحقیق کے آئینے میں

 (یہ مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالہ بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور
کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ سے ماخوذ)

حکیم محمد سعید دنیائے اسلام کی ایک نامور ،قابل احترام اور کثیر الجہات شخصیت تھے جن کی خدمات کا دائرہ بے شمار شعبہ ہائے زندگی تک پھیلا ہوا ہے، خاص طور پر معاشرہ کی بہبود اور عالم اسلام کی فلاح، علم و حکمت، طب و سائنس، تہذیب و ثقافت، تعلیم و تربیت، صحافت، رسائل و جرائد اور اشاعت کتب، عربی زبان کی ترویج و ترقی، کردارو اخلاق کی تعمیر، نونہالوں کی تعلیم و تربیت، تعمیر و استحکام وطن کے علاوہ پاکستان میں لائبریری تحریک اور کتب خانوں کی ترقی و فروغ میں آپ کی خدما ت نمایاں، فقید المثال اور دور رس اثرات کی حامل ہیں۔ ’’آپ کا شمار ان عظیم المرتبت افراد میں ہوتا ہے جن کی زندگی کا بنیادی مقصد خدمت اور تعمیر و ترقی وطن رہا،آپ نے اپنی زندگی میں قومی سطح پر خلوص و شفقت، علم و فضل اور ایثار و قربانی کے انمٹ نقوش چھوڑے‘‘(۲)۔ چیف جسٹس (ر) انوار الحق کے بقول ’’حکیم محمد سعید ایک ایسے انسا ن تھے جن کے کمالات کے دائرے کا احاطہ کرنے بیٹھیں تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ کوئی اکیلا آدمی اتنے مفید کام بھی کر سکتا ہے، اس وسیع پیمانہ پر‘‘ (۳)۔

کتاب اور کتب خانہ حکیم محمد سعید کی شناخت ہے جو تاابد آپ کو زندہ وجاوید رکھے گی، اپنی اس شناخت سے آپ کو بے حد عقیدت اور لگاؤ تھا جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ جب آپ نے شہر علم مدینتہ الحکمہ کے بارے میں اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ تیار کیا تو اس قطعہ اراضی پر کہ جس پر شہر علم بسایا گیا ہے سب سے پہلے پائے تکمیل کو پہنچنے والی عالی شان عمارت لائبریری کی تھی جو بیت الحکمہ کے نام سے معرض وجود میں آئی۔ اس لائبریری کو بجا طور پر دنیا کی ایک منفرد، مثالی اور ایشیاء کی بڑی لائبریری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ نے اس کتب خانے کا نام بیت الحکمہ رکھا تو آپ کے ذہن میں اسلامی دور کا وہ تاریخی ادارہ بیت الحکمت کا تصور جاگزیں تھا جسے عباسی خلیفہ جعفر المنصور (المتوفی ۱۳۵ھ۔۱۵۸ ھ) نے بغداد میں قائم کیا تھابعد میں خلیفہ ہارون الرشید (المتوفی ۱۷۰ھ۔ ۳۹۱ھ) نے اسے تر قی دی۔ گویا آپ کسی بھی تعلیمی ادارے کی اصل روح کا ادراک رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ شہر علم (مدینتہ الحکمہ) کی اصل روح (بیت الحکمہ) کی تخلیق کو اولیت دی گئی اوربیت الحکمہ کی تعمیر کے بعد دیگر
تعلیمی اداروں جن میں اسکول، کالج،یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹس شامل تھے کا قیام عمل میں لایا گیا۔

حکیم محمد سعید ان صاحب فضل و کمال شخصیات میں سے تھے کہ جن کی ضیاء علم و دانش نے بیسویں صدی کو منور اور تابناک بنا دیا۔ آپ کا نقطہ نظر واضح، رائے دو ٹوک اور مصلحت سے پاک تھی، آپ انسان دوست، درد مند معالج، محقق اوردانش ور، تاریخ دان، فروغ تعلیم کے داعی، مدیر مولف و مصنف، اعلیٰ منتظم، اسلامی علوم پر ماہرانہ نظر رکھنے والے، ملکی سیاست کے نباض، حقیقت پر مبنی سوچ و فکر کے حامل اور ایک وضع دارانسان تھے۔ بقول ایس ایم ظفر’’حکیم محمد سعید خون کے آخری قطرہ تک محب وطن تھے۔‘‘ (۴) درحقیقت آپ کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ ’’عام طور پر لوگ سانسوں کی گنتی اور شب و روز کے شمار کو زندگی سمجھتے ہیں جب کہ حکیم محمد سعید کے نزدیک زندگی سعی پیہم اور جہد مسلسل کا نام ہے۔‘‘ (۵)۔

حکیم محمد سعید کے آباؤ اجداد کا تعلق چین کے شہر سنکیانگ سے تھا جہاں سے یہ خاندان سترھویں صدی کے آغاز میں ہجرت کر کے پشاور منتقل ہوا، تقریباً ۸۰ سال بعد اس خاندان نے پشاور سے ملتان ہجرت کی اور ۱۳۵ برس پنجاب کی سرزمین کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ اٹھارویں صدی کے دوسرے عشر ہ میں آپ کے خاندان کے افراد نے پنجاب کی سرزمین کو الوداع کہتے ہوئے دہلی ہجرت کی اور حوض قاضی کو اپنا مسکن بنایا۔ ۱۸۵۶ء میں حکیم محمد سعید کے پردادا دہلی چھوڑ کر پانی پت چلے گئے آپ کے دادا حافظ شیخ رحیم بخش۱۸۶۴ء اور نانا کریم بخش ۱۸۶۱ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا مزاجاً مہم جو واقع ہوئے تھے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد پیلی بھیت منتقل ہو گئے، وہیں پر حافظ شیخ رحیم بخش کی شادی ہوئی، ۱۸۸۳ء میں حکیم محمد سعید کے والد حافظ حکیم عبدالمجید کی پیدائش ہوئی، ۱۸۸۶ء میں آپ کے چچا حافظ عبدالرشید پیدا ہوئے۔ آٹھ برس پیلی بھیت میں رہنے کے بعد آپ کے دادا دوبارہ دہلی چلے گئے
اور حوض قاضی کو ازسر نو آباد کیا۔

حکیم محمد سعید ۹ جنوری ۱۹۲۰ء (۱۶ ربیع الثانی ۱۳۳۸ھ) کو صبح چار بج کر سترہ منٹ پر ہندوستان کے شہر دہلی کے کوچہ کاشغری، بازار سیتارام میں پیدا ہوئے۔ برصغیر کے معروف عالم دین حضرت مولانا احمد سعید نے آپ کا نام’’محمد سعید‘‘ رکھا۔ سعید کے معنی ہیں’ سعادت، مبارک، بابرکت، نیک، خوبیوں والا، خیر و عافیت والا‘۔ آپ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ابھی آپ صرف ڈھائی برس کے تھے کہ آپ اپنے والد حکیم عبدالمجید (ولادت ۲۲ جون ۱۸۸۳ء، بمقام پیلی بھیت، وفات ۲۲ جون ۱۹۲۲ء) کے سایہ سے محروم ہوگئے آپ کے والد حافظ قرآن تھے اور ان کا روحانی تعلق حضرت خواجہ باقی باﷲ رحمتہ اﷲ علیہ سے تھا۔

۱۹۰۰ء میں حکیم حافظ حاجی عبدالمجید بانی دواخانہ ہمدرد کا نکاح رابعہ بیگم سے ہوا ۔ آپ انتہائی نیک، اطاعت اور خدمت گزار، نماز و روزہ کی پابند، پردہ کی پابند، محنتی، وفاشعاراور معاملہ فہم خاتون تھیں۔ خواجہ حسن نظامیؒ نے آپ کومادر ہمدرد کا خطاب دیا تھا۔ محترمہ رابعہ بیگم کے انتقال کے بعد خواجہ حسن نظامیؒ نے ان کے احترام میں ایک کتاب بعنوان ’’مادر ہمدرد‘‘ لکھی ا پنی والدہ کے بارے میں حکیم محمد سعید نے لکھا’’ میری والدہ نہایت نرم مزاج خاتون تھیں، مگر ساتھ ہی گرم مزاج بھی تھیں۔ ساری زندگی اصول کے خلاف کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ ان کی تربیت کا سارا زور اخلاق پر تھا ۔ بداخلاقی پر سخت سزا دیتی تھیں‘ ‘(۶)۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’اگر ان میں یہ عظمتیں نہ ہوتیں تو ا با جان کے انتقال کے
بعد ہمدرد باقی کہاں رہ سکتا تھا‘ ‘(۷)۔

حکیم محمد سعید کے والد حکیم عبدالمجید ایک مستقل مزاج شخص تھے۔ آپ کو ادویات کے خواص میں خاص دلچسپی تھی۔ شوق اور مہارت کے باعث انھوں نے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے قائم کردہ ہندوستانی دواخانے میں ملازمت کرلی۔ اس عرصے میں طب کامطالعہ بڑی گہرائی اور طب کی متعدد کتابوں کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کیا۔ آپ کو جڑی بوٹیوں سے گہرا شغف تھا اور ان کی پہچان کا ملکہ حاصل تھا آخر کار انہوں نے نباتات کے میدان میں اترنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ بیماریوں کی شفاء کے لیے ہندوستان بھر سے جڑی بوٹیاں حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ بقول حکیم محمد سعید ’’آپ ایک بلند پایہ نبض شناس تھے۔ یعنی جڑی بوٹیوں کے ماہر‘‘ (۸)۔ حکیم عبدالمجید بڑی محنت سے حکیم اجمل خان کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ انھیں احساس ہوا کہ حکیم اجمل صاحب ان کی دیانت پر شک کرنے لگے ہیں۔ غیرت فطرت نے یہ شبہ برداشت نہ کیا اور اس عظیم انسان نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ ۱۹۰۶ء میں اپنے سسر رحیم بخش صاحب سے کچھ پیسے لے کر ہمدرد کی بنیاد ڈالی اور اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کی۔ ہمدرد دکان کو چلانے کے لیے حکیم عبدالمجید نے نباتات سے دوائیں بنانا شروع
کیں اور ان کی اہلیہ رابعہ بیگم نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا۔

ہمدرد دواخانے کی پہلی دوائی ’’حب مقوی معدہ‘‘ تھی۔ رابعہ بیگم اور ان کی بہن فاطمہ بیگم دونوں عبدالمجید صاحب کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور سل بٹے سے نباتات پیس کر ہاتھ سے گولیاں بناتی تھیں۔ حوض قاضی سے ہمدرد کی منتقلی لال کنویں کی ایک دکان میں ہوئی اور جب اس کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی تو اس کو لال کنویں سے اس کی ابتدائی جگہ منتقل کرنا پڑا۔ ۲۱ مارچ ۱۹۲۲ء کو اس جگہ سے ہمدرد کے نئے دور کا آغاز ہوا حکیم عبدالمجید کی انتھک محنت اورمستقل مزاجی نے ہمدرد کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۲۲ء کو ہمدرد کا نیا دور شروع ہوا، لیکن افسوس اس نئے دور کی افتتاحی تقریب کے دوران حکیم عبدالمجید علیل تھے اور اس عظیم الشان تقریب میں شرکت نہ کر سکے۔ ۲۲ جون ۱۹۲۲ء کو ۳۹ سال کی عمر میں آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہونے کے لیے ہمدرد کا ایک باب کھلا چھوڑ گئے(۹)۔ اس وقت حکیم محمد سعید کی عمر ڈھائی برس تھی، آپ کی پرورش آپ کی والدہ رابعہ بیگم اور آپ کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے کی۔

شہید حکیم محمد سعید کی رسم بسم اﷲ ۱۹۲۲ء میں تین برس کی عمر میں ادا ہوئی۔ ہندوستان کے معروف عالم مولانا احمد سعید نے قرآن مجید کی سورۃ خلق کی پہلی آیت پڑھائی۔ اس موقع پر بچوں کی نماز با جماعت کا بھی اہتمام ہوا۔ تقریب کے دولھا نے امامت کے فرائض سر انجام دیے اس طرح آپ بچوں کی جماعت کے امام ہوئے اور نماز عصر پڑھائی۔ تین برس کے حکیم محمد سعید نے جگت چچی کے گھر قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور صرف پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ختم کر لیا۔ ’’رسم آمین‘‘ کی تقریب کا اہتمام بھی بڑے پروقار طریقے سے ہوا۔ ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل ہو جانے کے بعد آپ کی والدہ نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا بیٹا اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے آپ کوحوض قاضی، اجمیری دروازہ، دہلی کی اونچی مسجد’ مسجد گاڑی بان‘ میں قائم مدرسہ تعلیم القرآن میں داخل کرا دیا گیا۔ مسجد کے پیش امام حافظ عمر دراز علی نے آپ کو قرآن مجید حفظ کر ایا۔ اس وقت حکیم محمد سعید کی عمر نو برس تھی۔ ۱۹۲۷ء میں آپ نے اپنی والدہ کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کی۔ اس سے قبل آپ چھ برس کی عمر میں پہلا
روزہ بھی رکھ چکے تھے۔

حکیم محمد سعید حصول علم سے کبھی غافل نہ ہوئے، دینی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے ماسٹر ممتازحسین اور ماسٹر اقبال حسین سے حاصل کی جب کہ عربی و فارسی کے استاد قاضی سجاد حسین تھے (۱۰)۔ قاضی سجاد حسین کا شمار اس وقت ہندوستان کے عربی اور فارسی کے نامور علماء اور اساتذہ میں ہوتا تھا۔ اپنے بڑے بھائی کی ہدایت پر آپ نے طب کا خاندانی پیشہ اختیار کرنے اور طب کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، ۱۹۳۶ء میں جب کہ آپ کی عمر ۱۴ برس تھی آپ مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کے قائم کردہ آیور ویدک اور یونانی طبیہ کالج دہلی میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوئے یہاں پر آپ کے اساتذہ حکیم عبدالحفیظ، میجر ظفر یاب حسین اور ڈاکٹر اے جی قریشی تھے۔ پاکستان ہجرت کے بعد جب آپ طبیب کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے اور ہمدرد کے فروغ و ترقی کے لیے کوشاں تھے آپ نے محسوس کیا کہ آپ کو انگریزی زبان میں گفتگو کے دوران مشکلات پیش آرہی ہیں تو آپ نے بلا جھجک انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ انگریزی کے ماہر کی خدمات حاصل کیں۔ آپ نے لکھا کہ ’انگریزی زبان میں گٹ پٹ کرنے کی مشق کراچی میں کی۔ میری استاد شفیقہ ائرمارشل میکڈانلڈ، کمانڈر انچیف پاکستان ائر فورس کی اہلیہ تھیں‘ (۱۱) ۔ اس عمل سے آپ نے ثابت کیا کہ حصول علم میں وقت اور عمر کی قید نہیں۔ انسان عمر کے کسی بھی حصہ میں باقاعدہ علم حاصل کر سکتا ہے۔حکیم محمد سعید کی شادی ان کی خالہ زاد محترمہ نعمت بیگم سے ۱۹۴۳ء میں دہلی میں ہوئی۔ نعمت بیگم ایک مثالی وفادار صابر و شاکر اور خدمت گزارخاتون تھیں۔ حکیم محمد سعید کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے انھیں ایک ایثار پیشہ خاتون قرار دیا۔ حکیم محمد سعید نے اپنی زندگی کی کہانی میں اپنی شریک حیات کے بارے میں تحریر فر مایا کہ ’’اگر ایسی معصوم شریک حیات مجھے نہ ملتیں تو شاید میں وہ سارے کام نہ کرسکتا کہ جو میں نے کر لیے ہیں۔ انھوں نے ہر تکلیف برداشت کرکے میری راحت کو ہر راحت پرمقدم رکھا۔ جب غربت کا دور دورہ تھا تو بھی وہ ثابت قدم رہیں۔ ہم دونوں نے خاموشی سے فاقے بھی کر لیے۔ پھر جب کراچی میں ہمدرد کے قیام کا وقت آیا تو اس عظیم خاتون کے پاس جو زیور تھا وہ سب مجھے دے دیا اور ہمدرد کے قیام میں اس عظمت نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا‘‘ (۱۲)۔

حکیم محمد سعید اور محترمہ نعمت بیگم کی رفاقت ۳۸ برس پر محیط ہے۔ آپ کی شریک حیات نے ایسا حق رفاقت ادا کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۱۸ اگست ۱۹۸۱ء دن کے دو بجے اﷲ کو پیاری ہوئیں۔ حکیم صاحب کی اولاد میں ایک بیٹی سعدیہ راشد ہیں جو محترم حکیم صاحب کے بعد ہمدرد کے جملہ امور کی نگراں و سرپرست ہیں۔حکیم محمد سعید اپنے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید سے بہت متاثر تھے۔ حکیم عبدالحمید کو بھی آپ سے بے انتہا محبت تھی، بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کی پرورش میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی۔ در حقیقت حکیم محمد سعید کی تعلیم و تربیت، سیرت اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں آپ کی والدہ رابعہ بیگم اور آپ کے بڑے بھائی کا بڑا ہاتھ تھا۔ دونوں کی تربیت نے آپ کو ایک مثالی انسان بنا دیا۔ حکیم صاحب نے اپنی کہانی میں تحریر فر مایا کہ ’’ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے بڑے بھائی جان نے میری تربیت اور محبت کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دی۔ وہ زندگی کے ہر لمحے میرے سامنے ایک نمونہ بن کر رہے ہیں اور مجھے انھوں نے انسان بنا دیا۔‘‘ایک اور جگہ آپ نے اعتراف کیا کہ ’’میرا رواں رواں ان کا زیر احسان ہے۔‘‘ اپنے بڑے بھائی سے تمام عمر ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ درحقیقت حکیم محمد سعید کی زندگی اپنے بڑے بھائی کا پرتو ہے۔ وہی ان کے آئیڈیل تھے۔ خود ان کے بقول ’’زندگی کی ہر دوڑ میں اور سعی و جہد کی ہر منزل میں تتبع حمید سے غافل نہیں رہا۔‘‘ ایک اور جگہ آپ نے لکھا ’’میں نے
پوری زندگی اپنے بھائی جان محترم کے حکم کی تعمیل کی۔ میں نے ان کو آج تک ناں نہیں کہا ہے۔‘‘

حکیم عبدالحمید بھی اپنے چھوٹے بھائی سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے حتیٰ کہ آپ حکیم سعید سے اس حد تک مطمئن تھے کہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’ اگر سرسیدؒ مرحو م مسدس حالی اﷲ کے سامنے پیش کریں گے تو میں حکیم سعیدکو پیش کر دوں گا‘‘۔ اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو یہ بات غلط نہ ہوگی کہ آج پاکستان میں حکیم محمد سعید صاحب کا جو کارنامہ مدینتہ الحکمہ کی شکل میں نظر آتا ہے وہ بھی حکیم عبدالحمید صاحب کی تعلیم و تربیت اور مشوروں کا حاصل ہے‘‘ (۱۳) ۔محترمہ سعدیہ راشد کا کہنا ہے کہ’’ ا با جان اپنے بڑے بھائی سے بہت محبت کرتے تھے، بہت احترام کرتے تھے۔ نہ جانے وہ انھیں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ کہیں انھوں نے ضرور لکھا ہوگا۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے ان کی وابستگی جس نے انھیں پاکستان چلے آنے پرمجبور کر دیا۔ انھیں اپنے بھائی سے بہت محبت تھی اور انھیں چھوڑ کر آنا ان کے لیے یقیناً ایک کٹھن کام تھا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اﷲ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا‘‘ (۱۴)۔

آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ خالصتاً مذہبی تھا۔ نماز،روزہ، تلاوت قرآن مجید، بڑوں کا حد درجہ ادب چھوٹوں کا لحاظ اور شفقت کے ساتھ پیش آناخاندان کا طرۂ امتیاز تھا۔ اس ماحول کا نقشہ حکیم صاحب نے اپنے ایک مضمون میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔’’ صبح اٹھے تومحترمہ والدہ صاحبہ کو ہمیشہ ہی جاء نماز پر دیکھا اور سوتے وقت ان کو تلاش کیا تو ان کو جاء نماز پر پایا۔ گھر کا ماحول یہ تھا کہ ہر انسان نمازی تھا۔ ہر شخص حافظ قرآن تھا۔ احترام کا یہ عالم کہ کیا مجال کہ سب سے بڑی بہن کے سامنے زبان کھل جائے۔ والدہ محترمہ اور بھائی کے سامنے ٹوپی کے بغیر جانا مشکل تھا۔ بات کرتے وقت یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ آواز نیچی رہے۔ ہماری والدہ محترمہ خاندان کی چوہدری تھیں۔ وہ ہر فرد خاندان، بلکہ ہر فرد معاشرہ سے محبت و احترام سے ملتی تھیں۔ خاطر تواضع کا اہتمام خوب تھا۔ گھر کا ماحول یہ تھا کہ نماز روزے کا بڑا احترام تھا اور تلاوت قرآن حکیم معمولات زندگی۔ اسی بات سے دیانت و صداقت کا درس ملتا رہتا تھا۔ میرے دور میں ماحول یہ تھا کہ محلے کا کوئی بزرگ قریب سے گزر جاتا تو بچے ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے۔ السلاّمُ علیکم سے استقبال کرتے تھے۔ جواب میں وعلیکم السلام کے ساتھ دست شفقت سے نہال ہو جاتے تھے۔ بچوں کا حال یہ تھا کہ کوئی بزرگ سامان اٹھائے چل رہا ہے تو بچے فوراً سامان ہاتھوں میں لے لیتے تھے اور بزرگ کو ان کے گھر تک چھوڑ آتے تھے (۱۵)۔ آپ نے اعتراف کیاکہ’’آج میں جو کچھ بھی ہوں، وہ بھائی جان محترم کے نقش قدم پر چلنے کا ثمر ہے۔ بزرگوں کا احترام کر کے میں سعید بنا ہوں‘‘(۱۶)۔

اپنے والد کے انتقال (۲۲ جون ۱۹۲۲ء) کے بعد ہمدرد مطب کی نگرانی اپنی والدہ کی سرپرستی میں حکیم عبدالحمید نے سنبھال لی تھی اس وقت آپ کی عمر ۱۳ برس تھی جب کہ حکیم محمد سعید صرف ڈھائی برس کے تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اور طبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حکیم محمد سعید اپنے بھائی حکیم عبدالحمید کے ہمراہ ہمدرد کو مزید فعال بنانے میں مصروف ہوگئے اور پاکستان ہجرت کرنے سے قبل (۱۹۴۰ء ۔ ۱۹۴۷ء) تک بھرپور طریقہ سے ہمدرد کے فروغ کی جدوجہد کرتے رہے۔ دونوں بھائیوں کی زندگی کا مقصد اب طب یونانی کی نہ صرف ترویج و ترقی تھا بلکہ ہمدرد کو ایک دواخانہ سے بڑھا کر خدمت خلق کا ایک عظیم الشان ادارہ بنانا تھا۔ بس یہی ایک دھن ان دونوں کو تھی اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی، ان کے خلوص اور لگن کو اﷲ تعالیٰ نے پسند فر مایا اور انھیں قابل رشک کامیابی سے نوازا (۱۷)۔ اور ہمدرد ایشیا کا سب سے بڑا دوا ساز ادارہ بن گیا۔حکیم محمد سعید نے عطاروں کی مددگاری، نسخہ بندی، عطاری، دوا سازی، پیکٹ و پارسل تیار کرنا بہی کھاتا ،روزنامچہ نویسی، خطوط کے جوابات دینے کے علاوہ ہمدرد کے انتظامی امور میں مہارت حاصل کر چکنے کے بعد باقاعدہ مطب شروع کیا۔ ۱۹۴۰ء میں آپ کو ہمدرد کے جملہ امورِ انتظامی بھی سونپ دیے گئے۔ اب حکیم محمد سعید ہمدرد کے سب کچھ تھے۔

۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے مقام پر ہونے والے تاریخی جلسہ عام جس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اس میں حکیم محمد سعید شریک تھے۔ قرار داد پاکستان پیش کیا جانے والا روح پرور منظر سعید ملت کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا قائداعظم محمد علی جناح کی تقاریر نے آپ کے ذہن کو جلا بخشی۔ وہ بنیادی طور پرتحریر و تحقیق کے آدمی تھے۔ شہر دہلی سیاست کا گڑھ تھا۔ قائد اعظم دہلی میں اکثر قیام کرتے تھے اس طرح سعید ملت اکثر و بیشتر ان کی زیارت سے فیض یاب ہوتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکیم صاحب کے مختلف سیاست دانوں سے تعلقات استوار ہو چکے تھے اور وہ ان کے خیالات سے بہرہ مند ہوتے پھر حکیم صاحب کا منطقی ذہن سیاسی حالات کا تجزیہ کرتا جو اکثر درست ثابت ہوتا او ر پرانی گرہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ ۱۹۴۰ء کے بعد تحریک پاکستان میں حیران کن برق رفتاری آگئی۔ ادھر سعید ملت خانقاہی مزاج رکھنے والے تنہائی پسند نہیں تھے ان کی ملاقات زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے انسانوں سے ہوتی۔ ہمدرد کی وجہ سے بڑی شخصیات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوتا۔ اپنے ذاتی مراسم، مشاہدے اور غور و فکر کا عادی ہونے کی وجہ سے وہ چشم بینا کے مالک بن چکے تھے۔ ان کی بصیرت پکار پکار کر ان کو منزل کے تعین پر مجبور کر رہی تھی۔ ہندوؤں کا چہرہ بے نقاب ہو چکا تھا۔ گاندھی کی منافقت کھل کر سامنے آچکی تھی۔ قائد اعظم اپنی اصول پرستی اور خلوص بے کراں کی بنا پر برصغیر کے سیاسی افق پر چھا رہے تھے۔ مسلم لیگ مسلمانان برصغیر کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھر چکی تھی۔ فرنگیوں کی نا انصافیوں اور بدعہدیوں کا نگریس کی کہہ مکرنیوں، وعدہ خلافیوں اور ہٹ دھرمیوں، اپنوں بیگانوں کی جفاؤں کے باوجود قیام پاکستان کی راہ ہموار ہو چکی تھی بلکہ لب بام دو چار ہاتھ رہ گیا تھا اور کمند بفضل خدا بڑی مضبوط تھی۔

حکیم محمد سعید نے غور فکر کے بعد بہت بڑا فیصلہ کیا اور وہ یہ تھاکہ ’’ بھارت میں جس انداز کی حکومت قائم ہوگی میں اس کا وفادار نہیں رہ سکتا، لہٰذا مجھے پاکستان جانا ہوگا‘‘۔ یہ اتنا بڑا فیصلہ تھا جسے دیوانگی قرار دیا جاسکتا تھا۔ یہ تاج شاہی چھوڑ کرکاسۂ گدائی تھامنے والی بات تھی۔ جھونپڑی سے محل میں جانا آسان ہوسکتا ہے، لیکن محل سے جھونپڑی میں آنے کے لیے جرات رندانہ کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ پاکستان آنے کا مطلب یہ تھا کہ زندگی کا آغاز از سر نو کیا جائے اور وہ بھی بے سرو سامانی کے نقطہ آغاز سے، کیوں کہ بھارت میں ہمدرد کے جملہ اثاثے وقف ہو چکے تھے۔ اس سے بڑی بات، عاشق زاربھائی کی مخالفت کا سوہان روح خیال تھا۔ وہ بھائی جس کے ہر فیصلہ کو شہید پاکستان حرف ِآخر قرار دیتے تھے، لیکن یہ حب اختیاری کا معاملہ تھا،اب خواہ اختیاری ہو یا غیر اختیاری، مصائب و آلام اس کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ یہ خاردا ر راستے پر ننگے پاؤں چلنے والا معاملہ ہوتا ہے اسے دو دھاری تلوار پر گامزن ہونا بھی کہتے ہیں۔

پنڈت جواہر لال نہرو سے سعید ملت کے خوش گوار تعلقات تھے اس سلسلے میں آپ نے ایک بار دو ٹوک الفاظ میں کہا’’میں پنڈت جواہر لال نہرو کا قریبی دوست ہوسکتا ہوں، لیکن اس کی حکومت کا وفادار نہیں ہوسکتا۔ منافقت کی مجھ میں صلاحیت ہی نہیں۔‘‘ یہ الفاظ ادا کر کے سعید ملت نے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا تھا۔ وہ اسلام جو سعید ملت کا اوڑھنا بچھونا تھا ۔ پھر چودہ اگست ۱۹۴۷ء والا سورج طلوع ہوا۔ برصغیر تقسیم ہوگیااور مملکت خدادادِ پاکستان، معرض وجود میں آگئی، لیکن اس کے بعد (یا پہلے) جو کچھ ہوا اس نے حکیم محمد سعید کا سینہ چھلنی کر دیا ۔ ظلم وبربریت کا فیل مست بے زنجیر ہوگیا اور انسانیت کو پس دیوار منہ چھپا کر آنسو بہانا پڑے۔ مسلمان کش فسادات حکیم محمد سعید نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ دہلی میں ان کے کئی چاہنے اور چاہے جانے والے شہید ہوگئے۔ سرزمین دہلی میں جن کی جڑیں صدیوں سے جمی ہوئی تھیں وہ خشک اوربے حقیر تنکوں کی طرح دوش ہوا پر اڑنے لگے۔ ہمدم، دوست، سب کچھ لٹا کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ رشتے دار اور مضبوط تعلقات تارِ عنکبوت سے زیادہ ناپائیدار ثابت ہوئے۔ علم و ادب کے خزانے جلا دیے گئے۔ عزتیں لوٹی گئیں، مہر و محبت کے شبستان نذر آتش کر دیے گئے۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوگئی ۔ ہندوؤں، سکھوں کا کردار اس قدر گھناؤنا، اس قدر نفرت انگیز تھا کہ حکیم محمد سعید نے اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کر دیا۔ ہندستان میں آپ نے اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر بہت بڑا مشن پورا کر دیا۔ ادارہ ہمدرد عوام الناس کی خدمات کے لیے وقف ہو چکا تھا۔ انصاف کا تقاضا تھا کہ نوزائدہ مملکت پاکستان کے عوام کی خدمت بھی کی جائے (۱۸)۔ حکیم محمد سعید نے عزیز رشتہ داروں، دوستوں اور بے شمار چاہنے والوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔ کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنانے کے بارے میں حکیم محمد سعید نے اپنی کہانی میں تحریر فر مایا کہ’’میں کراچی کیوں آیا؟ ایک دل چسپ داستان ہے۔ ایک تو بات یہی ہے کہ جناب حکیم احسن صاحب دہلی میں طبیہ کالج میں میرے ساتھ طب پڑھا کرتے تھے پھر سندھ اسمبلی کے اسپیکر آنریبل سید میاں محمد شاہ صاحب سے حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کے ہاں تعلق قائم ہوا۔ پھر ان سے دوستی ہوگئی۔ سید میران محمد شاہ اس زمانے ۱۹۳۷ء میں وائسرائے کی کونسل میں بیٹھنے کے لیے خاص لباس ٹیل کوٹ، کالی نکٹائی وغیرہ کے ساتھ آیا کر تے۔ اب دوستی پھیلی تو سندھ کے وزیر اعلیٰ خاں بہادر محمد ایوب کھوڑو جب دہلی آتے تو میں ان کا میزبان بنا۔ سندھ کے وزیر تعلیم جناب پیر الہٰی بخش صاحب سے دوستی تھی۔ وہ میرے گھرٹہرا کرتے تھے۔ میرغلام علی تالپور کا بھی میں ہی میزبان ہوتا تھا۔ وہ وزیر داخلہ سندھ تھے۔ یہ دوستیاں مجھے راولپنڈی کے بجائے کراچی لے آئیں، ورنہ فکر و فہم کے
لحاظ سے راولپنڈی میں صنعت لگانی چاہیے تھی۔ میری دوربین نگاہیں راولپنڈی کا مستقبل ۱۹۴۷ء میں
دیکھ سکتی تھیں‘‘ (۱۹)۔

پاکستان ہجرت کی تین وجوہات بیان کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ ’’ میں ۹ جنوری ۱۹۴۸ء کو ہمیشہ کے لیے کراچی آگیا، اپنی والدہ محترمہ رابعہ بیگم کو روتا چھوڑ کر آیا، اپنے عظیم محسن اور بھائی کو اداس چھوڑ آیا، اپنی ہر جائیداد چھوڑ آیا، اپنا پیارا شہر دہلی چھوڑ آیا۔ یہ اصول کی بات تھی۔ میں فکری اعتبار سے اورمزاجی لحاظ سے بھارت کا وفاراد نہیں ہوسکتا تھا۔ جب میں بھارت کا وفادار نہیں ہوسکتا تھا تو مجھے اصولاً وہاں رہنا نہیں چاہیے تھا۔ بھارت چھوڑنے پر میرا ہر دوست مخالف تھا۔ میرے عزیز و اقارب کو میرا بھارت چھوڑنا گوارا نہ تھا، حتیٰ کہ حضرت مولانا ابوالکلام آزاد تک نے بھی پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔ میرے بزرگ بلکہ دوست حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کی رائے بھی یہی تھی کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا چاہیے، مگر میں نے اصول کی خاطر ہر چیزقربان کر دی اور خالی ہاتھ پاکستان چلا آیا‘‘(۲۰)۔

ہجرت کی دوسری وجہ آپ نے یہ بیان کی کہ’’ وقت گزرتا گیا بھائی جان محترم کے بیٹے عبدالمعیداور حماد احمد بڑے ہوتے رہے ان نہایت اچھے بھتیجوں کے دل میں ضرور یہ خیال آیا کہ یہ چچا جان کون بزرگ ہیں جو سارے کاروبار پر حاوی و قابض ہیں ان کی جائیداد تو ابا جان سے بھی زیادہ ہے جس دن میں نے اپنے بھتیجوں کے دلوں میں اس کانٹے کو محسوس کیا میں نے ایک تاریخی فیصلہ کر لیا۔ میں نے ۱۹۴۴ء میں کراچی کو اپنا مرکز بنانے کا ارادہ کر لیا، مگر بات ٹلتی رہی۔ ۱۹۴۴ء میں، میں کراچی آکر رہا تھا۔ پھر مارچ ۱۹۴۷ء میں کراچی آیا۔ یہاں سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ میں زمین خریدی۔ ایک مکان کا فیصلہ کیا۔ اب میں نے ہجرت کاحتمی فیصلہ کر لیا۔ میں خاندان میں کوئی افتراق پیدا نہیں کر سکتا تھا اور میں اپنے عظیم بڑے بھائی کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ یہ ساتھ دل کا ساتھ تھا یہ ساتھ محبت کا ساتھ تھا۔ یہ ساتھ احترام کا ساتھ تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا ہمدرد خاندان میں چچا بھتیجوں کی لڑائی کا کوئی بھی امکان ہو۔ عزتِ خاندان نے مجھے راہ ہجرت دکھائی۔ میں نے اسے سنت کے طور پر قبول کر لیا۔ ۹ جنوری ۱۹۴۸ء کو میں نے صبح ۱۰ بجے ہندستان چھوڑ دیا‘‘ (۲۱)۔ ہجرت کی تیسری وجہ آپ نے یہ بیان کی کہ’’ستمبر ۱۹۴۷ء میں دہلی میں جو قتل عام ہوا اس نے ۱۸۵۷ء کی یادیں تازہ کر دیں اس میں جوانمردی اور جرات سے ہم نے ہمدرد کو محفوظ کیا، مگر یہ بھی فیصلہ کیا کہ پاکستان جاکر قسمت آزمائیں‘‘ (۲۲)۔

۹ جنوری ۱۹۴۸ء دہلی کے پالم ہوائی اڈے پر حکیم محمد سعید کو رخصت کرنے دیگر لوگوں کے علاوہ آپ کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید، آپ کے استاد مولانا قاضی سجاد حسین موجود تھے۔ قاضی سجاد حسین نے حکیم صاحب کو عربی اور فارسی پڑھائی تھی۔ آپ اسی روز ہندوستان سے اپنی شریک حیات اور بیٹی سعدیہ کے ہمراہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آگئے۔ کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ سندھ کالونی، جمشید کوارٹرز کے مکان 185/1 میں رہائش اختیار کی جو حافظ محمد الیاس کی نگہبانی میں تھا۔ شہر کراچی آپ کے لیے نیا نہیں تھا۔ آپ ۱۹۴۴ء اور۱۹۴۷ء میں بھی یہاں آچکے تھے، لیکن اس بار صورت حال مختلف تھی۔ آپ نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے وطن ہندستان کو مستقل طور پر خیرباد کہا اور پاکستان کو دل و جان سے اپنا وطن بنایا۔ آپ اپنا سب کچھ ہندستان چھوڑ آئے تھے۔ آپ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ ابتدائی چند ماہ مشکل میں گزرے۔ ہر وقت مصروف رہنے والے کے پاس کوئی مصروفیت نہ تھی۔

دہلی میں بے شمار جائیداد کا مالک، پیکارڈ کار میں سفر کرنے والا کراچی میں میلوں پیدل سفر کر رہا تھا۔

آپ اس کوشش میں تھے کہ مطب کے لیے کوئی جگہ مل جائے۔ بالاآخر آپ اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔ ایک پارسی ایڈلجی ڈنشا کے ذریعہ کراچی کے علاقے آرام باغ میں شاہراہ لیاقت (فیریئر روڈ) پر اعوان لاج میں جگہ مل گئی اور ہمدرد مطب کا آغاز ہوا۔ افتتاح ۱۹جون ۱۹۴۸ء کو وزیر تعلیم پیر الہٰی بخش نے کیا۔ مطب کا آغاز ہوا۔ اﷲ نے برکت دی۔ مریض آنے لگے۔ اب دوا سازی کے لیے جگہ کی ضرورت محسوس ہو ئی، اس موقع پر آپ کی دوستی کام آئی، آپ کے دوست اسپیکر سندھ اسمبلی کے توسط سے آرام باغ میں اعوان لاج کے سامنے قائم دھرم شالہ کا نیچے کا حصہ حاصل ہوگیا۔ یہاں سے ہمدرد پاکستان کے تحت دوا سازی کے کا م کاآغاز ہوا۔ دواؤں کی تیاری کے بعد ان کی فروخت بھی ضروری تھی اب ایک ایسی جگہ کی ضرورت تھی جہاں سے لوگوں کو آسانی سے ہمدرد کی دوا مل سکے ۔ اس وقت صورت حال بہتر ہو چکی تھی۔ مطب شروع ہو چکا تھا، دوائیں تیار ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اس کے علاوہ نونہال گرائپ واٹر کی وہ بوتلیں جو ہندوستان سے چلتے ہوئے آپ کے بڑے بھائی نے آپ کے ہمراہ کر دی تھیں کہ وقت ضرورت کام آئیں گی وہ تمام فروخت ہو چکی تھیں۔ ان بوتلوں کی فروخت کے لیے آپ نے بڑی محنت اور مشقت کی تھی، کیوں کہ یہ کام آپ نے از خود انجا م دیا تھا۔ کراچی کی معروف شاہراہ فریئر روڈ پر ایک دکان ڈیڑھ لاکھ روپے میں خریدی گئی (۲۳) پاکستان میں یہ ہمدرد کا نقطہ آغاز تھا۔ آپ نے اپنا مطب اور اپنی خدمات کو زندگی کے اختتام تک اسی جگہ پر قائم رکھا۔ اس مقام تک پہنچنے سے قبل آپ کو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ آپ نے استاد کی حیثیت سے ملازمت کی بھی کوشش کی۔ حاجی سرعبداﷲ ہارون یتیم خانہ جو کراچی کے قدیم علاقے کھڈا مارکیٹ میں قائم ہے۔ اب اس علاقے کا نام نیا آباد میمن سوسائٹی ہے۔ یتیم خانہ کے ساتھ ایک پرائمری اسکول ہوا کرتا تھایہ اب حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ اسکول کے نام سے موجود ہے۔ حکیم محمد سعید اس ا سکول میں پہنچے اور کہا کہ’ حافظ قرآن ہوں استاد کی حیثیت سے ملازمت چاہتا ہوں‘، آپ کو کامیابی نہ ہوسکی۔ اس طرح سول اسپتال کے نزدیک ایک اسکول میں بھی آپ کو ملازمت نہ مل سکی۔ لیکن آپ نے حوصلہ نہ ہارا، جدوجہد کرتے رہے، حتیٰ کہ کامیابی نے آپ کے قدم چومے۔آپ نے ایک اسکول میں
چھ ماہ استاد کی حیثیت سے بچوں کو تعلیم بھی دی اور اسی دوران یہ فیصلہ بھی کیا کہ مستقبل میں اسکول ضرور قائم کریں گے۔

مطب اور دوا سازی کے کام میں استحکام پیدا ہوا تو آپ نے اپنی طبی خدمات کے دائرے کو کراچی کے علاوہ دیگر شہروں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۵۰ء میں سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ہمدرد کی بنیاد رکھی۔ ایک سال بعد ۱۹۵۱ء میں لاہور میں انارکلی میں مطب قائم ہوا جس کا افتتاح وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد ممتاز دولتانہ نے کیا۔ بعد از اں آپ پشاور، راولپنڈی، ملتان اور سکھر میں بھی مطب کر نے لگے۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ مطب والے دن بطور خاص روزہ رکھا کرتے اور بغیر کسی وقفہ کے مریضوں کو دیکھا کرتے۔ آپ نے لندن میں بھی مطب کیا۔ مریض غریب ہوتا یا امیر آپ نے کبھی کسی مریض سے فیس نہیں لی طب کے فروغ کے لیے طبیہ کالج قائم کیا جس کا افتتاح ۱۴ اگست ۱۹۵۸ء کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کراچی میں کیا۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کا قیام دہلی میں ۱۹۴۷ء میں عمل میں آیا۔ کراچی میں ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کی بنیاد ۱۹۵۶ء میں پڑی۔ اس سے قبل آپ ۱۹۵۳ء میں ہمدرد کو وقف کر چکے تھے۔ اور اس کی راہ متعین کر دی تھی۔ ارشاد احمد حقانی کے بقول حکیم صاحب پاکستان کے ان مایہ ناز فرزندوں میں سے تھے جو قوم کی عظمت اور رفعت کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں۔ دولت تو بہت سے لوگوں نے کمائی، لیکن حکیم صاحب نے یہ دولت ایک درجن سے زائد میدانوں میں قوی زندگی کو شان دار اور مال دار بنانے کے لیے وقف کر دی۔ خود درویشی کی زندگی گزاری (۲۴)۔ ایس ایم ظفر کے خیال میں ’’مجھے تو وہ اس دور کے ابوذر غفاری دکھائی دیتے ہیں جو اپنی ضرورت سے زیادہ دولت وقف کرتے جاتے ہیں اور دولت جمع کرنے والوں اور ارتکاز زر کے ملزموں کو اپنے عمل اور بیانات سے بے نقاب کر رہے ہیں‘‘(۲۵)۔ خدمت انسانی کا یہ اعزاز شاید ہی کسی اور کوحاصل ہواہو کہ آپ نے اپنی زندگی میں معاشرے کے ہر طبقے کے تین ملین مریضوں کا علاج کیا۔ ان میں امیر بھی تھے غریب بھی، جو ان بھی تھے بوڑھے بھی۔ سربراہان ِ مملکت سے لے کرنچلی سطح تک کے لوگ شامل تھے۔ کسی ایک سے بھی تشخیص و تجویز کا معاوضہ (Consultation Fee)نہیں لیا (۲۶)۔

حکیم محمد سعید کا کہنا تھا کہ وہ صحافی بننا چاہتے تھے۔ علم و ادب سے شغف تھا اور تحریر و تصنیف کی جانب ابتدا ہی سے مائل تھے۔ ۱۹۳۲ء میں ہمدرد صحت کا اجرا دہلی سے ہوا، اس کے اولین مدیر خواجہ نیاز احمد تھے۔ ۱۹۳۳ء سے حکیم عبدالحمید اس کے مدیر ہوئے۔ ۱۹۳۷ء میں یہ ذمہ داریاں حکیم محمد سعید کو سونپ دی گئیں، لیکن عملی طور پر آپ نے ۱۹۴۱ء میں ادارت کے فرائض سنبھالے۔ یہ تحریر و تصنیف کی ابتدا تھی۔ طبی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے اس رسالہ کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی اوراس کی ۱۹ جلدیں قیام پاکستان تک شائع ہوئیں۔ ۱۹۵۱ء میں آپ نے اس رسالہ کی اشاعت کراچی سے شروع کی، لیکن اس کا تسلسل ہندستان سے جاری کی گئیں جلدوں سے ہی برقرار رکھتے ہوئے اس کی جلد ۲۰ کا اولین شمارہ جو جنوری ۱۹۵۱ء میں حکیم محمد سعید کی ادارت میں جاری ہوا تھا کراچی سے جاری ہونے والا پہلا شمارہ تھا۔ ہمدرد کے علاوہ آپ کی ادارت میں کئی رسائل جاری ہوئے ان میں ہمدرد نونہال (۱۹۵۳ء)، اخبار الاطب (یکم جنوری ۱۹۵۵ء)، پیامی (۱۹۷۷ء ۔ ۱۹۹۹ء)، ہمدرد میڈیکس (اپریل ۱۹۵۷ء)، SPEM (۱۹۹۵ء) میڈیکل ٹائم (۱۹۷۸ء)، ہمدرد اسلامیکس (۱۹۷۸ء)، Endeavour (۱۹۸۷ء)، جریدہ (۱۹۸۳ء)، خبرنامہ ہمدرد (۱۹۶۰ء) شامل ہیں۔حکیم محمد سعید شہید کا تحریری سرمایہ نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ علم و ادب کا شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہو کہ جس پر آپ نے نہ لکھا ہو۔ آپ کی ا نگریزی اور اردو تصانیف ۲۵۰ سے زیادہ ہیں جن کاتفصیلی جائزہ آئندہ باب میں لیا جائے گا۔

طب کے میدان میں کامیابی حاصل ہو جانے کے بعد آپ نے معاشرہ کے دیگر مسائل اور کمزوریوں کی جانب توجہ دی۔ اس سلسلہ میں آپ نے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، سماجی کارکنوں، سیاست دانوں، ماہرین تعلیم اور مذہبی دانشوروں کودعوت دی کہ وہ آگے آئیں اور عام
لوگوں کی مشکلات و مسائل کے حل میں شریک ہوں (۲۷)۔

حکیم محمد سعید نے خدمت خلق، وطن سے محبت اور اصلاح معاشرہ کے لیے مختلف طریقے اور پروگرام ترتیب دیے ان میں جاگو جگاؤ، پاکستان سے محبت کرو پاکستان کی تعمیر کرو، پاکستان کا یوم آزادی ۱۴ اگست کے بجائے ۲۷ رمضان المبارک کو منانے کی تحریک، کتب خانوں کے قیام اور فروغ کی تحریک، آواز اخلاق، ڈاکٹروں، حکیموں اور سائنس دانوں میں سہ فریقی اتحاد، علما اور علم کا احترام، صحت مند قوم، خودی، دن میں دو وقت کھانا، اردو زبان کی ترویج و ترقی، اسلامی تعلیمات کا فروغ، جہاں دوست، جوانان امروز کے علاوہ شام ہمدرد جو بعد میں ہمدرد مجلس شوریٰ کہلائی کے علاوہ بزم ہمدرد نونہال شامل ہے۔ شام ہمدرد کا آغاز ۱۹۶۱ء میں کیا گیا۔ اس کے ذریعے پاکستانی دانشوروں، ادیبوں، شعراء، حکماء اور سائنس دانوں، سیاست دانوں، ماہرین تعلیم، صحافیوں غرض ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو ایک ایسا فقید المثال پلیٹ فارم مہیا کیا گیا جس کے ذریعے وہ اپنا نقطہ نظر عوام الناس تک پہنچا سکتے تھے۔ یہ ایک ایسا غیر سیاسی ادارہ ہے جسے بام عروج پر پہنچانے کے لیے آپ نے مسلسل محنت اور جدوجہد کی۔ حتیٰ کہ اسے عالمی شہرت حاصل ہوگئی۔ ۱۹۹۵ء میں حکیم محمد سعید نے فقید المثال تحریک شام ہمدرد کو ’’ہمدرد مجلس شوریٰ‘‘ کا مرتبہ ومقام دینا طے کیا۔ شورائیہ ہمدرد کے بنیادی مقاصد کی وضاحت آپ نے ان الفاظ میں کی ’’شورائیہ ہمدرد پاکستان میں ارباب اقتدار کی فکر و عدل کو صراط مستقیم دینے کا فریضہ انجام دے گی۔ اس ملی جدوجہد کا من تہائے مقصود صاحبان اقتدار کو بہ خلوص صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنا اور اس سے زیادہ یہ کہ ان کے اقدامات پر تبصرہ کرنا اور غلط پرگرفت قائم کرنا۔‘‘ بقول عطا ء الحق قا سمی ’’اس طرح گویاانھوں نے چاروں صوبوں کے عوام اور دانشوروں کو محبت کی لڑی میں پرو دیا ‘‘(۲۸) ۔

شام ہمدرد کے مقررین اور صدور کی تعداد تقریباً ایک ہزار کے قریب رہی۔ چونکہ شوریٰ ہمدرد کامزاج سیاسی نہیں ہے بلکہ اس کا اعلیٰ ترین مقصد حکومت وقت کو نہ صرف مشورہ دینا بلکہ عوام الناس کو رہنمائی بھی فراہم کرنا تھا اس لیے شوریٰ کے اراکین کی تعداد کو محدود رکھا گیا یہ تعداد مجموعی طور پر ۱۷۳ سے آگے نہ بڑھ سکی اور یہ معزز اراکین اپنا کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ شوریٰ ہمدرد حکیم محمد سعید شہید کی علمی، طبی سماجی، ثقافتی اور تعلیمی خدمات کا ایک عظیم الشان مرکز ہے، ایک ایسا مرکز ہے جو کہ علم کا چراغ جلائے ہوئے ہے اور فکر و عمل کی راہیں نہ صرف کھولتا ہے بلکہ ان راہوں کو کشادہ ہی کرتا جارہا ہے۔ شوریٰ ہمدرد غیر سیاسی فورم لیکن اہل سیاست کی رہنمائی کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ شوریٰ ہمدر د کے ذریعے حکیم صاحب نے علم و ادب میں ایک شان دار اور منفرد روایت قائم کی آپ نے شوریٰ ہمدرد کے ذریعہ خود کو ہمیشہ کے لیے اس فانی دنیا میں فنا ہو کر بھی لافانی کر لیا ہے اور ان کی یہ عظیم الشان خدمت تاریخ ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھے گی (۲۹)

آپ بچوں سے بے انتہا محبت کرنے لگے تھے ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں ’’جب میں نے اپنی محبت کو اس قدر بڑھا لیا کہ مجھے پاکستان کا ہر بچہ اور دنیا کا ہر بچہ اپنا لگا تو پھر مجھے بزم ہمدرد نونہال شروع کرنے کا خیال آیا میں جس طرح اپنی اولاد کی بھلائی کی سوچتا ہوں اسی طرح میں ہر بچے کی بھلائی کی سوچتا ہوں۔ یہ اس سوچ کے نتیجہ میں بڑوں کی شام ہمدرد کی طرز پر بچوں کی شام ہمدرد کا تصور سامنے آیا۔ آپ نے اپنے رفقاء کے مشورے سے ’’بزم ہمدرد نونہال‘‘ (نونہال اسمبلی) کی ابتدا کی۔ کراچی کے بعد پشاور، راولپنڈی اور لاہور میں بزم کے اجلاس منعقد ہونے لگے۔ آپ بچوں کے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے۔ بچوں سے محبت اس قدر بڑھی کہ آپ نے بچوں کے لیے باقاعدہ اور مسلسل لکھنا شروع کر دیا اور اس قدر لکھا کہ نو نہال ادب کے تمام مصنفین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ۱۹۹۲ء میں لکھی گئیں بارہ ’’سچی کہانیاں‘‘ بچوں کے ادب میں ایک انمول اضافہ ہے (۳۰) ۔ بچوں کے لیے جتنی تعداد میں سفرنامے لکھے شاید ہی کسی اور نے بچوں کو اتنی اہمیت دی ہو۔ اس کے علاوہ بچوں کی صحت، غذاؤں، ، حفظان صحت اور اخلاق پر بے شمار مضامین اور کتب تحریر کیں۔ ’’تعلیم و تعلم کی اہمیت کو حکیم سعید نے اس حد تک سمجھا اور اشاعت تعلیم کے لیے اس قدر کام کیا کہ بچوں کے سرسید کہے جانے لگے (۳۱) بقول الطاف حسین قریشی ’’وہ بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے بعد اس نتیجہ تک پہنچے تھے کہ پاکستان کی بہترین خدمت یہ ہے کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا معیاری انتظام کیا جائے اور لوگوں بالخصوص حکمرانوں کے اخلاق سنوارنے پر بھرپور توجہ دی جائے‘‘(۳۲)۔

حصول علم ،تخلیق علم، فروغ علم اورتحفظِ علم کے حوالے سے حکیم محمد سعید کی خدمات ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائیں گی۔ پاکستان کی ۵۸ سالہ تاریخ میں ہمیں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملی کہ کسی فرد واحد نے علم کے حوالے سے اس قدر عظیم خدمات سر انجام دی ہوں۔ تصانیت کے حوالے سے آپ کی تخلیقات تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ تعلیم کے بارے میں آپ کی رائے یہ ہے کہ ’’ تعلیم کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا اور تربیت کے بغیر انسانیت میں نکھار پیدا نہیں ہوتا۔ تعلیم و تربیت کے بغیر آدمی ایسا
ہے کہ جیسے بے روح، ایک جسد بے حیات۔ تعلیم کے بغیر ایک ملت زندگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی اور تربیت کے بغیر ایک ملک عظمت حاصل نہیں کر سکتا‘‘ (۳۳)۔

ہم فخر ملت حکیم محمد سعید کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انھوں نے باری تعالیٰ کے احکامات اور آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے آپ کو پہلے فنافی العلم کے درجہ پر پہنچایا اور پھر فروغ علم کو اپنا سچا اور کھرا نصب العین قرار دیا۔ حتیٰ کہ اپنی زندگی بھی اسی کی خاطر قربان کر دی‘‘ (۳۴)۔مدینتہ الحکمہ میں قائم بیت الحکمہ اور دیگر تعلیمی اداروں میں قائم کتب خانے اوران میں جمع اور محفوظ لاکھوں کتابیں اور ان سے استفادے کا مربوط نظام علم کو جمع، محفوظ، ترتیب و تنظیم و ترسیل علم کی واضح مثال ہے۔ بقول ڈاکٹر انیس خورشید ’’حکیم صاحب خود بھی کتاب کے رسیا ہیں اور عوام تک ان کو پہنچانے کے لیے کتب خانوں کے قیام ان کو قابل استعمال بنانے اور فروغ دینے کے لیے ایک ملک گیر مربوط نظام کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ اپنی بیٹی کی شادی پر آپ نے کتابوں کی ایک قابل استعمال لائبریری بھی جہیز میں دی تھی۔ کتب خانوں کی تحریک کے حوالے سے ملک بھر میں آپ نے جو کام کیا ہے وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے‘ (۳۵)۔فروغ علم کے حوالے سے آپ کا سب سے بڑا خواب شہر علم و ثقافت بسانا تھا۔ ۱۹۷۷ء میں مکہ مکرمہ میں پہلی عالمی اسلامی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی حکیم محمد سعید شہید اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جارہے تھے کہ راستے میں شہر علم بسانے کا منصوبہ زیر غور تھا۔ آپ کا کہنا ہے کہ وجدانی کیفیت میں جو نام ذہن میں آیا وہ مدینتہ الحکمت تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’قیام مکہ کے دوران میں نے طواف کعبہ کے بعد، مقام ابراہیم پر بیٹھ کر قرآن حکیم سے راہنمائی طلب کی تو وجدانی کیفیت کی تصدیق ہوگئی۔‘‘ ۱۸ اگست ۱۹۸۳ء کوحب ڈیم سے ۲۳ کلو میٹر پہلے اور ناظم آباد سے ۲۶ کلومیٹر دور ۱۲۶۰ ایکڑ زمین اس مقصد کے لیے خریدی گئی۔ اس شہر علم کا سنگ بنیاد ۱۵ دسمبر ۱۹۸۳ء کو ملک کے ۱۵۰ دانشوروں، عالموں، صحافیوں، ممتاز سیاست دانوں، ماہر تعلیم کے علاوہ مختلف ممالک کے سفارتکاروں اور مذاکرہ ملی تعلیمات نبویؐ کے مندوبین کی موجودگی میں رکھا گیا۔ ہر ایک مندوب نے اپنے اپنے نام کی ایک ایک اینٹ نصب کی۔

مدینتہ الحکمہ میں سب سے پہلے پائے تکمیل کو پہنچنے والی عمارت ’’بیت الحکمہ‘‘ (لائبریری) کی تھی۔ جس کا افتتاح ۱۱ ستمبر ۱۹۸۹ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کیا۔ اس شہر علم میں قائم ہونے والے دیگر اداروں میں ہمدرد یونی ورسٹی (سنگ بنیاد ۱۷ جون ۱۹۸۵ء بہ دست صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق) ہمدرد اسکول (سنگ بنیاد ۱۶ جون ۱۹۸۷ء بہ دست صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق)، ہمدرد کالج، ہمدرد ولیج اسکول ہاؤس، ہمدرد کالج آف اسکالرز ایسٹرن میڈیسنز (طب مشرق) ہمدرد کالج آف میڈیسنز (ایم بی بی ایس)، ہمدرد کالج آف مینجمنٹ سائنسز، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائسنز، ہمدر دانسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹیڈیز اینڈ ریسرچ، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف فارماکولوجی اینڈ ہربل ریسرچ، بائیو ٹیکنالوجی سینٹر برائے ہربل میڈیسن، ہمدرد کالج آف کامرس، ہمدرد انڈسٹریل سٹی، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، الفرقان ہوسٹل، بین الاقوامی کانفرنس سینٹر، ہمدرد سیٹر آفاایکسی لینس فار ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، سائنس مرکز، اسپورٹس کمپلیکس، اسٹاف کالونی، باغ اور عظیم الشان مسجد قائم ہے۔

حکیم محمد سعید کی زندگی کا ہر لمحہ علم و حکمت کے میدانوں میں پیش رفت سے عبارت تھا ۔ شام ہمدرد کے ذریعہ آپ نے پاکستان میں ایک فکری انقلاب بر پا کیا۔ ہمدرد رسائل و جرائد کے ذریعہ سے انہوں نے نہ صرف پاکستان میں حسن فکر و عمل کی دعوت مسلسل دی بلکہ عالمی سطح پر دنیا نے آپ کی خدمات جلیلہ کا بر ملا اعتراف کیا۔ جریدہ ہمدرد نونہال نے تعمیر اذہان کا بے مثل کارنامہ انجام دیا، ہمدرد صحت نے پیام صحت دیا، ہمدرد میڈیکس (انگریزی) نے دنیا میں طب عربی کا آوازہ بلند کیااور ہمدرد اسلامیکس (انگریزی) نے عالمی سطح پر اسلام کا پیغام پہچانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ فروغ علم اور اسے عام کر نے کے باب میں آپ کا ایک عظیم الشان کارنامہ سندھ کے گورنر(۱۹ جولائی ۱۹۹۳ء ۔ ۱۷ نومبر ۱۹۹۳ء) کی حیثیت سے انتہا ئی مختصر عر صہ میں شدید جدوجہد کر کے چار یونیورسٹیاں قائم کر ادیں۔ آپ نے گورنر ہاؤس میں ۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء ‘ ۲۰ ربیع الثانی ۱۴۱۴ ہجری ‘ جمعتہ المبارک کو عید مسلمین بنا دیا پاکستان کی چار یونیورسٹیوں (سرسید یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی، بقائی یونیورسٹی اوف ہیلتھ سائنسز، جامعہ قائد اعظم (سندھ مدرستہ الا سلام) اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین) کے قیام کے لیے دستاویزات (چارٹرز) عطا فرمائے ۔ اس موقع پر گورنر ہاوس میں منعقدہ تقریب میں سندھ کی تمام جامعات کے وائس چانسلر صاحبان سے خطاب کر تے ہوئے شہید حکیم محمد سعید نے کہا کہ ’’میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کر تا ہوں کہ اس گورنر ہاؤس میں کہ جہاں قائد اعظم نے زمام اقتدار سنبھا ل کر تعمیر پاکستان کے ذیل میں کل پاکستان اول تعلیمی کانفرنس کی داغ بیل ڈالی تھی آج میں سندھ میں چار جامعات کے قیام کی اجاذت دینے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔یہ درس گاہیں تعلیم و تر بیت اور تدریس کی خدمت جلیلہ میں نہایت لگن‘ ذمہ داری اور اخلاص کے ساتھ مصروف ہیں۔ ان کا مر تبہ اور معیار بلند کر نا ایک سعادت ہے ۔ ایک فرض ادا کرنے کے مترادف ہے جامعات کا درجہ ملنے سے ان کا مراکز علم و حکمت کو اپنے نیک عزائم اور بلند تر
مقا صد کی تکمیل میں سہولت ہوگی (۳۶)۔

حکیم محمد سعید سیاسی آدمی نہ تھے، لیکن سیاست کے لیل و نہار سے اچھی طرح واقف تھے۔ بلکہ سیاست کے نباض تھے۔ بے شمار سیاست دانوں، سربراہان مملکت، وزیروں، سفیروں، بادشاہوں، شہزادوں غرض بڑے بڑے امیر کبیر لوگوں سے آپ کے بہت اچھے اور گہرے تعلقات رہے، لیکن آپ نے کسی بھی دور میں کسی ایک سے بھی ذاتی فائدہ حاصل نہ کیا۔ پاکستان میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں اور جرنل محمد ضیاء الحق سے آپ کے بہت اچھے اور قریبی تعلقات تھے۔ جرنل محمد ضیاء الحق کے دور میں آپ مشیر طب (۱۹۷۸ء ۔۱۹۸۲ء) بھی رہے۔آپ کا درجہ مرکزی وزیر کے برابر تھا۔ جب تک آپ اس عہدہ پرفائز رہے اپنی اصل حیثیت کو برقرار رکھا یعنی مطب برقرار رکھا اور اپنی دیگر تمام تر مصروفیات اور خدمات کا سلسلہ ویسے ہی جاری رہا۔ اس دور میں تمام تر اخراجات خود کیے سرکاری مراعات حاصل نہ کیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مولانا کوثر نیازی کی وجہ سے جو آپ کے دوست تھے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن اپنی مرضی کے بغیر لڑا جس میں کامیابی نہ ہونا تھی نہ ہوئی، کیوں کہ آپ اپنے اصولوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ بقول ڈاکٹر اعوان ’’ان کے اجلے نام کو پاکستان
کے مقتدر حکمرانوں نے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا،مگر اس میں ناکام رہے‘‘ (۳۷) ۔

’’شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی ساری زندگی راہ عمل و تعمیر کی ایک روشن مثال ہے۔ انھوں نے تادم مرگ علم و آگہی، خدمت خلق اور تدبر و تدبیر کی شمع جلائے رکھی‘‘ (۳۸)۔ وہ مٹھاس ہی مٹھاس۔ ایسی مٹھاس جس سے روح میں تازگی آجاتی ہے۔ وہ ایک ماہر طبیب، ایک صاحب اسلوب ادیب، ایک سرگرم سیاح اور ایک مستعد چانسلر تھے (۳۹)۔ نذیر ناجی نے درست کہا ’’وہ مکمل طورپر تہذیب و تمدن میں ڈھلی ہوئی شخصیت تھے۔ ان کا رکھ رکھاؤ طرز گفتگو،لباس، طور اطوار اور شائستگی، کسی چیز میں بناوٹ نہیں تھی ان کا سب کچھ سچ تھا وہ ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت کے مالک تھے (۴۰)۔ مفتی تقی عثمانی نے حکیم محمد سعید کے با رے میں اپنے ایک مضمون میں تحریر فر مایا’’ حکیم صاحب ایک وضع دار شخصیت تھے، انہوں نے پاکستان کے ابتدائی دور میں فقرو افلاس کا بھی خاصا وقت گذارا، ہمدر د دواخانہ کے قیام کے لیے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اُس دور کی مشکلات کو انہوں نے جس خندہ پیشانی سے جھیلا، اس کی داستان کبھی کبھی وہ بڑے مزے لے لے کرسنایا کر تے تھے۔ حضرت والد صاحب (مولانا مفتی محمد شفیع ؒ)سے انہیں ابتدا ہی سے عقیدت اورمحبت تھی چنانچہ حضرت والد صاحب کے پاس ان کا کثرت سے آنا جانا رہتا تھا اور اسیِ تعلق کے نتیجے میں دارالعلوم کے قیام کے وقت وہ اس کے بانی ارکان میں شامل ہوئے۔ مشاغل کے تنوع اور ہجوم کے با وجود وہ ہمیشہ پر سکون رہتے تھے، انہیں کبھی بھی گھبراہٹ سے مغلوب نہیں دیکھا، ان کا نظام الاو قات اتنا مستحکم اور معمولات اتنے مضبوط تھے کہ وہ ہر کام اپنے وقت پر انجام دیتے اور مطمئن رہتے تھے‘‘(۴۱)۔ حکیم محمد سعید ایک بااصول انسان تھے اپنے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہو کر ہی آپ نے زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کی۔ اپنی زندگی کے آخری انٹرویو میں آپ نے کرن خلیل کے ایک سوال کے جواب میں فر مایا ’’میں اپنے خاص اصول رکھتا ہوں اور ان اصولوں کا احترام کرتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کسی سے انتقام نہیں لیا۔ میں کسی سے نفرت کرنا نہیں جانتا۔ میں محبت کرتا ہوں، احترام کرتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ جو برا کہتے ہیں ان کو اچھا کہتا ہوں۔ جو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کی راحتوں کا سامان کرتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں۔ وقت ضائع نہیں کرتا، وقت کا احترام کرتا ہوں (۴۲)۔

وقت کے اس قدر پابند کہ لوگ آپ کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کر لیا کرتے درحقیقت آپ اپنے اس قول’’وقت اﷲ کی امانت ہے اس کا صحیح استعمال عبادت ہے‘‘ کی عملی تفسیر تھے۔شہید پاکستان کی صاحبزادی محتر مہ سعدیہ راشد صاحبہ نے راقم الحروف کو زیر نظر تحقیق کے لیے بطور خاص انٹرویو دیتے ہو ئے فر مایا کہ ’’ انہیں حکیم صاحب کی وقت کی قدر کر نے اور اس کی پابندی کر نے کی عادت نے سب سے زیادہ متاثر کیا‘‘(۴۳)۔ روزنامہ پاکستان لاہور کے ڈاکٹر اجمل نیازی کو انٹرو یو دیتے ہوئے آپ نے اپنی آرزو کے بارے میں کہا ’’میری آرزو، آرزو پاکستان۔ میری تمنا، پاکستان میں صد فی صد تعلیم۔ میری خواہش صحت سے سرشار ملت پاکستان۔ میرا مقصود پاکستان علم و حکمت کا گہوارہ، میرا مطمع نظر پاکستان میں امن و چین۔ شرافت و صداقت، امانت و دیانت۔ میری جستجو پاکستان میں قناعت‘‘ ۔اپنے فلسفہ زندگی کے بارے میں پاکستان ٹیلی وژن پر نعیم بخاری کو انٹر ویو دیتے ہو ئے واضح کیا کہ ’’ میرا فلسفہ زندگی خدمت اور کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے‘‘(۴۴)۔ اپنی شہادت سے چند روز قبل (۹ ستمبر ۱۹۹۸ء) کو اپنے بڑے بھائی کے نام اپنے آخری خط میں مطب سے ریٹائر ہونے کے بارے میں لکھ چکے تھے۔ آپ نے تحریر فر مایا’’میں ۹ جنوری ۲۰۰۰ء کو مطب سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ ۹ جنوری ۱۹۴۰ء کو دہلی میں مطب کا آغاز کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ خدمت خلق کا حق اس طرح بھی ادا کر دیا ہے میں نے ‘‘ (۴۵)۔

آپ کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں ۱۹۶۶ء میں حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیازسے نوازا ، ۱۹۸۱ء میں استنبول یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے سرٹیفکیٹ آف میرٹ دیا گیا، ۱۹۸۲ء میں فاؤنڈیشن برائے ترویج سائنس، کویت نے اسلامک میڈیسن پرائز سے نوازا۔۱۹۸۴ء میں آپ کی نمایاں سائنس خدمات کے اعتراف میں آپ کو اسٹاک ہوم سوئیڈن میں منعقد ہونے والے ایکو پنکچر اور متبادل ادویہ کے سیمپوزیم کے خصو صی اجلاس میں ’’ڈاکٹر اوف سائنس کی اعزازی ڈگری‘‘ عطا کی گئی، ایک خصو صی کا نو کیشن میں جو ۳ جون ۱۹۸۴ء کو منعقد ہوا ڈاکٹر نو بیل نے یہ اعزازی ڈگری آپ کو پیش کی(۴۶)۔ کمشنر بہاول پور نے بہاولپور کے عوام کی جانب سے صادق دوست ایوارڈ سے نوازا۔ ۱۹۹۳ء میں ہیومن رائٹس سوسائٹی پاکستان نے آپ کی ہمہ جہت خدمات کے اعتراف میں ’’انسانی حقوق ایوارڈ‘‘ سے نوازا، ۱۹۹۵ء میں عالمی ادارہ (WHO) کی جانب سے ’’ورلڈ نوٹو بیکو ڈے میڈل ایوارڈ‘‘ ، ۱۹۹۶ء ایوارڈ کانفرنس (پاکستان لیگ امر یکہ) برائے صحت تعلیم اور سماجی خدمات اور ۱۹۹۶ء میں رو ٹری کلب، اسلام آباد کی جانب سے آؤٹ اسٹینڈنگ پاکستانی ایوارڈ، سے نوازا گیا۔ ۱۹۹۸ء میں بو علی سینا انٹرنیشنل پرائز، ۱۹۹۹ء میں آپ کو ’’جناح ایوارڈ‘‘ اور انٹر نیشنل ایسو سی ایشن اوف لائنز کلبز کی جانب سے ’’لائنز نیشنل پرائڈ ایوارڈ ۱۹۹۹ء‘‘ سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی میڈیسن کے شعبے میں قابل قدر خدمات کے اعتراف میں ۱۴ اگست ۲۰۰۰ء کو انہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ (بعد از وفات) دینے کا اعلان کیا، ۲۳ مارچ ۲۰۰۱ء کو ایوان صدر میں ایک شاندار اور پر وقار تقریب میں صدر پاکستان جنابِ محمد رفیق تارڑ نے یہ اعزاز حکیم محمد سعید کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کو عطا فر ما یا(۴۷)شہید حکیم محمد سعید کو مختلف القابات سے بھی نوازا گیا جن میں’’ بچوں کے سرسید‘‘ ، ’’ سرسید ثانی‘‘، ’’ عہد جدید کے ابن سینا ‘‘، ’’مجدد طب‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ شہادت کے بعد آپ کو ’’ شہید پاکستان‘‘ ، ’’ شہید وطن‘‘ ،’’ فخرملت ‘‘ کے القابات سے نوازا گیا۔ حکیم محمد سعید ایک مکمل انسان تھے۔ انسانیت کی خدمت کو انھوں نے اپنا نصب العین بنایا، اسی کے لیے جئے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو انھوں نے اسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ ہر سانس کو انسا نیت کی خدمت کے لیے وقف کیا اور اسی مقصد عظیم کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کر دی۔ جئے جس کے لیے جان اس پہ دے دی یہی بس داستان زندگی ہے (۴۸) ۔ بقول حکیم نعیم الدین زبیری ’’ حکیم صاحب جو آج بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اٹھ گئے تو سہارا بھی ایسا لگتا ہے اٹھ گیا ‘‘ (۴۹)۔

۱۷ اکتوبر ۱۹۹۸ء بروزہفتہ(۲۵ جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ)، روزہ کی حالت میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد کراچی میں مریضوں کی خدمت کے لیے اپنے مطب پہنچتے ہی شہادت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہوئے۔ وطن عزیز پر جان نثار کرنے والا، پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیکھنے والا، وہ جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ قوم اور ملک پر نچھاور کر دیا حتیٰ کہ اپنی جان بھی اس پر نثار کر دی۔ اس عظیم انسان کی قربانیوں کی کوئی حد، کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ وہ مملکت پاکستان کا ہی نہیں امت مسلمہ کا سرمایہ تھا۔ وہ زندہ ہے او زندہ رہے گا۔ حکیم محمد سعیدکی شخصیت، خدمات اور کارناموں پر بہت لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کے ہر ہر پہلو پر تحقیق کی جاسکتی ہے اسی
طرح خدمات اور کارناموں پر الگ الگ تحقیق ہو سکتی ہے۔
حواشی و حوالے
۱۔ صمدانی ‘ رئیس احمد ۔پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی
میں حکیم محمد سعید شہید کا کا کرادا۔ (پی ایچ ڈی
مقالہ)ہمدرد یونیورسٹی کرچی، ۲۰۰۶ء، xxi، ۶۳۹ص۔
۲۔ لودھی‘ محمد اسلم۔ قو می ہیروز (لاہور: وفا پبلی کیشنز، ۲۰۰۲ء) ، ص۷۳
۳۔ ستار طاہر۔ حیات سعید: شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی وا حدو مستند سوانح حیات ۔ اشاعت
دوم( لاہور : برئٹ بکس، ۲۰۰۰ء) ، ص ۔۱۶۳
4- Zafar, S. M.'Hakim Mohammed Said Remembered' Newsletter:
Hamdard University, 4th Death Anniversary, 2002, issue no
5: November 2002, p.5
۵۔ شاہین ‘ رحیم بخش ۔’’مٹھی میں بند لمحے‘‘۔ در،کتاب سعید مولف ظہور احمد اعوان۔ (پشاور:
ادارہ علم وفن پاکستان،۱۹۹۸ء) ص ۔ ۴۵
۶۔ حکیم محمد سعید۔ بچوں کے حکیم محمد سعید:شہید پاکستان کی زندگی کی کہانی،خود ان کی زبانی؍مرتبہ
سعدیہ راشد،مسعود احمد برکاتی اور رفیع الزماں زبیری۔(کراچی:نہال ادب،ہمدرد
فاؤنڈیشن پاکستان،۲۰۰۲ء ) ،ص۔ ۱۵
۷۔ ستار طاہر، حوالہ ۲، ص ۔ ۳۷
۸۔ شہید حکیم محمد سعید ’’نجی زندگی ‘‘ انٹر ویو از کرن خلیل ( مارچ ۱۹۹۸ء) در ، روبرو:شہید حکیم محمد
سعید کے انٹرویوز۔مر تبہ ‘ رفیع الزماں
زبیری (کراچی:ہمدردفاؤنڈیشن پاکستان، ۲۰۰۰ء) ،ص ۲۴۰
۹۔ نسرین نثار۔شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی تعلیمی خدمات ۔(کراچی:یونیورسل پبلشر،۱۹۹۹ء
) ، ص ص۔ ۵ ۔ ۱۳
10. Samdani, R. A. 'Hakim Mohammed Said : At a Glance'. Pakistan
Library Bulletin, Hakim Mohammed Said Number 31(1-2):
March-June, 2000:19-20
۱۱۔ ستار طاہر، حوالہ ۲، ص ۷۹
۱۲۔ بچوں کے حکیم محمد سعید ۔ حوالہ ۶، ص ۷۰
۱۳۔ قدوائی ‘ ارشد علی ۔ فرام انڈیا و ولو (Love) در کتاب سعید ، حوالہ ۴، ص ۔۱۳۲
۱۴۔ سعدیہ راشد۔ ابا جان۔ در اقوال سعید؍مرتبہ رفیع لزماں زبیری․۔( کراچی، فضلی سنز،
۱۹۹۹ء) ، ص۔ ۱۱۰
۱۵۔ زبیری‘ رفیع الزماں ۔ حوالہ ۸،ص ص۔ ۶ ۔ ۷
۱۶۔ برکاتی ‘ مسعود احمد ۔ وہ بھی کیا دن تھے:حکیم محمد سعید کے بپچن کی یادیں؍ مرتبہ مسعود
احمدبرکاتی․ ۔( کراچی:نونہال ادب، ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان ،۱۹۹۷ء)، ص۔ ۶۴
۱۷۔ زبیری ‘ رفیع الزماں (مر تب) اقولِ سعید۔ (کراچی:فضلی سنز،۱۹۹۹ء) ، ص ص۔ ۹ ۔ ۱۰
۱۸۔ شیخ ‘اختر حسین۔ راہ حیات پر پون صدی کا سفر ہر لمحہ تابناک، ہر لمحہ یادگار۔ قومی دائجسٹ
لاہور۔ ماہنامہ ’’شہید پاکستان نمبر‘‘۔۲۰ نمبر ۸ ( جنوری ۱۹۹۹ء) :۴۴۔۴۵
۱۹ ۔ لودھی ‘محمد اسلم ۔ حوالہ ۱ ، ص۔ ۱۸۸
۲۰۔ ایضاً۔ ص ۱۸۹
۲۱۔ حکیم محمد سعید۔ حکیم عبدالحمید نونہالان وطن کے لیے ایک عظیم انسان کی کہانی ․۔( کراچی
ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان ۱۹۹۵ء) ، ص ص۔۳۲۔ ۳۳
۲۲۔ طارق‘ صادق حسین ۔ پاکستانی ادب کے معمار: حکیم محمد سعید ( فن اور شخصیت) ۔تدوین ناصر
زیدی۔(اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان، ۱۹۹۹ء) ، ۱۶۷۔ص
۲۳۔ شیخ ‘ اختر حسین۔ حوالہ ۲۰، ص ۴۹
۲۴۔ حقانی ‘ارشاد احمد ۔’’ محسن قوم تھے،معمار قوم تھے،معلم قوم تھے‘‘، قومی دائجسٹ ،قومی
ڈائجسٹ۔ لاہور۔ ماہنامہ ’’شہید پاکستان نمبر‘‘مدیرمسؤل مجیب الرحمن شامی۔۲۰ نمبر ۸ ( جنوری ۱۹۹۹ء) : ۱۲۲ ۔ ۱۲۳
۲۵۔ ظفر ‘ ایس ایم ۔ بنام کرپشن عوام کی عدالت میں (کراچی : بیت الحکمہ، ۱۹۹۷ء ) ، ص ۔۶
26. D`Silva, Lily Anne and Masood Ahmed Barkati ed.Hakim
Mohammed Said: Profile of a Humanitarian. (Karachi: Adarts,
n. d.), p.10
27. Sabzwari, G. A. 'Hakim Said: Great Man in History '. Pakistan
Library Bulletin. Hakim Mohammed Said Number , 31 (1-2)
1.March - June 2000
۲۸۔ قاسمی ‘ عطاء الحق ۔’’ان کی شخصیت کے ایک پہلو پر سب سے زیادہ پیار آتا ہے‘‘قومی
ڈائجسٹ۔ لاہور۔ ماہنامہ ’’شہید پاکستان نمبر‘‘۔۲۰ نمبر ۸ ( جنوری ۱۹۹۹ء) :۱۲۶
۲۹۔ سواتی ‘ محمد جاوید ۔’’نصاب تعلیم کے بارے میں حکیم محمد سعید کے افکار‘‘ ( ایم فل مقالہ ،
ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز،ہمدرد یونیورسٹی کراچی ،۲۰۰۱ء۔۲۰۰۲ء)
ص ۔۱۸ ۔ ۱۹
۳۰۔ حکیم محمد سعید۔ سچی کہانی:میری ڈائری کی زبانی ۔ جنوری دسمبر ۱۹۹۲ء ۔(کراچی:ہمدرد
فاؤنڈیشن پریس ۱۹۹۲ء)،
۳۱۔ ندوی ‘ حکیم مقبول احمد۔ شہید ملت، محسن یونانی حکیم محمدسعید۔ الشفا نئیدہلی، شہید حکیم حافظ محمد
سعید نمبر ۶ (۴) اپریل ۱۹۹۹ء۔
۳۲۔ قریشی ‘ الطاف حسین ۔ ’’زمین پر سونے اور کفایت شعاری سے رہنے میں انھیں لذت ملتی
تھی‘‘۔ قومی دائجسٹ ،قومی ، لاہور۔ ماہنامہ ’’شہید پاکستان نمبر‘‘۔۲۰ نمبر ۸ ( جنوری
۱۹۹۹ء)
۳۳۔ قومی ڈائجسٹ۔ لاہور۔ ماہنامہ ’’شہید پاکستان نمبر‘‘۔۲۰ نمبر ۸ ( جنوری ۱۹۹۹ء) : ۱۱۰
۳۴۔ کوثر ‘ انعام الحق۔ علم کے سچے شیدائی ۔ در،زبیری ‘ رفیع الزماں ۔ شہید حکیم محمد سعید:یادیں اور
باتیں۔ (کراچی:ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان ۱۹۹۹ء ) ، ص۔۱۳۹
۳۵۔ انیس خورشید۔ صاف شفاف شخصیت۔ در کتاب سعید ؍ترتیب ڈاکٹر ظہور احمد اعوا ن
․۔(پشاور:ادارہ علم وفن پاکستان،۱۹۹۸ء) ص ص۔ ۲۵۰۔ ۲۵۱
۳۶۔ خبر نامہ ہمدرد ۔ ۳۳ (۱۱) : ۲۵ ، مئی ۱۹۹۳ء۔
۳۷۔ اعوان ‘ ظہوراحمد(مولف)۔کتاب سعید۔(پشاور:ادارہ علم وفن پاکستان،۱۹۹۸ء) ص ۲۹۵
۳۸۔ بشر یٰ رحمان۔ ’’اقوال سعید کی سعا دت‘‘ در، جواہر سعید : حکیم محمد سعید شہید کے فکرانگیز اور
حیات بخش اقوال۔مرتبہ قمر احسان ۔( کراچی: ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان ، ۱۹۹۹ء) ،ص۔ ۸
۳۹۔ محسن احسان۔ ’ چراغ فکر و آگہی‘۔ہمدردِ صحت۔کراچی ،ماہنامہ،’ اشاعت خاص بیاد حکیم محمد
سعیدشہید ‘‘ ، ۶۷ نمبر۱۰(اکتوبر ۱۹۹۹ء) :
۴۰۔ نذیر ناجی۔ ’اس کھاتے میں ضرورت مند د اور سفید پوش لوگوں کے نام اور پتے درج تھے‘۔
،قومی ڈائجسٹ۔ لاہور۔ ماہنامہ ’’شہید پاکستان نمبر‘‘۔۲۰ نمبر ۸ ( جنوری ۱۹۹۹ء) : ۱۳۵
۴۱۔ عثمانی ‘ محمد تقی۔ ․ہر دلعزیز شخصیت : حکیم محمد سعیدؒ۔ روزنامہ جنگ کرا چی۔ ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۳ء۔
۴۲۔ برکاتی ‘ مسعود احمد ۔مرد درویش:حکیم عبدالحمید کی فکروعمل کے چند گوشے(کراچی:ہمدرد
فاؤنڈیشن پاکستان،۱۹۹۹ء )ص ۱۰۸
۴۳۔ سعدیہ راشد۔ صدر ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان ،انٹر ویو از محق، ۱۹ دسمبر ۲۰۰۴ء ، کراچی
۴۴۔ زبیری ‘ رفیع الزمان۔ رو برو۔ حوالہ ۸
۴۵۔ ہمدرد دہلی۔پندرہ روزہ۔’’شہید حکیم محمد سعید نمبر‘‘مدیر،حماد احمد ، ۱۰۵ (تفصیل درج نہیں)
۴۶۔ خبر نامہ ہمدرد ۔ ۲۳ (۷۔۸) : ۴، جولائی ۔ اگست ۱۹۸۴ء۔
۴۷۔ خبر نامہ ہمدرد ۔ ۴۱ (۵) : ۵۔۶، مئی ۲۰۰۱ء۔
۴۸۔ مشکور احمد۔ ’ہمدرد ملت، حکیم محمد سعید‘ ۔ الشفا نئی ۔دہلی، شہید حکیم حافظ محمد سعید نمبر ۶ (۴):
اپریل ۱۹۹۹ء۔
۴۹۔ زبیری‘ حکیم نعیم الدین ، حکیم صاحب ‘ در، شہید حکیم محمد سعید:یادیں اور باتیں۔ مولف رفیع
الزماں زبیری (کراچی:ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان ۱۹۹۹ء ) ،ص ۱۵۸
(شائع شدہ ماہنامہ’ نگار پاکستان ‘ کراچیجلد ۹۱ ، شمارہ ۱۱ (نومبر ۲۰۲۱ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1292024 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More