دنیائے لائبریرین شپ کی ایک عہد ساز شخصیت پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید مرحوم

ڈاکٹر عبد المعید سے میرا استاد اور شاگرد کا رشتہ ہے۔ آپ میرے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کی شخصیت، علمیت اور قابلیت نے میری پیشہ ورانہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، میں نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا۔معید صاحب کو پہلی بار دیکھ کر میرا تاثر یہ تھا کہ یہ ایک عام انسان نہیں بلکہ علمیت اور قابلیت کے اعلیٰ مرتبہ پرفائزان چند انسانوں میں سے ہیں جوصدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ۱۹۷۱ء کی بات ہے گریجویشن کے بعد میں جامعہ کراچی میں داخلہ لینے کی خواہش لیے ڈرا اور سہما ہوا جامعہ کراچی کی لائبریر ی جو اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری ہے کی پانچویں منزل پر قائم شعبہ لائبریری سائنس پہنچا جہاں ایک کمرے کے باہر دروازے پر غنی الا کرم سبزواری کے نام کی تختی لگی تھی ، دیکھ کر اطمینان ہوا کیوں کہ مجھے ان ہی سے ملاقات کرنا تھی ۔ اکرم صاحب اس وقت شعبہ کے ایک سینئر استاد اور انتظامی امور سے وابستہ تھے۔ مدعا بیان کیا کہ میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کی خواہش رکھتا ہوں تا کہ اکنامکس میں ایم اے کرسکوں ، ارادہ بینکر بننے کا ہے۔اکرم صاحب نے لائبریری سائنس کی ایسی پر کشش تصویر پیش کی کہ میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ میں شعبہ لائبریری سائنس ہی میں داخلہ لوں گا، میرا داخلہ معاشیات کے بجائے شعبہ لائبریری سائنس میں ہو گیا۔ شعبہ میں میرا پہلا دن تھا تمام کمروں کے چارو ں اطراف کھلی ہوئی فضا نے کلاس روم کو ضرورت سے زیادہ روشن کردیا تھا بلکہ چبھتی ہوئی روشنی کا احساس نمایاں تھا۔کلاس روم طلبہ اور طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ ایم اے سال اول (لائبریری سائنس) کی کلاس تھی۔ تمام طلبہ نے جامعہ کے شو ق میں کالے رنگ کے گاؤن زیب تن کیے ہوئے تھے (اُس زمانے میں جامعہ کے ہر طالب علم کے لیے کالا گاؤن پہننا لازمی تھا)۔ کلاس روم میں مکمل خاموشی، پہلے دن کے خوف نے ماحول کو کچھ زیادہ ہی خاموش بنا دیا تھا۔ پہلی کلا س تعارفی کلا س تھی شعبہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید ، غنی الا کرم سبزواری(مشیر امور طلبہ)، سید جلا ل الدین حیدر اور اظہار الحق ضیاء کلا س میں موجود تھے ۔ صدر شعبہ ڈاکٹر عبدالمعید صاحب نے تمہیدی کلمات کہے ، شعبہ کا تعارف کرایا ، اسا تذہ کے بارے میں بتا یا ، ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ کو ئی عالم فاضل شخص گفتگو کر رہا ہے۔گندمی رنگ، چھوٹا قد،گٹھاہوا جسم، روشن آنکھیں، ہنستا ہوا چہرہ، سیاہ بال، کلین شیو، کالے رنگ کے چشمہ نے ان کی شخصیت کو حسین بنا دیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالمعید ہندوستان کے ایک معزز اور مسلمان گھرانے میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۰ء کوبازید پور(Bazidpur) ، ضلع مظفرپور ، صوبہ بہار میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد اور دادا سید احمد شہید اور اسمعیل شہید کی تحریک مجاہدین کے سرگرم کارکن رہ چکے تھے جنہوں نے سکھوں اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا تھا۔معید صاحب نے خاندانی روایات کے بر خلاف تعلیم کے حصول کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول کا امتحان اور انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد ۱۹۴۱ء میں گریجویشن کیا، آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز لائبریرین کی حیثیت سے کیا ، پروفیشن کا انتخاب بھی آپ نے از خود کیا ، جو آپ کا علم اور کتاب سے محبت اور عقیدت کی غمازی کرتا ہے۔آپ نے ۱۹۴۲ء میں اینگلو عربک کالج میں لائبریرین کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، اس دوران آپ لائبریرین شپ کی عملی تربیت کی جانب مائل ہوئے اور ۱۹۴۳ء میں کلکتہ تشریف لے گئے جہاں پر آپ بنگال لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت منعقد ہونے والے لائبریری سائنس کے سر ٹیفیکیٹ کورس میں شریک ہوئے جو کلکتہ یونیورسٹی کے لائبریرین ڈاکٹر نہار رنجن رائے کی سر پرستی میں منعقد ہورہا تھا۔ کلکتہ کے قیام کے دوران معید صاحب لائبریرین شپ کے زیادہ نزدیک آگئے آپ نے برطانوی ہندوستان کی سب سے بڑی لائبریری ’’اپمیریل لائبریری آف انڈیا ‘‘ کا مطالعہ انتہائی باریک بینی سے کیا اس کے علاوہ شمالی ہندوستان کے کئی بڑے کتب خانوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران آپ کو برطا نوی ہندوستان کے نامور لائبریرینز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ، خاص طور پر امپیریل لائبریری کے لائبریرین خان بہادر اسد اﷲ خان کی صحبت حاصل ہوئی ، معید صاحب خان بہادر سے بہت زیادہ متاثر تھے عام گفتگو کے علاوہ کلاس میں بھی خان بہادر صاحب کا تذکرہ بہت احترام سے کیا کرتے تھے۔ خان بہادر صاحب امپیر لائبریری کے لائبریرین ہونے کے علاوہ لائبریری ٹریننگ کلاس کے بانی بھی تھے اور آپ کو انڈین لائبریری ایسو سی ایشن کے بانی سیکریٹری جنرل ہونے کا اعزاز بھی حا صل ہے۔

کلکتہ سے واپس دہلی آکر آپ نے عرابک کالج، نئی دہلی کے لائبریرین کی حیثیت سے خدمات شروع کیں ۔اب آپ پہلے سے زیادہ پروفیشنل ہوچکے تھے۔ آپ نے تین سال(۱۹۴۲ء ۔ ۱۹۴۵ء) لائبریری کی ترقی اور ترتیب کے امور انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دئے۔اس کے بعد آپ کو دہلی یونیورسٹی لائبریری میں لائبریری اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا آپ نے دو سال (۱۹۴۶ء ۔۱۹۴۷ء) یہاں خدمات انجام دیں۔قیام پاکستان کے فوری بعد آپ نے دیگر مسلمانوں کی طرح ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور لاہور کو اپنا اولین مسکن بنا یا ۔ پنجاب پبلک لائبریری کے خواجہ نو ر الہٰی جو اس وقت لائبریرین تھے کے ماتحت آپ نے چیف کیٹلاگر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔خواجہ صاحب آپ کو دہلی کے زمانے سے جانتے تھے۔ لاہور میں لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا قیام پا کستان(۱۹۴۷ء) کے وقت پنجاب لا ئبریری اسکول بند ہو گیاتھا ، ایسو سی ایشن کی سر گرمیاں ماند پڑ چکی تھیں اور ماڈرن لا ئبریرین بھی بند ہوگیا تھا، لائبریری پروفیشن کے تقریباًتمام ہی سر گرم کارکن ہندوتھے جنہوں نے بھارت چلے جا نے کا فیصلہ کیاجس کے باعث لائبریری پروفیشن میں ایک خلا پیدا ہو گیا۔اب تما م تر دارومدار لائبریرین شپ کے پیشے سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات پر تھا جنہوں نے پاکستان ہجرت کی تھی۔ ۱۹۴۸ ء کے ابتدائی ایام میں فضل الٰہی مرحوم ، عبدالمعید اور خواجہ نورالٰہی کی کوششوں سے پہلی انجمن’’ پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن‘‘ ۶ جون ۱۹۴۸ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں کام کر نے والے عملے کے تعاون سے معرض وجود میں آئی ۔ جس کے صدر خلیفہ شجاع الدین اور ناصر احمدسیکریٹری مقرر ہو ئے۔اسی ایسوسی ایشن نے ایک ڈپلومہ کورس بھی شروع کیا جس کے ڈائریکٹر فضل الٰہی مقرر ہو ئے ۔ سہ ماہی رسالہ ’ماڈرن لائبریرین‘ فضل الٰہی اور عبدالمعید کی ادارت میں جاری کیا۔جس کے صرف تین شمارے شائع ہوسکے۔

کراچی میں سندھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آچکاتھا ، ڈاکٹر عبدالمعید نے لاہور سے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ، آپ سندھ یونیورسٹی کے اولین لائبریرین مقرر ہوئے اور چار سال (۱۹۴۸ء ۔ ۱۹۵۲ء) تک لائبریری کے قیام اور ترقی کے اقدامات کیے، کراچی یونیورسٹی کے قیام اور سندھ یونیورسٹی کے حیدر آباد منتقل ہونے کے بعد آپ کراچی یونیورسٹی کے(۱۹۵۲ء) اولین اسسٹنٹ لائبریرین (انچارج) مقرر ہوئے ۔اب معیدصاحب کی بھر پور لائبریری سرگرمیوں کا آغازہوا ۔۱۹۵۴ء میں ڈاکٹر صاحب مشیگن یونیورسٹی ، امریکہ سے لائبریری سائنس میں ایم ایل ایس کرنے تشریف لے گئے ،۱۹۵۵ء میں واپس تشریف لائے اور جامعہ میں شعبہ لائبریری سائنس کے قیام میں کامیابی حاصل کی۔ آپ یہ محسوس کررہے تھے کہ لائبریری سائنس کی اعلیٰ تعلیم(پی ایچ ڈی) بھی پروفیشن کے لیے ضروری ہے چنانچہ ۱۹۶۱ء میں آپ یونیورسٹی آف ایلونائے ، امریکہ سے لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے تشریف لے گئے،۱۹۶۴ء میں واپسی ہوئی۔۱۹۷۳ء میں آپ لائبریری سائنس کی تعلیم کے فروغ کے سلسلے میں نائیجیریا تشریف لے گئے۔ بعد از اں آپ نے ۱۹۷۶ء میں جامعہ کراچی سے استعفیٰ دیدیا، ۱۹۸۲ء میں آپ مستقل وطن تشریف لے آئے لیکن آپ کی صحت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی ۔ آپ ۱۳ جنوری ۱۹۸۴ء کو کراچی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا ئے فانی سے رحلت کر گئے۔آپ جامعہ کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں،راقم کو تجہیز و تدفین میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔

ڈاکٹر صاحب کو کئی انجمنوں کی سر پرستی اور سربراہی کا اعزاز حاصل ہے، متعدد انجمنوں کے آپ بانی رکن یا عہدیدار ہیں ان میں پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن (۱۹۴۷ء)، پا کستان لائبریری ایسو سی ایشن (۶۰ء۔۱۹۵۷ء) پہلے جنرل سیکریٹری،پاکستان ببلو گرافیکل ور کنگ گروپ (۶۰ء۔ ۱۹۴۹ء ) پہلے نائب صدر، کراچی لائبریری ایسو سی ایشن (۶۰ء۔۱۹۴۹ء)پہلے نائب در،کراچی یونیورسٹی لائبریری ایسو سی ایشن سائنس المنائی ایسوسی ایشن (۸۴۔ ۱۹۵۶ء) سر پرست، لائبریری پروموشن بیورو (۸۴ء۔ ۱۹۶۶ء)، ، ایسین فیڈریشن آف لائبریری ایسو سی ایشن (۱۹۵۷ء)نائب صدر، انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات (۱۹۶۰ء) شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبد المعید نے ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، جامعہ کراچی کی بنیاد ڈالی اور اسے بلندی پر پہنچایا ساتھ ہی شعبہ لائبریری سائنس کے قیام کو بھی ممکن بنایا آپ کی کوششوں سے یہ شعبہ ۱۰ اگست ۱۹۵۶ء کو معرض وجود میں آیااور آپ اس کے اولین صدر شعبہ مقرر ہوئے جس کی تقلید ملک کی دیگر جامعات نے کی۔ شعبہ لائبریری سائنس ڈاکٹر عبد المعید کے زندہ جاوید کارناموں میں سے ایک ہے یہاں پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر تعلیم کا آغاز ہوا بعد ازاں لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کا آغاز بھی ڈاکٹر صاحب ہی کے دور میں ہوا ۔ ۱۹۸۰ء میں شعبہ لائبریری سائنس سے جناب عبدالحلیم چشتی نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ان کے نگراں ڈاکٹر عبد المعید ہی تھے۔۱۹۵۶ء سے آج تک سینکڑوں افراد نے لائبریری سائنس میں تعلیم حاصل کی اور وہ اندرون و بیرون ملک لائبریری خدمات انجام دے رہے ہیں یہ معید صاحب ہی کا لگا یا ہوا درخت ہے جس کی شاخیں اب ملک سے نکل کر بیرون ملک تمام دنیا میں پھیل چکی ہیں۔آپ نے ماہرین علم کتب خانہ کی ایک بہت بڑی تعدا د شاگردوں کی صورت میں تیار کی ہے شخصیت گری کا یہ اعجاز بھی آپ ہی کا مرہون منت ہے۔

۱۹۸۱ء میں شعبہ کی سلور جوبلی کا انعقاد ہوا جس میں ڈکٹر صاحب نے بنفس نفیس شرکت کی۔اس موقع پر لائبریری پروموشن بیورو نے ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک کتاب بعنوان ’’پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید اور پاکستان لائبریرین شپ ‘‘ شائع کی ۔یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور کتب خانوی خدمات کی خوبصورت تصویر پیش کرتی ہے۔اس مجموعہ مضامین کو مرتب کرنے کا اعزاز مشترک مولف کی حیثیت سے راقم الحروف کو حاحل ہے کتاب کی تعارفی تقریب ۲۹ اگست ۱۹۸۱ء کو لیاقت میموریل لائبریری آڈیٹوریم میں میں منعقد ہوئی ، صوبائی وزیر تعلیم جسٹس سیدغوث علی شاہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر عبدالمعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ حضرات نے میری جس قدر قدرانی کی ہے معلوم نہیں میں اس کا مستحق ہوں یا نہیں۔مقررین نے جو کچھ میرے متعلق کہا میں ان کا بے حد مشکورہوں۔کتاب کے بارے میں کئی مقررین نے اظہار خیال کیا۔

آج پاکستان میں کتب خانوں اور لائبریری سائنس کی تعلیم کو جو مقام حاصل ہے وہ ڈاکٹر صاحب کی جدوجہد اور کاوشوں کا رہین منت ہے۔ ۲۰۰۶ء میں پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم کی تحریک کو پچاس سال مکمل ہوگئے۔ شعبہ لائبریری سائنس جامعہ کراچی نے پچاس سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی کا انعقاد۱۸ ۔۱۹ ستمبر ۲۰۰۶ء کو کیا، افتتاح جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قاسم پیرزادہ صدیقی نے کیا ۔ تقریبات دو دن جاری رہیں۔اس دوران متعدد اجلاس مختلف موضوعات پر منعقد ہوئے جس میں کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے بھی ماہرین لائبریری سائنس نے شرکت کی۔ راقم الحروف کو ان تقریبات کے ایک اجلاس کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوا جس کا موضوع ’’ پاکستان میں لائبریریز اورپاکستان لائبریرین شپ ‘‘ تھا، اس کے علاوہ ایک اور اجلاس جس کا موضوع ’’ پاکستان میں لائبریری ایسوسی ایشنز کا کردار‘‘ تھا راقم نے ایک مقرر کی حیثیت سے متعلقہ موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ یہ دونوں اجلاس ۱۹ ستمبر ۲۰۰۶ء کو ہوئے۔تقریبات میں دیگر ماہرین نے بھی اظہار خیال کیا۔گولڈن جوبلی تقریب میں شعبہ کے بانی ڈاکٹر عبد المعید کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جب تک لائبریری سائنس کی تعلیم جاری ہے ڈاکٹر عبد المعید کو اسی طرح خراج عقیدت پیش کیا جاتا رہے گا۔ المختصر ڈاکٹر عبد المعید کو پاکستان میں لائبریری تعلیم کی تحریک میں جو اولیت حاصل ہے وہ ہمیشہ رہے گی اور ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔وا صلؔ عثمانی کے بقول ۔
جو بجھ گیا تو ہوا اور بھی درخشندہ
چراغ ایسے لہو کے جلا گیا اک شخص

(مصنف کی کتاب یادوں کی مالا میں شامل)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1288526 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More