حسینہ واجد اپنے انجام سے بے خبر

جب کسی قوم پر زوال آنے لگے تو اس کے عہدیداران اپنے فرائض سے غفلت برتنااور اختیارات سے تجاوز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے ان کے نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہو جاتیں ہیں اور وہ ریت کی عمارت کے مانند ختم ہو جاتی ہے۔ آج کل بنگلہ دیش کی صورتحال بھی کچھ یوں ہی ہے۔بندوق اور اختیارات کا غلط استعمال اگر یک جا ہو جائے تو ملک ٹوٹ جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہیں۔انہیں صرف اقتدار سے غرض ہے ، شاید انہیں یاد نہیں رہا کہ شیخ مجیب نے بھی اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے ہندوستان سے ہاتھ ملا لیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بنانے کی ابتدابنگال سے شروع ہوئی ۔ مسلم لیگ کی بنیاد بھی وہاں پر ڈالی گئی۔ایک آزاد خود مختار ملک حاصل کرنے کی جدوجہدمل کر کی گئی ، اﷲ تعالٰی نے کامیابی سے سرخرو کیا،مگر کیا یہ سب کچھ اس لئے فنا نہیں کر دیا گیا کہ شیخ مجیب کو اقتدار کی ہوس نے مار ڈالا تھا ،اسے نہ مسلمان بھائیوں سے غرض تھی نہ کئی ہزار قربانیوں سے حاصل کردہ ملک ٹوٹنے کا افسوس تھا۔انہیں صرف چاہئے تھا تو اقتدار، جو انہوں نے ہندوؤں کی وفاداری کے عوض حاصل کر لیا اور ملک دو لخط ہو گیا۔اُس کے بعد کیا ہوا……؟وہ اپنے ہی محافظ بنگالی کے ہاتھوں قتل ہوئے ،کیوں……؟اُس زمانے میں کوئی بنگالی ہندوستان میں نوکری کرنا پسند نہیں کرتا تھا ،مگر بھارت کی جھولی میں بنگالی بھائیوں کی تقدیر ڈالنے کے نتیجے میں آج انہیں گھٹیا سے گھٹیا نوکری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔بھارت کے تمام بڑے شہروں میں 70فیصد جسم فروش عورتیں بنگالی ہیں۔ایسا کیونکر ہوا؟اسی لئے تو مسلمانوں نے ہندوؤں سے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا تھا، لیکن شیخ مجیب اور حسینہ واجد جیسے لیڈروں نے بنگالیوں کو دوبارہ انہیں ہندوؤں کی غلامی میں دکھیل دیا۔

یوں تو کہا جاتاہے کہ جنرل یحیٰی خان نے بندوق کا استعمال کیا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جنرل یحیٰی کو استعمال کیا وغیرہ وغیرہ ۔یہ مان بھی لیا جائے تو کیا لیڈر شپ یہ تھی کہ بنگالیوں کو ہندوؤں کی غلامی میں دھکیل دیا جائے؟جیسا کہ اب حسینہ واجد نے کیا کہ اپنے اقتدار کی ہوس میں ایک بے گناہ کی جان لے لی ، جس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنے نظریہ پر قائم تھا۔ وہ پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرتے تھے،وہ اپنے مسلم بھائیوں پر ہندوؤں کی نسبت زیادہ اعتماد کرتے تھے ۔انہیں یقین تھا کہ ہم دوبارہ غلامی کی دلدل میں گرتے جا رہے ہیں۔ہمیں اس سے نکلنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کی ضرورت ہے۔اس لئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا۔جن کا مذہب ،ثقافت،کلچر،رہن سہن ایک جیسا ہے ، وہ ہمیں غلام نہیں بلکہ بھائی مانتے ہیں۔کیا بھائیوں میں غلط فہمیاں نہیں ہوتی؟لیکن انہیں دشمن نہیں سمجھا جاتا ۔پاکستانی ہمارے دشمن نہیں،بھائی ہیں، ہندو ہمیں کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔

لیکن حسینہ واجد نے 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں عبدالقادر ملّا کو سزائے موت دی۔ جنہیں شیخ مجیب کے قائم کردہ ٹربیونل نے بے گناہ قرار دیا تھا ۔حسینہ واجد نے پاکستان،بنگلہ دیش معاہدے کی خلاف ورزی کی بھٹو مجیب ملاقات میں طے پایا تھا متحدہ پاکستان کے دفاع کے لئے کوششیں کرنے والوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلا جائیگا۔ 42 برس بعد اس جرم میں ’’دوبارہ نام نہاد وار کرائمز ٹربیونل کا قیام اور مقدمہ اخلاقی اعتبار سے تو غلط ہے ہی بین القوامی بلکہ خود بنگلہ دیش کے قانون کے خلاف بھی ہے ، یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آخر 42برسوں کے بعد بھارت نواز وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے یہ گھناؤنا کردار کیوں ادا کیا ہے؟

جمہوریت عوامی طاقت کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ عبدالقادر ملّا کی موت ظالمانہ ہے ، اس سزا پر بنگلہ دیشی عوام کی جانب سے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے،اس احتجاج میں کئی لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ہے۔پورے ملک کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، بنگلہ دیشی انسانی حقوق تنظیم نے بھی اسے انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے اسے ’’بے گناہوں کا عدالتی قتل‘‘ کا نام دیا ہے ۔ جاتیو پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر جنرل (ر) ارشاد نے شیخ حسینہ واجد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کے لوگوں اور اسلامی ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہی نہیں ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے بھی حسینہ واجد کے اس گھناؤنے اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ شیخ حسینہ واجد کو جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیوں پر چڑھانے کی راہ بھارت نے دکھائی ہے ،عبدالقادر ملّا کی پھانسی انڈین فارمولا کی ایک کڑی ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف اسلامی ممالک میں بلکہ بین القوامی سطح پر بنگالہ دیش کی ساکھ کو شدید نقصان ہوا ہے۔عبدالقادر ملّا کا بے گناہ خون حسینہ واجد جیسے حکمرانوں کو چین سے نہیں رہنے دیے گا،اور انہیں عبرت ناک نتائج کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔
 

Irfan Sehrai
About the Author: Irfan Sehrai Read More Articles by Irfan Sehrai: 19 Articles with 13125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.