پولیس کا سامراجی نظام

دنیا پاکستان کو دہشتگرد پیش کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ریاست کو سنبھالنے والوں کو نا اہل سمجھا جاتا ہے،ایسی ریاست جہاں کسی فرد کی جان و مال کی کوئی حفاظت نہیں،انصاف کا حصول ممکن نہیں،عوام عدم تحفظ کا شکار ہے،اعتماد کی فضاء ختم کر دی گئی ہے،لوٹ کھسوٹ جاری ہے،ذاتی مفاد کے لئے وفاداریاں بدلی جاتیں ہے،حلال حرام کی تمیز ختم ہو کر رکھ دی گئی ہے۔عام لوگوں کو چھوٹے مسئلے پر بڑی سزا دی جاتی ہے لیکن بڑے چور کو باعزت طریقے سے جانے کا راستہ دے دیا جاتا ہے۔پیسہ پاس ہونا چاہئے بڑے سے بڑے ادارے ،شخصیات کو اپنی مرضی کے مطابق کھلایا جا سکتا ہے۔

ایسے حالات میں لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر بیٹھے ہیں انہیں فکر ہے تو صرف دو وقت کی روٹی کی جو اپنے بچوں کو کھلانی ہے ۔وہ کہاں سے آئے ……؟اپنی عزت کی کیسے حفاظت کی جائے؟ دن دھاڑے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔کہیں بھی شنوائی نہیں ،عدالت ہویا پولیس تھانے ، پیسے کے ساتھ اثر و رسوخ والے کی بات مانی جاتی ہے ۔غریب ہمیشہ پستا ہے،اگر کوئی اپنی فریاد عوام کے محافظوں کے پاس لے کر جائے تو وہاں سے دھکے اور گالیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا،اگر انہیں پیسے دے دیئے جائیں تو ان کی اخلاقیات اجاگر ہو جائیں گی،اس کی مشروب اور دوسرے لوازمات سے مہمان نوازی کی جائے گی۔یہ لوگ عام لوگوں سے تو جو سلوک کرتے ہیں، اپنے ماتحت لوگوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے۔ انہیں گالی گلوچ سے نوازا جاتا ہے ،ان سے ایسے خدمت کروائی جاتی ہے جیسے یہ ان کے زرخرید غلام ہیں۔اگر ایسا نہ ہو تو اس پر ایسی قانونی کارروائی کی جاتی ہے جس سے اس کا مستقبل داؤپر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ایسا ایک واقعہ ماڈل ٹاؤن تھانہ میں پولیس کانسٹیبل محمد اشرف نامی کے ساتھ پیش آیا ، جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے اپنے ایس ایچ او کو گالی نکالنے سے روکا ،جو کہ کافی عرصے سے سن رہا تھا لیکن آخر وہ بھی ہے تو انسان ہی نا……!برداشت جواب دے گئی ،جوان تھا،گاؤں کا رہنے والا تھا ،صبح کا وقت تھا کسی پارک کے پاس اپنے فرائض ادا کررہا تھا ،کہ ایس ایچ او کا آنا ہوا ،محمد اشرف نے سلوٹ کیا لیکن دوسری جانب سے گالیوں کی بوچھاڑ ہو گئی،ویسے تو ایسا ہونا آئے روزمعمول تھا، ماں،بہن کی گالیوں نے پورے بدن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ،لیکن مجبور انسان کیا کر سکتا ہے،صرف فریاد کی کہ مجھے گالیاں مت دی جائیں،جواب میں ایف آئی آر کٹی اور نوکری سے معطل کر دیا گیا۔
پولیس کا کام ریاست میں عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنا ،جرائم کی روک تھام اور قانون کی بحالی ہے۔پنجاب پولیس180000/فعال ارکان کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی پولیس تنظیم ہے،مگر ملک میں لاء اینڈ آڈر کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے،اس کی دوسری وجوہات کے ساتھ سب سے بڑی وجہ پولیس کا ناقص کردار ہے۔

ان باتوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا،قدیم دور کے فرعین کی طرح برطانوی حکمرانوں نے بھی محکوم اقوام کو مراعات یافتہ اور پسماندہ دو طبقوں میں تقسیم کر دیا۔برصغیر کے برطانوی قابضین نے اپنی سلطنت اور اقتدار کو سہارا دینے کے لئے چند ستونوں کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے پولیس کا محکمہ بھی قائم کیا،جسے عوام کو کچلنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔نوابوں اور راجہ مہاراجاؤں کی زیر نگین ریاستوں میں پولیس کو خوف کی علامت بنا دیا گیا۔اس دور میں کسی علاقہ کا تھانیدار وردی پہن کر اور گھوڑے پر سوار ہو کر علاقہ کے دورے کو نکلتا تو لوگ ڈر کے مارے سہم جاتے اور اس کا راستہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اس دور میں پولیس اہلکار کسی شخص کو تھانے میں طلب کرتے یا اس کے گھر پر دستک دیتے تو گھروں میں صف ماتم بچھ جایا کرتی تھی۔

شاطر برطانوی حکمرانوں کی دوربین آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر ہمیں کسی علاقہ سے نکلنا پڑ گیا تو ایسا بندوبست کر جائیں گے کہ غلام اقوام حصول آزادی کے بعد بھی صدیوں تک ہمارے دیئے ہوئے سامراجی نظام سے آزادی حاصل کرنے کی جرأت نہ کر سکیں ۔وہ محسوس کر رہے تھے کہ محض جسم کی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی،غلام اقوام کے اذہان صدیوں تک غلام رہ سکتے ہیں۔وہ جانتے تھے کہ جنہیں ہم نے جاگیریں بخشیں ہیں ان کی آنے والی کئی نسلیں ہماری وفاداری نبھاتے ہوئے ہمارے دیئے ہوئے نظام کے تحت ہمارے مفادات کی نگرانی اور مقاصد کی تکمیل کرتے رہے گے،اور غلام قوم ہمارے دیئے گئے نظام کے شکنجے سے نکلنے کی جرأت نہ کر سکیں گی۔یہی وجہ ہے کہ یہ جاگیردار، وڈیرے،صنعتکار،سرمایہ داروغیرہ اسی سامراجی نظام کے قائل ہیں۔جس کی مثال پولیس کے نظام سے ملتی ہے۔

آج کے ترقی یافتہ زمانے میں بھی پاکستانی پولیس اور خصوصی طور پر چھوٹے پولیس اہلکاروں کا رنگ ڈھنگ اور طور طریقے برطانوی سامراجی دور کی یادگار ہیں ۔ پاکستان کے کسی شریف اور پُرامن شہری کو پولیس کے ہاتھوں اپنی عزت کے تحفظ کی ضمانت حاصل نہیں۔پولیس اہلکار کسی بھی پُرامن اور شریف مگر بظاہر سادہ اور غریب شہری کی پگڑی اچھالنے ،گالیوں سے نوازنے اور اس کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔غریب کی عزت و آبرو پولیس کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔پولیس والے جہاں دیکھتے ہیں کہ ان کا مخاطب کوئی سفارشی ، دوالتمند یا اثر و رسوخ والا با ختیار شخص ہے تو یہ لوگ اس کے سامنے بھیگی بلی بننے میں دیر نہیں لگاتے۔یہی لوگ ان کے نزدیک قابل عزت ہیں اور باقی بے عزت۔

اس کی ایک وجہ جرائم پیشہ اور جرائم کی طرف رجحان رکھنے والے افراد کی پولیس میں بھرتی پر کوئی قید نہیں ۔اگر بظاہر کوئی ضابطہ یا قانونی رکاوٹ ہے تو اسے سفارش یا پیسے کے زور پر دور کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ایسے افراد کو پولیس میں بھرتی کے بعد سرکاری تحفظ مل جاتا ہے اور یہ وردی والے ڈاکو قانون کے محافظوں کے روپ میں اپنی مجرمانہ سرگرمیوں میں اور دلیر ہو جاتے ہیں۔ پولیس والے یہ بات بالکل فراموش کر چکے ہیں کہ وہ عوام کے آقا نہیں بلکہ خادم ہیں اور انہیں عوام کی عزتوں اور جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

پولیس کے ادارے کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لئے پولیس عہدیداروں کے مفاد میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بہت سے اقدامات کئے لیکن آخر انہیں بھی کہنا پڑا کہ میری ان کو مراعات دینا ایک بڑی غلطی تھی۔پولیس کے رویہ اور کارکردگی میں مثبت تبدیلیاں لانے اور انہیں ایسی حیثیت دلانے کے لئے عوام پولیس والوں کو نفرت اور خوف کے بجائے دوستی اور عزت کی نظر سے دیکھیں بڑے پیمانہ پر اصلاحات کی ضرورت ہے ۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 19 Articles with 13132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.