حقائق تو یہ ہیں 2

البدر کو کس نے بنایا، اس کی تاسیس کس طرح ہوئی اگرچہ ہم پہلے بھی یہ بات اسی ویب سائٹ پر اپنے کالمز میں بتا چکے ہیں لیکن ایک بار پھر دہرا دیتے ہیں کہ اس سلسلے میں دو علیحدہ علیحدہ روایات ہیں۔ 31 بلوچ رجمنٹ کے میجر ریاض حسین ملک البدر کی تاسیس کا احوال درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ”دشمن تعداد میں بہت زیادہ تھا۔ تخریبی عناصر بھی کچھ کم نہ تھے۔ ہمارے ذرائع معلومات نہ ہونے کے برابر اور ذرائع مواصلات غیر مربوط تھے۔ ہمارے جوان بنگلہ زبان اور بنگال کی طبعی فضاء سے قطعی ناواقف تھے کیونکہ ہماری تربیت کے دوران کبھی اس صورت کے امکان پر سوچا بھی نہ گیا تھا۔ ان حالات میں دفاعِ وطن کا فریضہ انجام دینا بڑا مشکل ہوگیا تھا۔ ہمیں ایک مخلص، قابل اعتماد اور محب وطن بنگالی گروہ کی ضرورت تھی جو سالمیتِ پاکستان کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا ہو۔ ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں ہمارا رضاکار فورس کا تجربہ ناکام ہوچکا تھا۔ تاہم میں نے یہ دیکھا کہ میرے علاقے (سیکٹر) میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بنگالی طلبہ بڑے اخلاص کے ساتھ دفاع، رہنمائی اور حفظِ رازکی ذمہ داری ادا کررہے تھے۔ اس لیے میں نے ہائی کمان سے کوئی باقاعدہ اجازت لیے بغیر قدرے جھجکتے ہوئے ان طلبہ کو الگ کیا۔ یہ تعداد میں 47 تھے اور سب اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) کے کارکن تھے۔ 16مئی 971ء کو شیرپور (ضلع میمن سنگھ) کے مقام پر انہیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیا گیا۔ ان کارکنان کی محنت، لگن اور تکنیک کو سمجھنے میں کمال ذہانت کو دیکھ کر میں نے 21 مئی 1971ء کی صبح ان سے خطاب کیا۔ تقریر کے دوران بے ساختہ میرے منہ سے یہ بات نکلی کہ آپ جیسے سیرت و کردار اور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے فرزندانِ اسلام کو ”البدر“ کے نام سے پکارا جانا چاہیے۔ تب فوراً ہی ذہن میں برق کی مانند یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اس تنظیم کو ”البدر“ کا نام دے دیا جائے۔“(میجر ریاض حسین سے سلیم منصور خالد کا انٹرویو۔ 10جون 1975ﺀ) جبکہ جنرل ضیاءالحق کے طیارے کی تباہی کے حادثے میں ان کے ساتھ شہید ہونے والے بریگیڈئیر صدیق سالک نے اپنی معروف تصنیف ”میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا“ میں لکھا ہے کہ: ”ستمبر کے مہینے میں پی پی پی کا ایک وفد ڈھاکا گیا اور اس نے جنرل نیازی سے شکایت کی کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر مشتمل نئی فوج کھڑی کرلی ہے۔ جنرل نیازی نے مجھے بلا کر کہا کہ آئندہ سے رضاکاروں کو الشمس اور البدر کے نام سے پکارا کرو تاکہ پتا چلے کہ ان کا تعلق صرف ایک پارٹی سے نہیں۔ میں نے تعمیل ارشاد کی“۔ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صدیق سالک۔ صفحہ 112)

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ البدر معصوم بنگالیوں کے قتل عام اور لوٹ مار میں ملوث رہی؟ ایسا کہنے والے وہ عناصر ہیں جنہیں تاریخ کا علم نہیں ہے یا جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔ البدر کا قیام 16مئی 1971ء کو عمل میں آیا۔ ستمبر1971ء کے اختتام تک مشرقی پاکستان کی فوجی کمان نے اس تنظیم کو پورے مشرقی پاکستان میں منظم کیا۔ 16دسمبر1971ء کو افواج پاکستان نے سرنڈر کیا اور البدر تحلیل ہوگئی۔ گویا البدر کو قیام سے لے کر اختتامِ جنگ تک کل 8 ماہ کی زندگی ملی یعنی ایک سال سے بھی 4 ماہ کم۔ بقول جنرل نیازی ”ان رضاکاروں کو جدید اسلحے سے لیس نہیں کیا گیا تھا کیونکہ ہمارے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی۔ تربیت بھی صرف سات تا بارہ روز کی دی جاتی تھی۔ بعض رضاکاروں کو تو ہم نے بہ امر مجبوری بارہ بور کی شاٹ گنیں دیں۔ جو اشیاء ہمارے پاس تھیں وہ یا تو مطلوبہ تعداد میں نہ تھیں یا فرسودہ ہوچکی تھیں۔ دشمن کے تمام یونٹ حتیٰ کہ پولیس اور مکتی باہنی کے پاس بھی جدید ہتھیار اور نئی ٹرانسپورٹ تھی۔“ (انٹرویو جنرل نیازی، قومی ڈائجسٹ، جولائی 1978ﺀ)

جو لوگ 1971ء کے دوران مشرقی پاکستان میں موجود تھے اور حالات و واقعات کے عینی شاہد ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں قتل عام اور لوٹ مار کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: 1۔پہلا دور یکم مارچ سے 25مارچ پر محیط ہے۔ اس دوران میں عوامی لیگ کے زیر اثر بنگالی قوم پرستوں، ہندوﺅں اور بھاشانی کی زیر قیادت کمیونسٹ مسلح ہو کر نکلے اور انہوں نے غیر مسلح، پرامن اُردو، پنجابی اور پشتو بولنے والے اور متحدہ پاکستان پر یقین رکھنے والے بنگالیوں کا بے دردی سے قتل عام کیا۔ صرف پچیس روز میں ایک لاکھ سے زائد مظلوم و بے کس پاکستانیوں کو قتل کردیا گیا۔ البدر اُس وقت قائم نہیں ہوئی تھی۔ ہلاکت خیزی کا دوسرا دور آرمی ایکشن کی صورت میں 25مارچ کی رات سے وسط اپریل تک پھیلا ہوا تھا۔ اس ایکشن کی کمان لیفٹیننٹ جنرل (ر) ٹکا خان (بعد ازاں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی) نے کی۔ اس دوران مکتی باہنی اور عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے سرگرم لوگوں کو قتل کیا گیا اور مؤرخین کے مطابق عام بنگالی بھی اس آپریشن کی زد میں آکر مارے گئے جس کے نتیجے میں فوج کے خلاف شدید ردِعمل ظاہر ہوا۔ اس دوران بھی البدر وجود پذیر نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد عملاً جنگ کا آغاز ہوا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دورانِ جنگ پاکستانی فوج، البدر اور الشمس کے رضاکاروں، بہاریوں اور محب وطن پاکستانیوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا جبکہ دشمن کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا۔ مشرقی پاکستان میں تیسرا اور سب سے بھیانک قتل عام 16دسمبر 1971ء کے بعد بھارتی فوج کی نگرانی میں ہوا جس میں مکتی باہنی، ہندوﺅں اور کمیونسٹوں نے کھل کر حصہ لیا۔ اس قتل عام اور وحشیانہ لوٹ مار کا نشانہ البدر اور الشمس، جماعت اسلامی کے کارکنان، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کے ثابت قدم رہنما بنے‘ جبکہ غیر بنگالی مسلمان اس موقع پر بھی بری طرح مارے گئے۔ 16دسمبر 1971ء کو البدر اور الشمس تحلیل ہوچکی تھیں اور مکتی باہنی کے ہرکارے ان کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔ حالات و واقعات سے ثابت ہے کہ البدر اور الشمس پر قتل و غارت گری کا الزام عائد کرنا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

جماعت اسلامی اور البدر و الشمس پر ملک توڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے انہیں غدار کہا جاتا ہے لیکن اس ضمن میں مشہور حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کیا کہتی ہے۔ ملاحظہ کریں۔ جنرل یحییٰ خان نے لاہور ہائی کورٹ میں داخل کردہ تحریری بیان میں اشارہ کیا تھا: ”مسٹر بھٹو نے ہمیشہ الشمس اور البدر کی پاکستان بچانے کی تحاریک کی مخالفت کی‘ کیونکہ اُن کے خیال میں اگر یہ تحاریک قوت حاصل کرلیتیں تو جناب بھٹو کے اقتدار میں آنے کے امکانات ختم ہوجاتے۔ تحاریک میں شامل لوگ انتہائی محب وطن تھے جو مسٹر بھٹو کو کسی بھی طور گوارا نہ تھے۔ “ (حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، جلد اوّل، ترجمہ م اشفاق خان، سیّد فضل ہاشمی دارالشعور، صفحہ نمبر170)

اُس زمانے میں جو فوجی افسران مشرقی پاکستان کے محاذ پر سرگرم عمل تھے ان میں سے بعض نے البدر اور الشمس کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ملاحظہ فرمائیے: میجر جنرل (ر) راﺅ فرمان علی خان: ”البدر اور الشمس کے کردار کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ ان تنظیموں کے رضاکاروں نے علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔“ (روزنامہ نوائے وقت لاہور، روزنامہ جنگ راولپنڈی، 3جولائی 1983ئ) بریگیڈئیر صدیق سالک: ”البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کررکھی تھیں اور وہ ہر وقت حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ انہیں جو کام سونپا جاتا، وہ پوری ایمانداری اور جانی قربانی سے ادا کرتے۔ اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضاکاروں یا ان کے زیرکفالت افراد نے شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا۔ ان کی بعض قربانیاں روح کو گرما دیتی ہیں۔“ (میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا۔ صدیق سالک صفحہ 112) میجر ریاض حسین ملک: ”البدر کے عظیم نوجوانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر تاریخ اسلامی کا ایک نیا باب کھولا ہے۔ یہ تنظیم ایک ایسی مالا تھی جس کا ایک ایک موتی اپنی چمک میں بے مثال تھا۔ سوئے اتفاق سے ان کی عظیم کارکردگی سے اکثر لوگ ناآشنا ہیں۔ حالانکہ ان کی جدوجہد ہر زندہ قوم کے لیے باعث ِفخر ہے۔“ (انٹرویو۔ میجر ریاض حسین ملک، 10جون، 1975ﺀ، کوہاٹ چھاﺅنی، سلیم منصور خالد)۔ بریگیڈئیر (ر) محمد حیات خان: ”مجھے سلام کرنے دیجئے البدر اور الشمس کے ان جیالوں کو جو پاکستانی افواج کے شانہ بشانہ لڑے اور جنہوں نے اپنے لہو سے عزیمت و استقامت کے نئے باب رقم کیے۔ ان میں سے بہت سے شہید ہوگئے۔ بہت سے بار بار زخمی ہوئے۔ ان نوجوانوں نے متحدہ پاکستان کے لیے جو قربانیاں دیں اور جو کارنامے انجام دئیے، یقینا وہ ہماری ملّی تاریخ کا روشن باب ہیں۔“(ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ، لاہور، اگست 1978ء) لیفٹیننٹ جنرل (ر) امیر عبداللہ خان نیازی: ”البدر اور الشمس حد درجہ وفادار، محب وطن، پُرجوش اور سرگرم پاکستانی تھے جنہوں نے دل و جان کے ساتھ پاکستانی افواج کے ساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے ہمیں کبھی دغا نہیں دی۔ کبھی فریب نہیں دیا۔ ہمارا ساتھ چھوڑ کر وہ مکتی باہنی سے نہیں ملے۔ ہمارے دشمن سے کبھی سازباز نہیں کی۔ یہ امر واقع ہے کہ البدر کے نوجوان آخری وقت تک پاکستان کی بقاءکے لیے لڑتے رہے۔“ (قومی ڈائجسٹ، جولائی 1978ءصفحہ 56-57)

جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ کی عوامی لیگ سے کیا دشمنی تھی؟ جماعت اسلامی یا جمعیت کی عوامی لیگ یا کسی اور سیاسی جماعت سے نہ اُس وقت کوئی دشمنی تھی اور نہ آج ہے۔ نظریاتی اختلافات ضرور تھے اور آج بھی ہیں۔ لیکن عوامی لیگ ہی کیوں.... پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی متحدہ قومی موومنٹ اور بعض دیگر جماعتوں سے بھی جماعت اسلامی کے نظریاتی اختلافات ہیں۔ اسے دشمنی کا نام کیسے دیا جاسکتا ہے! علیحدگی کے بعد عوامی لیگ اور جماعت اسلامی کے اراکین اسمبلی نظریاتی اختلافات کے باوجود بنگلہ دیش کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کے عوام کو غربت، افلاس اور جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے دونوں جماعتیں تعاون اور مفاہمت سے کام کریں گی۔ جماعت اسلامی نے سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے سے ایک سبق ضرور سیکھا ہے اور وہ یہ کہ ملک کے کسی بھی حصے میں خواہ وہ بلوچستان ہو، کراچی یا قبائلی علاقے.... اپنے ہی عوام کے خلاف فوجی آپریشن کی ہر حالت میں مخالفت کرنی چاہیے کیونکہ فوجی آپریشن مسائل کو حل نہیں کرتا بلکہ نئے اور گمبھیر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی دشمن ارضِ وطن کی سرحدوں کی طرف میلی نگاہوں سے دیکھے اور حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کرے تو جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور شباب ملی کے نوجوان البدر اور الشمس بناکر فوج کے شانہ بشانہ لڑیں گے کیونکہ یہ ارض وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے ایک سوال میں بھی آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ موجودہ حالات میں تناﺅ کو بڑھا کر بھارت پاکستان پر حملہ کردے تو ہم کیا کریں گے؟ خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا پھر البدر اور الشمس کے نقش قدم پر چلیں گے؟

نوٹ: مضمون کی تیاری میں جناب ڈاکٹر فیاض عالم صاحب کے مضمون َ َ البدر،الشمس اصل حقائق کیا ہیںَ َ سے مدد لی گئی ہے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453576 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More