آخر سونا ہی اتنا اہم اور قیمتی کیوں ہے؟

انسانیت کا سونے کی جانب رجحان بہت عجیب ہے۔ کیمیائی طور پر یہ بہت غیر دلچسپ دھات ہے اور کسی بھی دوسرے عنصر کے ساتھ کم ہی ردِعمل دکھاتی ہے۔

تاہم پیریاڈک ٹیبل میں سونا واحد عنصر ہے جسے ہم انسانوں نے ہمیشہ کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کو ترجیح دی ہے۔

مگر ایسا کیوں ہے کیوں اوسموسیم، کرومیم یا ہیلیم یا شاید سیبورگیم کی اتنی قدر نہیں ہے؟
 

image


میں یہ سوال کرنے والا پہلا شخص نہیں مگر میں یہ سوال دنیا کی اہم ترین جگہ سے کر رہا ہوں اور وہ ہے کولمبین دور سے پہلے کے سونے کے نودارات کی نمائش کے موقعے پر لندن کے برٹش میوزیم میں۔

یہاں میری ملاقات ہوئی انڈریا سٹیلا سے جو یونیورسٹی کالج لندن میں کیمیا کی پروفیسر ہیں جنھوں نے پیریاڈک ٹیبل کی ایک کاپی نکال کر مجھے دکھائی۔

انہوں نے ٹیبل کے دائیں جانب اشارہ کر کے مجھے بتایا کہ اس میں بعض عناصر ایسے ہیں جو آسانی سے مسترد کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ گیس کو کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے اور آخر کیسے لوگ گیس کے تھیلے اٹھائے پھریں گے؟ اوپر سے یہ بے رنگ ہوتی ہیں تو آپ کو کیسے پتا چلے گا کہ یہ کیا ہے؟

اسی طرح مادہ عناصر جیسا کہ برومیم اور مرکری دونوں زہریلی ہیں اس لیے انھیں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا اور آپ آرسنک اور دوسرے کئی عناصر کو بھی اسی طرح ایک جانب کر سکتے ہیں۔

اب اگر ٹیبل کے دوسری جانب دیکھیں تو سٹیلا کے مطابق اس پر موجود کئی عناصر کو بھی مسترد کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر سٹیلا کا کہنا ہے کہ ’الکلائن دھاتیں اور زمین بہت زیادہ ردِعمل دکھاتی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو یاد ہو گا جب سکول کے زمانے میں سوڈیم اور پوٹاشیم کو پانی کی ٹرے میں گراتے ہیں تو یہ بھاپ بن کر اڑ جاتی اور پھٹ سکتی ہے اور ایک دھماکہ خیز کرنسی ایک اچھا خیال نہیں ہے۔‘

اسی طرح کی بات تابکار عناصر کے بارے میں کیونکہ آپ نہیں چاہیں گے کہ آپ کی رقم آپ کو کینسر دے۔

اس وجہ سے بہت سارے عناصر اس دوڑ میں سے باہر نکل جاتے ہیں۔

اس کے بعد ایسے عناصر ہیں جو سونے سے کم ملتے ہیں مگر انھیں ایک دوسرے سے کیمیائی طور پر علیحدہ کرنا بہت مشکل ہے تو آپ کو پتا نہیں چلے گا کہ آپ کی جیب میں کیا ہے۔

اس کے بعد ہمارے پاس باقی بچتے ہیں انچاس عناصر جن میں لوہا، ایلومینیئم، تانبا، سیسہ، اور چاندی ہیں۔

اگر آپ ان سب کا جائزہ لیں تو تقریباً سب میں کچھ نا کچھ نقائص ہیں۔
 

image

ایک جانب ہمارے پاس پائیدار اور سخت عناصر ہیں بائیں جانب جن میں مثال کے طور پر ٹائٹینیئم اور زرکونیئم ہیں۔

یہاں مسئلہ آتا ہے کہ ان کو ان کی بنیادی مادے سے علیحدہ کرنے کے لیے آپ کو ایک ہزار سیلسئس درجہ حرارت تک پہنچانا پڑتا ہے مگر زمانۂ قدیم میں اس سطح تک کا درجہ حرارت حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔

ایلومینیئم کو بھی علیحدہ کرنا مشکل تھا اور اس کے سکے بہت کمزور بنتے ہیں اور اس گروپ کے عناصر مستحکم نہیں ہیں کیونکہ یہ پانی اور ہوا کا سامنا کرنے پر اڑ جاتے ہیں۔

لوہا مثال کے طور پر بہترین ہو سکتا ہے مگر اسے زنگ لگ سکتا ہے۔

پھر اس کے بعد کیا بچتا ہے؟
118 میں سے صرف آٹھ عناصر باقی بچتے ہیں جن میں پلاٹینیئم، پیلیڈئم، رہوڈیم، اریڈیم، اوسمیم اور روتھینیئم ہیں اور اس کے ساتھ سونا اور چاندی۔

انہیں معتبر دھاتیں کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دوسری دھاتوں کے ساتھ بہت کم ردِعمل دکھاتی ہیں اور یہ بہت کم دستیاب ہوتی ہیں جو کرنسی کے لیے ایک اہم خاصیت ہے۔

لوہا بہت زیادہ پایا جاتا ہے تو اگر اس کے زنگ لگنے کو رد کر بھی دیا جائے تو پھر بھی یہ کرنسی کے لیے موزوں نہیں ہے اور آپ کو اس کی زیادتی کی بنا پر بہت بڑے بڑے سکے چاہیے ہوں گے۔
 

image

اب اس کے مقابلے میں ان آٹھ دھاتوں میں سے باقی اتنی کمیاب ہیں کہ آپ کو اس کے برعکس مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آپ کو سکے بہت چھوٹے چھوٹے بنانے پڑیں گے جنہیں آپ آسانی سے گما سکتے ہیں۔

انہیں نکالنا اور حاصل کرنا بھی مشکل ہے جیسا کہ پلاٹینیئم کا پگھلنے کا درجہ حرارت 1،768 سیلسئس ہے۔

بلآخر دو دھاتیں باقی بچتی ہیں اور وہ ہیں سونا اور چاندی۔

دونوں کم پائی جاتی ہیں مگر کمیاب نہیں ہیں اور دونوں کا پگھلنے کا نقطہ کم ہے انہیں آسانی سے زیورات اور سکوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

تاہم چاندی ہوا میں سلفر کے ساتھ ردِعمل دکھاتی ہے اس لیے باقی بچتا ہے سونا۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سونا اس لیے قیمتی ہے کیونکہ یہ کیمیائی طور پر انتہائی غیر دلچسپ ہے۔

سونے کا کمال یہ ہے کہ آپ سونے کا ایک جیگوار بنا سکتے ہیں اور یقین رکھ سکتے ہیں کہ ایک ہزار سال بعد بھی یہ بہترین حالت میں ایک لندن کے میوزیم میں نمائش کے لیے مل سکے گا۔

تو سونے کے اندر وہ تمام تر خصوصیات ہیں جو ایک کرنسی میں پائی جا سکتی ہیں اور یہ بہت کم پایا جاتا ہے بلکہ ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ سونا دنیا میں کس قدر کم پایا جاتا ہے۔

اگر آپ دنیا میں ہر کان کی بالی، ہر سونے کا سکہ، کمپیوٹر کی چپ میں موجود سونے کا چھوٹا سا زرہ، ہر کولمبین دور سے قبل کا مجسمہ اور ہر شادی کی انگوٹھی جمع کریں اور اسے پگھلا لیں تو یہ بیس میٹر کا صرف ایک چوکور کیوب بنے گا۔

مگر سونے کو یہ تمام خصوصیات ہی ممتاز نہیں کرتی ہیں بلکہ اس میں ایک اور خصوصیت ہے جو اسے دوسروں سے نمایاں کرتی ہے اور وہ ہے اس کا سنہری ہونا۔

سونے کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت ہے۔

سونے کو اب کیوں کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ہے؟
یہ موقع 1973 میں آیا جب امریکی صدر رچرڈ نکسن نے امریکی ڈالر کا رشتہ سونے سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

نکسن کے اس فیصلے کے پیچھے کارفرما ایک ہی سادہ وجہ تھی اور وہ یہ کہ امریکہ کے پاس ضروری سونا ختم ہونا شروع ہو گیا جو اسے ڈالر شائع کرنے کے لیے زرِ ضمانت کے طور پر رکھنا تھا۔

اب یہاں ایک اور مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ سونے کا معیشت کے ساتھ تعلق نہیں بلکہ اس کا رشتہ کان کنی سے ہے کہ کتنا سونا نکالا جا سکتا ہے۔

16ویں صدی میں جنوبی افریقہ کی دریافت اور پھر جنوبی افریقہ میں سونے کے وسیع ذخائر کی دریافت سے سونا کی مالیت میں بہت کمی واقع ہوئی اور ہر دوسری چیز مہنگی ہو گئی۔

سونے کی مانگ میں فرق پڑتا رہتا ہے جیسا کہ 2001 میں سونے کے ایک ٹروئے اونس کی کی قیمت 260 امریکی ڈالر سے بڑھ کر ستمبر 2011 میں 1921 ڈالر کے قریب پہنچ گئی جس کےبعد گر کر یہ 1230 کی موجودہ قیمت پر پہنچ گئی۔

تو اگر چرچل کی بات کو بیان کیا جائے تو تمام عناصر میں سے سونا سب سے مشکل ترین کرنسی بنتی ہے۔

بشکریہ: جسٹن رولٹ
YOU MAY ALSO LIKE:

Mankind's attitude to gold is bizarre. Chemically, it is uninteresting - it barely reacts with any other element. Yet, of all the 118 elements in the periodic table, gold is the one we humans have always tended to choose to use as currency. Why?